اسلامی جمہوریہ پاکستان میں احمدیوں پر ہونے والے دردناک مظالم کی الَم انگیز داستان
۲۰۲۲ءمیں سامنےآنے والے چند تکلیف دہ واقعات سے انتخاب
ایک احمدی پرقاتلانہ حملہ
ادھووالی ضلع فیصل آباد میں ۲۷؍اپریل ۲۰۲۲ءکو ایک احمدی اپنے کچھ غیر احمدی دوستوں کے ساتھ گھر واپس آرہا تھا جب اس پر حملہ ہوا۔انہیں دو گولیاں لگیں ایک گردن اور دوسری بازو پر جبکہ ان کے دیگر ساتھی محفوظ رہے۔
جولائی ۲۰۲۱ء میں ایک جنونی ہجوم نے اسی احمدی کے گاؤں کے بعض احمدی گھرانوں پر حملہ کر دیا ۔احمدیوں نے اپنا تحفظ خود کیا۔پولیس نے پانچ احمدیوں پر مقدمہ درج کر دیا اور انہیں گرفتاربھی کر لیا۔تفتیش کے بعد چار احمدیوں کو تو چھوڑ دیا گیا لیکن مذکور ایک احمدی پر مختلف دفعات لگا کر انہیںقید میں رکھا۔ان دفعات میں انسداد دہشتگردی ایکٹ کی دفعہ ۷ بھی شامل تھی۔بعد ازاں عدالت نے انسداد دہشتگردی کی دفعہ کو خارج کر دیا اور باقی دفعات کو قابلِ ضمانت قراردے دیا۔
۶؍جنوری ۲۰۲۲ء کو مجسٹریٹ فیصل آباد بشریٰ انور نے مدعی کے اپنا بیان واپس لینے کی وجہ سے موصوف کو رہا کر دیا۔چھ ماہ جیل میں گزارنے کے بعد موصوف رہا ہوئے۔تاہم دہشتگرد گروہ بشمول تحریک لبیک پاکستان ان کی رہائی کے اقدام سے بہت ناخوش تھا اور انہوں نے موصوف اور اس مدعی کو دھمکیاں دیں۔ پولیس نے حملہ آوروں کی شناخت کر لی ہے۔
فیصل آباد کا ایک احمدی حملے میں شدید زخمی
چک ۲۶۱ ادھووالی،ضلع فیصل آباد؛ مئی ۲۰۲۲ء: ایک ۲۸ سالہ احمدی کو بعض حملہ آوروں نے زخمی کر دیا۔موصوف اپنے گھر سے ملحقہ اپنی دکان کھول رہے تھےجب حملہ آور ایک کار اور موٹر سائیکل پر آئے۔ وہ خود کو بچانے کےلیے بھاگ کر اپنے گھر کے اندر گئے لیکن حملہ آوربھی ان کے گھر داخل ہو گئے اور ان پر گولیاں برسائیں۔ایک گولی ان کے بازو پر لگی اور دوسری پسلیوں میں۔
گذشتہ چند سالوں میں اس علاقے میں احمدیت کی مخالفت میں بہت اضافہ ہوا ہے۔جو احمدی خود اپنی حفاظت کے لیے کچھ کرتے ہیں تو ان کو انتظامیہ کی مدد سے ہراساں کیا جاتا ہے۔احمدی تذبذب کا شکار ہیں کہ وہ اپنی حفاظت کےلیے کیا کریں۔
احمدیوں کے خلاف ظلم و ستم
ایک احمدی گھرانہ مذہب کی بنیاد پر ظلم و ستم کا سامنا کر رہا ہے۔۲؍مئی ۲۰۲۲ء کو اس گھر کے سربراہ کے سسرالی رشتہ داروں پر قاتلانہ حملہ ہواجس پر حملہ آور کوگرفتار کر لیا گیا ۔بعد ازاںبارل پلندری میں پاکستان پیپلز پارٹی کےپونچھ ڈویژن نے ختم نبوت کانفرنس کا انعقاد کیا۔مولویوں نے اس حملہ آور کی رہائی کا مطالبہ کیا اور اس حملہ کو ارتداد کی کارروائی کرنے والے احمدیوں کے خلاف جائز قرار دیا۔
