الفضل ڈائجسٹ

الفضل ڈائجسٹ

(محمود احمد ملک)

اس کالم میں ان اخبارات و رسائل سے اہم و دلچسپ مضامین کا خلاصہ پیش کیا جاتا ہے جو دنیا کے کسی بھی حصے میں جماعت احمدیہ یا ذیلی تنظیموں کے زیرانتظام شائع کیے جاتے ہیں۔

جماعت احمدیہ برطانیہ کے امراءاور ائمہ مسجد فضل لندن

برطانیہ میں پہلے احمدیہ مرکز تبلیغ کا قیام 1913ء میں عمل میں آیا تھا جب حضرت خلیفۃالمسیح الاوّلؓ نے حضرت چودھری فتح محمد سیال صاحبؓ کو پہلے مبلغ کے طور پر قادیان سے برطانیہ بھجوایا۔ روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 23؍ستمبر2013ء میں صدسالہ جوبلی جماعت احمدیہ برطانیہ کے حوالے سے مکرم بشیر احمد اختر صاحب کا ایک تاریخی مضمون شائع ہوا ہے جس میں جماعت احمدیہ برطانیہ کے امراء اور ائمہ مسجد فضل لندن کا مختصر تعارف کروایا گیا ہے۔

حضرت خلیفۃالمسیح الرابعؒ کے لندن تشریف لانے کے بعد بطور امیر جماعت احمدیہ برطانیہ خدمت کی سعادت درج ذیل احباب کو ملتی رہی:

مکرم عطاء المجیب راشد صاحب (26؍نومبر 1983ء تا 30؍اکتوبر 1984ء)۔

مکرم چودھری انور احمد کاہلوں صاحب (30؍اکتوبر 1984ء تا یکم مارچ 1986ء )۔

مکرم آفتاب احمد خان صاحب (یکم مارچ 1986ء تا یکم اکتوبر 1996ء)۔

مکرم ڈاکٹر ولی احمد شاہ صاحب (یکم اکتوبر 1996ءتا 7؍مئی1997ء)۔

مکرم ڈاکٹر افتخار احمد ایاز صاحب (7؍مئی 1997ء تا 25؍فروری 2001ء )

اور مکرم رفیق احمد حیات صاحب (25؍فروری 2001ء تا حال)

برطانیہ میں جماعت احمدیہ کے پہلے امام و مبلغ انچارج حضرت چودھری فتح محمد سیال صاحبؓ تھے۔ آپؓ 1913ء سے 1916ء تک اور پھر 1919ء سے 1921ء تک دوبارہ یہاں متعیّن رہے۔ دونوں ادوار کے درمیانی عرصے یعنی 1916ء سے 1919ء تک حضرت قاضی محمد عبداللہ صاحبؓ نےیہ فرائض سرانجام دیے۔ حضرت قاضی صاحبؓ اکتوبر 1915ء میں انگلستان پہنچے تھے۔ آپؓ نے اس بات کی ضرورت کو شدّت سے محسوس کیا کہ احمدیہ مرکز کو کرایہ کی عمارت کی بجائے کوئی مکان خرید کر اس میں منتقل کرنا چاہیے۔ چنانچہ آکسفورڈ سٹریٹ کے عقب میں واقع 2۔اسٹار سٹریٹ آپ نے مارگیج پر حاصل کیا اور وہاں منتقل ہوگئے۔ قریب ہی ہائیڈپارک سپیکر کارنر تھا جہاں آپ ہر ہفتے اور اتوار کو لیکچر دیتے اور باقی ایام میں بھی لیکچرز، لٹریچر کی تقسیم اور خط و کتابت کے ذریعے بھرپور دعوت الی اللہ کرتے۔

اپریل 1917ء میں حضرت مفتی محمد صادق صاحبؓ بھی لندن مرکز میں تشریف لے آئے اور حضرت قاضی محمد عبداللہ صاحبؓ کی معاونت کی۔ اگست 1920ء میں حضرت مولوی مبارک علی صاحبؓ بھی لندن تشریف لائے جنہوں نے ستمبر 1921ء میں حضرت چودھری فتح محمد سیال صاحبؓ سے مشن کا چارج لیا۔ آپ نے دیگر تبلیغی ذرائع استعمال کرنے کے ساتھ ساتھ کئی خاص اہم شخصیات کو احمدیہ مرکز میں مدعو بھی کیا۔ جنوری 1923ء میں جب آپؓ جرمنی میں احمدیہ مرکز کی بنیاد رکھنے کے لیے وہاں تشریف لے گئے تو چارج حضرت مولانا عبدالرحیم نیّر صاحبؓ کو دے دیا جو جنوری 1923ء میں مغربی افریقہ میں احمدیت کو مضبوط بنیادوں پر قائم کرنے کے بعد لندن تشریف لاچکے تھے۔

