اقام الصلوٰۃ کے لئے مسجد کی اہمیت
تقریر جلسہ سالانہ جرمنی2022
اِنَّمَا یَعۡمُرُ مَسٰجِدَ اللّٰہِ مَنۡ اٰمَنَ بِاللّٰہِ وَالۡیَوۡمِ الۡاٰخِرِ وَاَقَامَ الصَّلٰوۃَ وَاٰتَی الزَّکٰوۃَ وَلَمۡ یَخۡشَ اِلَّا اللّٰہَ فَعَسٰۤی اُولٰٓئِکَ اَنۡ یَّکُوۡنُوۡا مِنَ الۡمُہۡتَدِیۡنَ ﴿ سورۃ توبہ آیت 18﴾
اللہ تعالیٰ قرآنِ کریم میں فرماتا ہے۔’’ اللہ کی مساجد تو وہی آباد کرتا ہے جو اللہ پر ایمان لائے اور یومِ آخرت پر اور نماز قائم کرے اور زکوٰۃ دے اور اللہ کے سوا کسی سے خوف نہ کھائے۔ پس قریب ہے کہ یہ لوگ ہدایت یافتہ لوگوں میں شمار کئے جائیں۔‘‘ (التوبہ 18 )
’’اقام الصلوٰۃ ‘‘ عربی زبان میں اس کے معنی ہیں نماز کو اس کی شرائط کے مطابق ادا کرنا۔ صلوٰۃ کے ذکر کے ساتھ اقامت کا لفظ اس لئے لایا گیا ہے تا کہ اس طرف توجہ مبذول کرائی جائے کہ نماز کے حقوق اور شرائط کو پوری طرح ادا کیا جائے نہ کہ صرف ظاہری صورت میں اس کو ادا کر دیا جائے۔
حضرت خلیفة المسیح الاول رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:اَلصَّلٰوةُ۔ وہ خاص نماز جو کہ رسول اللہ ﷺ نے پڑھ کر دکھلائی… صَلٰوة کا لفظ صَلَّی سے نکلا ہے جس کے معنی ہیں کسی لکڑی کو گرم کر کے سیدھا کرنا۔ اور چونکہ نماز سے بھی انسان کی تمام کجی نکل کر وہ سیدھا ہو جاتا ہے اس لئے نماز کو صلوٰة کہتے ہیں۔ وہ کجیاں کیا ہیں فحش اور غیر پسندیدہ امور کی طرف انسان کا میلان۔ ان سے یہ نماز روکتی ہے جیسے فرمایا اِنَّ الصَّلٰوةَ تَنْھٰی عَنِ الْفَحْشَاءِ وَالْمُنْکَرِ۔(العنکبوت:46)(حقائق الفرقان جلد اول صفحہ45)
گویا کہ اقام الصلوۃ سے مراد نماز باجماعت ہی ہے اور اس کی کیا کیفیت ہونی چاہئے اس کی تشریح حضرت مسیح موعود علیہ السلام یوں فرماتے ہیں:ایک مرتبہ میں نے خیال کیا کہ صلوٰة میں اور دعا میں کیا فرق ہے۔ حدیث شریف میں آیا ہے اَلصَّلٰوةُ ھِیَ الدُّعَاءُ۔ اَلصَّلٰوةُ مُخُّ الْعِبَادَةِ۔ یعنی نماز ہی دعا ہے۔ نماز عبادت کا مغز ہے۔
جب انسان کی دعا محض دنیوی امور کے لئے ہو تو اس کا نام صلوٰة نہیں لیکن جب انسان خدا کو ملنا چاہتا ہے اور اس کی رضا کو مد نظر رکھتا ہے اور ادب، انکسار، تواضع اور نہایت محویت کے ساتھ اللہ تعالیٰ کے حضور میں کھڑا ہو کر اس کی رضا کا طالب ہوتا ہے تب وہ صلوٰة میں ہوتا ہے۔۔۔صلوٰة کا لفظ پُر سوز معنے پر دلالت کرتا ہے جیسے آگ سے سوزش پیدا ہوتی ہے ویسے ہی گدازش دعا میں پیدا ہونی چاہیے۔ جب ایسی حالت کو پہنچ جائے جیسے موت کی حالت ہوتی ہے تب اُس کا نام صلوٰة ہوتا ہے۔(ملفوظات جلد چہارم صفحہ283-284مطبوعہ ربوہ جدید ایڈیشن)
حضرات!نماز اسلام کی عمارت کا دوسرا رکن ہے، جس پر اسلام کی عمارت کھڑی ہے، نماز وہ اعلیٰ درجہ کی عبادت ہے جو خداتعالیٰ نے اپنے بندوں پر اپنا خاص فضل کرتے ہوئے نازل کی ہے۔
مندرجہ بالا آیت کی تفسیر کرتے ہوئے حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصر العزیز فرماتے ہیں:’’ اللہ تعالیٰ نے ہمیں یہی بتایا ہے کہ مسجد کی تعمیر کرنے والوں کا مقصد کیا ہونا چاہئے یا وہ کون لوگ ہیں جو مسجد کی تعمیر کا حق ادا کرتے ہیں۔ وہ وہ لوگ ہیں جو اس کی آبادی کی فکر میں رہتے ہیں، اس کو اچھی حالت میں رکھنے کی فکر میں رہتے ہیں، جو اللہ تعالیٰ اور یوم آخرت پر ایمان لانے والے ہیں۔ کہنے کو تو سب کہتے ہیں کہ ہم اللہ تعالیٰ اور یوم آخرت پر ایمان لاتے ہیں لیکن اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اس کا عملی اظہار بھی ضروری ہے اور وہ اس وقت ہی ہو سکتا ہے جب اقام الصلوٰۃ کا عملی نمونہ دکھایا جائے۔
’’اقام الصلوٰۃ کیا ہے؟ اس کا عملی اظہار کس طرح ہوتا ہے یا ہو سکتا ہے؟ اس کا عملی اظہار ایک تو نماز باجماعت کی ادائیگی میں ہے، دوسرے نماز میں اللہ تعالیٰ کی حضوری اور توجہ کو قائم رکھنا ہے۔۔پس نماز کا حقیقی قیام کرنے والے وہ لوگ ہیں جو باجماعت نماز کے عادی ہوں اور اپنی توجہ خالص اللہ تعالیٰ کی طرف رکھتے ہوئے نمازیں پڑھنے والے ہوں، دعا، استغفار اور توجہ سے نماز ادا کرنے والے ہوں۔‘‘
’’ پس مسجد کا تو وہ مقام ہے جہاں تقویٰ پر قائم رہتے ہوئے انصاف کے تقاضے پورے کرتے ہوئے پھراللہ تعالیٰ کے فضلوں کو سمیٹنے کے لئے اس کے آگے جھکنے کے لئے آیا جاتا ہے۔ مسجد کا لفظ سَجَدَ سے نکلا ہے۔ جس کا مطلب ہے عاجزی انکساری اور فرمانبرداری کی انتہا۔ پس مسجد تو یہ اعلیٰ اخلاق پیدا کرنے والی جگہ ہے اور اس آیت میں یہی حکم ہے کہ جب نماز کا وقت آئے تو مسجد میں جمع ہو کر، ایک ہو کر اللہ تعالیٰ کے حضور جھکتے ہوئے اپنی کم مائیگی کا اظہار کرتے ہوئے اس کو پکارو کہ تو ہی ہے جو ہمیں سیدھے راستے پر چلانے والا ہے۔ ہمارے اندر سجدے کی حقیقی روح پیدا کرنے والا ہے….. فرمایا وَاَقِیْمُوا الصَّلٰوۃَ (البقرۃ: 44) کہ نماز کو قائم کرو اور نماز کا قائم کرنا یہی ہے کہ مسجد میں جا کر باجماعت نماز ادا کی جائے او ریہی نمازوں کی ادائیگی کا حقیقی حق ہے۔…….‘‘
