آنحضرتﷺ

حضرت عائشہؓ کی عمر کا مسئلہ: عہدِ جدید کا عہدِ وسطیٰ سے عجیب سوال

(آصف محمود باسط)

قبل اسلام اور ظہورِ اسلام کے ابتدائی زمانے میں لوگوں کی عمروں کی قطعی طور پر تعیین کرنا ایک نہایت محال معاملہ ہے۔ ایسا کیوں تھا؟ اس کا سبب خود پیغمبرِ اسلامﷺ کی حدیث سے معلوم ہو جاتا ہے: إِنَّا أُمَّةٌ أُمِّيَّةٌ، لاَ نَكْتُبُ وَلاَ نَحْسُبُ الشَّهْرُ هَكَذَا وَهَكَذَا کہ ’’ہم ایک ناخواندہ قوم ہیں۔ہم نہ ہی لکھنا جانتے ہیں اور نہ ہی حساب کتاب سے واقف ہیں۔ مہینہ یا یوں ہوتا ہے یا یوں‘‘ (صحیح بخاری،کتاب الصوم)

راوی بیان کرتے ہیں کہ پہلی مرتبہ ’’یوں‘‘ فرمایا تو دونوں کی ہاتھوں کی تمام انگلیوں کو تین مرتبہ بلند فرمایا۔ دوسری مرتبہ ’’یوں‘‘ فرمایا تو دو مرتبہ دونوں ہاتھوں کی تمام انگلیاں بلند فرمائیں، اور تیسری مرتبہ صرف نو انگلیاں۔ یعنی تیس اور انتیس کی تعداد کو یوں بیان فرمایا۔ (فتح الباری، از ابن حجر عسقلانی، دارالمعرفہ، جلد 4، ص 127)

اسلامی کیلنڈر کا آغاز:

اسلامی کیلنڈر، یعنی سنہ ہجری پر مبنی کیلنڈر کا آغازحضرت عمر ؓ کے زمانہ میں ہوا جب حضرت ابو موسیٰ اشعری نے بصرہ سے خلیفہ وقت حضرت عمرؓ کی خدمت میں لکھا کہ خط و کتابت اور دیگر دستاویزات پر درج تواریخ مختلف طرز پر درج ہوتی ہیں اور یوں بہت سے معاملات میں الجھن پیدا ہوتی ہے۔ یوں حضرت عمر ؓ نے تقریباً سنہ 18 ہجری میں آنحضورﷺ کی ہجرت کو بنیاد مان کر اسلامی کیلنڈر وضع فرمایا۔

قبل اسلام اور آغازِ اسلام میں تواریخ کا حساب:

اسلام سے پہلے عربوں میں جو کیلنڈر رائج تھے وہ مصر، شام، ایران اور حبشہ کی طرز کے کیلنڈر تھے جو عام استعمال کے لیے نہ تھے۔ ان کا استعمال قبائل کے عمائدین کے لیے ہوا کرتا جو مذہبی تہواروں کو خاص موسموں میں منعقد کرنے کے لیے مہینوں کو آگے پیچھے کر لیا کرتے۔ مثلاً حج کو خزاں کے موسم میں رکھنے کی کوشش کی جاتی کہ یہ تجارتی قافلوں کے حجاز سے گزرنے کا زمانہ ہوتا اور یوں حج سے اقتصادی نفع بھی حاصل ہوجاتا۔(تفصیل: الآثار الباقیہ عن القرون الخالیہ از ابو ریحان البیرونی)

ایسے میں جب کہ عام استعمال کے لیے کوئی کیلنڈر تھا ہی نہیں، اور جو خواص کے استعمال کے لیے تھا، وہ بھی کوئی مستقل کیلنڈر نہیں تھا اور اس کا استعمال بھی نظریہ ضرورت پر مبنی تھا، عوام کی تاریخِ پیدائش یا سنہِ پیدائش کا اندراج بعید از امکان تھا۔

یوں تاریخوں کا اندراج ناممکن ہونے پر کسی بھی واقعے، مثلاً ولادت، شادی، وفات وغیرہ کا زمانہ یادرکھا جاتا اور اس یادداشت کی بنیاد کسی اہم تاریخی واقعے سے منسلک کردی جاتی، مثلاً عام الفیل سے سال پہلے یا دو سال بعد، کعبہ کی تعمیر نو سے کچھ اِدھر یا کچھ اُدھر وغیرہ۔ حضرت پیغمبرِ اسلامﷺ کا دعویٰ ایمان لانے والوں کے لیے ایک سنگ میل قرار پایا اور یوں مومنین کی یادداشتوں میں بہت سے واقعات اِس اہم واقعے کے زمانے سے منسلک ہوگئے۔مثلاً حضرت عائشہ ؓ کےسنہِ پیدائش کی تعیین کی کوششیں اسی اہم واقعے یعنی سنہِ نبوی کے گرد کی جاتی ہیں۔

حضرت عائشہ کی عمر کی اہمیت:

جیسا کہ بیان ہوا، عرب جیسے معاشرے میں تواریخ کو یادرکھنا نہ صرف بعید از امکان تھا بلکہ ایک غیر اہم معاملہ تھا۔ لوگ پیدا ہوتے، شادی کرتے، اولاد پیدا ہوتی، ان کی پرورش کرتے اور اس جہان سے رخصت ہوجاتے۔ اس عرصۂ حیات میں جو کچھ ہوتا، وہ اس کی ذات یا اس کے قبیلے یا اس کے پسماندگان کے لیے اہم ہوتا جنہیں وراثت کے قضیے نمٹانے ہوتے، ورنہ تاریخیں خود اُس کے لیے یا اُس کے گردوپیش کے لوگوں کے لیے اہم نہ ہوتیں۔

آنحضورﷺ کے صحابہ، صحابیات، ازواج اور اولاد کی پیدائش اور وفات تب اہمیت اختیار کر گئی جب آنحضور ﷺ کے وصال کے قریب 2 صدیوں بعد تدوینِ حدیث کا کام شروع ہوا۔اسماء الرجال کی بنا پر حدیث کی صحت کو پرکھنے کا عمل یہ دیکھنے کا تقاضاکرتا تھا کہ اولین راوی کی عمر اس وقت کیا تھی، کیا وہ بیان کردہ واقعے کے موقع پر موجود بھی ہوسکتا تھا، اور وہ مروی واقعے کے وقت سنِ شعور کو پہنچ بھی چکا تھا یا نہیں۔

حضرت عائشہؓ سے حضرت ابوہریرہؓ کے بعد سب سے زیادہ احادیث مروی ہیں۔ روات کی عمر کی تعیین کے مرحلے پر حضرت عائشہ ؓ کی عمر کی بھی تعیین کرنے کی کوشش کی گئی۔ اس کے لیے صحیح بخاری میں درج ان کی روایت کو بنیاد بنایا گیا، جس میں آپؓ نے فرمایا کہ: أَنَّ النَّبِيَّ صلى الله عليه وسلم تَزَوَّجَهَا وَهْىَ بِنْتُ سِتِّ سِنِينَ، وَبَنَى بِهَا وَهْىَ بِنْتُ تِسْعِ یعنی آنحضورﷺ نے ان سے نکاح کیا تو ان کی عمر چھ سال تھی، اور شادی کے وقت نو سال۔ (بخاری، کتاب النکاح، حدیث 5134)