1924ء میں ویمبلے میں انٹرنیشنل نمائش اور مذہبی کانفرنس منعقد ہوئی تو منتظمین نے حضرت نیّر صاحبؓ کو بھی اسلام کے موضوع پر خطاب کرنے کی دعوت دی۔ لیکن آپؓ نے حضرت مصلح موعودؓ کی خدمت میں درخواست کی کہ حضور بنفس نفیس تشریف لاکر کانفرنس کو خطاب فرمائیں۔ حضورؓ نے آپؓ کی درخواست منظور فرمائی اور اگست 1924ء میں انگلستان تشریف لے گئے۔ لندن کے وکٹوریہ سٹیشن پر حضرت نیر صاحبؓ نے بعض نامی گرامی شرفاء کے ہمراہ حضورؓ کا استقبال کیا۔ حضورؓ سٹیشن سے لڈگیٹ برج پر تشریف لے گئے اور وہاں احمدیت کی ترقی کے لیے دعائیں کیں۔ حضورؓ کی رہائش کے لیے 6۔چشم پیلس کرایہ پر حاصل کیا گیا تھا۔ 19؍اکتوبر 1924ء کو حضورؓ نے مسجد فضل لندن کا سنگ بنیاد رکھا۔ اس دوران حضرت ملک غلام فرید صاحبؓ بھی لندن کے احمدیہ مرکز میں خدمات سرانجام دیتے رہے تھے۔

حضورؓ کے قافلے میں حضرت مولانا عبدالرحیم درد صاحبؓ بھی تشریف لائے تھے۔ حضورؓ نے 4؍اکتوبر 1924ء کو آپؓ کو امام مسجد فضل لندن مقرر فرمایا۔ آپؓ نے مسجد فضل لندن کی تعمیر اپنی نگرانی میں کروائی، چند یورپین ممالک کا دورہ کیا، بعض اخبارات کی طرف سے آنحضورﷺ کی ذات اقدس پر کیے جانے والے حملوں کا کامیاب دفاع کیا اور اخبارات نے معافی مانگی۔ 1925ء میں حضرت مصلح موعودؓ کے ارشاد پر ’’ریویو آف ریلیجنز‘‘ کی اشاعت لندن سے ہونے لگی اور آپؓ اس کے ایڈیٹر مقرر ہوئے۔

اکتوبر 1928ء میں حضرت مولوی فرزند علی خان صاحبؓ لندن پہنچے تو چارج اُن کو دے کر حضرت درد صاحبؓ واپس قادیان چلے گئے۔ حضرت خان صاحبؓ نے مسجد فضل کے باغ اور منسلکہ مکان کی تزئین و آرائش کے سلسلے میں خصوصی کام کیا۔ گول میز کانفرنسوں میں شرکت کے لیے آنے والے وفود کو مسجد میں مدعو کرتے چنانچہ علامہ اقبال، مولانا غلام رسول مہر اور قائداعظم محمد علی جناح مسجد فضل میں آتے جاتے رہے۔ جولائی 1931ء تک آپ رسالہ ریویو کے ایڈیٹر بھی رہے۔ بعدازاں اس رسالہ کی اشاعت جاری نہ رہ سکی۔ 2؍فروری 1934ء میں حضرت درد صاحبؓ دوبارہ انگلستان تشریف لائے تو حضرت خان صاحبؓ انہیں چارج دے کر واپس قادیان تشریف لے گئے۔

