مرد عورت کا مربی اور محسن اورذمہ وار آسائش کا ٹھہرایا گیا ہے
مرد کا عورت پر ایک حق زائد بھی ہے کہ مرد عورت کی زندگی کے تمام اقسام آسائش کا متکفّل ہو جاتا ہے۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ قرآن شریف میں فرماتا ہے وَعَلَی الۡمَوۡلُوۡدِ لَہٗ رِزۡقُہُنَّ وَکِسۡوَتُہُنَّ (البقرۃ:۲۳۴) یعنی یہ بات مردوں کے ذمہ ہے کہ جوعورتوں کو کھانے کے لئے ضرورتیں ہوں یا پہننے کے لئے ضرورتیں ہوں وہ سب اُن کے لئے مہیا کریں۔ اس سے ظاہر ہے کہ مرد عورت کا مربی اور محسن اورذمہ وار آسائش کا ٹھیرایا گیا ہے اور وہ عورت کے لئے بطور آقا اور خداوند نعمت کے ہے اسی طرح مرد کو بہ نسبت عورت کے فطرتی قویٰ زبردست دئیے گئے ہیں۔ …اور قرآن شریف میں یہ حکم ہے کہ اگرمرد اپنی عورت کو مروّت اور احسان کی رُو سے ایک پہاڑ سونے کا بھی دے تو طلاق کی حالت میں واپس نہ لے۔ اس سے ظاہر ہے کہ اسلام میں عورتوں کی کس قدر عزت کی گئی ہے ایک طور سے تو مردوں کو عورتوں کا نوکر ٹھیرایا گیا ہے اور بہرحال مردوں کے لئے قرآن شریف میں یہ حکم ہے کہ عَاشِرُوۡہُنَّ بِالۡمَعۡرُوۡفِ(النساء:۲۰)یعنی تم اپنی عورتوں سے ایسے حسن سلوک سے معاشرت کرو کہ ہر ایک عقلمند معلوم کرسکے کہ تم اپنی بیوی سے احسان اور مروّت سے پیش آتے ہو۔
علاوہ اِس کے شریعت اسلام نے صرف مرد کے ہاتھ میں ہی یہ اختیار نہیں رکھا کہ جب کوئی خرابی دیکھے یا ناموافقت پاوے تو عورت کو طلاق دے دے بلکہ عورت کو بھی یہ اختیار دیا ہے کہ وہ بذریعہ حاکم وقت کے طلاق لے لے۔
(چشمہ معرفت،روحانی خزائن جلد ۲۳ صفحہ ۲۸۸)