تعارف کتاب

اعجاز المسیح اور حضرت مسیح موعودؑ اور پیر مہر علی شاہ صاحب گولڑوی

(شیخ مجاہد احمد شاستری۔ ایڈیٹر البدر (ہندی) قادیان)

تعارف کتب صحابہ کرامؓ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام(قسط22)

(مصنفہ حضرت مولوی عبد الکریم صاحب سیالکوٹی رضی اللہ عنہ)

’’کئی دفعہ میری روح میں زور آور تحریک ہوئی کہ میں اُن اثروں اور نقشوں پر کچھ لکھوں اور بھائیوں کو مستفیض و مسرور کروں جو اس چلہ میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی زندگی کے خاص اور بالکل نئے حصہ کے مشاہدہ سے میرے حق میں جو حق بین حق گو قلب پر وارد اور منتقش ہوئے‘‘

سن اشاعت مئی 1901ء مطبع ضیاء الاسلام پریس قادیان

پس منظر

جب اللہ تعالیٰ اپنے کسی برگزیدہ کو اس جہان میں سلسلہ رشد و ہدایت کے لیے مبعوث کرتا ہے تو اس کواپنے مخالفین پر اپنے تائیدی نشانوں کے ساتھ منصور و غالب کرتا ہے۔ سیدناحضرت مرزا غلام احمد صاحب قادیانی علیہ السلام کو اللہ تعالیٰ نے آنحضرت ﷺ کی غلامی میں مسیح موعود و مہدی معہود کا مقام عالی عطا فرمایا۔ آپ کی تائید و نصرت کے لیے بے شمار نشانات ظاہر فرمائے۔ چونکہ آپ آنحضرت ﷺ کی غلامی میں آئے تھےاس لیے قرآن مجید کے حقائق و معارف کےنشانات و معجزات آپ کو عطا کیے گئے۔ آپ کی تصنیف اعجاز المسیح انہیں اعجازات کا ایک عظیم الشان مجموعہ ہے۔

سنہ1893ءمیں سیدنا حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام نے ایک کتاب انجام آتھم کے نام سے تحریر فرمائی جس میں آپؑ نے علماء و مشائخ اور سجادہ نشینوں کو مباہلہ کا ایک چیلنج دیا۔ اس چیلنج کے آخر میں آپ نے مشہور علماء کے اسماء لکھے اور ان مولویوں اور علماء کے اسماء کے بعد سجادہ نشینوں اور پیروں فقیروں کے اسماء تحریر فرمائے ۔ سجادہ نشینوں کے اسماء میں پیر مہر علی شاہ گولڑوی کا نام تیرھویں نمبر پر ہے۔

حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے پیر مہر علی شاہ گولڑوی صاحب کو مخاطب کر کے 20؍ جولائی 1900ء کو ایک اشتہار شائع فرمایاجس میں پیر صاحب کو احقاق حق اور ابطال باطل کے لیے قرآن مجید کی روشنی میں نشان نمائی کی دعوت دی۔ آپؑ فرماتے ہیں:’’قرآن شریف سے یہ ثابت ہےکہ جو لوگ درحقیقت خدا تعالیٰ کے راستباز بندے ہیں ان کے ساتھ تین طور سےخدا کی تائید ہوتی ہے۔

1۔ ان میں اور ان کے غیر میں ایک فرق یعنی مابہ الامتیاز رکھا جاتا ہے۔ اس لئے مقابلہ کے وقت بعض امور خارق عادت ان سے صادر ہوتے ہیں جو حریف مقابل سے صادر نہیں ہو سکتےجیسا کہ آیت وَیَجْعَلْ لَّکُمْ فُرْقَانًا اس کی شاہد ہے۔

2۔ ان کو علم معارف قرآن دیا جاتا ہےاور غیر کو نہیں دیا جاتا جیسا کہ آیت لَا یَمَسُّہٗۤ اِلَّا الْمُطَہَّرُوْنَ اس کی شاہد ہے۔