حضرت عائشہ صدیقہؓ کے اس قول کا تہِ دل سے احترام کرتے ہوئے یہ امر بھی یاد رکھنا ضروری ہے کہ آپؓ اس دور سے تعلق رکھتی تھیں جہاں عمریں اندازوں سے بتائی جاتی تھی۔ جب عمرکے بیان میں کوئی یہ توقع نہیں رکھتا تھا کہ یہ معین عمر ہے بلکہ سب کو معلوم ہوتا تھا کہ یہ ایک اندازہ ہے۔ اور اس اندازے کو پوچھنے یا بیان کرنے کی ضرورت کی کوئی وجہ ہوتی تھی، مثلاً شادی، وراثت، گواہی وغیرہ۔

یاد رہے کہ حضرت عائشہؓ کی عمر کی بحث ابتداً اسماء الرجال اور صحتِ روایت کی غرض سے کی گئی ہوگی، یا پھر سوانحی نقطہ نگاہ سے۔ ورنہ آنحضورﷺ کے بدترین دشمنوں اور مخالفوں کی طرف سے کہیں آپؐ کی ایک نابالغ بچی سے شادی کرنے کا اعتراض نہیں ملتا۔

اب چونکہ ایک اندازہ بیان ہوگیا ہے، لہذا ثقہ مورخینِ اسلام کے بعض اندازوں کو بھی دیکھ لینا ضروری ہے۔جماعتِ احمدیہ میں حضرت عائشہؓ کی عمر پر تفصیلی تحقیق حضرت مرزا بشیر احمد ؓ صاحب کی ہے جو سیرت خاتم النبیینﷺ میں درج ہے۔ اس تحقیق کو بیان کرنے سے پہلے حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ نے ایک اہم بات بیان فرمائی، جسے بنیاد بنا کر ہم زیرِ نظر تحقیق کا آغاز کرتے ہیں:

’’دراصل اس معاملہ میں متقدمین کو تو ساری غلطی اس وجہ سے لگی ہے کہ انہوں نے حضرت عائشہؓ کے نو سال والے اندازے کو جو صحیح احادیث میں بیان ہوا ہے، بالکل یقینی اور قطعی سمجھ کر کسی اور بات کی طرف توجہ نہیں کی۔ حالانکہ ہر عقلمند آدمی سمجھ سکتا ہے کہ روایت کا صحیح ہونا اور بات ہے اور اندازے کا صحیح ہونا بالکل اور۔ یعنی باوجوداس کے کہ یہ روایتیں جن میں حضرت عائشہ کا یہ اندازہ بیان ہوا ہے کہ رخصتانہ کے وقت میری عمر نو سال کی تھی، اصل روایت کے لحاظ سے بالکل صحیح ہوں، حضرت عائشہ کا یہ اندازہ خود اپنی ذات میں غلط ہوسکتا ہے۔‘‘ (سیرت خاتم النبیین، از حضرت مرزا بشیر احمدؓ، ص 424)

حضرت مرزا بشیر احمد ؓ صاحب نے نو سال کی عمر میں رخصتی سے تو اتفاق نہیں کیا، تاہم طبقات ابن سعد کے حوالہ سے حضرت عائشہ ؓ کا سنہِ پیدائش 4 نبوی مان کر اپنی تحقیق کی بنیاد رکھی ہے۔ تاہم شادی کا سنہ 1 ہجری تسلیم نہیں فرمایا اگرچہ وہ بھی طبقات ابن سعد ہی میں بیان ہوا ہے۔ وہاں سلسلہ رواۃ میں واقدی کی موجودگی سے اس روایت کو کمزور قراردے کر علامہ نووی اور دیگر بعض محققین کے اندازے یعنی2ہجری کو تسلیم فرمایا ہے۔ اوریوں رخصتی کے وقت آپ ؓ کی عمرکا اندازہ بارہ سال یا قریب بارہ سال بیان فرمایا ہے۔

حضرت مرزا بشیر احمدؓ صاحب اس تحقیق اور اس پر مبنی اندازے کو بیان کرکے فرماتے ہیں:

’’بعض جدید محققین نے مختلف قسم کے استدلالات سے چودہ سال بلکہ سولہ سال تک عمر ثابت کرنے کی کوشش کی ہے۔ ‘‘ (سیرت خاتم النبیین، ص 424)

لہذا حضرت مرزا بشیر احمد ؓ صاحب کی اس رائے کے احترام میں ہم اپنی گزارشات کو جدید محققین کی آرا سے محفوظ رکھتے ہیں، تاہم دیگرابتدائی ثقہ مورخین و محققینِ اسلام کی آرا پر ایک نظر ڈالتے ہیں۔

سنہِ پیدائش:

ابنِ حجر عسقلانی نے اپنی کتاب ’’الاصابہ فی تمییز الصحابہ‘‘ میں واقدی کے حوالے سے روایت درج کی ہے جو حضرت عباسؓ سے منسوب ہے کہ: قال العبّاس: ولدت فاطمة والكعبة تبنى، والنّبيّ صلّى اللَّه عليه وآله وسلّم ابن خمس وثلاثين سنة، وبهذا جزم المدائنيّ. یعنی حضرت فاطمہؓ کعبہ کی تعمیرِ نو کے دنوں میں پیدا ہوئیں جب آنحضورﷺ کی عمر 35 برس تھی۔

اسی روایت میں آگے درج ہے کہ  وهي أسنّ من عائشة بنحو خمس سنين، یعنی حضرت فاطمہؓ کی پیدائش حضرت عائشہؓ سے پانچ برس پہلے ہوئی۔

یوں اس روایت کے حوالے سے حضرت عائشہؓ کی پیدائش تب ہوئی جب آنحضورﷺ 40 برس کے تھے، یعنی عین سنِ نبوت میں۔ اب اگر رخصتی کا وقت 2 ہجری کو مانا جائے، تو اس اندازے کے مطابق حضرت عائشہ کی عمر تب 15 برس بنتی ہے۔

تاہم مزید روایات کو دیکھ لینا بھی ضروری ہے۔

تاریخ طبری میں حضرت ابوبکرؓ کی ازواج کے ذکر میں لکھا ہے کہ آپؓ نے زمانہ جاہلیت میں دو شادیاں کیں، ایک قتیلہ نامی عورت سے جن سے حضرت عبداللہؓ اور حضرت اسماء ؓ پیدا ہوئے۔دوسری اُمِّ رومان ؓ سے جن سے حضرت عائشہؓ اور حضرت عبدالرحمٰنؓ کی ولادت ہوئی۔ پھر لکھتے ہیں: فكل هؤلاء الأربعة من أولاده، ولدوا من زوجتيه اللتين سميناهما في الجاهلية (تاریخ طبری، جلد 3) یعنی یہ چاروں بچے ان دوبیویوں سے ہوئے جو زمانہ جاہلیت میں آپؓ کے عقد میں آئی تھیں۔ یوں حضرت عائشہ کی پیدائش سنِ نبوت سے کچھ پہلے کی بھی ہوسکتی ہے۔اور اس کے مطابق رخصتی کے وقت حضرت عائشہ کی عمر 16 یا 17 برس بھی ہوسکتی ہے۔