(مساجد کی اہمیت۔ مسجد نور فرینکفرٹ (جرمنی)۔ خطبہ جمعہ 18؍ دسمبر 2009ء – جماعت احمدیہ مسلمہ عالمگیر)
حضرات! انسان کی تخلیق کی علت غائی خدا تعالیٰ کی عبادت ہے جسکے اکمل واتم مظہر اول ہمارے آقاو مولیٰ حضرت محمدمصطفیﷺ ہیں۔یقینا آپ عبادت کے معراج پر جلوہ افروز تھے۔یقینا ًآپ نے عبادت کا حق ادا کر دیا۔زندگی کی تمام کیفیات کو عبادت اور ذکر الٰہی کے ساتھ باندھ دیا۔ وضو کرتے ہیں یا نماز پڑھتے ہیں،مسجد میں داخل ہو تے ہیں یا مسجد سے باہر نکلتے ہیں غرضیکہ ہر وقت ذکر الٰہی میں مصروف رہتے۔آپﷺکا ہر ذرہ خدا کے نور سے منور تھا۔کبھی رات کی تنہائیوں میں، گھر کے صحن میں سجدہ ریز ہیں،تو کبھی مسجد میں۔ الغرض زندگی کی ساری کیفیات کو نماز کے ساتھ ایسا باندھ دیا کہ نماز آپکی رگ و ریشہ میں سرایت کر گئی۔ جس قدر خدا تعالیٰ کی بندگی بجا لاتے اتنی ہی آپکی آتش شوق تیز ہوتی۔
آنحضرت ﷺ کی بعثت کا مقصد ہی یہ تھا کہ انسانوں کو آداب سکھائیں اور پھر ترقی دے کر اعلیٰ اخلاق اور پھر اعلیٰ اخلاق میں محبتِ الٰہی کے رنگ بھر کر اللہ تعالیٰ کے قرب کی راہوں پر ڈال دیں اتنا قریب کہ خدا کی رضا ان کی رضا ہو جائے۔
اس مقصد کو حاصل کرنے کے لئے آپؐ نے قبا کے قیام کے اگلے ہی دن یعنی21 ستمبر 622ء بمطابق9ربیع الاول 1 ہجری کومسجد قبا کا سنگِ بنیاد رکھا۔یہ زمین پر پہلی مسجد تھی جس کا سنگِ بنیاد رسول کریم ﷺ نے اپنے مبار ک ہاتھوں سے رکھا۔نبیﷺ ہر ہفتے پیدل یا سوار ہو کر مسجد قبا آتے تھے۔
مکہ مکرمہ سے ہجرت کے بعد آپؐ نےسب سے پہلے مسجد تعمیر کر کے دشمنانِ اسلام کو یہ پیغام دیا کہ تم تو مجھے اور میرے صحابہ کوخدا کے گھر میں سجدہ ریز ہونے سے روکتے تھے اب دیکھو خدا تعالیٰ نے میرے ہاتھ سے مساجد کی تعمیر اور ان کی آبادی کا وہ سلسلہ شروع کر دیا ہے جو قیامت تک جاری رہے گا اور مومنوں کی جماعت کو بھی یہ سبق دیا کہ تمہاری تمام ترقیات کا منبع مسجد ہی ہے۔ہمیں بھی اس سبق کو یاد رکھنا ہے کہ جو بھی مسجدوں سے وابستہ ہو گا اسے آنحضرتﷺ اور صحابہ ؓ کی راہوں پر چلتے ہوئے دین و دنیا کے تمام اعلیٰ مقامات نصیب ہوسکتے ہیں جن کی طرف صحابہؓ نے اپنے عملی نمونے سے ہماری رہنمائی فرمائی ہے۔
مسجد میں نماز ادا کرنے کی اہمیت ہمارے آقا و مولا حضرت اقدس محمد مصطفیٰ ﷺ نے یوں بیان فرمائی ہے کہ حضرت ابو ہریرہؓ نبی کریم ﷺ سے روا یت کرتے ہیں کہ آپؐ نے فرمایا جماعت کی نماز، اپنے گھر کی نماز اور اپنے بازار کی نماز پر پچیس درجے(ثواب فضلیت) زیادہ رکھتی ہے۔
حضرت ابوہریرہ ؓ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا اللہ تعالیٰ کے نزدیک شہروں کی پسندیدہ جگہیں ان کی مساجد اور شہروں کی ناپسندیدہ جگہیں ان کےبازارہیں۔ (مسلم ،کتاب المساجد، باب فضل الجلوس فی مصلاہ بعد الصبح و فضل المساجد)
لیکن آج کل آپ دیکھیں کہ جو ناپسندیدہ جگہیں ہیں ان میں لوگ زیادہ بیٹھتے ہیں اور مساجد جو اللہ تعالیٰ کے نزدیک سب سے زیادہ پسندیدہ جگہیں ہیں ان میں کم بیٹھا جاتاہے، اس طرف توجہ کم ہے۔تو اللہ تعالیٰ کے فضلوں کو حاصل کرنے کے لئے ہر احمدی کو اس بات کا بہت زیادہ خیال رکھنا چاہئے کہ اپنی مساجد کو آباد کریں۔
حضرت برادہ الاسلمیؓ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریمﷺ نے فرمایا کہ:اندھیروں کے دوران مسجدوں کی طرف بکثرت چل کر جانے والوں کو قیامت کے روز نور تام عطا ہونے کی بشارت دے دو۔تو اس سے ایک یہ بھی مراد ہے کہ خاص طور پر جب دنیاداری کا زمانہ ہو گا، اس وقت مسجدیں آباد کرنے والوں کو مکمل نور عطا ہوگا اور اس کی بشارت دی گئی ہے۔
پھر حضرت ابوسعید ؓبیان کرتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایاکہ جب تم کسی شخص کو مسجد میں عبادت کے لئے آتے جاتے دیکھو تو تم اس کے مومن ہونے کی گواہی دو (اس لئے کہ )اللہ تعالیٰ فرماتاہے ’’اللہ کی مساجد کو وہی لوگ آباد کرتے ہیں جو خدا اور آخرت کے دن پرایمان رکھتے ہیں ‘‘۔ (ترمذی کتاب التفسیر۔ تفسیر سورۃ التوبہ)
