مسجد فتحِ عظیم کی افتتاحی تقریب سے ڈاکٹر کترینہ لینٹوس کا خطاب
٭…مجھے نہیں لگتا کہ ہم اس شام کو دنیا کے کسی دوسرے حصے، پاکستان میں ایک احمدیہ جماعت کو یاد کیے بغیر گزار سکتے ہیں۔جماعت کے وہ لوگ جنہیں روزانہ ناقابل تصوّر ظلم و ستم، نفرت اور تشدّد کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ وہ خود کو ایک ایسی حکومت کے سامنے تنہا پاتے ہیں جو ان کی حفاظت کرنے سے انکار کرتی ہے
ڈاکٹر کترینہ لینٹوس سویٹ جے ڈی، پی ایچ ڈی، ٹفٹس یونیورسٹی کی پروفیسر اور ٹام لینٹوس فاؤنڈیشن برائے حقوقِ انسانی و انصاف اور بین الاقوامی مذہبی آزادی سے متعلق امریکی کمیشن کی سابق چیئر پرسن نے حضرت مرزا مسرور احمد خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے کلیدی خطاب سے قبل یکم اکتوبر 2022ء کو فتحِ عظیم مسجد، زائن الینوئے کے افتتاحی استقبالیہ سے خطاب کیا۔ یہاں ہم ان کی تقریر کے متن کا اردو مفہوم پیش کرتے ہیں۔
شام بخير!مجھ سے پہلے کے دیگر معزز مقررین کی طرح، جنہوں نے اس بات کا اظہار کیا ہے کہ وہ آج رات آپ کے ساتھ ہونے پر کتنا فخر اور خوشی محسوس کرتے ہیں، میں بھی یہ کہنا چاہوں گی کہ اس غیر معمولی جشن کے لیے یہاں آنا کتنا بڑا اعزاز اور خوش قسمتی ہے۔
مجھے کئی سالوں سے احمدیہ جماعت کو جاننے کا غیر معمولی موقع ملا ہے۔میں جانتی ہوں کہ جب بھی میں ان لوگوں کے ساتھ ہوتی ہوں، میری روح بلندیوں کو چھو رہی ہوتی ہے۔ میں کسی مذہبی جماعت کو نہیں جانتی جسے میں نے مشاہدہ کیا ہو اور جو اپنی مذہبی تعلیمات کے بلند و بانگ دعوے کرتے ہوں اور ان پر روز بروز کی زندگی میں کماحقہ عمل کرتے ہوں، جو اعلیٰ نظریات اور اصولوں کے لیے ہر وقت کوشاں رہتے ہوں۔ ان نظریات کے لیے جو زندگی کی بنیاد ہوں۔میرا خیال ہے کہ ہم میں سے جو لوگ اس کمرے میں ہیں وہ اس جذبے کے حامل ہیں۔ یقینا ًعزم خدا کی طرف سے ودیعت کیا جاتا ہے، لیکن یہ عزم واقعی آپ کے غیر معمولی راہنما، تقدس مآب کی طرف سے حاصل ہوتا ہے۔ [یعنی حضور انورسے]میں بہت خوش قسمت، فیض یاب اور خاص اعزاز محسوس کرتی ہوں کہ میں آج آپ سب کے ساتھ یہاں موجود ہوں۔