 مگر یہاں بھی چونکہ روایت کے سلسلہ میں واقدی کا حوالہ آجاتا ہے، لہذا مزید روایات دیکھ لینا بھی ضروری ہے۔ اگرچہ واقدی کا نام سنتے ہی روایت سے کنارہ کرجانا بھی درست نہیں۔ حضرت مسیح موعودؑ نے ضرورۃ الامام میں فرمایا ہے کہ حدیث کے علماء کسوف و خسوف والی روایات کے آگے جب ہار جاتے ہیں، تو راوی کے ضعیف ہونے کا عذرکرنے لگتے ہیں۔ حضورؑ فرماتے ہیں کہ جھوٹا ہمیشہ ہی جھوٹ نہیں بولا کرتا، کبھی سچ بھی بولتا ہے۔ اور واقدی کے متعلق معلوم ہے کہ جہاں اس پر قصہ کہانے گھڑنے کا الزام درست ہے، وہاں اس کی تمام روایات کو ابن ہشام جیسے ثقہ محققین نے ردی قرار نہیں دے دیا۔

علامہ نووی نے ’’تہذیب الاسماء واللغات‘‘ میں حضرت عائشہ کے ایمان لانے کا واقع ابنِ اسحاق سے منسوب کر کے یوں بیان کیا ہے: عن ابن إسحاق، أن عائشة أسلمت صغيرة بعد ثمانية عشر إنسانا ممن أسلم یعنی آپؓ چھوٹی عمر میں اسلام لائیں جبکہ اٹھارہ لوگ آپ سے قبل ایمان لاچکے تھے۔

ابنِ ہشام نے سیرت میں باب باندھا ہے: ذِكْرُ مَنْ أَسْلَمَ مِنْ الصَّحَابَةِ بِدَعْوَةِ أَبِي بَكْرٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ یعنی وہ لوگ جو حضرت ابوبکر ؓ کی دعوت سے اسلام لائے۔ ان ناموں میں حضرت ابو عبیدہ، ارقم، عبیدہ بن الحارثہ، عبداللہ بن الجراح اور حضرت اسماء کے ساتھ حضرت عائشہ کا نام بھی درج ہے: وَعَائِشَةُ بِنْتُ أَبِي بَكْرٍ، وَهِيَ يَوْمئِذٍ صَغِيرَةٌ۔ يَوْمئِذٍ صَغِيرَةٌ سے حضرت عائشہ کی کم سِنی کو بھی بیان کردیا۔ اب اگر 6 سال کی عمر میں نکاح اور 9 سال کی عمر میں رخصتی والی روایت کو درست تسلیم کرلیا جائے تو حضرت عائشہ تو اس زمانہ میں پیدا ہی نہ ہوئی تھیں جس میں ان کا ایمان لانے کا واقعہ سیرت ابنِ ہشام میں درج ہے۔

علامہ نووی نے تہذیب الاسماء و اللغات میں حضرت عائشہ کی ہمشیرہ حضرت اسماء کے ذکر میں لکھا ہے کہ حضرت اسماء ہجرتِ نبوی سے 27 سال پہلے پیدا ہوئیں، اور وہ حضرت عائشہ سے 10 برس بڑی تھیں۔

یوں حضرت عائشہ کی عمر ہجرت ِ نبوی کے وقت 17 برس کے قریب بنتی ہے، اور شادی کے وقت قریب 19 برس۔

حضرت اسماء کی عمر کے حوالے سے حضرت عائشہؓ کی عمر کے اس اندازے کی تصدیق علامہ ابن کثیر نے بھی کی ہے۔ البدایہ والنہایہ میں حضرت اسماء کے وصال کے وقت ان کی عمر بیان کرتے وقت ابن کثیر کا بیان ہے کہ : وهي أَكْبَرُ مِنْ أُخْتِهَا عائشة بعشر سنين یعنی وہ حضرت عائشہ سے عمر میں دس برس بڑی تھیں۔ (البدایہ و النہایہ، جلد 8، زیر سنہ 73 ہجری، دارالکتب العلمیہ، لبنان، 1985)

اس کے مطابق رخصتی کے وقت حضرت عائشہ کی عمر قریب 19 سال بنتی ہے۔

دیگر واقعات کی مدد سے حضرت عائشہؓ کی عمر کا اندازہ:

غزوۂ احد سنہ 3 ہجری میں لڑی گئی۔ میدانِ جنگ کا احوال بیان کرتے ہوئے حضرت انسؓ سے مروی ہے کہ: وَلَقَدْ رَأَيْتُ عَائِشَةَ بِنْتَ أَبِي بَكْرٍ، وَأُمَّ سُلَيْمٍ وَإِنَّهُمَا لَمُشَمِّرَتَانِ، أَرَى خَدَمَ سُوقِهِمَا تَنْقُزَانِ القِرَبَ، وَقَالَ غَيْرُهُ: تَنْقُلاَنِ القِرَبَ عَلَى مُتُونِهِمَا، ثُمَّ تُفْرِغَانِهِ فِي أَفْوَاهِ القَوْمِ، ثُمَّ تَرْجِعَانِ فَتَمْلَآَنِهَا، ثُمَّ تَجِيئَانِ فَتُفْرِغَانِهَا فِي أَفْوَاهِ القَوْمِ (صحیح بخاری۔ کتاب الجہاد و السیر۔باب غزوة النساءو قتالھن مع الرجال) یعنی میں نے حضرت عائشہ بنت ابو بکر ؓ اور حضرت اُم سلیم ؓ کو دیکھا، ان دونوں نے اپنے کپڑے سمیٹے ہوئے تھے، میں ان کی پنڈلیوں کی پازیب نظر آتی تھی، وہ اپنی کمر پر مشکیزے لے کر آتیں، زخمیوں کے منہ میں ان کو خالی کرتیں تھیں، پھر واپس ہو کر انہیں بھرتی تھیں، پھر آتیں اور پھر پانی پلاتیں۔

رخصتی سنہ 2 ہجری میں ہوئی اور تب آپ کی عمر 9 سال مانی جائے تو اُحد کے وقت آپ کی عمر 10 سال ہوگی۔ اگر تب آپ کی عمر 12 سال مانی جائے، تو آپؓ کی عمر 13 سال ہوگی۔ دونوں اندازوں کو بھی لے لیا جائے تو آنحضورﷺ کبھی کم عمر بچوں کو میدانِ جنگ میں جانے سے منع فرماتے۔ کجا یہ کہ ایک کم سن بچی کو میدانِ جنگ میں اتارا ہو۔اور نہ ہی یہ ہمت اور دلیری کا کام کسی کم سن بچی کا معلوم ہوتا ہے۔ واللہ اعلم۔

