پرسیکیوشن رپورٹس

اسلامی جمہوریہ پاکستان میں احمدیوں پر ہونے والے دردناک مظالم کی الَم انگیز داستان

(اے آر ملک)

مذہبی صحیفوں پر پابندی لگانے کی حماقت

زیادہ تر معاشروں میں دوسروں کے صحیفوں پر پابندی لگانے یا ان پر کچھ مختلف طریقوں سے پابندیاں لگانے کا رجحان ہے۔ یہ کم ترقی یافتہ معاشروں اور ریاستوں میں زیادہ پایا جاتا ہے۔ مثال کے طور پر پاکستانی پنجاب میں ایک قانون ہے جو قرآن پاک کی طباعت اور اشاعت پر پابندی لگاتا ہے۔ یہ قانون احمدیوں کو خاص طور پر نشانہ بناتا ہے اور انہیں اپنی مقدس کتاب قرآن کریم کے ترجمے شائع کرنے یا اصل عربی کو چھاپنے سے بھی منع کرتا ہے۔ اس کے علاوہ اس صوبے نے جماعت احمدیہ کے بانی مرزا غلام احمد قادیانی علیہ الصلوٰۃ والسلام کی تحریرکردہ کتابوںپر پابندی عائد کرنے کے احکامات جاری کیے ہیں۔ مئی 2021ءمیں لاہور ہائی کورٹ کے جسٹس فاروق حیدر نے ایڈیشنل سیشن جج (ASJ) ابوبکر صدیق کے فیصلے اور جوڈیشل مجسٹریٹ عادل ریاض کے فیصلے کی توثیق کی جس کے تحت انہوں نے خود ہی اس قانون کی تشریح کی اور اسی طرح صوبائی حکم کو بھی ایک نیا زاویہ دے دیا اور ان میں مزید شقیںشامل کر ڈالیں۔ لاہور ہائی کورٹ کی آرڈر شیٹ، طاہر نقاش اور ایک اور بمقابلہ ریاست وغیرہ، اس بات کو واضح کرتی ہے کہ ایک احمدی کی طرف سے قرآن پاک کی تلاوت ،توہین رسالت کی ان شقوں کے دائرے میں آتی ہے جو سزائے موت اور عمر قید کی تجویز کرتی ہیں۔ ان تینوں عدالتی عہدیداروں کے مطابق بانی احمدیہ کی لکھی گئی کتابیں دیگر مذاہب کو بھی ناپاک کرتی ہیں، اس لیے ان کے حامل احمدیوں پر بھی اس سیکشن تعزیرات پاکستان دفعہ 295-C اور B-۔295 کا اطلاق ہوتا ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ پنجاب کے قانون ساز اور اس کے انتظامی اور عدالتی اہلکار ملاں سے بہت زیادہ متاثر ہیں اور اس مسئلے کےدیگر زاویوں کونظر انداز کرنا آسان سمجھتے ہیں۔ ہم وضاحت کرتے چلیں کہ پنجاب کے حکام اور ان تینوں عدالتی حکام میں سے اکثریتی مسلمانوں کے لیے، قرآن پاک خدا کا آخری کلام، آخری سچائی، اب تک کی سب سے بڑی کتاب ہے، وغیرہ۔ تاہم، کیا وہ جانتے ہیں کہ کچھ دوسرے اس سے ملتے جلتےمعاملات کو کیسا پاتے ہیں اور کس طرح اس سے نمٹنا چاہتے ہیں؟ سوویت روس نے 1925-1957ء تک قرآن پر پابندی لگا دی۔ 2005ء میں امریکہ کے گیٹ سٹی این سی کے سکولوں میں قرآن پاک پر پابندی لگا دی گئی۔2009ء کے آخر تک، امریکہ میں اسلام کی تبلیغ کو جرم قرار دینے کی کئی کوششیں ہوئیں اور قرآن کے پاس ہونے کو بغاوت کا ایک آلہ قراردینے کی کوشش کی گئی جس کی سزا غداری کی سزا کے مترادف ہو۔ Geert Wildersنے یورو نیوز کو اپنی رائے دیتے ہوئے کہا کہ ہالینڈ میں قرآن پاک پر پابندی لگنی چاہیے۔

