احمد علیہ السلام۔ سیرت و سوانح
خدائی احکامات اورحدودپر سب سے زیادہ کاربند اور پابند رہنے والے اس کے نبی اورمامورہی ہواکرتے ہیںاوروہ بلاخوف لومۃ لائم وہی کرتے ہیں جس کاانہیں خداحکم دیتاہے،کوئی تعلق کوئی رشتہ اور کوئی خوف انہیں ان کی راہ سے ہٹاسکتاہے نہ کمزورکرسکتاہے، وہ یَفْعَلُوْنَ مَا یُؤْمَرُوْنَ کی مجسم تصویرہوا کرتے ہیں اسی لیے حضرت اقدسؑ نے اپنے اس بیٹے کی نمازجنازہ بھی ادانہیں کی
مرزافضل احمدصاحب کاجنازہ
مرزا امام الدین صاحب وغیرہ محترم مرزافضل احمد صاحب کا جنازہ لے کرقادیان آئے اور حضرت مسیح موعودؑ کوبھی ان کی وفات کی اطلاع دی گئی۔یہ وہ زمانہ تھا کہ حضرت اقدس مسیح موعودؑ نے خداکے حکم سے ہراحمدی کوہراس فردکی نمازجنازہ پڑھنے سے منع کردیاہواتھا جواحمدی نہ ہو۔ ہرچندکہ محترم صاحبزادہ صاحب اس رنگ میں مخالف نہ تھے۔اور ان کی اطاعت وفرمانبرداری بھی ایسی تھی کہ کئی احمدی دوستوں کوامیدتھی کہ شایداستثنائی طور پران کی نمازجنازہ کی اجازت مل جائے گی۔ اورانہوں نے درخواست بھی کی۔لیکن خدائی احکامات اورحدودپر سب سے زیادہ کاربند اور پابند رہنے والے اس کے نبی اورمامورہی ہواکرتے ہیں۔اوروہ بلاخوف لومۃ لائم وہی کرتے ہیں جس کاانہیں خداحکم دیتاہے۔کوئی تعلق کوئی رشتہ اور کوئی خوف انہیں ان کی راہ سے ہٹاسکتاہے نہ کمزورکرسکتاہے۔وہ یَفْعَلُوْنَ مَا یُؤْمَرُوْنَ کی مجسم تصویرہوا کرتے ہیں۔ اسی لیے حضرت اقدسؑ نے اپنے اس بیٹے کی نمازجنازہ بھی ادانہیں کی۔
حضرت صاحبزادہ مرزابشیراحمدصاحبؓ نے اس واقعہ کی تفصیلات اپنی کتاب ’’مسئلہ جنازہ کی حقیقت‘‘ صفحات 67تا 78 میں بیان کی ہیں۔چنانچہ آپؓ تحریرفرماتے ہیں :’’پانچواں حوالہ ہمارے وفات یافتہ بھائی مرزا فضل احمد صاحب کے جنازہ کا ہے۔ (مرزا فضل احمد صاحب کی تاریخ وفات مجھے ابھی تک معین صورت میں معلوم نہیں ہو سکی مگر بہرحال وہ 1903ء میں تھی لیکن اگر وہ 1903ء کے اوائل میں تھی تو یہ حوالہ نمبر چار پر سمجھا جائے گا اور موجودہ نمبر چار حوالہ نمبر پانچ پر آجائے گا۔ اور اگر ان کی وفات اپریل کے بعد ہوئی تھی تو پھر موجودہ ترتیب ہی درست سمجھی جائے گی۔ منہ)جیسا کہ اکثر ناظرین کو معلوم ہو گا مرزا فضل احمد صاحب حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی پہلی بیوی سے دوسرے فرزند تھے اور گو وہ آخر تک حضرت مسیح موعودؑ کی بیعت میں داخل نہیں ہوئے مگر انہوں نے کبھی بھی حضرت مسیح موعودؑ کی ظاہری رنگ میں مخالفت یا تکذیب نہیں کی۔بلکہ ہمیشہ از حد مؤدب اور فرمانبردار رہے حتّٰی کہ جب ایک دفعہ حضرت مسیح موعودؑ نے ایک اہم دینی معاملہ میں ان کو یہ ہدایت بھیجی کہ اگر تم میرے ساتھ تعلق رکھنا چاہتے ہو تو اپنی بیوی کو جو اشد مخالفین کے ساتھ تھی طلاق دے کر الگ کر دو تو مرزا فضل احمد صاحب نے فوراً طلاق نامہ لکھ کر حضرت مسیح موعودؑ کی خدمت میں بھجوا دیا اور عرض کیا کہ آپ کے ارشاد پر یہ طلاق نامہ حاضر ہے۔ آپ جس طرح پسند فرمائیں اسے استعمال فرمائیں۔ مرزا فضل احمد صاحب محکمہ پولیس میں ملازم تھے اور وفات کے وقت جو 1903ء میں ہوئی ملتان میں متعین تھے۔ حضرت مسیح موعودؑ کو ان کی وفات پر بہت صدمہ ہوا مگر چونکہ وہ احمدی نہیں تھے اس لئے حضرت مسیح موعودؑ نے ان کا جنازہ نہیں پڑھا۔ بلکہ اپنی جماعت میں سے کسی شخص کو ان کے جنازہ کی اجازت نہیں دی چنانچہ اس بارے میں حضرت خلیفۃ المسیح الثانی اپنی ذاتی شہادت بیان فرماتے ہیں کہ’’آپ کا ایک بیٹا فوت ہو گیا جو آپ کی زبانی طور پر تصدیق بھی کرتا تھا جب وہ مرا تو مجھے یاد ہے آپ ٹہلتے جاتے تھے اور فرماتے تھے کہ اس نے کبھی شرارت نہ کی تھی بلکہ میرا فرمانبردار ہی رہا ہے…وہ اتنا فرمانبردار تھا کہ بعض احمدی بھی نہ ہوں گے۔ محمدی بیگم کے متعلق جب جھگڑا ہوا تو اس کی بیوی اور بیوی کے رشتہ دار بھی ان کے ساتھ شامل ہو گئے۔ حضرت صاحب نے اس کو فرمایا کہ تم اپنی بیوی کو طلاق دے دو۔ اس نے طلاق لکھ کر حضرت صاحب کو بھیج دی کہ آپ کی جس طرح مرضی ہے اسی طرح کریں۔ لیکن باوجود اس کے جب وہ مرا تو آپ نے اس کا جنازہ نہ پڑھا۔‘‘
پھر اسی واقعہ کے متعلق حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے ایک بہت پرانے اور نہایت مخلص صحابی بھائی عبدالرحمان صاحب قادیانی کی شہادت ان الفاظ میں ہے:’’جناب مرزا فضل احمد صاحب مرحوم سیدنا حضرت مسیح موعودؑ کے حرم اول سے دوسرے صاحبزادہ تھے اور محکمہ پولیس میں ملازم تھے۔ مرزا امام الدین صاحب ان کی وفات کی اطلاع پا کر ان کی ملازمت کی جگہ پہنچےاور وہی ان کا جنازہ قادیان لائے تھے۔ جب ان کا جنازہ قادیان پہنچا تو مرزا اسماعیل بیگ صاحب مرحوم نے سیدنا حضرت مسیح موعودعلیہ الصلوٰة والسلام کے حضور ان کا جنازہ پہنچنے کی اطلاع کی۔ اس پر حضور کے چہرہ پر اداسی اور غم کے آثار نمایاں ہو گئے اور آواز میں رقت پیدا ہو گئی اور حضور نے حضرت مولانا نور الدین صاحب کو جو اس وقت مجلس میں حاضر تھے مخاطب فرما کر فرمایا کہ ’’ فضل احمد ہمیشہ ہمارا فرمانبردار رہا ہے اس نے کبھی ہماری نافرمانی نہیں کی حتی کہ ایک مرتبہ ہمارے اشارہ پر وہ اپنی بیوی کو طلاق دے کر اس کی علیحدگی پر تیار ہو گیا تھااور طلاق نامہ لکھ کر ہمیں بھیج دیا تھا۔‘‘ حضور کا صاحبزادہ اور فرمانبردار صاحبزادہ ہونے کی وجہ سے خیال تھا کہ حضور جنازہ پڑھائیں گے مگر نہ حضور نے خود پڑھا اور نہ کسی کو جنازہ میں شرکت کی اجازت دی… مَیں اس مجلس میں شریک تھا اور یہ سارا واقعہ میرے سامنے کا ہے۔‘‘(الفضل مورخہ 23؍جنوری 1941ء نیز دیکھیں الفضل مورخہ 21؍جنوری 1941ء جس میں حافظ محمد ابراہیم صاحب کی حلفی شہادت بھی درج ہے۔ بحوالہ مسئلہ جنازہ کی حقیقت از حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ۔ صفحہ 67-69)
مرزا فضل احمد صاحب کے جنازے کے متعلق ایک معزز غیر احمدی کی شہادت