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’کیا میں آپ کو وہ عمل نہ بتاؤں جس کے کرنے سے اللہ تعالیٰ خطاؤں کو مٹا دیتا ہے اور درجات کو بلند فرماتا ہے‘‘۔ فرمایا وہ یہ ہے کہ :’’جی نہ چاہتے ہوئے بھی کامل وضو کرنا، اور مسجد کی طرف زیادہ چل کر جانا، نیز ایک نماز کے بعد دوسری نماز کا انتظار کرنا۔ یہ رِباط ہے، یہ رِباط ہے، یہ رِباط ہے (سرحدوں پر گھوڑے باندھنایعنی تیاریٔ جہاد)‘‘۔ (سنن النسائی، کتاب الطہارۃ، باب الامر باسباغ الوضوء)
حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرماتے ہیں:’’تو یہ ہر مومن کا فرض ہے کہ اپنی روحانی سرحدوں کی حفاظت کرے کیونکہ جب سب مل کر اس طرح سرحدوں کی حفاظت کریں گے اور مسجدوں میں آئیں گے اور مسجدوں کو آباد کریں گے توپھر کوئی دشمن نہیں جو کبھی ہمیں نقصان پہنچا سکے۔ انشاء اللہ۔ او ر آپﷺ ہمیں یہ خوشخبری دے رہے ہیں کہ اس طرح کروگے تو ہمیشہ محفوظ رہو گے، ہر دشمن سے بچے رہو گے۔‘‘ (خطبہ جمعہ 26؍ ستمبر 2003ء)
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ نے فرمایا :’’ تم میں سے جب کوئی اچھی طرح وضو کرے اور مسجد میں محض نماز کی خاطر آئے تووہ کوئی قدم نہیں اٹھاتا مگر اللہ تعالیٰ اس کے ہر قدم کے بدلہ میں اس کی ایک خطا معاف کر دیتاہے اور اس کا ایک درجہ بلند فرما تا جاتاہے، یہاں تک کہ وہ مسجد میں داخل ہو جائے۔ اور جب وہ مسجد میں آ جاتاہے تو جب تک نماز کے لئے وہاں رُکا ہے نماز ہی میں شمار ہوگا۔ اس کے لئے ملائکہ دعا کرتے رہتے ہیں کہاَللّٰھُمَّ اغْفِرْلَہٗ اَللّٰھُمَّ ارْحَمْہُ یہ حالت اس وقت تک رہتی ہے جب تک کہ وہ کسی اور کام یا بات میں مصروف نہیں ہوتا۔ (صحیح بخاری۔ کتاب الصلوۃ باب الصلوۃ فی المسجد)
حضرات ! ہمارے آقا و مولی حضرت اقدس محمد مصطفیٰ ﷺ کو مسجد سے جہاں بے انتہا محبت تھی وہاں مسجد کا خیال رکھنے والوں سے بھی آپ کی محبت کا اندازہ مسجد بنوی کی صفائی کرنے والی خاتون کی وفات کا واقعہ دیکھ کر لگائیں کہ جب آپؐ کو علم ہوا توآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس عورت پر نماز جنازہ پڑھی اور فرمایا میں نے اس عورت کو مسجد سے کوڑا کرکٹ اٹھانے کی وجہ سے جنت میں دیکھا ہے۔
سامعینِ کرام!یہ آپؐ کی مسجد کے ساتھ عظیم الشان محبت کی ہی تو نشانی ہے کہ اللہ کے گھر سے پیار کرنے والے ہی اصل میں آپؐ کے پیارے تھے۔اگر ہم بھی مسجدوں کو صاف ستھرا اور آباد کریں گے تو ضرور بضرور اللہ اور اس کے رسولﷺ کے پیارے اور خلیفۂ وقت کی دلی دعاؤں کے وارث بن جائیں گے۔
جب ہم آنحضرتﷺ کے صحابہ کی زندگیوں کو دیکھتے ہیں تو یوں معلوم ہوتا ہے کہ ان کی روح کی غذا ہی نماز باجماعت تھی، جس طرح مچھلی پانی کے بغیر تڑپتی اور بے چین ہو جاتی ہے بعینہ اسی طرح نماز باجماعت ادا کرنے کے لئےصحابہ بےچین رہتے۔ جیسے لوہا مقناطیس کی طرف کھینچا چلا جاتا ہے۔ ایسے ہی صحابہ مسجد کی طرف دوڑے چلے جاتے تھے۔ ان کی سوچ، خواہشات کا محورہی مسجدیں تھیں۔
’’صحابہ کرام کو نماز با جماعت کا اس قدرخیال رہا کرتا تھا کہ حضرت عتبان بن مالک ایک صحابی تھے۔ جو نابینا تھے۔ ان کا مکان قباء کے قریب تھا۔ مسجد اور ان کے مکان کے درمیان ایک وادی تھی۔ بارش ہوتی تو اس میں پانی بھر جاتا تھا مگر باوجود اس کے وہ مسجد میں باقاعدہ حاضر ہوتے اور نماز با جماعت ادا کرتے تھے۔
حضرت سعید بن ربوح نابینا تھے لیکن صحابہ کے نزدیک نماز با جماعت اس قدر ضروری تھی کہ حضرت عمر نے ان کے لیے ایک غلام کی ڈیوٹی لگا رکھی تھی کہ نماز کے وقت ان کو مسجد لایا اور پھر واپس گھر پہنچایا کرے۔
حضرت معاذ اپنی قوم کے امام الصلوۃ تھے مگرنماز کا اس قدر شوق تھا کہ پہلے مسجد نبوی میں حاضر ہوکر آنحضرتﷺ کے ساتھ نماز ادا کرتے تھے۔ اور پھراپنی قوم میں آکر انہیں نماز پڑھاتے تھے۔
حضرت سفیان ثوری روایت کرتے ہیں صحابہ کرام خرید و فروخت تو کیا کرتے تھے لیکن نماز با جماعت کبھی نہ چھوڑتے۔ حضرت عبداللہ بن عمر فرماتے ہیں کہ ایک بار میں بازار میں تھا کہ نماز کا وقت آگیا۔ صحابہ فوراً اپنی دکانیں اورکاروبار بند کر کے مسجد کی طرف چل دئیے۔ رِجَالٌ لَاتُلْھِیْھِمْ تِجَارَۃٌ وَلَا بَیْعٌ عَنْ ذِکْرِ اللّٰہِ یعنی صحابہ ایسے لوگ ہیں جن کو تجارت کے کاروبار خداتعالیٰ کی یادسے نہیں روکتے۔
نماز باجماعت کا صحابہ اس قدر خیال رکھتے تھے کہ سخت مجبوری اور معذوری کی حالت میں بھی اسے چھوڑنا گوارا نہ کرسکتے تھے۔ حتی کہ بعض بیمار اور معذور دو آدمیوں کے کندھوں پر سہارا لے کر جماعت میں شریک ہونے کے لیے مسجد آتے تھے۔‘‘ (مسلم نوجوانوں کے سنہری کارنامے صفحہ 128 – 129 )
حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ’’جو شخص اسلام کی حالت میں اللہ تعالیٰ سے ملاقات کرنا چاہتا ہے تو وہ مسجد میں نماز با جماعت کا اہتمام کرےکیونکہ اللہ تعالیٰ نے تمہارے نبیﷺ کےلیے ہدایت کے طور طریقے مقرر کیے ہیں اور یہ بھی انہی میں سے ایک ہے۔ اگر تم نمازیں گھروں میں ایسے پڑھو جیسے پیچھے رہنے والا گھر میں پڑھتا ہے، تو تم اپنے نبی کی سنت کو ترک کر دو گے، اور اگر تم نے اپنے نبی کی سنت کو ترک کر دیا تو تم گمراہ ہو جاؤ گے۔ ‘‘( صحیح مسلم)
حضرت مصلح موعودؓ فرماتے ہیں۔
’’جو لوگ گھروں میں نماز پڑھنے کے عادی ہوتے ہیں وہ آہستہ آہستہ نماز پڑھنا بالکل چھوڑ دیتے ہیں۔چناچہ میں نے آج تک کبھی نہیں دیکھا کہ گھر پر نماز پڑھنے والاکوئی شخص ہمیشہ نماز کا پابند رہا ہووہ بالآخر نماز کا تارک ہی ہو جاتا ہےکیونکہ اس کی نماز رسمی ہوتی ہے،محبت اور ایمانی روح اس میں نہیں ہوتی۔‘‘(خطباتِ محمود،ص235،سال 1939 ء)
ایک جگہ فرمایا کہ مسجد میں پندرہ منٹ میں پڑھی ہوئی نماز، گھر میں ایک گھنٹے میں پڑھی ہوئی نماز سے بہتر اور زیادہ خیر و برکت کا موجب ہے۔نیز ایک جگہ فرمایا کہ اگر تم خدا کے گھر کو آباد رکھو گے تو خدا تعالیٰ بھی تمہارے گھروں کی آبادی کا ضامن بن جائے گا۔
حضرت مصلح موعودؓ فرماتے ہیں۔’’یہ کس طرح ہو سکتا ہے کہ ایک قوم خداتعالیٰ کے گھر دنیا میں بنا رہی ہو، ایک قوم خداتعالیٰ کے گھروں کو آباد کرنے کی کوشش کر رہی ہو اور صبح شام ان میں نمازیں پڑھتی اور انہیں آباد رکھتی ہو اور خدا اس قوم کے گھروں کو ویران کر دے۔‘‘(خطبات محمود،ص 149،1952 ء)
مسجد پرہیز گاروں کا گھر ہے۔ حضرت ابوالدرداءؓ نے اپنے بیٹے کو نصیحت کرتے ہوئے فرمایا کہ’’اے میرے بیٹے! مسجد تمہارا گھر ہونا چاہیے کیونکہ میں نے رسول اللہﷺ سے سنا ہے کہ مسجدیں پرہیز گاروں کا گھر ہیں، جس کا گھر مسجد ہو اللہ تعالیٰ اس کی راحت ورحمت کا اور پل صراط سے جنت کی طرف اس کے گزرنے کا ذمہ دار ہے۔ ‘‘(المصنف لابن ابی شیبہ)
یہ حدیث ہمیں بتلاتی ہے کہ ہمارے عائلی مسائل، معاشی مسائل،نفسیاتی بیماریوں اور بڑھتے ہوئے ڈپریشن،اس کا اصل حل اور علاج مساجد کے ساتھ زندہ تعلق قائم کرنے میں ہے۔اسی طرح جو لوگ کسی شخص کی معمولی رنجش کی وجہ سے مسجد میں آنا چھوڑ دیتے ہیں وہ اپنا اور اپنے بچوں کا بہت بڑا نقصان کرتے ہیں۔کیونکہ وہ اپنا تعلق اللہ کے گھر سے منقطع کر کے دائمی راحت اور رحمت کو کھو دیتے ہیں۔
مسجد سے تعلق رکھنے والے کا خصوصی اعزازہے۔ ارشاد نبویﷺ ہے:’’قیامت کے دن اللہ تعالیٰ انہیں اپنے خصوصی سائے میں رکھے گا جس دن اس کے سائے کے علاوہ کوئی سایہ نہیں ہوگا۔ ان میں سے ایک وہ شخص ہے جس کا دل مسجد میں لگا رہتا ہے جب وہ مسجد سے نکلتا ہے یہاں تک کہ وہ دوبارہ مسجد میں چلاجائے۔ ‘‘(صحیح بخاری-کتاب المساجد)
حضرت مصلح موعودؓ قیس کی لیلی کے کتے سے پیار کی مثال دے کر بتاتے ہیں کہ جب دنیا کی محبوتوں میں کسی سے پیار ہو تو اس کی ہر چیز سے پیار ہو جاتا ہے۔اسی طرح ایک مومن جو اللہ تعالیٰ سے محبت اور عشق کا دعویدار ہے وہ یہ دیکھتا ہے کہ مسجد ہمارےگھروں کی طرح بظاہر اینٹوں، چونا،گارے،لکڑی کی بنی ہوئی چیز ہے )’’ لیکن ایک مومن جس وقت مسجد میں جاتا ہےتو یہ اینٹ،گارا،چونا،لکڑی اس کے دل سے غائب ہو جاتا ہےاور اسے یہ نظر آتا ہے کہ اس گھر میں پانچ وقت میرا خدا اترا کرتا ہے،میرا آقا اس جگہ پانچ وقت آیا کرتا ہے۔۔۔میں اس جگہ آ گیا ہوں جہاں لوگ خدا کو دیکھا کرتے ہیں،شائد کسی دن میری بھی خداتعالیٰ کو دیکھنے کی باری آ جائے۔‘‘(خطباتِ محمود،ص 12،سال 1954 ء)
حضرات! عرب میں شدت کی گرمی پڑتی ہے اور نماز ظہر اس وقت ادا کی جاتی تھی جب سورج کی تمازت پورے جوبن پر ہوتی۔ اسلام کا ابتدائی زمانہ تھا اور مسلمانوں کی غربت کا یہ عالم تھا کہ مسجد پر چھت تک نہ تھی۔ پتھریلی زمین توے کی طرح تپ جاتی تھی۔ صحابہ کرام اسی زمین پر نماز پڑھنے کے لیے بڑے شوق کے ساتھ جمع ہوتے تھے۔ کنکریاں اٹھا کر ان پر پھونکیں مار مار کر پہلے ان کو ٹھنڈا کرتے اور پھر سجدہ کی جگہ پر رکھ لیتے اور ان پر سجدہ کرتے تھے۔ حضرت زید بن ثابت سے روایت ہے کہ نماز ظہر سے زیادہ کوئی نماز ہم پر مشکل نہ تھی لیکن پھر بھی اس میں غفلت نہ ہوتی تھی۔
مسجد نبوی کے ایک کونے میں ایک چبوترا بنایا گیا تھا یہ غریب مہاجرین کے لئے سر چھپانے کی جگہ تھی، چبوترے کو عربی میں صفہ کہتے ہیں اس پر رہنے والے اصحاب الصفہ کہلائے۔ یہ صحابہ مسجد نبوی کی رونق تھے اس کوآباد کرنے والے، آنحضورؐ کی اقتدا میں نماز باجماعت ادا کرنے والے تھے۔انہی میں حضرت ابوہریرہؓ بھی کچھ عرصہ رہے۔