3۔ ان کی دعائیں اکثر قبول ہوجاتی ہیں اور غیرکی اس قدر نہیں ہوتیں جیسا کہ آیت ادْعُوْنِیۡۤ اَسْتَجِبْ لَکُمْ اس کی گواہ ہے۔‘‘(مجموعہ اشتہارات جلد3صفحہ327،اشتہار 20؍جولائی 1900ء)

اس کے بعدحضور علیہ السلام نے دسمبر 1900ء میں پیر صاحب کو ایک آخری اتمام حجت کی ۔ جس میں حضور علیہ السلام نے فرمایاکہ ہم دونوں ستر دن میں اپنی اپنی جگہ فصیح و بلیغ عربی زبان میں سورہ فاتحہ کی تفسیر لکھیں، عرب و عجم سے مددگار ادباء کی مدد حاصل کر لی،اور تفسیرشائع کریں۔اس پیشکش کے ستر دن کے اندر اندر حضور علیہ السلام نے ‘‘اعجاز المسیح’’ نام سے ایک بےنظیر، معارف سے بھرپور تفسیر سپرد قرطاس فرمائی۔ پیر صاحب سنہ 1900ء سے لے کر 1937ء تک زندہ رہے مگر تفسیر لکھنے کی ہمت نہ ہوئی۔

مندرجہ بالا کتاب ’’اعجاز المسیح اور حضرت مسیح موعود اور پیر مہر علی شاہ گولڑوی‘‘میں حضرت عبد الکریم صاحب سیالکوٹی رضی اللہ عنہ نے کتاب ’’اعجاز المسیح‘‘لکھے جانے کے دوران حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ساتھ خدا تعالیٰ کی تائید و نصرت کو تفصیل کے ساتھ بیان کیا ہے۔

کتاب لکھنے کی غرض

اس بارے میں حضرت عبد الکریم صاحب سیالکوٹی ؓ بیان کر تے ہیں’’کئی دفعہ میری روح میں زور آور تحریک ہوئی کہ میں اُن اثروں اور نقشوں پر کچھ لکھوں اور بھائیوں کو مستفیض و مسرور کروں جو اس چلہ میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی زندگی کے خاص اور بالکل نئے حصہ کے مشاہدہ سے میرے حق میں جو حق بین حق گو قلب پر وارد اور منتقش ہوئے۔

پیر گولڑوی کے مقابل تفسیر لکھنے کی میعاد (70) دن ٹھہری تھی۔ اس بڑی ہی تھوڑی میعاد میں سے بھی جو اصلاً اور حقیقۃً سورہ فاتحہ کی عربی فصیح میں غیر مسبوقہ حقائق کے ساتھ تفسیر لکھنے کے لئے نہایت غیر مکتفی تھی پورےتیس دن حضرت حجۃ اللہ علیہ السلام نے یوں منہا کر دیئے کہ اس اثنا میں آپ کے دست و قلم میں خالص منافرت رہی۔ ایک نقطہ تک نہ تولکھا اور نہ اس غیر مامور کو جگہ سے ہلا دینے والے کام کی نازک ذمہ داری کی طرف کچھ توجہ رہی۔ پورے ایک مہینہ کے بعد جب لکھنے کا ارادہ کیا معاً برد اطراف اور ضعف کےاس قدر متواتر دورے پڑنے شروع ہوئے کہ بسا اوقات پر دل امید زندگی کے چراغ کو شمع سحری کی طرح ٹمٹماتا دیکھ کر یا اس کے تاریک کونے میں سرنگوں بیٹھ جاتی تھی۔