جب میرے دوست امجد، جو واقعی ایک اعلیٰ پائے کے انسان ہیں اور آپ سب کو معلوم ہونا چاہیے کہ وہ اس جماعت کے غیر معمولی کارکن ہیں۔ انہوں نے پہلی بار مجھے یہاں ہونے والی دعائیہ لڑائی [یعنی مباہلے] کی کہانی سنائی یا جو واقعہ یہاں زائن الینوئے میں رونما ہوا تو میں اسے سن کر ہکی بکی رہ گئی، کہنے کو الفاظ نہ تھے۔ مجھے لگا کہ یہ اصل میں ایک ہالی ووڈ فلم کی کہانی ہے اور ذاتی طور پر مجھے امید ہے کہ یہ ایک فلم ہو سکتی ہے کیونکہ یہ ایک ناقابلِ یقین کہانی ہے۔ سب سے پہلے آپ کہتے ہیں؛ انتظار کریں کہ کیا واقعی ایسا ہوا ؟ میں نےاس کہانی کو بہت دلچسپ پایا۔ یہ واقعہ جدید آلات جیسے سیل فون اور کمپیوٹرز وغیرہ کی ایجاد سے بہت پہلے ظہور میں آیا۔ دعا کے ذریعے اس جنگ نے کس تیزی کے ساتھ دنیا میں تہلکہ مچا دیا، یہ واقعی دنیا میں حادثاتی طور پر ایک معجزہ رونما ہواتھا، لیکن جس چیز نے اسے ہالی ووڈ کی کسی بھی کہانی سے کہیں زیادہ اہم بنا دیا وہ یہ ہوسکتا ہے کہ یہ واقعی ایک ایسا لمحہ تھا جب معاشرے میں انسانیت کے خدا کے دو بہت ہی مختلف نظارے منظر عام پر آئے۔ جان ڈووی کا ایک نظریہ سادہ الفاظ میں نفرت، تعصب اور تقسیم پر مبنی تھا۔ جماعت احمدیہ کے بانی مرزا غلام احمد کا دوسرا نظریہ احترام، ایمان اور رواداری اور ایک قسم کی سلامتی کا تھا جو کسی ایسے شخص کی طرف سے آیا تھا جو حتمی نتائج کو خدا یا اللہ پر چھوڑنے کے لیے تیار تھا۔ یقیناً ہم جانتے ہیں کہ اس غیر معمولی دعائیہ معرکے میں کس نے کامیابی حاصل کی۔ درحقیقت یہ خوبصورت مسجد جس کا افتتاح اب اس ہفتے کے آخر میں کیا جا رہا ہے، دراصل فتحِ عظیم مسجد کہلاتی ہے، جس کا مطلب ایک عظیم فتح ہے، کیونکہ اس دعا میں فتح احمدیوں کو حاصل ہوئی؛ جی ہاں، احمدیہ جماعت کے پہلے بانی اور راہنما کو، لیکن مجھے یوں لگتا ہے کہ اصل میں فتح انسانیت کو ملی کیونکہ یہ عزت و احترام کی ایک فتح تھی؛ محبت اور رواداری کی فتح۔یہ تمام خوبیاں اس حیرت انگیز جماعت کا خاصہ ہیں۔
آپ جان جائیں گے جو میں نے اس بارے میں سوچا۔انجیل کی ایک بہت ہی خاص کہانی میرے ذہن میں آئی۔ یہ یعقوب کے بیٹوں میں سے یوسف کی کہانی ہے۔ اس کے پاس خداداد صلاحیت تھی کیونکہ اس کا نظریہ خاص تھا کیونکہ خدا کے اس پر بہت احسان تھے۔ وہ اپنے بہت سے بھائیوں کے حسد کا نشانہ بنا یاگیا۔شاید اس کمرے میں اس کے بارے میں آپ جانتے ہوں گے۔میں جانتی ہوں کہ یہاں کچھ یہودی راہنما موجود ہیں، لہٰذا میں امید کرتی ہوں کہ کم و بیش کہانی کو صحیح بیان کروں۔ اس کے بھائیوں نے اسے بیچ کر غلام بنا دیا تھا۔وہ امید کی ایک کرن کے انتظار میں تھا جس کا بہت ہی مدھم امکان تھا۔ بہت سنگین حالات تھے لیکن یوسف بہت غیر معمولی انسان تھا۔ وہ سب سے پہلے مصر کے ایک مشہور، اہم اور طاقتور راہنما پوتیفر کے گھر کا مالک بن گیا۔ لیکن پھر حالات نے پلٹا کھایا جس میں اس کا اپنا کوئی قصور نہ تھا، اس پر جھوٹا الزام لگا کر جیل میں ڈال دیا گیا۔ لہٰذا اس کی یہ زندگی ایک محبوب اور شاید پسندیدہ بیٹے ہونے اور غلامی میں فروخت ہونے کے درمیان آگے پیچھے گھومتی ہے، پھر نمایاں طور پراسے شہرت ملی۔ دوبارہ جھوٹا الزام لگاکر اسے جیل کی سلاخوں کے پیچھے ڈالا گیا۔ لیکن یوسف نے ان تمام مصائب کے باوجود اپنے ایمان کو قائم رکھا۔ وہ وقت کے ساتھ ساتھ اپنی خوبیوں پر قائم رہا۔ایک بار پھر اس کے لیے عظیم اور غیرمعمولی طاقت کے عہدے پر پہنچنے کا دروازہ کھولا گیا۔ اس نے فرعون کے خوابوں کی تعبیریں بیان کیں جو اور کوئی نہ سمجھ سکتا تھا، مصر کے تمام جادوگر اور دیگرعقلمند اس معاملے میں ناکام ہو چکے تھے۔ اس نے خدا سے دعا کی اور اسے خوابوں کی تعبیریں سمجھ آ گئیں۔ وہ فرعون کے بعد مصر کا سب سے طاقتور شخص بن گیا۔ جیسا کہ آپ کہانی کو یاد کریں گے سات سال کی خوشحالی کے بعد، سات سال کا قحط آیا۔ یوسف کا خاندان اسے طویل عرصے میں کنعان شہرمیں بھول چکا تھا۔وہ کچھ رزق حاصل کرنے کے لیے مصر کی طرف مایوسی کی حالت میں آئےکیونکہ یوں ان کی بھوک ختم ہو سکتی تھی۔ یوسف نے اپنے بھائیوں کو پہچان لیا لیکن انہوں نے اسے نہ پہچانا۔ آخر کار خدا نے ان مشکل حالات میں اس کو اپنے خاندان کو بچانے کا ذریعہ بنایا۔ انہوں نے جماعت احمدیہ کے جذبےکی طرح ان لوگوں کو معاف کر دیا جنہوں نے اس کے ساتھ بہت برا سلوک کیا تھا۔ اس کے بھائی جنہوں نے اسے دھوکا دیا تھا، وہ سکتے میں آگئے۔ اس نے ان سے بہت اعلیٰ اور خوبصورت بات کہی۔ اس نے ان کے اعمال کے بارے میں بات کرتے ہوئے کہا کہ انہوں نے اسے غلام بنانے کے لیے فروخت کیا۔ انہوں نے اس کے لیے برائی چاہی لیکن خدا نے اسے بھلائی میں بدل دیا۔ جب میں اس خوبصورت مسجد کو دیکھتی ہوں تو میں اس کے بارے میں سوچتی ہوں۔ اب اسی جگہ زائن، الینوئے میں یہ تعمیر کی گئی ہے، جہاں دعا کا مقابلہ دنیا کے سامنے ظاہر ہوا۔ جان ڈووی نے برائی چاہی لیکن خدا نے اچھائی کا بول بالا کیا۔ یہ عظیم فتح احمدی لوگوں کے حصے میں آئی۔
