اسلامی جمہوریہ پاکستان میں احمدیوں پر ہونے والے دردناک مظالم کی الَم انگیز داستان
اکتوبر2021ء میں سامنےآنے والے چند تکلیف دہ واقعات سے انتخاب
ایک احمدی کی جان پر حملہ
معین الدین پور، ضلع گجرات۔۸؍اکتوبر ۲۰۲۱ء: ایک احمدی سید علی شاہ پر ان کے پڑوسی نے ان کے عقیدے کی وجہ سے چاقو سے حملہ کیا۔ ان کے سر اور بازو پر چوٹیں آئیں۔ انہیں فوری طور پر ہسپتال لے جایا گیا جہاں ان کا علاج کیا گیا۔ اس سے قبل حملہ آور نے مقامی صدر سے بھی لڑائی کی تھی لیکن لوگوں نے مداخلت کرکے انہیں بچا لیا۔ احمدیوں کو یہاں کچھ سالوں سے دشمنی کا سامنا ہے۔ ملزم نعیم احمد کچھ عرصے سے سید علی احمد شاہ کو دھمکیاں دے رہا تھا۔ پولیس نے مذکورہ واقعہ کی ایف آئی آر ۱۰؍ اکتوبر کو دفعہ ۵۰۶ کے تحت درج کی۔
ایک احمدی پر فائرنگ
پکی کوٹلی، ضلع سیالکوٹ؛ اکتوبر ۲۰۲۱ء: گورنمنٹ سرسید ہائی سکول میں استاد عبدالوحید گھمن جن کی عمر ۵۰سال ہے گھر واپس جانے کے لیے روانہ ہوئے تو انہیں دو نامعلوم حملہ آوروں نے روکا اور ان پر فائرنگ کر دی۔ ایک گولی ان کے بائیں بازو اور دوسری ان کے سینے میں لگی جس سے ان کا خون بہنے لگا۔ حملہ آور باریش تھے۔ انہیں ہسپتال لے جایا گیا جہاں ان کا علاج کیا گیا۔ گھمن صاحب کا کسی سے کوئی لڑائی جھگڑے کا معاملہ نہیں تھا۔ اس واقعہ کی پولیس کو اطلاع کر دی گئی ہے۔
احمدیوں کی مسجد خطرے میں
سمندری، ضلع فیصل آباد؛ اکتوبر ۲۰۲۱ء:پچھلے چند مہینوں سے مخالفین نے احمدیہ مسجد میں محراب، میناراور مقدس تحریرات کے خلاف حکام کو درخواستیں کر رکھی ہیں۔ اس کے نتیجے میں پولیس نے مینار وغیرہ کو شہیدکرنے کے لیے کارروائی کی۔۱۱؍ستمبر ۲۰۲۱ء کو پنجاب پولیس کے پاس ایک درخواست دائر کی گئی کہ احمدی آئین کے مطابق غیر مسلم ہیں اور ان کا اسلامی شعائر کا استعمال، مذہب کی تبلیغ اور اپنے آپ کو مسلمان ظاہر کرنا قانون کی خلاف ورزی ہے۔ مزید کہا گیا کہ مسجد نما عمارت بنا کر احمدی اسلامی مساجد کی توہین اور آئین و قانون کی مسلسل خلاف ورزی کر رہے ہیں۔ درخواست میں کہا گیا کہ اس اشتعال انگیز اقدام کی وجہ سے روزانہ درجنوں مسلمان اپنے غم اور غصے کا اظہار کرتے ہیںاور مطالبہ کیا گیا کہ قادیانیوں کو ان کی حرکتوں سے روکا جائے تاکہ علاقے میں امن و امان کی صورت حال خراب نہ ہو۔ آئین اور قانون کی مذکورہ بالا تشریح نہ صرف خود غرضی اور تعصب پر مبنی ہے بلکہ قانون کی روح کے منافی بھی ہے۔ تاہم ۴؍ اکتوبر ۲۰۲۱ء کو شرپسندوں نے پولیس پر دباؤ ڈالا۔ ۵۰ سے زائد ملّا ںڈی ایس پی آفس میں جمع ہوئے اور دھمکی دی کہ اگر پولیس نے کارروائی نہ کی تو وہ خود کارروائی کریں گے۔پولیس نے مولویوں سے کہا کہ وہ احمدیوں سے بات کریں گے۔ اسی روز بعد میں، اسسٹنٹ کمشنر اور ڈی ایس پی نے احمدیوں سے کہا کہ وہ مینار کو شہید کر دیں اور مقدس تحریرات کوبھی ہٹا دیں۔ اس پر مقامی صدر نے انہیں جماعت کے ایس او پی کے بارے میں بتایا۔ تاہم پولیس نے احمدیوں سے کہا کہ وہ جو حکم دیا گیا ہے اس پر اگلے دن کی شام تک ضرور عمل کریں۔