بخاری میں حضرت عائشہ سے روایت ہے کہ انہیں سورۃ القمر کے نزول کا زمانہ یاد ہے، اور انہوں نے آیت بَلِ ٱلسَّاعَةُ مَوْعِدُهُمْ وَٱلسَّاعَةُ أَدْهَىٰ وَأَمَرُّ کے حوالے سے یہ ارشاد بیان فرمایا۔ اس روایت کے الفاظ یوں ہیں: لَقَدْ أُنْزِلَ عَلَى مُحَمَّدٍ صلى الله عليه وسلم بِمَكَّةَ، وَإِنِّي لَجَارِيَةٌ أَلْعَبُ ‏بَلِ السَّاعَةُ مَوْعِدُهُمْ وَالسَّاعَةُ أَدْهَى وَأَمَرُّ یعنی جب یہ سورۃ نازل ہوئی تو میں ایک ’’کھیلنےکی عمر‘‘ کی بچی تھی۔ (صحیح بخاری، کتاب التفسیر، 4876)

مفسرین کا بالعموم اتفاق ہے کہ واقعۂ شق القمر ہجرت سے 5 سال قبل پیش آیا تھا اور اسی نسبت سے اس سورت کے زمانۂ نزول کو بھی اسی وقت کے لگ بھگ خیال کیا جاتا ہے۔ تاہم بعض مفسرین کا خیال ہے کہ یہ واقعہ، اور اس سورت کا نزول ہجرت سے 7 سال قبل کا ہے۔علامہ ابن حجر عسقلانی ’’فتح الباری ‘‘ میں اس واقعہ کا زمانہ سنہ 8 ہجری بتاتے ہیں۔ یعنی ہجرت سے 5 سال قبل۔ علامہ الالوسی بھی ’’روح المعانی‘‘ میں اسی خیال کا اظہار کرتے ہیں۔

یوں سنہ 8 نبوی میں حضرت عائشہ کا عمر کے اس حصہ میں ہونا جہاں یہ بات یاد رہ جائے ظاہر کرتا ہے کہ اس وقت آپ سنِ شعور میں تھیں اور آپ خود کو تب ایک ’’کھیلنے کی عمر‘‘ کی بچی کے طور پر بیان فرماتی ہیں۔ ایسی باریک بات کو یاد رکھنا، جو بالعموم بچپن کی دلچسپیوں سے ہٹ کر ہو، سنہ 8 نبوی میں آپؓ کو 11 یا 12 سال کی بچی ظاہر کرتا ہے۔اس عمر میں بچپن کے کھیل بھی جاری رہتے ہیں اور اہم باتیں بھی یادداشت میں محفوظ ہوجاتی ہیں۔

اس حساب سے دیکھا جائے تو ہجرت سے پانچ سال قبل آپ کی عمر 12/11 برس بنتی ہے۔ اور یوں نکاح کے وقت، جو سنہ 10 نبوی میں ہوا، آپ کی عمر 14/13 برس کے قریب بنتی ہے(اور سنہ 11 یا 12ہجری میں نکاح مانا جائے تو قریب 16 برس)، اور رخصتی کے وقت، جو سنہ 2 ہجری میں ہوئی، آپ کی عمر 19/18 برس بنتی ہے۔

یہاں اس بات کی وضاحت ضروری ہے کہ یہ حساب ان مستند روایات کی رو سے لگایا جارہا ہے جو ثقہ مورخین اور محققین اسلام نے محفوظ کیں، نہ کہ دورِ جدید کی شادی سے متعلق وضع کردہ شرائط کو ثابت کرنے کے لیے۔ اس پوری بحث میں کہیں بھی جدید محققین کی تحقیق سے اعراض کیا گیا ہے۔

عربوں میں اعداد کا بیان:

جہاں پیغمبر اسلامﷺ کو تیس اور انتیس کے اعداد کو انگلیوں سے بیان کرنا پڑا، اس ماحول میں اعداد سے متعلق عمومی فہم کا اندازہ لگانا مشکل نہیں۔

یہاں تک کہ سورۃ المدثر کی آیت 31 علیھا تسعۃ عشر یعنی دوزخ پر 19 پہرہ دار فرشتے تعینات ہوں گے جب کفار نے سنی تو خوب تمسخر کیا۔ کہ 20 کیوں نہ کہہ دیا؟ یعنی ایک ایسے عدد پر اصرار کیا جو اس زمانے کی ذہنی استعداد کے لیے زیادہ قابلِ فہم تھا۔

اس آیت کی تشریح میں امام رازیؒ تفسیر کبیر میں فرماتے ہیں کہ حضرت انسؓ نے اسے یوں پڑھا کہ’’ 10 دفعہ 9 ‘‘، یعنی 90۔ (تفسیر کبیر، امام فخرالدین رازیؒ، زیر تفسیر سورۃ المدثر، آیت 30)

اس سے بھی اس دور کے عرب میں اعداد اور حساب کی فہم کی سطح عیاں ہوتی ہے۔

عربی زبان میں اعداد کا بیان اس طرز پر ہے کہ اکائی پہلے اور دہائی بعد میں بیان ہوتی ہے۔ مثلاً انگریزی میں 29 کو twenty-nine کہا جائے گامگر عربی میں ’’تسعۃ و عشرون‘‘۔

اب حضرت عائشہ سے منسوب روایت کی طرف آئیں جہاں نکاح کی عمر 6 اور رخصتی کی عمر 9 بیان ہوئی ہے، تو چونکہ بیان شادی کی عمر کا تھا تو اس خیال سے کہ دہائی والا حصہ تو عام معلوم ہے، حضرت عائشہ نے ستۃ اور تسعۃ کہنے پر اکتفا کیا ہو۔

بالکل اسی طرح جس طرح زمانۂ ظہورِ مسیحِ موعود کے لیے حدیث کے الفاظ الْآيَاتُ بَعْدَ الْمِائَتَيْنِکی تفسیر کرتے ہوئے حضرت مسیح موعودؑ فرماتے ہیں: ’’یہ عاجز ایسے وقت میں آیا ہے جس وقت میں مسیح موعود آنا چاہیے تھا کیونکہ حدیث الْآيَاتُ بَعْدَ الْمِائَتَيْنِ جس کے یہ معنے ہیں کہ آیات کبریٰ تیرھویں صدی میں ظہور پذیر ہوں گی اسی پر قطعی اور یقینی دلالت کرتی ہیں کہ مسیح موعود کا تیرھویں صدی میں یا پیدائش واقع ہو۔ بات یہ ہے کہ آیاتِ صغریٰ تو آنحضرت ﷺ کے وقتِ مبارک سے ہی ظہور ہونی شروع ہوگئی تھیں۔ پس بلاشبہ الآیات سے آیاتِ کبریٰ مراد ہیں جو کسی طرح سے دو سو برس کے اند ظاہر نہیں ہو سکتی تھیں۔ لہذا علما کا اسی پر اتفاق ہو گیا ہے کہ بعد المأ تین سے مراد تیرھویں صدی ہے۔۔۔‘‘

اسی طرح فرمایا: ’’سلفِ صالح میں سے صاحبِ مکاشفات مسیح کے آنے کا وقت چودہویں صدی کا شروع سال بتلاگئے ہیں چنانچہ شاہ ولی اللہ صاحب محدث دہلوی قدس سرہُ کی بھی یہی رائے ہے اور مولوی صدیق حسن خان صاحب مرحوم نے بھی اپنے ایک رسالہ میں ایسا ہی لکھا ہے اور اکثر محڈثین اس حدیث کے معنے میں کہ جو الْآيَاتُ بَعْدَ الْمِائَتَيْنِ ہے اس طرف گئے ہیں۔‘‘ (ازالہ اوہام، 188-189)