حضرت درد صاحبؓ نے لندن سے ایک ہفتہ وار اخبار ’’مسلم ٹائمز‘‘ جاری کیا۔ نیز اُسی دَور میں آپؓ کی مدد سے رسالہ ’’الاسلام‘‘ بھی حضرت مرزا ناصر احمد صاحبؒ نے جاری فرمایا جو لندن میں زیرتعلیم تھے۔ حضرت مصلح موعودؓ کی خصوصی ہدایت پر آپؓ نے قائداعظم محمد علی جناحؒ سے متعدد ملاقاتیں کیں اور انہیں ہندوستان جاکر مسلمانوں کی راہنمائی کرنے پر آمادہ کیا۔ آپؓ نے ممبران پارلیمنٹ اور نامور مصنفین سے قریبی تعلقات قائم کیے۔ 1938ء میں آپؓ واپس قادیان چلے گئے اور چارج حضرت مولانا جلال الدین شمس صاحبؓ کو دے دیا جو 1936ء میں لندن آچکے تھے۔حضرت شمس صاحبؓ نے ہائیڈپارک سپیکر کارنر میں مسٹر گرین نامی ایک پادری سے ایک سال تک ہفتہ وار مناظرہ کیا اور اُسے مسلسل شکست دی جس کا تذکرہ اخبارات میں بھی ہوا۔ آپؓ نے اس دوران اپنی کتاب Where did the Jesus die بھی تصنیف فرمائی۔ آپؓ کی زیرنگرانی قرآن کریم کے ڈچ، روسی، اٹالین، فرانسیسی، پولش اور سپینش تراجم مکمل ہوئے۔ آپؓ نے بشپ آف گلاسٹر کو دعوتِ مقابلہ دی جو انہوں نے قبول نہ کی۔ جنگ عظیم دوم کے دوران جب مسجد فضل کے اردگرد کا علاقہ جرمن بمباری سے مسمار ہوگیا تو آپؓ نے احمدیوں سے کہا کہ وہ مسجد میں آکر سویا کریں کیونکہ مسجد کو اللہ تعالیٰ نے بچانے کا وعدہ کیا ہے۔ آپؓ کے دور میں مسجد فضل لندن کو یورپ کا مرکز دعوت الی اللہ کہنا بجا ہوگا۔ 1946ء میں آپ نے چارج مکرم چودھری مشتاق احمد باجوہ صاحب کو دیا اور خود واپس قادیان تشریف لے گئے۔

محترم مشتاق احمد باجوہ صاحب نے پہلی بار جماعت احمدیہ انگلستان کا ایک جلسہ منعقد کیا جس میں یورپین مبلغین بھی شامل ہوئے اور اس جلسے میں محترم بشیر احمد آرچرڈ صاحب نے قادیان میں بنائی ہوئی اپنی ایک دستاویزی فلم بھی دکھائی۔ فروری 1949ء میں حضرت مصلح موعودؓ کی ہدایت پر محترم آرچرڈ صاحب نے گلاسگو میں احمدیہ مرکز قائم کیا جس کی عمومی نگرانی لندن مشن کے سپرد تھی۔ جون 1950ء میں محترم چودھری ظہور احمد باجوہ صاحب دوبارہ لندن تشریف لائے اور محترم چودھری مشتاق احمد باجوہ صاحب سے مشن کا چارج لیا۔ وہ پہلے 1945ء سے 1949ء تک بطور نائب امام مسجد فضل لندن کام کرچکے تھے۔

محترم چودھری ظہور احمد باجوہ صاحب نے 1953ء کے پُرآشوب دَور میں حضورؓ کی ہدایات کے تابع ایک طرف تو دنیابھر کے مبلغین کو حالات سے باخبر رکھا اور دوسری طرف ممبران پارلیمنٹ اور برٹش پریس تک احمدیہ نکتۂ نظر کو پہنچایا۔ چنانچہ کئی اخبارات میں جماعت کی تائید میں مضامین لکھے گئے۔ ستمبر 1953ء میں مکرم مولود احمد خان صاحب لندن پہنچے تھے جنہوں نے 14؍اپریل 1955ء کو لندن مرکز کا چارج لیا۔ آپ نے دعوت الی اللہ کے متعددّ لیکچرز دیے۔ 1955ء میں ہی حضرت مصلح موعودؓ بغرض علاج لندن تشریف لائے اور مشن ہاؤس میں مقیم ہوئے۔ گرونر ہوٹل وکٹوریہ میں حضورؓ کے اعزاز میں ایک شاندار استقبالیہ تقریب منعقد کی گئی جس میں عمائدین شہر نے حضورؓ کو خوش آمدید کہا۔ اس دوران حضورؓ نے یورپین مبلغین کی ایک کانفرنس کا انعقاد بھی فرمایا۔