حال ہی میں، محکمہ اوقاف کے سابق چیئرمین وسیم رضوی نے سپریم کورٹ آف انڈیا کے سامنے مفاد عامہ کی ایک عرضی دائر کی ہے کہ قرآن کریم کی کچھ (26) آیات دہشت گردی کو فروغ دیتی ہیں (نعوذ باللہ) اور وزیر اعظم مودی سے درخواست کی ہےکہ ملک کے تمام مدارس اور مسلم اداروں میں ترمیم شدہ نیا قرآن کے استعمال کی اجازت دی جائے۔ یقیناً یہ ناقص رائے، فیصلے اور طرز عمل غیر معقول، بدنیتی پر مبنی اور احمقانہ تھے۔ اس طرح کی سب آراءکا یہی حال ہے۔

اس کے علاوہ، اہلِ قانون اس بات سے آگاہ ہوں گے کہ ممنوعہ کتاب پڑھنا غیر قانونی نہیں ہے۔ الیکٹرانک میڈیا میں یہ بات ریکارڈ پر موجود ہے کہ 1984۔1985ءمیں چندومل چوپڑا اور کشور چکرورتی اسلام اور مسلمانوں کے بارے میں سخت رویہ رکھتے تھے اور انہوں نے اس کے خلاف ٹھوس اقدامات کرنے کا فیصلہ کیا۔ چندو مل نے 29؍مارچ 1985ء کو کلکتہ ہائی کورٹ میں ایک رٹ پٹیشن دائر کی جس میں دعویٰ کیا گیا کہ قرآن ’’مذہب کی بنیاد پر مختلف مذہبی برادریوں کے درمیان بدامنی، دشمنی، نفرت اور بغض کے جذبات کو فروغ دیتا ہے اور لوگوں کو تشدد کرنے اور عوامی امن کو خراب کرنے پر اکساتا ہے… ..،‘‘ پس اس پر پابندی لگنی چاہیے۔ واضح رہے کہ یہ الزامات کچھ اسی نوعیت کے ہیں جس کی توثیق لاہور ہائی کورٹ کے محترم جسٹس حیدر نے احمدیوں کے خلاف کی ہے۔ یہ سہرہ تو انڈیا کے سر ہے کہ مرکزی حکومت اور مغربی بنگال کی حکومت نے خود کو اس کیس میں فریق بنانے اور پٹیشن کی مخالفت کرنے کا فیصلہ کیا۔ یہ ریکارڈ پر ہے کہ پاکستان کے وزیر مملکت برائے مذہبی اور اقلیتی امور نے دعویٰ کیا کہ یہ پٹیشن مذہبی عدم برداشت کی بدترین مثال ہے۔ چنانچہ مئی 1985ءمیں جسٹس باساک نے اس درخواست کو خارج کر دیا تھا۔ 18؍ جون 1985ءکو چوپڑا نے ایک نظرثانی کی درخواست دائر کی، جسے 21؍جون کو ہی خارج کر دیا گیا۔ کیس خارج ہونے کے بعد، سری نگر میں وزیر اعلیٰ سے کارروائی کا مطالبہ کیا۔ پٹیشن دائر کرنے کی اجازت دینے پر جسٹس پدما خستگیر کے خلاف عوامی ریلی نکلی۔ 31؍اگست 1987ءکو پولیس نے چوپڑا کو کتاب دی کلکتہ قرآن پٹیشن لکھنے پر گرفتار کیا۔ ٹائمز آف انڈیا نے تین مضامین شائع کیے جن میں پٹیشن تنازعہ کے دوران قرآن کی تعریف کی گئی تھی۔ مسٹر گپتا، ڈپٹی سیکرٹری ہوم ڈیپارٹمنٹ حکومت مغربی بنگال نے عدالت کے سامنے ایک حلف نامہ پیش کرتے ہوئے کہا، ’’عدالت کو پوری دنیا کے مسلمانوں کی مقدس کتاب قرآن پر فیصلہ سنانے کا کوئی اختیار نہیں ہے۔‘‘ انہوں نے مزید کہا کہ قرآن پاک ایک آسمانی کتاب ہے اس لیے اس پر فیصلہ کرنے کے لیے کوئی زمینی طاقت نہیں بیٹھ سکتی اور نہ ہی کسی عدالت کے پاس اس کا فیصلہ کرنے کا اختیار ہے۔ مقدس کتابیں جیسے قرآن، بائبل، گیتا، گرنتھ صاحب وغیرہ یا ان کے تراجم کسی عدالت میں فیصلے کا موضوع نہیں بن سکتے۔ تمام مقدس صحیفے عدالتی تحقیقات سے محفوظ ہیں۔ بھارت کے اٹارنی جنرل نے دلیل دی کہ ’’اس عدالت کے دائرہ اختیار کو استعمال کرنے کے لیے سیاق و سباق سے ہٹ کر کچھ اقتباسات کا حوالہ نہیں دیا جا سکتا۔‘‘ انہوں نے عرض کیا کہ یہ پٹیشن آئین کی خلاف ورزی ہے جو تمام ہندوستانی شہریوں کو ’’فکر، اظہار، عقیدہ اور عبادت کی آزادی‘‘ کی ضمانت دیتا ہے۔ (اصولی طور پر، پاکستان میں کسی حد تک آئینی حیثیت بھی یہی ہے۔) جسٹس بی سی باساک نے دیگر باتوں کے ساتھ ان امور کا بھی مشاہدہ کیا:

٭یہ بھی عدالت کے لیے خطرناک ہے کہ وہ ایسی کتاب پر محض سیاق و سباق سے ہٹ کر کچھ اقتباسات کو دیکھ کر اپنے فیصلے سنائے۔

٭قرآن پر پابندی آرٹیکل ۲۵کی خلاف ورزی کرنےکے مترادف ہوگی۔ جو یہ آزادی فراہم کرتا ہے کہ تمام افراد آزادی سے مذہب کا دعویٰ کرنے، اس پر عمل کرنے اور اس کی تبلیغ کرنے کے یکساں حقدار ہوں گے۔ قرآن پاک پر پابندی یا ضبط کرنا اس حق کی خلاف ورزی کرے گا۔ قرآن کے نسخوں پر پابندی یا ضبط کرنا ناقابل تصور ہے۔

٭عدالت کو اس قسم کے معاملات میں محتاط رہنا چاہئے۔ دوسری صورت میں، اگرچہ یہ سستی تشہیر کو اپنی طرف متوجہ کر سکتا ہے لیکن ان کہی مصیبت اور مذہبی ہم آہنگی میں خلل کا سبب بن سکتا ہے۔ ہائی کورٹ کو اس کی وجہ سے ہونے والی شرمندگی سے بچنا چاہیے۔

٭جسٹس چندر باساک نے درخواست کو مسترد کر دیا اور بیان کیا، ’’درخواست کو فوری طور پر مسترد کر دیا جانا چاہیے تھا اور جیسے ہی اسے منتقل کیا گیا تھا، اس کو غور کرنے کے قابل تصور نہیں کرنا چاہیے تھا۔جسٹس باساک، وہ انصاف، جمہوریت اور آزادی کا صحیح اور مکمل مفہوم جانتے تھے۔ ان کے پورے فیصلے کا مطالعہ پاکستان کے انتظامی اور عدالتی اعلیٰ حکام کے لیے مفید اور کارآمد ثابت ہوگا۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم) نے مسلمانوں سے فرمایا: حکمت مسلمان (مومن) کی کھوئی ہوئی شے ہے اسے جہاں بھی ملے لے لے کیونکہ وہ اسے لینے کا دوسروں سے زیادہ حقدار ہے۔ جامع ترمذی ابواب العلم۔ ذرائع: گوگل، ویکیپیڈیا اور احادیث النبیؐ جون 2021ء

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button