ملا علی قاری نے المأتین کے لفظ میں ’’ال‘‘ پرعہدی ہونے کا گمان ظاہر فرمایا اور اس سے مراد ہزار سال کےبعد دوسوسال لیےیعنی بارہ سو سال : آيَاتُ السَّاعَةِ وَعَلَامَاتُ الْقِيَامَةِ، تَظْهَرُ بِاعْتِبَارِ ابْتِدَائِهَا ظُهُورًا كَامِلًا (’’بَعْدَ الْمِائَتَيْنِ‘‘) أَيْ: مِنَ الْهِجْرَةِ، أَوْ مِنْ دَوْلَةِ الْإِسْلَامِ، أَوْ مِنْ وَفَاتِهِ – عَلَيْهِ الصَّلَوٰةُ وَالسَّلَامُ – وَيُحْتَمَلُ أَنْ يَكُوْنَ اللَّامُ فِي الْمِائَتَيْنِ لِلْعَهْدِ، أَيْ: بَعْدَ الْمِائَتَيْنِ بَعْدَ الْأَلْفِ، وَهُوَ وَقْتُ ظُهُورِ الْمَهْدِيِّ، وَخُرُوجِ الدَّجَّالِ، وَنُزُولِ عِيسَى- عَلَيْهِ الصَّلَوٰةُ وَالسَّلَامُ-وَتَتَابُعِ الْآيَاتِ، مِنْ طُلُوْعِ الشَّمْسِ مِنْ مَغْرِبِهَا، وَخُرُوجِ دَابَّةِ الْأَرْضِ، وَظُهُوْرِ يَأْجُوجَ وَمَأْجُوجَ وَأَمْثَالِهَا۔(مرقاة المفاتيح شرح مشكاة المصابيح جزء8صفحہ3446)

پس جہاں سینکڑوں اور ہزاروں سال کی بات میں کچھ حصے عام معلوم اور معقول بات کے طور پر بیان کرنے ضروری خیال نہیں ہوتے، وہاں دہائی کا الگ ذکر نہ کرنا اور صرف اکائیوں کو بیان کردینا کافی خیال کیا جاسکتا ہے۔

سُنی شیعہ تصادم کے تناظر میں:

حضرت عائشہؓ کا اوّلین ذکر طبقات ابن سعد میں ملتا ہے۔ علامہ ابن سعد نے یہ سوانحی مجموعہ ہجرت کے 150 سال بعد مرتب کیا۔ یاد رہے کہ تب تک سُنی شیعہ تفرقہ وقوع پذیر ہوچکا تھا۔ جہاں ایک طرف حضرت علیؓ، حضرت فاطمہؓ اور آپ کی اولاد کو پیغمبرِ اسلامﷺ کا مقرب اور محبوب ترین ثابت کیا جاتا تھا، وہاں دوسری طرف حضرت ابوبکرؓ کے جانشین و خلیفۂ برحق ثابت کرنے کی کوششیں کی جاتی تھیں۔

طبقات ابن سعد میں حضرت عائشہؓ کے شمائل انہی کی زبانی درج کیے گئے ہیں۔ان شمائل کو، جو دو الگ مقامات پر درج ہوئے، ذیل میں یکجا کیا جاتا ہے:

  • آنحضورﷺ کی ازواج میں سے میں واحد تھی جو باکرہ ہونے کی حالت میں آپﷺ کے نکاح میں آئی۔
  • میرے سوا آنحضورﷺ نے کسی ایسی عورت سے شادی نہ کی جس کے دونوں والدین مہاجر تھے
  • اللہ تعالیٰ نے میری معصومیت خود ظاہر فرمائی
  • جبرئیلؑ نے میری شبیہہ آنحضورﷺ کو خود دکھائی اور مجھ سے شادی کی ترغیب دی
  • میں اور آنحضورﷺ ایک ہی برتن سے غسل کیا کرتے۔ایسا کسی اور بیوی کے ساتھ نہ کرتے۔
  • آنحضورﷺ میرے بستر میں ہی عبادت فرمالیا کرتے۔ ایسا بھی کسی اور بیوی کے ساتھ نہ کرتے۔
  • میرے بستر میں آنحضورﷺ پر وحیٔ الہی نازل ہوئی، جو کسی اور کے بستر میں نہ ہوئی۔
  • آنحضورﷺ کا وصال میری بانہوں میں ہوا۔
  • آپﷺ کا وصال میری باری کے روز ہوا۔
  • آپﷺ کی تدفین میرے خیمے میں ہوئی۔
  • آنحضورﷺ نے مجھ سے نکاح کیا تو میری عمر سات برس تھی۔
  • آنحضورﷺ نے مجھ سے ازدواجی تعلقات نو برس کی عمر میں قائم فرمائے
  • میرے سوا آپﷺ کی کسی بیوی نے حضرت جبرئیلؑ کا دیدار حاصل نہ کیا
  • میں آپﷺ کو سب ازواج سے بڑھ کر محبوب تھی
  • میرے والد آپ ﷺ کے محبوب ترین صحابی تھے
  • آپﷺ میرے خیمے میں بیمار ہوئے اور میں نے آپﷺ کی تیمارداری کا شرف پایا
  • میرے اور فرشتوں کے سوا کوئی آپﷺ کے وصال کے وقت موجود نہ تھا

حضرت عائشہؓ کے ان اوصاف میں، جو آپ کے اپنے ہی بیان کے طور پر محفوظ کیے گئے ہیں، سے مندرجہ ذیل امور سامنے آتے ہیں:

  1.  آپؓ کا عالی نسب ہونا
  2.  حالتِ عبادت و وحی میں آپؓ کا آنحضورﷺ سے قرب
  3.  آخری ایام اور وقتِ وصال آنحضورﷺ کا قرب
  4.  آنحضورﷺ سے شادی میں الہٰی تصرف
  5.  شادی کے وقت غیر معمولی عمر

متفق علیہ حدیث میں حضرت عمرو بن العاص ؓ سے روایت ہے کہ آنحضورﷺ سے دریافت کیا گیا کہ آپ کو سب سے محبوب کون ہے؟ تو فرمایا ’’عائشہ‘‘۔ پوچھا گیا کہ مَردوں میں سے؟ تو فرمایا ’’ ابوبکر‘‘۔اور اس کے بعد حضرت عمرؓ کا نام لیا اور پھر ’’کچھ اور اصحاب کے نام لیے‘‘۔  (صحیح بخاری، کتاب فضائل الصحابہ، 3462؛ صحیح مسلم، کتاب فضائل الصحابہ، 2384)

سنن ابی داؤد میں حضرت عائشہؓ کی روایت ہے کہ انہوں نے آنحضورﷺ کے اخلاق اور کردار کی جو جھلک حضرت فاطمہ ؓ میں دیکھی، وہ کسی میں نہ دیکھی۔ اور دونوں میں بے مثال محبت کا ذکر بھی فرمایا کہ وہ دونوں ایک دوسرے سے کس محبت اور احترام سے ملا کرتے۔ (سنن ابی داؤد،ابواب النوم۔ باب ماجاء فی القیام 5217)