محترم چودھری رحمت خان صاحب 22؍اکتوبر 1960ءکو لندن تشریف لائے اور مکرم مولود احمد خان صاحب سے چارج لیا۔ آپ نے تربیت کے میدان میں خاص کام کیا۔ احباب کے گھروں پر وزٹ کیے اور قرآن کریم کا درس شروع کیا۔ مکرم بشیر احمد رفیق خان صاحب فروری 1959ء میں لندن پہنچے تھے اور بطور نائب امام خدمت کررہے تھے۔ آپ 13؍اپریل 1964ء کو امام مسجد فضل مقرر ہوئے۔ آپ کے دَور میں مشرقی افریقہ سے احمدیوں کی ایک بڑی تعداد انگلستان منتقل ہوئی نیز پاکستان سے بھی کثرت سے احمدی یہاں آئے۔ اُن کی راہنمائی اور مدد کا کام محترم خان صاحب سرانجام دیتے رہے۔ آپ نے ماہوار رسالہ ’’مسلم ہیرلڈ‘‘ اور پندرہ روزہ ’’اخبار احمدیہ‘‘ بھی جاری کیا۔ گیارہ کتب اردو اور انگریزی میں تصنیف کیں۔ صدر ٹب مَین آف لائبیریا کی دعوت پر بطور سٹیٹ گیسٹ لائبیریا کا دورہ کیا۔ رائل پریس کلب آف برطانیہ کے ممبر منتخب ہوئے اور روٹری کلب آف وانڈزورتھ کے پہلے ایشیائی صدر منتخب ہوئے۔ 1964ء میں جلسہ سالانہ برطانیہ کی بنیاد رکھی۔ انصاراللہ اور خدام الاحمدیہ کے اجتماعات کو جاری کیا۔ 1970ء میں مسجد فضل لندن کے احاطہ میں محمود ہال اور نیا مشن ہاؤس تعمیر ہوا۔ سنڈے سکول جاری کیا۔ 1978ء میں انٹرنیشنل کاسرصلیب کانفرنس منعقد کروائی۔ ساؤتھ آل اور جلنگھم میں عیسائی پادریوں سے کامیاب مناظرے کیے۔ متعدد ملکی عمائدین، غیرملکی سربراہان اور برطانیہ میں مقیم سفراء سے ملاقات کرکے احمدیت کا مؤقف پیش کرتے رہے۔ آپ کے دَور میں انگلستان میں 21 جماعتوں کا قیام عمل میں آیا۔اس دوران جنوری 1971ء میں محترم چودھری شریف احمد باجوہ صاحب انگلستان تشریف لائے اور قریباً ڈیڑھ سال بطور امام مسجد فضل لندن خدمت کی توفیق پائی۔

محترم شیخ مبارک احمد صاحب نے مئی 1979ء میںمحترم بشیر احمد رفیق خان صاحب سے مشن کا چارج لیا۔ آپ نے بہت زیادہ تربیتی کام کیا اور ملک بھر میں کئی مشن ہاؤس بھی خریدے گئے جن کو آباد کرنے کے لیے آپ نےتربیتی کلاسوں کا انعقاد کیا اور جماعتی دورہ جات پر بہت زور دیا۔ مالی قربانی کے لحاظ سے بھی جماعت نے بہت ترقی کی۔ 26؍نومبر 1983ء کو آپ امریکہ تشریف لے گئے اور مشن کا چارج محترم مولانا عطاءالمجیب راشد صاحب کو دے دیا۔ چند ماہ بعد ہی اپریل 1984ء میں پاکستان کے حالات کے پیش نظر حضرت خلیفۃالمسیح الرابعؒ کو اچانک ہجرت کرکے انگلستان آنا پڑا۔ خلافت احمدیہ کا مرکز لندن میں منتقل ہونے کے نتیجے میں اہم انتظامات اور ہنگامی طور پر متفرق ذمہ داریوں کی نگرانی محترم مولانا عطاءالمجیب راشد صاحب لمبا عرصہ سرانجام دیتے رہے۔ حضورؒ کی طرف سے علمی، تربیتی اور انتظامی امور سے متعلق کئی خصوصی ذمہ داریاں بھی آپ کے سپرد ہوتی رہیں جن کا سلسلہ خلافت خامسہ میں بھی جاری و ساری ہے۔ چنانچہ امام مسجد فضل لندن، مبلغ انچارج اور نائب امیر ہونے کے علاوہ آپ نے سالہاسال بطور افسر جلسہ گاہ، ڈائریکٹر ایم ٹی اے، سیکرٹری خلافت کمیٹی، سیکرٹری انٹرنیشنل مجلس شوریٰ اور قضابورڈ یوکے میں بھی جو خدمات سرانجام دی ہیں اُن کی ایک لمبی فہرست ہے۔