ہم آج رات یہاں ایک پرامن جگہ میں حیرت انگیز دوستوں کے ساتھ ایک خوبصورت تقریب میں بیٹھے ہوئے ہیں۔ ہم ایک مزیدار کھانے سے لطف اندوز ہوں گے،دوستوں کی رفاقت ہوگی۔ لیکن مجھے نہیں لگتا کہ ہم اس شام کو دنیا کے کسی دوسرے حصے، پاکستان میں ایک احمدیہ جماعت کو یاد کیے بغیر گزار سکتے ہیں۔جماعت کے وہ لوگ جنہیں روزانہ ناقابل تصوّر ظلم و ستم، نفرت اور تشدّد کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ وہ خود کو ایک ایسی حکومت کے سامنے تنہا پاتے ہیں جو ان کی حفاظت کرنے سے انکار کرتی ہے۔ پولیس ان کا دفاع کرنے سے انکار ی ہے۔ مذہبی راہنما اپنے پیروکاروں کو ان پر حملہ کرنے کی ترغیب دیتے ہیں۔ گزشتہ چند دنوں میں، ایک اور پیارے دوست؛ جوواقعی اس جماعت کے اندر ایک بھائی کی طرح ہیں، مجھے جماعت احمدیہ کے خلاف حال ہی میں ایک اشتعال انگیزی کا بتایا ہے جہاں انہیں اس کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔اس جماعت کی حاملہ خواتین کو دھمکی دی جا رہی ہے کہ وہ احمدی بچوں کی پرورش اور انہیں دنیا میں لانے سے باز آ جائیں۔ یہ خوفناک جرائم ہیں۔ یہ انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں ہیں۔ یہ ان تمام چیزوں کی خلاف ورزیاں ہیں جوایک مہذّب اور اچھے معاشرے میں نہیں ہوتیں۔ لیکن میرے خیال میں یہ بات بہت اہم ہے کہ یہ جماعت اپنے احمدی بھائیوں اور بہنوں کے ساتھ کھڑی ہے۔ ہم ان کی مذہبی جماعت میں شامل نہیں لیکن ان کی اس مشکل گھڑی میں ان کےساتھ کھڑےہیں۔
آپ جان جائیں گے کہ میں نے حال ہی میں برطانیہ کے بارے میں ایک بہت معیاری کتاب کامطالعہ کیا ہے۔ دوسری جنگ عظیم کے دوران میں اور اس عرصے کے دوران میں جب یورپ کا بیشتر حصہ Naziفوج اوران کی جنگی قوت کے قبضے میں چلا گیا تھا۔ اس فوج کشی نے پورے یورپ کا احاطہ کر رکھاتھا اور برطانیہ واقعی تنہا ہو گیا تھا۔ لیکن آپ جانتے تھے کہ وہ اس طاقت کے خلاف ہمیشہ کے لیے تنہا کھڑا نہیں رہ سکتا۔ ونسٹن چرچل، اس وقت برطانیہ کا وزیر اعظم تھا۔ وہ جانتا تھا کہ سب کچھ اس بات پر منحصر ہے کہ آیا امریکہ، وہ ملک جس میں ہم آج رہتے ہیں، آزادی کی یہ سرزمین جہاں ہم آزادی کی بہت سی نعمتوں سے لطف اندوز ہوتے ہیں، اس کی مدد کے لیے آئے گا یا برطانیہ اس زبردست جنگجو کی طاقت سے لڑنے کے لیے تنہا رہ جائے گا؟ امریکی صدر روزَویلٹ اس جنگ میں حصہ لینے کی ضرورت کو پوری طرح سمجھتے تھے لیکن وہ محسوس کرتے تھے کہ ان کے ہاتھ بندھے ہوئے ہیں اور ان کے پاس واقعی اس طرح کی آزادی نہیں ؛ وہ خیال کرتے تھے کہ اس وقت امریکہ کو کچھ کرنا چاہیے۔ انہوں نے اپنے قریب ترین قابل اعتماد مشیر ہیری ہاپکنز کو چرچل سے ملنے کے لیے انگلینڈ کا دورہ کرنے کے لیے بھیجا۔ کیاانگریزوں کے پاس عزم ہے؛ ان کی پشت مضبوط ہے ان کے پاس اس وقت تک جنگ جاری رکھنے کے اتنےذرائع ہیں کہ ریاستہائے متحدہ امریکہ کی طاقت ان کے لیے جنگ میں مدد گار بنے؟ چرچل جانتا تھا کیا کچھ داؤ پر لگا ہوا ہے۔ لہذا، اس نے ہاپکنز کو وہ سب کچھ دکھایا جو اس کے پاس فوجی طاقت میں تھا۔برطانیہ کو رات کی بمباری سے جو تباہی کا سامنا کرنا پڑا وہ اسےدکھایا۔Naziخطروں کا جو لوگ مقابلہ کر رہے تھے ان کے عزم اور ہمت کی کوششیں بتائیں۔ آخر کار، وہ آخری رات آئی جب ہاپکنز صدر روزَویلٹ کو اپنی رپورٹ پیش کرنے کے لیے ریاستہائے متحدہ امریکہ واپس چلا جائے گا۔ وہ سب آخری رات کے کھانے کے لیے جمع ہوئے تھے، ہوا میں ایک قسم کا تناؤ تھا کیونکہ برطانیہ والےجانتے تھے کہ وہ امریکی صدر کو کیا رپورٹ فراہم کرے گا۔ ہاپکنز نے کھڑے ہو کر اپنا گلا صاف کیا اور کہا، ’’میرا خیال ہے کہ آپ سب سوچ رہے ہیں کہ جب میں گھر واپس جاؤں گا تو میں صدر روزَویلٹ کو کیا بتاؤں گا۔‘‘
کمرے میں سکوت طاری تھا کیونکہ واقعی اس نے ان کے ذہنوں کو پڑھا تھا جو بالکل وہی ہے جو وہ سوچ رہے تھے۔ اس نے کہا ’’میں تمہیں صحیفوں کی ایک کتاب سے جواب دوں گا۔‘‘اس کے بعد اس نے پرانے عہد نامے میں سے روت کی کتاب کا حوالہ دیا اور کہا:’’جہاں تو جائے گی، میں جاؤں گی۔ اور جہاں تو رہے گی میں رہوں گی۔ تیرے لوگ میرے لوگ اور تیرا خدا میرا خدا ہو گا۔‘‘
پھر اس نے یہ الفاظ شامل کیے: (یہاں تک کہ آخر تک)۔
مؤرخین نے اطلاع دی کہ چرچل رویا تھا کیونکہ اس کے لیے یہ بہت بڑی راحت تھی لیکن اس کو یقین دہانی کا احساس تھا کہ وہ اکیلا نہیں۔ میں اپنے احمدی بھائیوں اور بہنوں سے یہ کہنا چاہوں گی کیونکہ واقعی اور صحیح معنوں میں مجھے لگتا ہے کہ ہم سب بھائی اور بہنیں ہیں۔ ہم میں سے جو لوگ آپ کی جماعت سے محبت کرتے ہیں اور ان کی تعریف کرتے ہیں وہ آپ کی زندگی کی اچھائی کو جانتے ہیں۔ آپ کی تعلیمات نیکی اور شرافت ہےکہ آپ پاکستان میں اپنے بھائیوں کے مصائب سے واقف ہیں۔ ہم تم سے کہنا چاہتے ہیں کہ جہاں تو جائے گا میں جاؤں گا اور جہاں تو ٹھہرے گا میں ٹھہروں گا۔ ہم آپ کے ساتھ آخر تک کھڑے رہیں گے۔ ہم تم سے محبت کرتے ہیں۔ہمیں اس شاندار جشن کے لیے یہاں آنے کا اعزاز ملا ہے اور میں آپ سب کا شکریہ ادا کرتی ہوں کہ آپ نے مجھے اس تقریب کا حصہ بنایا۔ شکریہ۔
(اردو ترجمہ ڈاکٹر محمود احمد ناگی، کولمبس اوہایو)
https://www.alislam.org/video/fath-e-azeem-mosque-inaugural-session-zion-illinois/
٭…٭…٭