میں نے دس سال میں اس قدر اتصال اور ہجوم ان ہولناک امراض کا نہیں دیکھا تھا۔ صحت کا یہ حال اور وعدہ اس قدر مضبوط، منجانب اللہ ہونے، مؤیّد من اللہ ہونے کاایک نشان اور معیار۔ اور ایک چلہ باقی۔ کوئی معمولی آدمی ہو اور عزت اور ذلت کامعاملہ ہو تو ایک سوچنے والا سوچ سکتا ہے کہ اس کے دل اور جان پر کیا گذر سکتی ہے۔ یہاں سارے جہان سے ٹکر لگی ہوئی ہے۔ ایک مامور اور مرسل کی برسوں کی کامیاب اور عزت معرض امتحان میں اور ضعیف محدود بشری نگاہ کی نزدیک معرض خطر میں تھی۔ مسودہ لکھنا کاپی دیکھنا پروف دیکھنا پوری صفائی سے چھپنا یہ سب کام ضروری تھا کہ اس تھوڑے مدت میں پورے ہوں…۔

غرض یہ ایسی تحریکیں اور دباؤ تھے کہ ایک غیر مامور کو پیس کر سرمہ کر دیتے۔بسا اوقات قوی دل لوگ بھی ایسے موقعوں پر جی چھوڑ کررہ جاتے ہیں اور جدید اور لذیذ مضامین کا پیدا کرنا تو بر کنار موجودہ علم و دانش بھی اُن کے دماغ سےپرواز کر جاتی ہے۔ مگر حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اللہ تعالیٰ کی تائید اور اذن سے 20تاریخ کو تفسیر رسوید سے فراغت کر لی اور کاتب اور مطبع کاکام رہا۔ ‘‘( صفحہ کتاب ہذا3،2)

حضرت سید عبد الکریم صاحب کتاب ’’اعجاز مسیح‘‘کی اشاعت کے بعد کی کیفیت کا ذکر کرتے ہوئے فرماتےہیں ’’کل جمعہ کے دن 22؍فروری کویہاں قابل دید نظارہ تھا جب کہ قدس کے میدانوں میں جولان بھرنے والا اشہپ قلم آپ کا منزل مقصود پر بعافیت و خیرت پہنچ کر آرام سے کھڑا ہو گیا۔ رات کو حضرت مامور علیہ السلام آدھی رات سے زیادہ تک اور پھر اسی افراتفری میں جمے ہوئے اور نکالے ہوئے پروف دیکھتے رہے۔ مطبع کے کارکن رات بھر کام کرتےرہے اور آج 23؍کی صبح کو’’اعجاز المسیح‘‘پورے دو سو صفحوں میں مکمل ہو کر ڈاک کےذریعہ مختلف مقامات میں بھیجا گیا۔ ظہر کی نماز کےوقت جب آپ مسجد میں تشریف لائے آپ کا درخشاں چہرہ جس پر کامیابی اور نصرت حق اور محبوبیت ڈھیروں پھول برسا رہی تھی۔ عشاق کےلئے ایک نورانی مشعل تھا جس کی روشنی میں وہ براہ راست وجہ اللہ کو دیکھتے تھے۔‘‘(صفحہ5)

یہ کتاب 36 صفحات پر مشتمل ہے۔ اور پڑھنے سے تعلق رکھتی ہے۔ کتاب کے آخر میں ’’تکملہ ‘‘کی سرخی کے تحت حضرت عبد الکریم صاحب سیالکوٹیؓ نےبعض لوگوں کی طرف سےکیےجانے والےاس سوال کا جواب دیا ہےکہ حضرت مسیح موعو دعلیہ السلام قرآن کے موعود ہیں یا حدیث کے موعود ہیں؟ اس سوال کے جواب میں آپ نے مدلل طور پر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے قرآن و حدیث کے موعود ہونے کے ثبوت پیش کیے ہیں۔

کتاب کےآخر میں آپ تحریر کرتےہیں کہ بھائیو فضل کا نشان ظاہر ہو گیا اور ضروری تھا کہ ظاہر ہوتا پر دنیا کی تاریک آنکھوں نے ہنوز اُسے نہیں پہچانا۔اٹھو اور اس فضل کی قدر کرو ۔ اللہ تعالیٰ تم سب کےساتھ ہو اور وساوسی خناس سے بچائے۔ آمین۔

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button