لاہور ہائی کورٹ کا سکولوں میں قرآن پڑھانے کا حکم
۱۶؍ اکتوبر ۲۰۲۱ء: روزنامہ دنیا نے اس مسئلے پر درج ذیل رپورٹ شائع کی:
(https://e.dunya.com.pk/detail.php?date=2021-10-16&edition=FAB&id=5809311_47246712 )
پنجاب اسمبلی : نکاح نامے میں ختم نبوت کا حلف شامل
لاہور۔۲۷؍ اکتوبر ۲۰۲۱ء:روزنامہ ڈان کی ایک رپورٹ کے مطابق پنجاب اسمبلی نے نکاح ناموں میں ختم نبوت کے حلف کو شامل کرنے کے حوالے سے ایک قرارداد منظور کر لی۔ ذیل میں رپورٹ پیش ہے:
پنجاب اسمبلی نےنکاح نامے میں حلف ختم نبوت کی حمایت کردی
لاہور: منگل کو اپنی مختصر کارروائی کے دوران، پنجاب اسمبلی نے نکاح میں ختم نبوت کے حلف کو شامل کرنے کی قرارداد منظور کر لی۔ اور ایجنڈے میں موجود دیگر امور مثلاً مہنگائی وغیرہ کو کلیةًنظر انداز کر دیا گیا
… مفاد عامہ کے نام پر اس قرارداد کو جس میں شادی کے دستاویزات میں حلف ختم نبوت کو اصل ایجنڈے سے ہٹ کر متفقہ طور پر منظور کر نے کی سفارش کی گئی …۔(روزنامہ ڈان ۲۷؍اکتوبر ۲۰۲۱ء میں یہ خبر شائع ہوئی)
یہی خبر روزنامہ نوائے وقت میں بھی شائع ہوئی جس میں لکھا کہ پرویزالٰہی نے کہا کہ پنجاب اسمبلی نے قرآن ایکٹ اور ختم نبوت کے حوالے سے متعلق قانون متفقہ طور پر پاس کیا تھا، اب بہت سے ایسے کیس سامنے آ رہے ہیں کہ شادی کے بعد دولہا قادیانی نکلا اس کے سدباب کے لیے نکاح نامے میں بھی ختم نبوت کا حلف نامہ شامل کرنا بہت ضروری ہے تاکہ نکاح ہونے سے پہلے ہی (اس طرح کے حلف نامے کے ذریعے) تمام شکوک و شبہات دور کر لیے جائیں۔(روزنامہ نوائے وقت، ۲۷؍ اکتوبر ۲۰۲۱ء میں یہ خبر شائع ہوئی)
احمدی بچوں کا سکول داخلے سے انکار
اکتوبر ۲۰۲۱ء: راحت احمد کرامت کے بیٹے مسرور احمد کرامت اور بیٹی سعدیہ کرامت نے کریک ویو اکیڈمی کا داخلہ ٹیسٹ پاس کیا۔ احمد کرامت ۱۶؍ستمبر کو اپنے بچوں کو سکول لے گئے اور سکول میں باقاعدہ تعلیم شروع کروا دی۔موصوف نے بچوں کےداخلہ فارم میں مذہب کے کالم میں احمدی لکھا جس پر پرنسپل نے کچھ تعجب کا اظہار توکیا لیکن کہاکہ اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ہمارے ہاں عیسائی اور ہندو بھی پڑھتے ہیں۔ ہم آپ کے بچوں کو اسلامیات نہیں سکھا سکتے۔داخلے کے بعد بچے اپنی اپنی کلاسوں میں چلے گئے اوران کے والد صاحب بچوں کی پک اینڈ ڈراپ کی سہولت کے لیے وین ڈرائیوروں سے بات کرنے گئے۔
جب وہ واپس پرنسپل کے دفتر آئے تو ماحول بدل چکا تھا۔ پرنسپل نے موصوف کو بتایا کہ انہوں نے اپنے بچوں کے داخلے کے حوالے سے ایڈمنسٹریٹر سے بات کی ہے اور وہ ایک دو دن میں ان کی رقم کی واپسی کے بارے میں آگاہ کریں گے۔ اس پر احمد کرامت نے اس سے وجہ پوچھی کیونکہ فارم توپُر کیے جا چکے تھے اور داخلہ ہو گیا تھا۔پرنسپل نے کہا کہ ان کا احمدی ہونا ہی اس کی وجہ ہے۔موصوف نے پوچھاکہ کیا احمدی پاکستانی شہری نہیں ہیں؟کیا وہ اپنے بچوں کو تعلیم نہیں دلوا سکتے؟اس پر پرنسپل نے جواب دیاکہ میری نوکری داؤ پر لگی ہوئی ہے۔