’’ ایک یورپین مصنف مدینہ کی اس حالت کو دیکھ کر ایسا متاثر ہوا کہ وہ اپنی کتاب میں لکھتا ہے کہ تم کچھ کہہ لو محمدﷺ اور اس کے ساتھیوں کو۔لیکن میں تو جب یہ بات دیکھتا ہوں کہ مدینہ میں ایک چھوٹی سی مسجد میں جس پر کھجوروں کی ٹہنیوں کی چھت پڑی ہوئی ہے جب بارش ہوتی ہے تو اس میں سے پانی ٹپک پڑتا ہے نماز پڑھتے ہیں تو ان لوگوں کے گھٹنے اور ماتھے کیچڑ سے لت پت ہو جاتے ہیں اس مسجد کی ننگی زمین پر بیٹھے ہوئے۔…مشورہ کر رہے ہیں… کہ گویا دنیا کو فتح کرنا ان کے لئے معمولی بات ہے۔‘‘ (تفسیر کبیر جلس ہشتم صفحہ 48 )
سامعینِ کرام ! غور کریں کہ یہ غریب صحابہ واقعۃ دنیا کو فتح کر جاتے ہیں یہ مصنف اس حیرت کا اظہار کرتا ہے کہ یہ معجزہ کیسے رونما ہو ا۔حضرت مصلح موعودؓ فرماتے ہیں کہ ہمیں اور ہماری اولادوں کو یہ بات یاد رکھنی چاہیئے کہ یہ مسجد سے مستقل تعلق پیدا کرنے اور اس میں باجماعت نمازیں ادا کرنے کی برکت ہی تو تھی کہ صحابہ کو وہ صفات عطا کی گئیں کہ ساری دنیا کے فاتح اور استاد بنا دئے گئے اور ہمیں بھی چاہئے کہ ہمیشہ اس سبق کو یاد رکھیں کہ اللہ کا گھر رزق میں، صحت میں، عمر میں، عزت و توقیر میں غرضیکہ مومن جو اللہ کے گھر سے مضبوط تعلق پیدا کر لیتا ہے۔ اس کی زندگی کے ہر لمحے کو خیر و برکت عطا فرماتا چلا جاتا ہے۔اور اس میں مانگی ہوئی دعائیں کی برکتوں سے وہ خود بھی اوراس کی نسلیں بھی فائدہ اٹھاتی ہیں۔ آج کے اس دَور میں جب کہ کورونا وائرس جیسی خطرناک وبا پھیلی ہوئی ہے تو مساجد کی اہمیت کو گھروں میں اجاگر کیا جانا چاہیئے۔ مساجد مسلمانوں کی ایمانی زندگی کے لیے اسی طرح ہیں جس طرح مچھلی کے لیے پانی۔
’’ نماز سے بڑھ کر اور کوئی وظیفہ نہیں ہے کیونکہ اس میں حمد الٰہی ہے استغفار ہے، درود شریف۔ تمام وظائف اور اوراد کا مجموعہ یہی نماز ہے‘‘۔ (ملفوظات جلد سوم صفحہ311-310 الحکم31مئی1903)
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں :’’ نماز خدا کا حق ہے اسے خوب ادا کرو اور خدا کے دشمن سے مداہنہ کی زندگی نہ برتو۔ وفا اور صدق کا خیال رکھو۔ اگر سارا گھر غارت ہوتا ہو تو ہونے دو مگر نماز کو ترک مت کرو۔ وہ کافر اور منافق ہیں جو کہ نماز کو منحوس کہتے ہیں اور کہا کرتے ہیں کہ نماز کے شروع کرنے سے ہمارا فلاں فلاں نقصان ہوا ہے۔ نماز ہر گز خدا کے غضب کا ذریعہ نہیں ہے۔ جو اسے منحوس کہتے ہیں۔ ان کے اندر خود زہر ہے جیسے بیمار کو شیرینی کڑوی لگتی ہے ویسے ہی ان کو نماز کا مزہ نہیں آتا۔ یہ دین کو درست کرتی ہے۔ اخلاق کو درست کرتی ہے۔ دنیا کو درست کرتی ہے۔ نماز کا مزا دنیا کے ہر ایک مزے پر غالب ہے(ملفوظات جلد 3 صفحہ592`591 مطبوعہ ربوہ)
حضرت اقدس محمد مصطفیٰ ﷺ نے اس زمانے کے متعلق ایک پیش گوئی فرمائی تھی:حضرت علیؓ سے روایت ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ عنقریب ایسا زمانہ آئے گا کہ نام کے سوا اسلام کا کچھ باقی نہ رہے گا، الفاظ کے سوا قرآن کا کچھ باقی نہیں رہے گا۔ اس زمانے کے لوگوں کی مسجدیں بظاہر تو آباد نظر آئیں گی۔ لیکن ہدایت سے خالی ہوں گیمَسَاجِدُھُمْ عَامِرَۃٌ وَھِیَ خَرَابٌ مِّنَ الْھُدٰی۔ (مشکوٰۃ المصابیح۔ کتاب العلم الفصل الثالث۔ حدیث نمبر۲۷۶)
اس پیشگوئی کے الفاظ ہی بتاتے ہیں کہ اس دور میں حقیقی رنگ میں مساجد کی تعمیر اور ان کی آبادی آپؐ کے عاشق صادق حضرت مرزا غلام احمد صاحب قادیانی مسیح موعود و امام مہدی علیہ السلام کے ذریعہ ہی ہونی تھی۔ حضرت مسیح موعودؑ کی ساری زندگی مساجد سے محبت اور انہیں عبادت سے سنوارنے کا بہترین نمونہ ہے۔آپؑ کو بچپن ہی سےمسجد سے غیر معمولی محبت تھی۔ ایک بڑے رئیس کے استفسار پر آپ کے والد محترم نے فرمایا’’اگر اسے دیکھنا ہو تو مسجد کے کسی گوشے میں جا کر دیکھ لیں…اکثر مسجد میں ہی رہتا ہےاور دنیا کے کاموں میں اسے کوئی دلچسپی نہیں‘‘۔ آپ ؑ کی جوانی اور بڑھاپا بھی اسی نمونے کا گواہ ہے۔
آپؑ کی قوتِ قدسی نے جو نبی کریمﷺ کے عشاق صحابہ کی جماعت پیدا فرمائی جنہیں شرائط بیعت کے یہ الفاظ بھی سکھائے کہ’’یہ کہ بلا ناغہ پنج وقتہ نماز موافق حکم خدا اور رسول ادا کرتا رہے گا۔‘‘ اور جن کی اولاد ہونے پر ہم دنیا میں فخر سے اپنے سر اونچے کر کے چلتے ہیں ان صحابہ اور بزرگانِ جماعت کے چند قابلِ تقلید نمونے اس غرض سے آپ کی خدمت میں رکھتا ہوں کہ دین و نیا کی سرخروئی انہی پر عمل کرنے سے ہے۔
حضرت خلیفۃ المسیح الاولؓ فرماتے ہیں:میں تمہیں مختصر نصیحت کرتا ہوں بعض لوگ ہیں جو نماز میں کسل کرتے ہیں اور یہ کئی قسم کی ہے۔
1۔ وقت پر نہیں پہنچتے۔ 2۔ جماعت کے ساتھ نہیں پڑھتے۔ 3۔ سُنن اور واجب کا خیال نہیں کرتے۔ کان کھول کر سنو جو نماز کا مُضَیع ہے اس کا کوئی کام دنیا میں ٹھیک نہیں۔(خطبات نورجلد2صفحہ98`97)