………٭………٭………٭………

محترم شیخ رحمت اللہ صاحب سابق امیر کراچی

روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 24؍ستمبر2013ء میں محترم شیخ رحمت اللہ صاحب کی وفات کی خبر شائع ہوئی ہے جو مختصر علالت کے بعد 12؍ ستمبر کو 94 سال کی عمر میں وفات پاگئے۔ حضرت خلیفۃالمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے ایک خطبہ جمعہ میں مرحوم کا ذکرخیر فرمایا اور بعدازاں نماز جنازہ غائب پڑھائی۔

محترم شیخ صاحب نے 1943ء میں 24سال کی عمر میں احمدیت قبول کی تھی۔ آغاز میں دہلی کے امریکی سفارتخانے میں بطور کلرک ملازمت کی، پھر 1946ء میں پہلے لاہور اور پھر ایک سال کے بعد کراچی منتقل ہو گئے جہاں محترم چودھری شاہ نواز صاحب کے پاس ادویات کی درآمد کا کام شروع کیا۔ چونکہ رہائش کا کوئی انتظام نہیں تھا اس لیے دفتر میں ہی سو جایا کرتے تھے۔ 1950ء میں چودھری صاحب کی مدد سے مرحوم نے اپنا ذاتی کاروبار شروع کیا جس میں اللہ تعالیٰ نے بہت برکت عطا فرمائی۔ اگرچہ آپ کی دنیاوی تعلیم صرف میٹرک تھی لیکن ہر کوئی یہی سمجھتا تھا کہ آپ کافی تعلیم یافتہ ہیں۔

1950ء میں آپ نائب امیر کراچی مقرر ہوئے۔ 1953ء کے فسادات میں حضرت مصلح موعودؓ نے آپ کو وقتی طور پر حضرت چودھری عبداللہ خان صاحب کی جگہ امیر جماعت کراچی مقرر کیا۔ کیونکہ چودھری صاحب سرکاری ملازم تھے اور امکان تھا کہ انہیں ملازمت سے ہٹا دیا جائے گا۔ تاہم اس کے بعد چودھری صاحب کی علالت کے باعث آپ 1964ء تک بطور امیر کراچی کام کرتے رہے۔ تاریخ احمدیت کراچی میں لکھا ہے کہ 1953ء کے فسادات میں حضرت مصلح موعودؓنے کراچی میں بھی ایک علیحدہ صدر انجمن احمدیہ قائم فرمائی تھی، اس کا ناظرِ اعلیٰ بھی آپ کو مقرر فرمایا تھا۔ نیز حضرت مصلح موعودؓ کی طویل علالت کے زمانے میں جو نگران بورڈ قائم ہوا تھا اس کے بھی آپ ممبر رہے۔ خلافت کے وفادار، صاف گو، دیانتدار، بہت دعا کرنے والے اور مالی قربانی کرنے والے انسان تھے۔ سخی دل اور مخلص انسان تھے۔ دوستوں، عزیزوں اور ضرورتمندوں کی مالی امداد بھی کیا کرتے تھے۔ آپ کا حلقہ احباب کافی وسیع تھا اور اُن کو تبلیغ بھی کیا کرتے تھے۔ اللہ کے فضل سے آپ موصی تھے۔ آپ کے ایک بیٹے مکرم ڈاکٹر نسیم رحمت اللہ صاحب نائب امیر امریکہ اور ویب سائٹ alislam.org کے چیئرمین کی حیثیت سے خدمت کر رہے ہیں۔ دوسرے بیٹے مکرم شیخ فرحت اللہ صاحب نائب امیر ضلع فیصل آباد اور پاکستان میں مرکز کے صنعت و تجارت مشاورتی بورڈ کے صدر بھی ہیں۔ ان کی ایک بیٹی مکرمہ جمیلہ رحمانی صاحبہ اہلیہ مکرم میاں غلام رحمانی صاحب سابق سیکرٹری وصایا یوکے ہیں۔ نیز چھوٹی بیٹی ندرت ملک صاحبہ مقامی طور پر صدر لجنہ اور ریجنل صدر لجنہ ہیں۔

………٭………٭………٭………

محترم مقبول احمد ظفر صاحب مربی سلسلہ

روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 16؍ستمبر2013ء میں مکرم امان اللہ امجد صاحب کے قلم سے محترم مقبول احمد ظفر صاحب مربی سلسلہ کا ذکرخیر شائع ہوا ہے۔

