الیگزنڈر ڈووی سے خطاب(بزبان حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ)
یہ میں جو مائلِ پرواز ہو کے آیا ہوں
مسیحِ وقت کا اعجاز ہو کے آیا ہوں
اور اک صدی کی کہانی مرے وجود میں ہے
پڑاؤ آج ترے شہر کی حدود میں ہے
سنانے آیا ہوں میں داستانِ فتحِ عظیم
تا سب کو یاد رہے یہ نشانِ فتحِ عظیم
تری شکست کے قصّے نہیں سناؤں گا
زمانہ مان چکا، اور کیا مناؤں گا
یہ آسمانی طلسمات کی کہانی ہے
خدا کے فضل کی برسات کی کہانی ہے
تری طرح کے ہزاروں اُٹھے، غروب ہوئے
ہماری فتح کے چرچے جہاں میں خوب ہوئے
اگرچہ گزری صدی پر بھی مان ہے مجھ کو
زیادہ دین کے فردا کا دھیان ہے مجھ کو
ہزاروں مسجدیں میں نے ابھی بنانی ہیں
جو بے شمار فتوحات کی نشانی ہیں
یہ وقت دنیا میں توحید کی اذان کا ہے
مجھے جو حُکمِ اذاں ہے، وہ آسمان کا ہے
ابھی زمانے کو قرآں شناس کرنا ہے
اور اس کو امنِ جہاں کی اساس کرنا ہے
یہ دیکھنا ہے کہ دنیا ہو جب بھی سر بسجود
تو سامنے ہو خدا کے سوا نہ کوئی وجود
جہاں میں اسمِ محمدؐ کا یوں چراغاں ہو
کہ اُسؐ کے دین پہ ہر ایک دل کو ایماں ہو
جو قادیاں سے اٹھی تھی صدائے صَلِّ علیٰ
برائے سطوتِ ایماں وہی ہے راہِ ہُدیٰ
وہ جس صدا سے تُو ٹکرا کے پاش پاش ہُوا
وہ جس سے شعبدہ بازی کا راز فاش ہوا
تم اہلِ قہر تھے، سو اُس میں قہر دیکھ لیا
پر اہلِ دل نے محبت کا شہر دیکھ لیا
میں اُس صدا کو لیے شہر شہر جاتا ہوں
محبتوں کی نئی بستیاں بساتا ہوں
میں تیرے شہر میں مسجد بنا کے چلتا ہوں
اور اگلی منزلِ مقصود کو نکلتا ہوں
مسیحِ وقت کا مقصد پکارتا ہے مجھے
سو چھوڑتا ہوں تری حسرتوں میں غرق تجھے
ہاں، اُس مسیح کا اک آخری پیام سنو!
جو خاص بھیجا گیا ہے تمہارے نام، سنو!
’’سنو! لِیُظھِرَہُ کی صدا محیط ہوئی
رسولِ پاکؐ کی اور دینِ حق کی جیت ہوئی‘‘