آپؓ کی جوانی کی ایک مثال یہ ہے کہ حضرت خلیفۃ المسیح الاولؓ تعلیم حاصل کرنے کے لئے مدینہ منورہ میں مقیم تھے کہ ایک دن کسی وجہ سے ظہر کی نماز باجماعت آپ کو نہ مل سکی۔آپ کو شدید رنج ہوا…مسجد کے دروازےپر ایک آیت لکھی دیکھی جس کا مطلب یہ تھا کہ اے خدا کے بندو !اگر تم کوئی گناہ کر بیٹھو تو اللہ کی رحمت سے مایوس نہ ہوا کرو۔پھر بھی آپ نے نماز میں گڑگڑا کر یہ دعا مانگی۔یا الٰہی ! میرا یہ قصور معاف فرمادے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ نماز باجماعت کتنی ضروری چیز ہے اور آپ اس کے کتنے پابند تھے۔
حضرت حافظ معین الدین صاحب ؓصحابی حضرت مسیح موعود ؑنابینا تھے مگر ہر حال میں نماز کے لیے اول وقت میں پہنچتے۔بارش ہو، آندھی ہو، کڑکڑاتا جاڑا ہو، تیز دھوپ ہو، وہ اول وقت پر پہنچتے۔ اذان بلند کرتے اور اول صف میں جگہ پاتے۔ حتی الوسع اس مقام پرکھڑے ہوتے کہ حضرت مسیح موعودؑ کے ساتھ ہی جگہ ملے۔(اصحاب احمد جلد 13صفحہ290)
حضرت میر ناصر نواب صاحبؓ نماز باجماعت کے ایسے پابند تھے کہ آخری عمر میں جب کہ چلنا پھرنا مشکل ہو گیا تھا آپ نماز باجماعت پڑھتے تھے اور کبھی اس میں ناغہ نہیں ہوتا تھا۔مسجد مبارک سے دُور دارالعلوم میں رہتے تھے مگر نمازوں میں شمولیت کے لیے وہاں سے چل کر آتے تھے۔(حیات ناصر صفحہ24از حضرت یعقوب علی عرفانی صاحبؓ)
مکرم شیخ فضل احمد صاحب بٹالوی حضرت مولانا شیر علی صاحب ؓکے بارہ میں لکھتے ہیں:
’’ایک دفعہ مجھے مولوی شیرعلی صاحبؓ کی رفاقت میں نماز کے لئے مسجد مبارک میں جانے کا موقع ملا۔ جب ہم وہاں پہنچے تو نماز ختم ہو چکی تھی۔ چنانچہ آپ مجھے اپنے ہمراہ لئے مسجد اقصیٰ تشریف لے گئے لیکن وہاں بھی اتفاق سے نماز ختم ہو چکی تھی۔ اب حضرت مولوی صاحب مجھے ساتھ لے کر مسجد فضل (جو ارائیاں محلہ میں تھی) کی طرف چل پڑے۔ وہاں پہنچے تو نماز کھڑی تھی۔ چنانچہ ہم نے نماز باجماعت اد اکی۔ اس طرح مجھے حضرت مولوی صاحب کے نماز باجماعت ادا کرنے کے شوق سے روحانی طور پر ایک خاص لذت محسوس ہوئی ا ور یہ سبق بھی کہ حتی الامکان نماز باجماعت ادا کی جائے‘‘(سیرت حضرت مولانا شیر علی ؓ صفحہ263)
حضرت مولانا سید محمد سرور شاہ صاحب کی ادائیگی نماز باجماعت کا تذکرہ مولوی سلیم اللہ صاحب یوں کرتے ہیں:مجھے 1911ء سے 1927ء تک قادیان میں قیام کاموقع ملا۔آپ کی شاگردی کا شرف بھی حاصل کیا۔ آپ کو نماز باجماعت کا جس قدر احساس تھا وہ اس واقعہ سے ظاہر ہے کہ آپ کی صاحبزادی حلیمہ بیگم نزع کی حالت میں تھیں کہ اذان نماز ہو گئی۔ آپ نے بچی کا ماتھا چوما اور سر پرہاتھ پھیرا اور اسے سپرد خدا کر کے مسجد چلے گئے۔ بعد نماز جلدی سے اٹھ کر واپس آنے لگے تو کسی نے ایسی جلدی کی وجہ دریافت کی تو فرمایا کہ نزع کی حالت میں بچی کو چھوڑ آیا تھا اب فوت ہو چکی ہو گی اس کے کفن دفن کا انتظام کرنا ہے۔ چنانچہ بعض دوسرے دوست بھی گھر تک ساتھ آئے اور بچی وفات پا چکی تھی۔(اصحاب احمد جلد 5حصہ سوم صفحہ82طبع اول 1964ء)
حضرت مصلح موعودؓ بیان فرماتے ہیں کہ ’’میرے نزدیک ان ماں باپ سے بڑھ کر کوئی دشمن نہیں جو بچوں کو نماز باجماعت ادا کرنے کی عادت نہیں ڈالتے۔ مجھے اپنا ایک واقعہ یاد ہے کہ ایک دفعہ حضرت صاحب (حضرت مسیح موعود علیہ السلام) کچھ بیمار تھے اس لئے جمعہ کے لئے مسجد میں نہ جا سکے۔ مَیں اس وقت بالغ نہیں ہوا تھا کہ بلوغت والے احکام مجھ پر جاری ہوں۔ (چھوٹا تھا۔ بچہ تھا۔) تاہم مَیں جمعہ پڑھنے کے لئے مسجد کو آ رہا تھا کہ ایک شخص مجھے ملا…مَیں نے ان سے پوچھا۔ آپ واپس آ رہے ہیں۔ کیا نماز ہو گئی ہے؟ تو انہوں نے کہا۔ آدمی بہت ہیں۔ مسجد میں جگہ نہیں تھی۔ مَیں واپس آ گیا۔ میں بھی یہ جواب سن کر واپس آ گیا اور گھر میں آ کر نماز پڑھ لی۔ حضرت صاحب نے یہ دیکھ کر مجھ سے پوچھا مسجد میں نماز پڑھنے کیوں نہیں گئے؟…مَیں نے دیکھا کہ آپ کے پوچھنے میں ایک سختی تھی اور آپ کے چہرہ سے غصہ ظاہر ہوتا تھا۔ آپ کے اس رنگ میں پوچھنے کا مجھ پر بہت اثر ہوا۔ جواب میں مَیں نے کہا کہ میں گیا تو تھا لیکن جگہ نہ ہونے کی وجہ سے واپس آ گیا۔ آپ یہ سن کر خاموش ہو گئے۔ لیکن جس وقت جمعہ پڑھ کر مولوی عبدالکریم صاحب آپ کی طبیعت کا حال پوچھنے کے لئے آئے تو سب سے پہلی بات جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے آپ سے دریافت کی وہ یہ تھی کہ کیا آج لوگ مسجد میں زیادہ تھے؟ اس وقت میرے دل میں سخت گھبراہٹ پیدا ہوئی…مولوی عبدالکریم صاحب نے جواب دیا کہ ہاں حضور! آج واقعہ میں بہت لوگ تھے۔ میں اب بھی نہیں جانتا کہ اصلیت کیا تھی۔ خدا نے میری بریّت کے لئے یہ سامان کر دیا کہ مولوی صاحب کی زبان سے بھی اس کی تصدیق کرا دی یا فی الواقعہ اس دن غیرمعمولی طور پر زیادہ لوگ آئے تھے۔ بہر حال یہ ایک واقعہ ہوا ہے جس کا آج تک میرے قلب پر گہرا اثر ہے۔ اس سے معلوم ہو سکتا ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو نماز باجماعت کا کتنا خیال رہتا تھا‘‘۔ (ماخوذ از خطبات محمود جلد 9صفحہ 163-164)