محترم مقبول احمد ظفر صاحب 10؍فروری 1973ء کو اپنے آبائی گاؤں کوٹ محمدیار ضلع چنیوٹ میں پیدا ہوئے۔ ربوہ سے میٹرک 1990ء میں کیا اور پھر مرکزی تربیتی کلاس میں شامل ہوئے جہاں میری ان سے پہلی بار ملاقات ہوئی جو دوستی میں بدل گئی۔ آپ ایک ذہین اور علمی شخصیت تھے۔علمی مقابلہ جات میں بھی اپنی خداداد صلاحیتوں کا خوب مظاہرہ کرتے۔ ہم نے اکٹھے وقف عارضی بھی کیا جس کے دوران مجھے آپ کے علم کی وسعت کا پتہ چلا۔بہت تحمّل سے لوگوں کے سوال سنتے اور مدلّل جواب دیتے۔

پھر آپ نے جامعہ احمدیہ میں داخلہ لے لیا اور محترم ڈاکٹر وقار منظور بسراء صاحب کے ہومیوپیتھک کلینک کے ابتدائی ارکان میں بھی شامل ہوگئے۔ 1997ء میں جامعہ احمدیہ سے شاہد کرنے کے بعد آپ پہلے نظارت اشاعت میں اور پھر جامعہ احمدیہ جونیئر سیکشن میں بطور استاد فرائض ادا کرتے رہے۔ 2007ء میں عربی میں مزید تعلیم حاصل کرنے کے لیے بلاد شام بھجوائے گئے جہاں سے فروری 2010ء میں واپس آئے اور تادم واپسیں نظارت اصلاح و ارشاد مرکزیہ میں خدمت بجالاتے رہے۔

آپ سادہ مزاج، نرم دل اور خوش اخلاق تھے۔ اپنے مریضوں سے بہت محبت کا تعلق رکھتے اور ہمہ وقت مصروفیات کے باوجود نہایت بشاشت سے نسخہ لکھتے اور دوا دیتے۔گھر پر بھی مریضوں کا تانتا بندھا رہتا۔خداتعالیٰ نے دست شفا بھی عطا فرمایا تھا۔ حضرت خلیفۃالمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ نے اپنے خطبہ جمعہ فرمودہ 27؍جولائی 2012ء میں مرحوم کا ذکرخیر فرمایا اور بعد میں نماز جنازہ غائب پڑھائی۔

………٭………٭………٭………

جامعہ نصرت ربوہ برائے خواتین

روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 3؍اکتوبر2013ء میں مکرمہ بشریٰ بشیر صاحبہ کے قلم سے جامعہ نصرت برائے خواتین (ربوہ)کی ابتدائی تاریخ بیان کی ہے۔

حضرت مصلح موعودؓ نے 14؍جون 1951ء کو جامعہ نصرت ربوہ کا افتتاح فرماتے ہوئے اس کی عمارت کا سنگ بنیاد بھی رکھا۔ اس موقع پر حضورؓ نے مسلمانوں کے علمی کارناموں کا تذکرہ کرتے ہوئے اسلام کے عظیم الشان تاریخی واقعات کا تفصیلاً ذکر فرمایا۔ حضورؓ نے فرمایا کہ مَیں نے فیصلہ کیا ہے کہ اس کالج میں دینیات کی تعلیم لازمی کردی جائے تاکہ دنیاوی مضامین کے ساتھ ساتھ وہ دینی لحاظ سے بھی اعلیٰ درجے کی معلومات حاصل کرسکیں اور دین کے بارے میں اُن کی نظر اتنی وسیع ہوجائے کہ ہماری لڑکیاں پاکستان کی اعلیٰ تعلیم یافتہ خواتین کی نہ صرف برابری کرسکیں بلکہ ان کی دین پر نظر وسیع ہونے کی وجہ سے دماغی اور قلبی کیفیت اور ذہانت دوسروں کی نسبت بہت بلند و بالا ہو اور جب ہماری لڑکیاں اُن کے پاس بیٹھیں تو وہ یہ محسوس کریں کہ ان کا علم اَور ہے اور ہمارا اَور، یعنی ان کا علم آسمانی ہے اور ہمارا زمینی۔ بعدازاں حضورؓ نے دعا کروائی۔