احادیث میں حضرت علیؓ سے آنحضورﷺ کی محبت بھی واضح اور عیاں نظر آتی ہے۔ مثلاً مَنْ كُنْتُ مَوْلاَهُ فَعَلِيٌّ مَوْلاَهُ یعنی جو مجھے اپنا مولا خیال کرتا ہے، علی بھی اس کا مولا ہے۔(جامع الترمذی، کتاب المناقب، 3713)

سنی ائمہ نے حضرت ابوبکرؓ اور حضرت عائشہؓ کی فضیلت پر زور دیا جب کہ شیعہ ائمہ و علما نے حضرت علیؓ اور حضرت فاطمہؓ کی فضیلت والی احادیث کو اجاگر کیا۔

ابن خلکان اپنی کتاب وفیات العیان میں علامہ ابن جوزی کا واقعہ بیان کرتے ہوئی لکھتے ہیں کہ ایک مرتبہ ان کے پاس سنی اورشیعہ حضرات یہ قضیہ لے کر حاضر ہوئے کہ حضرت ابو بکرؓ اور حضرت علیؓ میں سے زیادہ افضل کون ہے؟

علامہ جوزی نے جواب دیا ’’ افضل صحابۃ الرسولؐ الذی بنتہ فی بیتہ‘‘ یعنی وہی جن کی بیٹی ان کے گھر بیاہی گئی۔ (کتاب وفتیان الاعیان، جلد3، ص 141)

علامہ ابن جوزی کی ذہانت و ذکاوت کا یہ واقعہ تو اگرچہ بارہویں یا تیرھویں صدی عیسوی کا ہے، مگر اس کشیدگی کا پتہ دیتا ہے جو منصبِ صحابہ کے حوالہ سے سنی اور شیعہ فریقین میں پایا جاتا تھا۔

تاریخ از علامہ طبری اور البدایہ والنہایہ از ابن کثیر میں درج ہے کہ عباسی خلیفہ متوکل (تیسری صدی ہجری) کے زمانہ میں ایک شخص کو حضرت ابوبکرؓ اور حضرت عمرؓ اور ان کی بیٹیوں حضرت عائشہؓ اور حضرت حفصہؓ کے خلاف نازیبا زبان استعمال کرنے پر سزائے موت دی گئی۔

اگرچہ حضرت فاطمہؓ اور حضرت عائشہؓ دونوں کا اپنی ذاتی حیثیت میں آنحضورﷺ سے قریبی تعلق مسلّم ہے۔ تاہم آنحضورﷺ کے جن دو صحابہ سے ان دونوں خواتینِ مبارکہ کو نسبت ہے، وہ دونوں سنی اور شیعہ اختلاف کی بنیاد کا درجہ رکھتے ہیں۔

یوں حضرت عائشہؓ اور حضرت فاطمہؓ بھی اس اختلاف کی زد میں آئیں۔ سنی اسلام میں تو حضرت عائشہؓ اور حضرت فاطمہؓ دونوں ہی قابلِ احترام خواتین ٹھہریں، مگر حریف فرقہ کے یہاں حضرت ابوبکرؓ کو غاصبِ خلافت ثابت کرنے میں حضرت عائشہؓ کی ذات بھی حملوں کا نشانہ بنی۔ چونکہ سنی علما حضرت فاطمہ ؓ اور حضرت علیؓ کے لیے تو عقیدت کے جذبات کو قائم رکھتے رہے، تاہم حضرت ابوبکرؓ کی خلافت کو برحق ثابت کرنے میں حضرت عائشہؓ کی غیر معمولی فضیلت کے بیان پر بھی خاص توجہ مرکوز رہی۔

ان دونوں صحابہؓ کے مقام ومنصب کے بیان کے پس منظر میں ان دونوں خواتینِ مبارکہ پر جہاں حملے فرقہ واریت سے جنم لیتے رہے،وہاں ان کے مناقب اور ان کی فضیلتوں کے بیان میں بھی اس کشیدگی نے کردار ادا کیا۔

مذہبی اختلافات کے طول پکڑ جانے میں معقولیت ساتھ چھوڑ جایا کرتی ہے اور بات انا کے گھنے جنگلوں میں کھوجاتی ہے، اس قضیے کے معاملے میں بھی ایسی ہی صورت سامنے آئی۔ اس جہان میں دونوں بزرگ ہستیوں کا بے جا مقابلہ اگلے جہان تک لے جایا گیا جہاں حضرت فاطمہؓ جنت میں خواتین کی سردار ہیں، ان کی والدہ حضرت خدیجہؓ جنت میں ایک خوبصورت گھر کی مالک ہیں اور ان کے بیٹے مرد حضرات کے، (مسند احمد بن حنبل) وہاں حضرت عائشہ ؓ اس جہاں کے بعداگلے جہان میں بھی آنحضورﷺ کی زوجہ ہیں (طبقات ابن سعد)۔

اگلے جہان کی یہ پیشگوئیاں احادیث سے ماخوذ تھیں سو دونوں فریقین نے احادیث کی صحت اور اسما الرجال کی صحت پرعلمی محاذ کھول لیا۔ چونکہ حضرت عائشہؓ کے مناقب زیادہ تر ان کے خود بیان فرمودہ تھے، لہذا ان کی روایت اور درایت دونوں کو محلِ نظر ٹھہرانا ایک فریق کے لیے ضروری ہوگیا۔

ان شدید حملوں کے جواب میں سنی فریق نے بھی اسی شدت کی جوابی کارروائی خود پر واجب کرلی۔ ایسے میں ایسی احادیث کو اجاگر کیا گیا جہاں آنحضورﷺ کی حضرت عائشہؓ سے غیر معمولی طور پر والہانہ محبت کا اظہار ملتا تھا۔ مثلاً جب دیگر ازواج نے اس والہانہ محبت کو دیکھتے ہوئے حضرت فاطمہؓ سے کہا کہ وہ آنحضورﷺ سے مساوات کی درخواست کریں اور اس درخواست پر آنحضورﷺ کا جواب لکھا ہے کہ ’’ کیا تم اس سے محبت نہیں کرتی جس سے میں محبت کرتا ہوں؟‘‘۔ لکھا ہے کہ حضرت فاطمہؓ نے اقراریہ جواب دیا اور دل میں یہ سوچ کر لوٹیں کہ آئندہ اس موضوع پر کبھی بات نہ کریں گی۔ (صحیح مسلم کتاب فضائل الصحابہ، باب فی فضل عائشہ رضی اللہ عنھا۔ حدیث نمبر 2442)

ایک موقع پرام المومنین حضرت زینب ؓ بنت جحش نے بھی ایسا ہی شکوہ کیا تو حضرت عائشہؓ نے خود انہیں زبردست الفاظ میں جواب دیا۔ لکھا ہے کہ اس دلیری سے جواب دینے پر آنحضورﷺ نے بڑے فخریہ انداز میں فرمایا’’یہ ابوبکر کی بیٹی جو ہوئی‘‘۔(صحیح مسلم کتاب فضائل الصحابہ، باب فی فضل عائشہ رضی اللہ عنھا۔ حدیث نمبر 2442)