حضرت صاحبزادہ مرزابشیراحمدصاحبؓ کے نام مکرم حبیب الرحمان صاحب اپنے خط مورخہ 17؍اپریل 1941ء میں لکھتے ہیں :’’بخدمت حضرت میاں صاحب سلمہ اللہ تعالیٰ
السلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکاتہ
اخبار الفضل مورخہ 17 اپریل میں جناب کے مضمون کا وہ حصہ دیکھا جو مرزا فضل احمد صاحب کے جنازہ کے متعلق ہے۔اس کے متعلق میرے پاس بھی ایک شہادت ہے جو درج ذیل کرتا ہوں۔
سید ولایت شاہ صاحب شجاع آباد ضلع ملتان کے ایک معزز غیر احمدی بزرگ تھے (وہ جون 1940ء میں فوت ہو چکے ہیں) انہوں نے متعدد بار مجھ سے حضرت مرزا سلطان احمد صاحب مرحوم و مغفور کے واقعات بیان کئے۔ یہ صاحب حضرت مرزا صاحب مرحو م کے گہرے دوست بلکہ پروردہ تھے۔ حضرت مرزا صاحب نے شجاع آباد کے عرصہ قیام میں ان سے بہت اچھا سلوک کیا تھا اور ان کی دنیوی ترقیات اور عزت کا باعث بھی حضرت مرزا صاحب مرحوم کی ذات والا صفات تھی۔
میں جون 1935ء سے اپریل 1949ء تک شجاع آباد میں اسسٹنٹ ڈسٹرکٹ انسپکٹر آف سکولز رہا ہوں۔ سید صاحب مذکور میرے ہمسایہ تھے اور غیر احمدی تھے لیکن مسلک صلح کل تھا اور حضرت مرزا سلطان احمد صاحب کے احسانات کو بار بار یاد کرتے تھے۔ باتوں باتوں میں ایک دفعہ انہوں نے مرزا فضل احمد صاحب کی وفات کا بھی ذکر کیا……وہ شہادت یہ ہے کہ مرزا فضل احمد صاحب کے جنازہ کے ساتھ سید ولایت شاہ صاحب موصوف بھی قادیان میں تھے۔ یہ معلوم نہیں کہ ساتھ گئے تھے یا پہلے ہی وہاں موجود تھے۔ وہ کہتے تھے کہ میں نے اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے کہ مرزا فضل احمد صاحب کے دفن کرنے اور جنازہ پڑھنے سے قبل حضرت مرزا غلام احمد صاحب (یعنی حضر ت مسیح موعود علیہ الصلوٰة و السلام ) نہایت کرب و اضطراب کے ساتھ باہر ٹہل رہے تھے اور ایسا معلوم ہوتا تھا کہ آپ کو اس کی وفات سے حد درجہ تکلیف ہوئی ہے۔اسی امر سے جرأت پکڑ کر میں خود حضور کے پاس گیا اور عرض کیا کہ حضور وہ آپ کا لڑکا تھا بیشک اس نے حضور کو خوش نہیں کیا لیکن آخر آپ کا لڑکا تھا۔ آپ معاف فرمائیں اور اس کا جنازہ پڑھیں (یہ بھی ہو سکتا ہے کہ مرزا سلطان احمد صاحب نے انہیں حضرت کے حضور بھیجا ہو) اس پر حضرت صاحب نے فرمایا نہیں شاہ صاحب۔ وہ میرا فرمانبردار تھا اس نے کبھی مجھے ناراض نہیں کیا لیکن اس نے اپنے اللہ کو راضی نہیں کیا تھا اس لئے میں اس کا جنازہ نہیں پڑھتا۔ آپ جائیں اور پڑھیں۔ شاہ صاحب کہتے تھے کہ اس پر میں واپس آ گیا اور جنازہ میں شریک ہوا۔ پر میں اللہ تعالیٰ کی دوبارہ قسم کھا کر کہتا ہوں کہ شاہ صاحب کی مندرجہ بالا گفتگو کا مفہوم میں نے صحیح طور پر ادا کرنے کی پوری کوشش کی ہے بلکہ جہاں تک مجھے یاد ہے خط کشیدہ الفاظ بھی شاہ صاحب کے اپنے ہیں خصوصاً یہ فقرہ کہ’’اس نے اپنے اللہ کو راضی نہیں کیا تھا‘‘۔ و السلام۔ خاکسار حبیب الرحمان بی۔ اے اسسٹنٹ ڈسٹرکٹ انسپکٹر آف سکولز کبیر والہ ضلع ملتان۔‘‘(مطبوعہ الفضل 22؍اپریل 1941ء بحوالہ مضامین بشیر صفحہ 447-449جلد اول)
(باقی آئندہ)