حضورؓ نے حضرت سیّدہ مریم صدیقہ صاحبہ کو کالج کا نگران مقرر فرمایا اور مکرمہ فرخندہ اختر شاہ صاحبہ (اہلیہ مکرم سیّد محموداللہ شاہ صاحب)کو پرنسپل مقرر فرمایا۔ اساتذہ میں مذکورہ دونوں خواتین کے علاوہ درج ذیل شامل تھے: محترم قاضی محمد نذیر صاحب لائلپوری، پروفیسر علی احمد صاحب، چودھری علی محمد صاحب اور استانی سردار بیگم صاحبہ۔

شروع میں سولہ طالبات نے جامعہ نصرت میں داخلہ لیا جن کے لیے کوئی عمارت موجود نہ تھی لہٰذا تدریس کا انتظام حضرت مصلح موعودؓ کی کوٹھی میں کیا گیا۔ دوسرے سال 1952ء میں یہ کالج لجنہ اماءاللہ مرکزیہ کے دفتر میں منتقل ہوا اور 1953ء میں موجودہ عمارت کے پہلے چار کمرے تیار ہونے پر اس میں منتقل کردیا گیا۔ اس کی وسیع عمارت اور بارہ دری 1961ء میں مکمل ہوئی۔

8؍مارچ 1971ء کو سیّدنا حضرت خلیفۃالمسیح الثالثؒ نے اپنے دست مبارک سے سائنس بلاک کا سنگ بنیاد رکھا اور اسی سال F.Sc کی کلاسیں شروع ہوگئیں۔ 1973ء میں جامعہ نصرت میں ساڑھے تین صد طالبات زیرتعلیم تھیں اور اساتذہ کی تعداد بتیس تھی۔ طالبات نہ صرف بورڈ اور یونیورسٹی کے امتحانات میں اوّل آتی رہیں بلکہ بعض مضامین میں طلائی تمغے بھی حاصل کیے۔ مسز ڈاکٹر علی محمد صاحب (پرنسپل لاہور کالج برائے خواتین) کو جب حکومت کی طرف جامعہ نصرت کے معائنہ کے لیے بھجوایا گیا تو انہوں نے اپنے تأثرات کا اظہار یوں کیا: ’’ربوہ اپنی لڑکیوںکی تعلیم کے لحاظ سے تمام پنجاب میں سبقت لے گیا ہے۔ یہاں عجب سماں ہے۔ پڑھنے اور پڑھانے والیاں ایک ہی مقصد کے ماتحت رواں دواں ہیں اور ان میں سے کسی کی بھی توجہ کسی اَور طرف نہیں۔ اس بےلوث جذبے کو دیکھ کر بےاختیار کہنے پر مجبور ہوں کہ صحیح اسلامی تعلیم کی فضا ربوہ ہی میں پائی جاتی ہے۔‘‘

مجھے پڑھائی کا ایسا شوق تھا کہ شادی کے بعد مَیں نے ایف اے کرلیا۔ پھر 1956ء میں مَیں نے اور میرے میاں نے مزید تعلیم حاصل کرنے کا فیصلہ کیا تو انہوں نے لاہور میں ہی ایم ایس سی کی کلاسز میں داخلہ لے لیا جبکہ مَیں اپنے دو بیٹوں کو لے کر ربوہ آگئی اور اپنے میاں کے بھائی اور بھابھی کے گھر میں مقیم ہوئی۔ پھر جامعہ نصرت میں سال سوم میں داخلہ لیا۔ اور دو سال میں بی اے پاس کرکے مَیں لاہور آگئی جہاں مکرمہ مسز شاہ صاحبہ کے مشورے پر ایم اے (اسلامیات) میں داخلہ لے لیا۔ جب ایم اے کرلیا تو مجھے حضرت اُمّ متین صاحبہ اور مسز شاہ صاحبہ کا پیغام ملا کہ جامعہ نصرت میں اسلامیات کی لیکچرر کی ضرورت ہے۔ اگرچہ ہم میاں بیوی کے لیے یہ فیصلہ مشکل تھا لیکن ان دو قابل احترام ہستیوں کی پیشکش کا انکار کرنا بھی بےحد مشکل تھا۔ لہٰذا مارچ 1961ء میں مَیں اپنے چار بچوں کے ساتھ ربوہ آگئی۔ یہاں آنا میرے بچوں کے لیے بھی ایک بہتر مستقبل کا ضامن بن گیا اور مجھے بھی جامعہ نصرت میں سترہ سال تک ملازمت کا بہترین موقع ملا۔