ان احادیث سے حضرت عائشہؓ کے مقام و منصب کے ساتھ حضرت ابوبکرؓ کا عالی منصب بیان کرنے کا مقصد بھی حل ہو جاتا۔

حضرت عائشہؓ سے آنحضورﷺ کی بے پناہ محبت اور خاص قرب کے نتیجے میں آپؓ کی روایت کردہ احادیث کو بھی خاص مقام حاصل ہوگیا۔ دانت صاف کرنے سے لے کر، غسلِ جنابت، وضو سے لے کر ادائیگیٔ صلوۃ تک کی سنت مسلمانوں کی روزمرہ زندگی میں خصوصی اہمیت کی حامل تھی۔ ایسے میں اس سنت کے راوی کا مقام و منصب بھی۔

آخری علالت میں آنحضورﷺ کا حضرت عائشہ کے خیمے میں قیام فرمانے کی خواہش ظاہر کرنا، حضرت عائشہ کا تیمارداری کرنا اور حضرت عائشہ کی آغوش میں آنحضورﷺ کا وصال نہ صرف سنی اسلام کے لیے حضرت عائشہ کے مقام و مرتبہ کو بڑھاتا رہا، بلکہ آپؓ کے والدِ گرامی حضرت ابوبکرؓ کے جانشینِ برحق ہونے کو بھی تقویت دیتا رہا۔ یہ الگ بات کہ اس خیمے میں وصال پر بھی مخالف فریق شکوک بھرےسوالات اٹھانے سے نہ چوکے۔

دوسری طرف شیعہ علماکی نظر سے وہ احادیث اوجھل نہ رہیں جہاں حضرت علیؓ کو غدیر خم کے مقام پر حضورﷺ نے اسی منصب پر رکھا جس پر آپﷺ نے خود کو بیان فرمایا (اوپر مذکور حدیثِ غدیر)۔ اور اس امر پر بھی اصرار رہا کہ وصال کے بعد جانشینی کے مسئلہ پر بحث کے وقت حضرت علیؓ کو دانستہ اس مجلس میں شامل نہ ہونے دیا۔ اس غیر حاضری کا الزام بھی حضرت عائشہؓ پر لگایا گیا۔ (تفصیل کے لیے محمد بن محمد المفید کی تصنیف ’’کتاب الارشاد‘‘ صفحہ 91 تا 96)

حضرت عائشہؓ کا جنگِ جمل کے موقع پر حضرت علیؓ کے مقابل آجانا بھی اہلِ تشیع کے حافظہ سے محو نہ ہوا اور اس بات کو بھی گویا بغاوت کے رنگ میں پیش کیا جاتا رہا۔

حضرت عائشہؓ کی رخصتی کی عمر میں فریقین کی دلچسپی کے اسباب:

اوپر ذکر گزرا ہے کہ حضرت عائشہ ؓ سے منسوب اپنے فضائل میں ایک یہ بھی تھا کہ میں چھ سال کی تھی جب حضورﷺ نے مجھ سے نکاح کیا اور نو سال کی جب مجھ سے شادی کی۔

صحیح بخاری میں بیان ہونے والی اس روایت کے بارہ میں حضرت مسیح موعودؑ فرماتے ہیں: ’’اوّل تو نو برس کا ذکر آنحضرتﷺ کی زبان سے ثابت نہیں اور نہ اس میں کوئی وحی ہوئی اور نہ اخبار متواترہ سے ثابت ہوا کہ ضرور نو برس ہی تھے۔ صرف ایک راوی سے منقول ہے۔ عرب کے لوگ تقویم پترے نہیں رکھا کرتے تھے کیونکہ امی تھے اور دو تین برس کی کمی بیشی ان کی حالت پر نظر کر کے ایک عام بات ہے۔‘‘ (نورالقرآن 2، روحانی خزائن جلد 9، ص 377-378)

اوپر کی بحث سے ہم دیکھ چکے ہیں کہ حضرت عائشہ کی شادی کے وقت عمر مستند روایات سے زیادہ بھی ظاہر ہوتی ہے۔ مگر ایسا کیا ہے کہ اس ایک روایت ہی پر اصرار کیا جاتا ہے اور جہاں سنی اور شیعہ مکاتبِ فکر کسی بھی بات متفق ہونے کو تیار ہی نہیں، اس روایت پر نہ صرف متفق اور مطمئن ہیں، بلکہ مصر ہیں۔ اس تفصیل طلب معاملے کا اجمالی جائزہ لیتے ہیں۔

ایک فریق حضرت عائشہ کی فضیلت کو ثابت کرنے کے لیے اس بات پر زور دیتا رہا کہ کہ وہ نکاح میں آنے والی واحد باکرہ خاتون تھیں۔ وہ واحد زوجہ تھیں جو کسی اور کے عقد میں نہ رہی تھیں۔ اس بات کو اجاگر کرنے کے لیے ان کی کم سنی پر اصرار کیا گیا۔

دوسرا فریق اسی کم سنی کو ان کی روایات کو ناقابلِ اعتنا ثابت کرنے کے سیاسی مقصد میں استعمال کرتا رہا۔

آنحضورﷺ کی خلافت میں ’’برحق‘‘ ہونے کا معاملہ (legitimacy) ہمیشہ سے محلِ نظر رہا یہاں تک کہ پہلی خانہ جنگی اسی معاملہ پر ہوئی۔ پہلے بنو امیہ کی خلافت کے خلاف بنو عباس یہ پراپیگنڈا کرتے رہے کہ اول الذکر اسلام کی درست تعلیم سے جدا ہے اوریوں ان کی خلافت برحق نہیں۔ اس پراپیگنڈا میں انہیں جو بھی حلیف ملا، اسے ساتھ شام کر لیا۔ یہاں تک کہ اس معاملہ میں اہل تشیع کو بھی اپنے ساتھ شامل کرنے سے دریغ نہ کیا۔

جب بنو عباس نے بالآخر بنو امیہ کو شکست دی اور خلافت کے نام پر حکمران بن گئے، تو اہل تشیع کی مخالفت کا رخ ان کی طرف مڑ گیا کہ وہ تو بنو عباس سمیت تمام خلافتوں، بالخصوص پہلے تین خلفائے راشدین تک کو خلیفہ تسلیم کرنے کو تیار نہ تھے۔

یوں بنو عباس کو اپنی خلافت کو برحق ثابت کرنے کی غرض سے پہلے تین خلفائے راشدین کو برحق ثابت کرنا ناگزیر ہوا، اور یہ سلسلہ اوّلاًحضرت ابوبکر ؓ کی خلافت کی تصدیق کے بغیر ممکن نہ تھا۔ اور اس مقصد کے لیے حضرت عائشہ کی فضیلتوں کا بیان اس سیاسی مقصد کے حصول میں استعمال ہوا۔

یوں حضرت عائشہ کے فضائل کو غیر معمولی اور للہی ثابت کرنے کی خاطر ان کی بکارت پر زور دیا گیا، اور اس کو ثابت کرنے کی خاطر ان کی نو عمری پر۔