حضرت چودھری محمد ظفر اللہ خان صاحب ؓ ہمیشہ مسجد میں نماز باجماعت ادا کرتے تھے آپ کا پاکیزہ نمونہ ہمیں یہ بتاتا ہے کہ مسجد مومنوں کے لئے دین و دینا دونوں کے لئے عظیم الشان ترقیات کا باعث بنتی ہے۔
ایک دفعہ ایک نوجوان نے حضرت چودھری محمد ظفر اللہ خان صاحبؓ سے کہا کہ یورپ میں فجر کی نماز اپنے وقت پر ادا کرنا بہت مشکل ہے۔ آپ نے فرمایا اگرچہ مجھے اپنی مثال پیش کرتے ہوئے سخت حجاب ہوتا ہے لیکن … بتاتا ہوں کہ خدا کے فضل سے نصف صدی کا عرصہ یورپ میں گزارنے کے باوجود فجر تو فجر میں نے کبھی نماز تہجد بھی قضا نہیں کی۔ یہی حال باقی پانچ نمازوں کا ہے۔(ماہنامہ خالد ربوہ دسمبر 1985ء صفحہ89)
ڈاکٹر عبدالسلام صاحب بیسویں صدی کے عظیم موحد سائنسدان تھے۔ بے پناہ مصروفیات کے باوجود نماز اور دیگر دینی شعار کے پابند تھے۔ نوبل انعام کی اطلاع ملنے پر سب سے پہلے مسجدفضل لندن میں نوافل ادا کیے۔ لندن میں جمعہ کے رو ز اول وقت مسجد میں تشریف لاتے اور پہلی صف میں امام کے عین پیچھے بیٹھتے۔اٹلی کے سنٹر میں نماز جمعہ کی امامت خود کرتے تھے۔(ماہنامہ خالد ربوہ دسمبر1997صفحہ49، 162)
سامعینِ کرام!شہدائے احمدیت نماز باجماعت کے پابند تھے30؍اکتوبر 2000ء کو گھٹیالیاں ضلع سیالکوٹ میں فجر کی نماز کے بعد فائرنگ کی گئی جس میں 5؍احمدی شہید اور کئی زخمی ہو گئے یہ سب نماز پنجگانہ کے عادی تھی۔
10؍نومبر 2000ء کو تخت ہزارہ ضلع سرگودھا کی احمدیہ مسجد میں پانچ احمدیوں کو شہید کر دیا گیا۔
شہدائےلاہور اور ان کے لواحقین کا ذکر کیا جائے تو وہ بچہ یاد آتا ہےجس کا ذکر یہیں جرمنی میں بمقام منہائم 27جون 2010ء کے خطبہ جمعہ میں حضور انور نے بیان فرمایا ’’نو دس سالہ بیٹے کو ماں نے اگلے جمعہ مسجد میں جمعہ پڑھنے کے لئے بھیج دیا اور کہا کہ وہیں کھڑے ہو کر جمعہ پڑھنا ہے جہاں تمہارا باپ شہید ہوا تھا تاکہ تمہارے ذہن میں یہ رہے کہ میرا باپ ایک عظیم مقصد کے لئے شہید ہوا تھا، تاکہ تمہیں احساس رہے کہ موت ہمیں اپنے عظیم مقصد کے حصول سے کبھی خوفزدہ نہیں کرسکتی۔جہاں ایسے بچے پیدا ہوں گے، جہاں ایسی مائیں اپنے بچوں کی تربیت کررہی ہوں گی وہ قومیں کبھی موت سے ڈرا نہیں کرتیں۔اور کوئی دشمن، کوئی دنیاوی طاقت ان کی ترقی کو روک نہیں سکتا۔‘‘
اے محبت عجب آثار نمایاں کر دی
زخم و مرہم برہِ یار تو یکساں کردی
(کہ محبت نے ایسے آثار نمایاں کیے ہیں کہ یار کی محبت میں زخم اور مرہم برابر ہو گئے ہیں۔ )
دنیا کے کئی ممالک میں احمدی مسلمانوں کی مساجد شہید کی گئیں، ان کی پیشانیوں سے کلمے مٹائے گئے۔ اللہ تعالیٰ نے جن احمدیوں یا ان کی اولادوں کو ہجرت کی توفیق عطا فرمائی ہے۔ یہ ہجرت کا مضمون ہی ان سب سے یہ تقاضا کرتا ہے کہ وہ جہاں جہاں آباد ہوئے ہیں وہاں وہاں خدا تعالیٰ کے گھر یعنی مسجدیں تعمیر کر کے ان کو ایسا آباد کریں کہ اس کیفیت کو دیکھ کر دشمنوں کو ان کی ناکامی اور ذلت کا إحساس گہرے سے گہرا ہوتا چلا جائے۔اور انہیں یہ احساس ہو کہ حقیقی مسجدیں اور ان میں کی گئی عبادتیں تو وہ ہیں جو مسیح موعودؑ کی جماعت کے ذریعہ تعمیر کی جا رہی اور آباد کی جا رہی ہیں۔ پس کس قدر خوش قسمت ہیں وہ احمدی جو ان مساجد میں قیام نماز کے لئے داخل ہوتے ہیں تو گویا وہ اپنے عمل سے حضرت اقدس محمد مصطفٰی ﷺ کی پیشگوئیوں کی صداقت کا اعلان کر رہے ہوتے ہیں۔
احمدی خواتین جو ابتدائے احمدیت کے دور سے اب تک مساجد کی تعمیر میں قربانیوں کی توفیق پا رہی ہیں ہمارے پیار آقا حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ نے انہیں یوں بھی نصیحت فرمائی ہے۔
’’ بچوں کی نمازوں کی گھروں میں نگرانی کرنا اور انہیں نمازوں کی عادت ڈالنا اور مردوں اور نوجوانوں کو مسجدوں میں جانے کے لئے مسلسل توجہ دلاتے رہنا یہ عورتوں کا کام ہے۔ اگر عورتیں اپنا کردار ادا کریں تو یہ غیر معمولی تبدیلی پیدا ہو سکتی ہے۔‘‘( خطبہ جمعہ بیان فرمودہ 27 جنوری 2017ء ص45)
احباب جماعت کو فرمایا:’’مسجد کو نمازیوں سے بھرنے کی کوشش کرو گے تو آج جو تم ایک مسجد پر خوش ہو رہے ہو، اللہ تعالیٰ ایسی ہزاروں مسجدیں تمہیں عطا فرمائے گا۔ لیکن شرط یہی ہے کہ مسجدوں کو نمازیوں سے بھرو۔ آیت استخلاف سے اگلی آیت میں بھی یہی حکم ہے کہ نماز قائم کرو، نماز باجماعت پڑھو۔ غرض مومن وہی ہے، اللہ تعالیٰ کے انعام پانے والے وہی ہیں، خلافت سے وابستہ رہنے والے وہی ہیں، اللہ تعالیٰ کی وحدانیت کو قائم رکھنے والے وہی ہیں جو مسجدوں کو آباد رکھیں۔‘‘