1972ء میں تمام پنجاب کے پرائیویٹ تعلیمی ادارے قومی تحویل میں لے لیے گئے جس کے نتیجے میں جامعہ نصرت میں متعیّن احمدی اساتذہ کو بیرون از ربوہ بھجوایا جانے لگا اور غیرازجماعت سٹاف دیگر شہروں سے جامعہ نصرت میں بھجوایا جانے لگا۔ اسی اثنا میں مکرمہ مسز شاہ صاحب کی ریٹائرمنٹ ہوئی تو خاکسار کو قائمقام پرنسپل کی ذمہ داری سونپی گئی۔ 1977ء میں خاکسار نے ایک سال کی رخصت لے لی اور چارج مکرمہ مس اریبہ خانم صاحبہ کے سپرد کردیا۔ بعدازاں غیرازجماعت خواتین بطور پرنسپل جامعہ نصرت ربوہ میں متعین ہوتی رہیں۔

………٭………٭………٭………

ممنوعہ شہر

روزنامہ’’الفضل‘‘ربوہ 22؍جولائی 2013ء میں چین کے دارالحکومت بیجنگ کے وسط میں واقع عظیم الشان عمارتوں کے ایک ایسے مجموعے کے بارے میں ایک معلوماتی مضمون شامل اشاعت ہےجسے ’’ممنوعہ شہر‘‘ کہاجاتا ہے۔

ممنوعہ شہر کی تعمیر کا آغاز 1406ء میں ہوا اور چودہ سال میں اس کی تکمیل ہوئی۔ دس لاکھ کاریگروں اور مزدوروں نے یہاں کام کیا۔ شاہی محلّات سمیت آٹھ صد عمارتوں کے 9999 کمروں پر مشتمل یہ کمپلیکس دنیا میں اپنی نوعیت کا منفرد شہر ہے۔ قدیم چینیوں کے عقیدے کے مطابق ایک ہزار کا ہندسہ الوہی اکملیت کو ظاہر کرتا ہے اسی لیے یہاں کے کمروں کی تعداد ایک ہزار سے ایک کم رکھی گئی ہے۔ پانچ صدیوں تک یہ محلّات ملک کے انتظامی امور کا مرکز رہے۔ اُس وقت اس شہر میں عام لوگوں کو داخلے کی اجازت نہیں تھی۔

74؍ایکڑ رقبے پر مشتمل اس شہر کے گرد ایک دس میٹر اونچی دیوار بنائی گئی تھی۔ دیوار کے چاروں کونوں پر مینار کھڑے ہیں۔ اس کمپلیکس کی تعمیر روایتی چینی طرز کے مطابق ہوئی۔ لکڑی کے فریم چھتوں کو سہارا دیتے ہیں۔ لکڑی کے بکثرت استعمال کی وجہ سے کئی بار یہاں آگ لگنے سے تباہی بھی ہوئی لیکن ہر بار اس کی تعمیرِنَو کا کام اصل شکل و صورت کو برقرار رکھتے ہوئے کیا گیا۔

1925ء میں اس ممنوعہ شہر کو میوزیم میں تبدیل کردیا گیا اور یہ پیلس میوزیم کہلانے لگا۔ 1987ء میں یونیسکو نے اسے دنیا کا عظیم ثقافتی ورثہ قرار دیا۔ یہاں چینی آرٹ کے نادر خزانے موجود ہیں۔

………٭………٭………٭………

روزنامہ’’الفضل‘‘ربوہ 14؍اکتوبر 2013ء میں مکرم عبدالصمد قریشی صاحب کی درج ذیل خوبصورت نظم شامل اشاعت ہے:

دیارِ یار میں کچھ دن قیام کر آئیں

چلو کہ ہم بھی وہاں پر سلام کر آئیں

اِک اضطراب میں کٹتے ہیں اپنے شام و سحر

یہ عرض دل کی بصد احترام کر آئیں

ہم ان پہ وار دیں اپنی محبتیں ساری

اور اپنے خواب سبھی اُن کے نام کر آئیں

خلوص ، مہر و وفا ، اپنا آپ پیش کریں

ہم ان کی نذر دل و جاں تمام کر آئیں

ہمیں بھی اُن کی محبت مدام حاصل ہو

یوں خوش نصیبوں میں اپنا بھی نام کر آئیں

جو اُن کی بزم میں ملتا ہے زندگی کو ثبات

اٹھو کہ ہم بھی وہ حاصل دوام کر آئیں

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button