چنانچہ اس نے اسی روز بذریعہ فون احمد کرامت کو مطلع کیا کہ ان کے بچوں کے داخلے منسوخ کر دیے گئے ہیں اور وہ رقم کی واپسی کے لیے اپنی تمام رسیدیں جمع کر سکتے ہیں۔ جب احمد کرامت وہاں گئے تو پرنسپل نے ان سے بات کرنے سے انکار کر دیا، اور انہیں اکاؤنٹس آفس ریفر کر دیا۔ موصوف نے انتظامیہ سے داخلہ فارم واپس کرنے کو کہا کیونکہ ان میں ان کی ذاتی معلومات تھیں لیکن انہوں نے انکار کر دیا اور رقم واپس کرنے کے بعد انہیں واپس بھیج دیا۔
احمدی خاتون سرکاری ٹیچر کو دشمنی کا سامنا
بٹالی گوئی، ڈسٹرکٹ کوٹلی؛ ۲۵؍ ستمبر ۲۰۲۱ء: محمد ظہیر شاہ نے چند مقامی لوگوں کے ساتھ کوٹلی کے ڈپٹی کمشنر کو ایک درخواست جمع کرائی جس میں لکھا کہ ۲۵؍ستمبر ۲۰۲۱ء کو گورنمنٹ بوائز اینڈ گرلز سکول بٹالی گوئی میں ایک احتجاج طے کیا گیا ہے کیونکہ وہاں ایک احمدی استادکوتعینات کیا ہے اور ایک مقامی ٹیچر کو دور تعینات کر دیا گیاہے۔ اس کے نتیجے میں خواتین اساتذہ پریشان ہیں اور علاقے کے لوگوں میں شدید غم و غصہ ہے اور ان کے مذہبی جذبات شدید متاثر ہوئے ہیں۔ انہوں نے لکھا کہ احمدی استاد کی تعیناتی سے طلبہ کی زندگیوں پر بھی برا اثر پڑ رہا ہےجو کہ کسی صورت قابل قبول نہیں۔ (۔)کا تعلق قادیانی مذہب سے ہے اور انہیں بطور پرائمری ٹیچر لایا گیا ہے۔ مقامی لوگوں نے اسے سکول جانے کی اجازت نہیں دی لیکن اسسٹنٹ ایجوکیشن آفیسر کوٹلی نے اسے دفتر میں تعینات کر دیا۔ اس سارے معاملے کی انکوائری ہونی چاہیے۔ یہ تمام صورت حال کافی پریشانی کا باعث ہے۔
حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے یوم ولادت کی تقریب کو احمدی مخالف نفرت انگیز مہم میں تبدیل کر دیا گیا
چناب نگر (ربوہ)؛ ۱۸، ۱۹؍ اکتوبر ۲۰۲۱ء: ۱۲؍ربیع الاول تمام مسلمانوں کی طرف سے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے یوم ولادت کے طور پر منایا جاتا ہے۔ اس سال یہ دن ۱۹؍ اکتوبر ۲۰۲۱ء کو آیا۔ دور دور سے احمدی مخالف ملاں اس سال بھی ربوہ میں جمع ہوئے۔ انہوں نے شہر میں جلسے کیے اور مقامی باشندوں اور ان کے بزرگان پر شدید تنقید کی۔اس دوران انہیں حکام کی طرف سے تمام ضروری تعاون حاصل ہوا۔
مجلس احرارنے، جو اپنی روایتی احمدیہ مخالف انتہا پسندی کے لیے بدنام ہے، ۱۸؍ اکتوبر کی رات قریب ہی کوٹ وساوہ میں ختم نبوت کانفرنس کا انعقاد کیا۔ حاضری بہت کم تھی۔ ایک مقرر نے احمدیت کو کورونا وائرس کہا اور کہا کہ یہ اس وقت کا سب سے بڑا فتنہ ہے۔ نیز کہا کہ انگریزوں کے لگائے ہوئے احمدی اسلام اور پاکستان کے دشمن ہیں۔ اس نے شرکاء پر زور دیا کہ وہ متحد ہو کر ان لوگوں کی سرکوبی کریں اور انہیں کچل دیں۔
ملتان سے آئے ملاں نصیرالدین خاکوانی نے اپنے سامعین کے سامنے انکشاف کیا کہ احمدی یہودیوں کے ایجنٹ ہیں۔
دوسرا سیشن ۸:۲۰ بجے شروع ہوا۔ ملاں عبدالمنان شاہ نے کہا کہ احمدی سندھ میں غریبوں کا مذہب تبدیل کر رہے ہیں۔فیصل آباد کے مولوی سرفراز معاویہ نے مسلمانوں پر زور دیا کہ وہ ہر محاذ پر قادیانیوں کے خلاف محاصرہ کریںاور ان کا مکمل بائیکاٹ کریں