بڑا آدمی اگر خود نماز باجماعت نہیں پڑھتا تو وہ منافق ہے مگر وہ لوگ جو اپنے بچوں کو نماز باجماعت ادا کرنے کی عادت نہیں ڈالتے وہ ان کے خونی اور قاتل ہیں۔(تفسیر کبیر جلد ہفتم صفحہ652)
حضرت مصلح موعودؓ مسجد وں میں نمازیں ادا کرنے والوں سے خداتعالیٰ کی مغفرت و رحمت کے انتہائی سلوک کا ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ’’میرے نزدیک نماز باجماعت کا پابند خواہ اپنی بدیوں میں ترقی کرتے کرتے ابلیس سے بھی آگے نکل جائے پھر بھی اس کی اصلاح کا موقع ہاتھ سے نہیں گیا۔‘‘
حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرماتے ہیں:’’ایک ایسی سوسائٹی میں جہاں ہر طرف شیطان کی آوازیں آپ کو بلا رہی ہیں اگر آپ کے بچوں کو نمازوں کی عادت نہیں ہے تو وہ بچےنہ آپ کے کام آ سکیں گے نہ اپنی آئندہ نسلوں کےکام آ سکیں گے…ایسا وقت آنا چاہئے اور جلد آنا چاہئے…کہ آپ میں سےہر ایک کے خاندان میں ہر شخص نمازی ہو جائے۔‘‘(النور 2006 ء،ص 13 یو ایس اے)
اللہ کیا عجیب یہ نعمت نماز ہے
دنیا و دین میں باعث راحت نماز ہے
حکمِ خدا یہ ہے کہ پڑھو مل کے پانچ وقت
افضل عبادتوں میں عبادت نماز ہے
پھیلا ہوا ہےاس کا اثر دو جہان میں
جس کو نہیں زوال وہ دولت نماز ہے
(حضرت حافظ مختار احمد صاحب ؓ شاہجہانپوری)
آج ضرورت اس بات کی ہے کہ مسجد کے کردار کو زندہ کیا جائے۔ امت کی اصلاح کے لیے اسے وہی مرکزیت دی جائے جو دور صحابہ، تابعین تبع تابعین سلف صالحین کے زمانہ میں حاصل رہی ہے۔مومنوں کی روحانی و ایمانی زندگی ہی مسجد ہے۔
منکر و فحشا سے انساں کو بچاتی ہے نماز
رحمتیں اور برکتیں ہمراہ لاتی ہے نماز
اے خدا ہم کو عطا کر اور ہماری نسل کو
نعمتیں اور بخششیں جو جو بھی لاتی ہے نماز
حضور انور فرماتے ہیں کہ۔’’اللہ تعالیٰ ہمیں حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی جماعت میں حقیقت میں شامل ہونے کی توفیق عطا فرمائے۔ ہماری نمازیں، ہماری عبادتیں، ہماری قربانیاں، ہمارا نیکیوں پر قائم رہنا، اپنی نسلوں میں انہیں رائج کرنا اور ان کو پھیلانے کی تمام کوششیں خداتعالیٰ کی رضا حاصل کرنے کے لئے ہو جائیں تاکہ ہم اس کے انعاموں کے وارث ٹھہریں… اور یہ اللہ تعالیٰ کے حکموں کے مطابق اس وقت ہو گا جب اس کے خوف اور خشیت کی وجہ سے مسجدوں کو آباد کرو گے، مسجدوں میں آؤ گے، باجماعت نمازوں کی طرف توجہ دو گے، عبادالرحمن بنو گے۔
پس…ہماری تمام مساجد بھی اگر اس جذبے سے نمازیوں سے بھری رہیں تو پھر کوئی طاقت بھی آپ کی مضبوطی میں کبھی رخنہ نہیں ڈال سکتی۔ کبھی کمزور نہیں کر سکتی۔ آپ کی تمکنت کو چھین نہیں سکتی۔‘‘(خطبہ یکم اکتوبر 2004ء)
حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی اس دعا پر اپنی گزارشات ختم کرتا ہوں
’’پس ہمیں یہ دعا کرنی چاہئے کہ اے اللہ ہمیں کامل مومن بندہ بنا کیونکہ مومن بننا بھی تیر ے فضلوں پر ہی منحصر ہے، تیرے فضلوں پر ہی موقوف ہے۔ آخرت پرہمارا ایمان یقینی ہو۔ جب تیرے حضور حاضر ہوں تو یہ خوشخبری سنیں کہ ہم نے مسجدیں تیری خاطر بنائی تھیں۔ تیری عبادت ہر وقت ہمیشہ ہمارے پیش نظر تھی اور تیرے دین کا پیغام دنیا تک پہنچانا ہمارے مقاصد میں سے تھا۔ پس اسی لئے ہم مسجدیں بناتے ہیں اور بناتے رہے ہیں اور اسی وجہ سے ہم نمازوں کی طرف توجہ دیتے رہے۔ کوئی نام نمود، کوئی دنیا کا دکھاوا ہمارا مقصد نہ تھا۔ اے اللہ ہماری تمام مالی قربانیاں تیری خاطر تھیں کہ تیرا نام دنیا کے کونے کونے میں پہنچے اور تیرے پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا جھنڈا دنیا میں سر بلندہو۔ اور تیرا تقویٰ ہمارے دلوں میں اور ہماری نسلوں کے دلوں میں قائم ہو اور ہمیشہ قائم رہے۔ تُو نے ہمیں ہدایت دی کہ ہم نے اس زمانے کے امام کو مانا۔ اس کو ماننے کی ہمیں توفیق عطا فرمائی۔ جس کو تُو نے اس زمانے میں دوبارہ دین اسلام کی حقیقی تعلیم کو دنیا میں قائم کرنے کے لئے بھیجا تھا۔ پس ہماری کمزوریوں اور غلطیوں کی وجہ سے اس ہدایت سے ہمیں محروم نہ کر دینا بلکہ خود ہمیں ہدایت دئیے رکھنا۔ خود ہمیں سیدھے راستے پر چلائے رکھنا۔ اے اللہ تُو دعاؤں کو سننے والا اور دلوں کا حال جاننے والا ہے۔ ہماری ان عاجزانہ اور متضرعانہ دعاؤں کو سن، ہماری اس نیک نیت کا بدلہ عطا فرما۔‘‘(خطبہ جمعہ فرمودہ 29 دسمبر2006ء)
آمین یا رب العالمین۔و آخر دعوانا ان الحمد للہ رب العالمین
٭…٭…٭