اس کے مقابل پر حضرت فاطمہؓ کے لقب ’’البتول‘‘ کو اجاگر کیا گیا، جس کے معنی لسان العرب میں صاحبِ عصمت کنواری کے بیان کیے ہیں جو خدا سے لو لگانے کے نتیجے میں دنیا سے اور بالخصوص مردوں سے بے رغبتی رکھتی ہو۔

شیعہ کتب میں بتول کے معانی میں ایسی خاتون کے بھی لیے جاتے ہیں جسے حیض نہ آتا ہو۔ لکھا ہے کہ آنحضورﷺ سے دریافت کیا گیا کہ حضرت فاطمہ ؓ کو بتول کا لقب کیونکر ملا؟ لکھتے ہیں کہ آنحضورﷺ نے فرمایا کہ اس کے معنی ایک ایسی عورت جسے حیض نہ آتا ہو، کہ یہ انبیاء کی بیٹیوں کو اس نجاست سے مس ہونا زیبا نہیں۔ (سلیمان القندوزی، ینابیع المودہ، حدیث 930)

اس لقب کو اجاگر کرنے کے پیچھے ایک اور تکلیف دہ امر کارفرما ہے۔ عباسی خلیفہ متوکل کے زمانہ میں جس شخص کو حضرت ابو بکرؓ اور حضرت عمرؓ اور دونوں کی بیٹیوں یعنی ازواج مطہرات کی شان میں گستاخی پر سزائے موت دی گئی، اس پر حضرت عائشہؓ پر ’’بہتان طرازی‘‘ کرنے کا الزام بھی تھا۔ یہ بہتان واقعہ افک کی طرف اشارہ کرتا تھا۔ اس سے ’’البتول‘‘ کے لقب کو خاص طور پر اجاگر کرنے کی توجیہہ بھی ظاہر ہوتی ہے۔

حضرت عائشہؓ کے لاولد رہ جانے کو بھی خاص طور پر نشانہ بنایا گیا اور اس کی بنیاد پر اہل بیت کی تعریف اس طرح کی گئی کہ حضرت علیؓ، حضرت فاطمہؓ اور ان کے دونوں بیٹے یعنی حضرت حسن ؓاور حضرت حسینؓ کو آنحضورﷺ کے اجرائے نسل کے واحد ذریعہ کے طور پر اجاگر کیا گیا۔

جہاں اہلِ بیت حضرت فاطمہؓ کے کنبے تک محدود کیے گئے، وہاں اس امر کو اجاگر کیا گیا کہ چونکہ حضرت علیؓ نے بچپن آنحضرتﷺ کی نگرانی میں گزارا، لہذا ان کا مقام اور منصب کسی بھی دوسرے صحابی سے زیادہ ٹھہرا۔ یوں فریقِ مخالف کے لیے ضروری ہوا کہ وہ حضرت عائشہؓ کو بھی ایک ایسی شخصیت کے طور پر پیش کریں جس کا بچپن آنحضورﷺ کے آنگن میں گزرا ہو۔

اختتامیہ:

اس تمام بحث سے غرض نہ تو یہ ہے کہ آنحضورﷺ سے صحبت کے وقت حضرت عائشہ کی عمر جدیدمغربی معیار کے مطابق ثابت کی جائے۔ اور نہ یہ کہ 6 برس اور 9 برس والی روایت کو کسی بھی حال میں قطعی طور پر خلافِ واقعہ بنا کر پیش کیا جائے۔

یہ بھی ہوسکتا ہے کہ ان سب اندازوں میں سے کوئی ایک اندازہ درست ہو، اور یہ بھی کہ حقیقت ان سب اندازوں سے مختلف ہو۔ تاہم، ’’جدید سوچ‘‘ کے حامی بھلے ہی حضرت عائشہ کی شادی کے وقت عمر کو جدید مغربی قوانین کی کسوٹی پر پرکھتے رہیں، ہمیں یہ معلوم ہے کہ حضرت عائشہ زوجۂ رسول ﷺ تھیں اور اس نسبت سے ہمارے لیے والدہ سے بھی بڑھ کر کہ ام المومنین سے بڑھ کر کسی بھی والدہ کا کیا مقام ہوگا۔

جدید دور کے علمبرداروں کی بات ہو ہی رہی ہے تو یہ بھی دیکھ لینا ضروری ہے کہ مغرب، جہاں یہ سوچ پروان چڑھی ہے، وہاں تاریخ پیدائش کا اندراج کب قانوناً لازمی ہوا۔ اور کس طرح تدریجاً وقت کے تقاضوں کے ساتھ شادی کی عمر طے کی گئی۔

اگر انگلستان میں تاریخ پیدائش 1836ء سے ریکارڈ کی جانے لگی، اور امریکہ میں 1902ء میں یہ قانون بنا، تو اس سے پہلے کتنے ہی ہوں گے جن کی شادیوں کے فیصلے ان کی جسمانی ساخت اور نشوونما کے دیگر عناصر پر کیے گئے ہوں گے۔اگرچہ ہمیں اس سے بھی اختلاف نہیں کہ دورِ جدید میں شادی کا معاملہ ایسی ذمہ داریوں کا متقاضی ہے کہ اس کے لیے ذہنی اور جسمانی بلوغت کی عمریں سوچ سمجھ کر عصرِ حاضر کے مطابق وضع کی گئی ہیں۔ مگر انہیں ماضی بعید کے لیے کسوٹی بنانا بھی چنداں درست نہیں۔

پس ہمارا موقف وہی ہے جو ہمارے آقا حضرت مسیح موعودؑ نے اس بارے میں بیان فرمایا۔ نورالقرآن کے مذکورہ بالا حوالے کے تسلسل میں حضورؑ فرماتے ہیں:

’’پھر اگر فرض کے طور پر تسلیم بھی کرلیں کہ فی الواقع دن دن کا حساب کر کے نو برس ہی تھے۔ لیکن پھر بھی کوئی عقل مند اعتراض نہیں کرے گا۔۔۔ہم آپ کو اپنے رسالے میں ثابت کر کے دکھادیں گے کہ حال کے محقق ڈاکٹروں کا اس پر اتفاق ہوچکا ہے کہ نو برس تک بھی لڑکیاں بالغ ہوسکتی ہیں۔ بلکہ سات برس تک بھی اولاد ہوسکتی ہے اور بڑے بڑے مشاہدات سے ڈاکٹروں نے اس کو ثابت کیا ہے اور خود صدہا لوگوں کی یہ بات چشم دید ہے کہ اسی ملک میں آتھ آٹھ نو نو برس کی لڑکیوں کے یہاں اولاد موجود ہے۔۔۔‘‘ (نورالقرآن2، 378)

ایک وضاحت آخر میں ضروری ہے کہ اوپر بیان کی گئی باتیں تاریخی تناظر میں ہیں اور باحوالہ تاریخ کی طرز پر بیان کی گئی ہیں۔ ہم نہ تو کسی فرقے یا مکتبِ خیال کی پرتشدد مخالفت کی قائل ہیں اور نہ اپنے موقف کوزبردستی کسی پر تھوپنے کے۔ یہ اندازے ہیں اور فی زمانہ اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی حقیقتِ احوال سے باخبر نہیں۔

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button