محترمہ کلثوم باجوہ صاحبہ
محترمہ کلثوم باجوہ صاحبہ
آپ نواب محمد دین صاحب کوٹلہ جو ریاست کے وائسرائے تھے کی بھتیجی تھیں۔ آپ کے والد کا نام چودھری غلام علی تنوی اور والدہ کا نام فاطمہ بیگم تھا۔ اپنی والدہ کی اکلوتی اولاد تھیں۔ آپ ۱۹۱۷ء میں پیدا ہوئیں اور ۱۹۳۷ء میں آپ کی شادی مشتا ق احمد باجوہ صاحب سے ہوئی۔ ۱۹۴۶ء میں جب مولانا جلال الدین شمس صاحب کو واپس قادیان بلا لیا گیا تو ان کی جگہ چودھری مشتاق احمد باجوہ صاحب امام مسجد لند ن بنے۔ محترمہ کلثوم باجوہ صاحبہ بھی اپنے شوہر کے ساتھ لندن آ ئیں۔ اس وقت لندن میں گنتی کی چند احمدی مستورات تھیں۔ آپ کی ویسے تو کوئی تعلیم نہیں تھی لیکن انگلش اور جرمن زبان بول سکتی تھیں۔ گھر میں ہی اپنے والد صاحب سے تعلیم حاصل کی۔ آپ سعیدہ بیگم اہلیہ جنرل محمود الحسن صاحب کی خالہ تھیں۔
آپ ایک مجاہد مبلغ واقفِ زندگی کی بیوی تھیں۔ چودھری صاحب ہر وقت خدمت دین میں مصروف رہتے اور آپ بھی ہمیشہ ان کا ساتھ دیتیں۔ فرشتہ صفت خاتون تھیں، بہت سے یتیم اور غریب بچوں کو پال کر اُنہیں تعلیم کے زیورسے آراستہ کیا۔ نرم گفتار ی آپ کا خاصہ تھا۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور خلفائے کرام کی محبت اور والہانہ عقیدت ان کی نمایاں خصوصیات تھیں۔ رشتہ داروں سے بے پناہ محبت کرتی تھیں۔ ۱۹۴۸ء میں جب حضرت مرزا شریف احمد صاحبؓ لندن آئے تو آپ کو ان کی مہمان نوازی کی توفیق حاصل ہوئی۔
قیام لجنہ اماء اللہ لندن
جماعت احمد یہ لندن کے پہلے جلسہ میں لجنہ اماء اللہ لندن کے قیام کی قرار داد پاس کی گئی۔ چنانچہ اس کے مطابق ۱۱؍ دسمبر ۱۹۴۹ء کو مستورات کا اجلاس منعقد ہوا جس میں عہدیداران کا انتخاب ہوا اور اس طرح لندن میں باقاعدہ لجنہ اماء اللہ کی بنیاد رکھی گئی۔ محترمہ کلثوم باجوہ صاحبہ کو لندن کی پہلی صدر منتخب کیا گیا۔ چودھری مشتاق احمد صاحب کو واپس پاکستان بلا لیا گیا تو آپ بھی اپنے شوہر کے ساتھ ۱۴؍ اگست ۱۹۵۰ء کو پاکستان چلی گئیں۔ مسجد فضل لندن میں محترمہ کلثوم صاحبہ کو الوداعی پارٹی دی گئی۔ اُن کی سر گرمیوں کو سراہا گیا جو انہوں نے مسلمان خواتین کے لیے سر انجام دیں۔
آپ کے جانے کے بعد لجنہ لندن کی تنظیم فعال نہ رہ سکی اور ان ناموافق حا لات کے باعث لجنہ کا کام بند ہو کر رہ گیا۔ جب محترمہ کلثوم باجوہ صاحبہ پاکستان پہنچیں تو لجنہ اماء اللہ نے آپ کا استقبال کیا اور آپ کو امریکہ اور یورپ کی لجنہ کا نگران مقرر کیا گیا۔ مورخہ ۹؍ نومبر کے ایک جلسہ میں آپ نے اپنے لندن کے تاثرات بیان کیے۔ ۱۹۵۶ء سے لے کر ۱۹۶۱ء تک آپ ربوہ میں دستکاری کی سیکرٹری رہیں اور انڈسٹریل سکول کی نگرانی کی ذمہ داری بھی آپ کو دی گئی۔ بعد ازاں آپ اپنے شوہر کے ساتھ سوئٹزر لینڈ تشریف لے گئیں۔ مسجد محمود زیورخ (سوئٹزر لینڈ) کے سنگِ بنیاد کی تقریب کے وقت آپ بھی وہاں موجود تھیں۔ آپ نے ۱۴؍ نومبر ۱۹۹۷ء کوزیورخ سوئٹزر لینڈ میں ہی وفات پائی اور وہیں مدفون ہیں۔
آپ نہایت منکسر المزاج اور فرشتہ صفت خاتون تھیں۔ خلیفہٴ وقت کے حکم کی ہر وقت منتظر رہتیں اور لبیک کہتیں۔
( لجنہ رپورٹس ، لجنہ ہسٹری مرکزیہ جلد اول صفحہ ۱۳۰۔ بیان رضیہ باجوہ صاحبہ اور تحریر ی بیان یحییٰ باجوہ (بیٹا) سوئٹزر لینڈ)