آئے پھر جلسہ کے دن
آئے پھر جلسہ کے دن ہر دل اٹھا خوشیوں سے جھوم
شمع کے ہے روبرو صدہا پتنگوں کا ہجوم
ہوتا ہے یہ عالمی جلسہ اگرچہ ہر برس
اور کرتے ہیں یہاں شرکت ہزاروں بالعموم
اب کے اِک شاخ شجر کے آئے ہیں لیکن یہ پھل
ورنہ ان اثمار کی مچتی ہے دنیا بھر میں دھوم
ہر انا اپنی نفی کرکے جمع ہوتے ہیں ہم
خواہ ہم اہلِ عرب ہوں خواہ ہم ہوں اہلِ روم
یاں کی ہر تقریر کی، تحریر کی روحِ رواں
ہیں وہ روحانی خزائن اور قرآنی علوم
ان میں حکمت کی ہیں کلیاں اور دانائی کے پھول
جن پہ غالب نہ خزاں ہو نہ کبھی بادِ سموم
یہ سمجھ لو عمر کی دولت ہے گنتی کی ملی
خدمتِ دیں میں کرو تم خرچ سانسوں کی رقوم
آئے جونہی ہم میں دستارِ خلافت کا امیں
پھول کھل جاتے ہیں جس جا بھی وہ رکھتا ہے قدوم
جگمگا اٹھتے ہیں چہرے سب وفورِ شوق سے
بزم سج جاتی ہے جیسے ماہ ہو بین النجوم
ہر کوئی ہے چاہتا اس شرف سے ہو فیضیاب
دل مجھے بھی حکم دے عابدؔ تُو اس کے ہاتھ چوم