قرآن کریم نجات کا ذریعہ
(انتخاب از خطبہ جمعہ حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ 16؍ دسمبر 2011ء)
ہمارے بچے عموماً ماشاء اللہ بڑی چھوٹی عمر میں قرآنِ کریم ختم کر لیتے ہیں۔ جن کی ماؤں کو زیادہ فکر ہوتی ہے کہ ہماری اولاد جلد قرآنِ کریم ختم کرے وہ اُن پر بڑی محنت کرتی ہیں۔ یہاں بھی اور مختلف ملکوں میں جب مَیں جاتا ہوں تو وہاں بھی بچوں اور والدین کو شوق ہوتا ہے کہ میرے سامنے بچوں سے قرآنِ کریم پڑھوا کر اُن کی آمین کی تقریب کروائیں۔ لیکن مَیں نے دیکھا ہے کہ ایک مرتبہ قرآنِ کریم ختم کروانے کے بعد پھر اُن کی دہرائی اور بچے کو مستقل قرآنِ کریم پڑھنے کی عادت ڈالنے کے لئے عموماً اتنا تردّد اور کوشش نہیں ہوتی جتنی ایک مرتبہ قرآنِ کریم ختم کروانے کے لئے کی جاتی ہے۔ کیونکہ مَیں جب پوچھتا ہوں کہ تلاوت باقاعدہ کرتے ہو یا نہیں (بعضوں کے پڑھنے کے انداز سے پتہ چل جاتا ہے) تو عموماً تلاوت میں باقاعدگی کا مثبت جواب نہیں ہوتا۔ حالانکہ ماؤں اور باپوں کو قرآنِ کریم ختم کروانے کے بعد بھی اس بات کی نگرانی کرنے چاہئے اور فکر کرنی چاہئے کہ بچے پھر باقاعدہ قرآنِ کریم کی تلاوت کرنے کی عادت ڈالیں۔ پس اپنی فکریں صرف ایک دفعہ قرآنِ کریم ختم کروانے تک ہی محدودنہ رکھیں بلکہ بعد میں بھی مستقل مزاجی سے اس کی نگرانی کی ضرورت ہے۔ یقینا پہلی مرتبہ قرآنِ کریم پڑھانا اور ختم کروانا ایک بہت اہم کام ہے۔ بعض مائیں چار پانچ سال کے بچوں کو قرآنِ کریم ختم کروا دیتی ہیں اور یقینا یہ بڑا محنت طلب کام ہے۔ لیکن جیسا کہ مَیں نے کہا کہ مستقل مزاجی سے اسے جاری رکھنا اور بھی زیادہ ضروری ہے۔ گزشتہ دنوں ایک خاتون کا مجھے خط ملا جس میں میری والدہ کا ذکر تھا اور لکھا کہ ایک بات جو انہوں نے مجھے کہی اور آج تک میں اس پر اُن کی شکر گزار ہوں کہ ایک دفعہ میں اپنی بچی یا بچے کو لے کر گئی جس نے قرآنِ کریم ختم کیا تھا تو مَیں نے بڑے فخر سے انہیں بتایا کہ اس بچے نے چھ سال کی عمر میں قرآنِ کریم ختم کر لیا ہے۔ اس پر انہوں نے کہا کہ چھ سال یا پانچ سال میں قرآنِ کریم ختم کرنا تو اتنے کمال کی بات نہیں ہے۔ مجھے تم یہ بتاؤ کہ تم نے بچے کے دل میں قرآنِ کریم کی محبت کتنی پیدا کی ہے؟ تو حقیقت یہی ہے کہ قرآنِ کریم پڑھانے کے ساتھ ہی قرآنِ کریم کی محبت پیدا کرنی بھی ضروری ہے۔ اور تبھی بچے کو خود پڑھنے کا شوق بھی ہو گا۔ اور جس زمانے اور دَور سے ہم گزر رہے ہیں جہاں بچوں کے لئے متفرق دلچسپیاں ہیں۔ ٹی وی ہے، انٹرنیٹ ہے، دوسری کتابیں ہیں۔ ان دلچسپیوں میں بچے کا خود صبح باقاعدہ تلاوت کرنا اور پڑھنا اُسے قرآنِ کریم کی اہمیت کا احساس دلائے گا۔
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے بھی اس طرف توجہ دلائی ہے کہ اس زمانے میں جب مختلف قسم کی دلچسپیوں کے سامان ہیں، مختلف قسم کی دلچسپی کی کتابیں موجود ہیں، مختلف قسم کے علوم ظاہر ہو رہے ہیں، اس دور میں قرآنِ کریم پڑھنے کی اہمیت اور زیادہ ہو جاتی ہے اور ہمیں اس طرف توجہ کرنی چاہئے۔ پس اس کو پڑھنے کی طرف بہت زیادہ توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ بچوں میں قرآنِ کریم کی محبت اُس وقت پیدا ہو گی جب والدین قرآنِ کریم کی تلاوت اور اُس پر غور اور تدبر کی عادت بھی ڈالنے والے ہوں گے۔ اُس کے پڑھنے کی طرف زیادہ توجہ دیں گے۔ جب ہر گھر سے صبح کی نماز کے بعد یا آجکل کیونکہ سردیوں میں نماز لیٹ ہوتی ہے، اگر کسی نے کام پر جلدی نکلنا ہے تو نماز سے پہلے تلاوت باقاعدہ ہو گی تو وہ گھر قرآنِ کریم کی وجہ سے برکتوں سے بھر جائے گا اور بچوں کو بھی اس طرف توجہ رہے گی۔ بچے بھی اُن نیکیوں پر چلنے والے ہوں گے جو ایک مومن میں ہونی چاہئیں۔ اور جوں جوں بڑے ہوتے جائیں گے قرآنِ کریم کی عظمت اور محبت بھی دلوں میں بڑھتی جائے گی۔ اور پھر ہم میں سے ہر ایک مشاہدہ کرے گا کہ اگر ہم غور کرتے ہوئے باقاعدہ قرآنِ کریم پڑھ رہے ہوں گے تو جہاں گھروں میں میاں بیوی میں خدا تعالیٰ کی خاطر محبت اور پیار کے نظارے نظر آ رہے ہوں گے، وہاں بچے بھی جماعت کا ایک مفید وجود بن رہے ہوں گے۔ اُن کی تربیت بھی اعلیٰ رنگ میں ہو رہی ہو گی۔ اور یہی چیز ہے جو ایک احمدی کو اپنی زندگی کا حصہ بنانے کے لئے پوری توجہ اور کوشش سے کرنی چاہئے۔ اس زمانے میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے اس بات کو ہم میں پید اکرنے کے لئے بہت کوشش فرمائی ہے اور آپؑ کے آنے کا مقصد بھی یہی تھاکہ قرآنِ کریم کو دنیا میں ہر چیز سے اعلیٰ مقام دینے والے بنیں اور اسے وہ عزت دیں جس کے مقابلے میں کوئی اور چیز نہ ہو۔ قرآنِ کریم کی عزت کو ہم صرف اس حد تک ہی نہ رکھیں جو عموماً غیر از جماعت کرتے ہیں کہ خوبصورت کپڑوں میں رکھ لیا، خوبصورت شیلف میں رکھ لیا، خوبصورت ڈبوں میں رکھ لیا۔ قرآنِ کریم کی اصل عزت یہ ہے اور اس کی محبت یہ ہے کہ اس کے احکامات پر عمل کرنے کی بھر پور کوشش کی جائے۔ اُس کے اوامر اور نواہی کو اپنی زندگی کا حصہ بنایا جائے۔ جن چیزوں سے خدا تعالیٰ نے روکا ہے اُن سے انسان رُک جائے اور جن کے کرنے کا حکم ہے اُن کو انجام دینے کے لئے اپنی تمام تر قوتوں اور استعدادوں کو استعمال کرے۔ اللہ تعالیٰ کا خوف دل میں رکھتے ہوئے اس کی تلاوت کی جائے۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃوالسلام نے بیشمار جگہ اپنی کتب میں، اپنی مجالس میں، ملفوظات میں قرآنِ کریم کی اہمیت بیان فرمائی ہے اور ان باتوں کا ذکر فرمایا ہے۔ ان توقعات کا ذکر فرمایا ہے جوایک احمدی سے اور ایک بیعت کنندہ سے آپ کو ہیں۔ پس ہمیں اپنے گھروں کو تلاوتِ قرآنِ کریم سے بھرنے کی بہت زیادہ ضرورت ہے۔ اس بات کی ضرورت ہے کہ تلاوت کے ساتھ اس کا ترجمہ بھی پڑھیں تا کہ اُس کے احکام سمجھ میں آئیں۔ گھروں میں بچوں کے سامنے قرآنِ کریم کی تلاوت کے ساتھ اس کے سمجھنے اور اس کے ترجمے کے تذکرے اور کوشش بھی ہو۔ صرف تلاوت کی عادت نہ ڈالی جائے بلکہ ایسی مجلسیں ہوں جہاں قرآنِ کریم سے چھوٹی چھوٹی باتیں نکال کر بچوں کے سامنے بیان کی جائیں تاکہ اُن میں بھی شوق پیدا ہو۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے نماز اور قرآن کے ترجمے کو سمجھنا اور پڑھنا بڑا ضروری قرار دیا ہے۔ لیکن صرف ترجمہ پڑھنا اور اصل عربی متن یا عبارت نہ پڑھنا اس کی اجازت نہیں ہے۔ آپ نے فرمایا کہ’’ہم ہرگز فتویٰ نہیں دیتے کہ قرآن کا صرف ترجمہ پڑھا جاوے۔ اس سے قرآن کا اعجاز باطل ہوتا ہے۔ جو شخص یہ کہتا ہے (کہ صرف ترجمہ پڑھنا کافی ہے) وہ چاہتا ہے کہ قرآن دنیا میں نہ رہے۔‘‘(ملفوظات جلد سوم صفحہ 265۔ ایڈیشن 2003ء )… پس اگر ایک مومن کوقرآنِ کریم سے حقیقی محبت ہے تو وہ اس معیار پر خود بھی پہنچنے کی کوشش کرے گا اور کرتا ہے اور اپنے بچوں کو بھی وہاں تک لے جانے کی کوشش کرے گا۔ جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا۔ شر اور برائی سے رکنا کوئی کمال نہیں۔ کسی بری حرکت سے رکنا، کسی شر سے رکنا یہ تو کوئی کمال نہیں ہے۔ یہ ہمارا مطمحِ نظر نہیں ہونا چاہئے بلکہ ہمیں اپنے ٹارگٹ بڑے رکھنے چاہئیں اور اُس کے حصول کی کوشش کرنی چاہئے کہ قرآنِ کریم میں بیان ہوئی ہوئی تمام قسم کی نیکیوں کو اپنے اوپر لاگو کرنے کی کوشش کریں۔ جب یہ کوشش ہر مرد، عورت اور بچے سے ہو رہی ہو گی تو ایک پاک معاشرے کا قیام ہو رہا ہو گا۔ اُس معاشرے کا قیام ہو گا جس کو اسلام قائم کرنا چاہتا ہے۔ آئے دن جو اسلام اور قرآنِ کریم پر اعتراض کرنے والے ہیں اُن کے منہ بھی بند ہوں گے۔