تیسری نشست ۲۲:۳۰ بجےپر شروع ہوئی جو رات دو بجے تک جاری رہی۔اس میں حاضری پہلے سیشن سے کچھ زیادہ تھی۔ایک ملاں مغیرہ نے احمدیوں کو یہ مشورہ دیا کہ وہ اپنے آپ کو جہنم کی آگ سے بچانے کے لیے اسلام قبول کر لیں۔مولوی داؤد نے احمدیوں کو ’’اسلام کے غدار‘‘قرار دیا۔ احرار کے جنرل سیکرٹری ملاں خالد لطیف چیمہ نے تصدیق کی کہ احرار قادیانیوں کو کچلنے کے لیے تمام پلیٹ فارمز پر ان کا پیچھا کرے گی۔ کفیل شاہ بخاری نے دنیا بھر میں قادیانیوں کا پیچھا کرنے کا عزم دہرایا۔ جے یو آئی (ف) کے راہنما مولوی حیدری نے ۱۹؍ اکتوبر کو مدرسہ کوٹ وساوہ میں کہا کہ امریکہ کو ۱۹۷۴ء میں احمدیوں کو غیر مسلم قرار دینے پر کوئی اعتراض نہیں تھا،جبکہ اب وہ اس پر اعتراض کرنے لگ گئے ہیں۔
گاؤں کھچیاںسے ریلی نکالی گئی۔یہ اقصیٰ چوک سے ہوتی ہوئی بس اسٹاپ کی طرف روانہ ہوئی اور چھنی/کھچی پر منتشر ہو گئی۔
اس ریلی کے کچھ قائدین نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت اور اعلیٰ اخلاق پر بھی اظہار خیال کیالیکن ساتھ ہی احمدیوں کو برا بھلا کہنے میں کوئی موقع ہاتھ سے نہ جانے دیا۔
دوسری ریلی مسجد بخاری سے نکلی۔ ملاں شرکاء سےمخاطب ہوئے۔ایک مقررتوفیق احمد اپنی تقریر میں بہت پُرجوش نظر آیا۔قاری ارشد نے وعدہ کیا کہ ایک دن آئے گا جب دارالضیافت اور مسجد اقصیٰ پر ختم نبوت کا سائن بورڈ آویزاں کیا جائے گا۔ قاری غلام مصطفیٰ نے احمدیوں کو للکاراکہ تم جہاں بھی جاؤ گے ہم تمہیں کچل دیں گے۔اور احمدیت کے بارے میں نازیبا الفاظ استعمال کیے۔
تیسری ریلی۱۴:۳۰ پر کوٹ وساوہ سے نکلی جس کی قیادت کفیل بخاری نے کی جن کا تعلق مجلس احرار سے ہے۔یہ تعداد تقریباً ۵۵۰۰تک پہنچ گئی۔وہ مجلس خدام الاحمدیہ پاکستان کے مرکزی دفتر ایوان محمود کے پاس آئے۔ مقررین نے احمدیوں کو اسلام میں شامل ہونے کی دعوت دی اور احمدیوں پر اسلام اور ریاست دونوں کے دشمن ہونے کا الزام لگایا۔ انہوں نے اس بات کو دہرایا کہ احمدیوں کا دوسرا مرکز اسرائیل ہے۔
مذکورہ بالا کے علاوہ قریبی علاقہ جات جن میں چنیوٹ، مسلم کالونی، احمد نگر اور دیگر دیہات شامل ہیں سے چھوٹی ریلیاں ربوہ پہنچیں۔وہ بس اسٹاپ کے راستے، اقصیٰ چوک پہنچے، احمدی مخالف نعرے لگائے اور واپسی کی راہ لی۔
احمدیوں نے ان تمام اشتعال انگیزیوں کو نرمی اور تحمل سے برداشت کیا۔ جہاں تک حکام کا تعلق ہےتو انہوں نے ان تمام اجتماعات کی اجازت دی حالانکہ اس مجمع نے تعزیرات پاکستان دفعہ ۱۵۳الف، ۲۹۸الف،۲۹۸ اور ۲۹۵الف جیسے قوانین کی صریح خلاف ورزی کی۔ پنجاب حکومتی اہلکار یہ دیکھنے میں ناکام رہے کہ ۱۹۵۳ءمیں اس طرح کے رویے کو جائز رکھنے کی وجہ سے ملک میں فسادات اور پہلی بار مارشل لاء لگا۔ ابھی حال ہی میں کالعدم ٹی ایل پی کی طرف سے انتہا پسندی کے خلاف اسی طرح کے رویے کے نتیجے میں آج تک آٹھ پولیس اہلکار ہلاک اور سینکڑوں زخمی ہو چکے ہیں۔ (روزنامہ ڈان کی رپورٹ کردہ ہلاکتیں؛ ۲۸؍ اکتوبر ۲۰۲۱ء)