اس موقع پربڑھ چڑھ کر بولنے والےارشد یوسف نامی ایک مولوی نے مطالبہ کیا کہ احمدیوں کواس ضلع سے نکالا جائے۔
ایک احمدی قاتلانہ حملہ میں محفوظ رہا
تونسہ شریف، ضلع ڈیرہ غازی خان:۱۸؍مارچ ۲۰۲۲ء:ایک احمدی بجلی سے متعلقہ اشیاءکی دکان چلاتے ہیں۔ افضل عرف چندا نامی شخص ان کی دکان میں داخل ہوا اور ان کے سر پر ہتھوڑی سے وار کر کے ان کو زخمی کر دیا۔موصوف کی جان بچ گئی۔پولیس کو اس معاملے کی اطلاع دی گئی۔انہوں نے حملہ آور کے متعلق رپورٹ درج کر کے اسے گرفتار کر لیا۔
ایک اَور احمدی پرحملہ
سہنسہ ضلع کوٹلی؛جون۲۰۲۲ء:ایک احمدی کے ہمسائے نے ان پر حملہ کیا اور ان کے سر پر چوٹ لگا کر ان کو زخمی کر دیا۔اس سے قبل بھی وہ ان پر ایسی نوعیت کا حملہ کر چکا ہے۔موصوف کو ہسپتال لے جایا گیا اور ان کے سر پر ٹانکے لگے۔گاؤں کے بڑے لوگوں نے حملہ آور پر پچاس ہزار جرمانہ عائد کیا اور ایک بکری ہرجانہ کے طور پرادا کرنے کا کہا اور آئند ہ ایسی کسی حرکت سے باز رہنے کا کہا۔
ربوہ کے بعض جماعتی عہدیداران پر مقدمات
پولیس نے ۶؍دسمبر کو تھانہ ربوہ میں جماعت احمدیہ کے بعض عہدیداران کے خلاف تعزیرات پاکستان کی دفعہ ۲۹۵ب، و دفعہ ۲۹۸ج اورپنجاب کے قرآن کریم کی [طباعت اور تحفظ ] کے ایکٹ۲۰۱۱ءکے تحت مقدمہ درج کر لیا۔دفعہ ۲۹۵ب کی سزا عمر قید ہو سکتی ہے۔
مولوی محمد حسن معاویہ نے تھانہ چناب نگر میں FIR نمبر ۶۶۱/۲۲ درج کروائی جو کہ پنجاب قرآن بورڈ لاہور کی جانب سے۵؍دسمبر ۲۰۲۲ءکو جاری کردہ ایک خط کی بنا پر درج کی گئی۔متعلقہ ارکان کے خلاف اس شکایت کو لاہور ہائی کورٹ کےجسٹس شجاعت علی خان سن رہے ہیں تاہم احمدیوں کو اس سماعت کی کارروائی کا حصہ نہیں بنایا گیا۔
حسن معاویہ نے ۲۰۱۹ء میں شکایت درج کروائی تھی اور پولیس نے اس پر کارروائی کرتے ہوئے جماعت سے تحریری جواب طلبی کی تھی۔اس وقت یہ سمجھا گیا کہ وہ لوگ مطمئن ہو چکے ہیں اور معاملہ ختم ہو چکا ہے۔ لیکن معاویہ اور اس کے ساتھی اس بات پر مصر رہے کہ احمدیوں کی مذہبی آزادی کا انکار کیا جائے اور اس کے لیے ہر ممکنہ کوشش کی جائے۔
یہاں یہ بات بھی قابل ذکرہے کہ احمدیوں نے قانون کی پابندی کرتے ہوئے عرصہ دراز سے قرآن کریم کی طباعت اور اشاعت کو روک دیا ہے۔لیکن اگر ملاں اور ان کے کارندے یہ سمجھتے ہیں کہ وہ احمدیوں کو قرآن سے الگ ہونے پر مجبور کر دیں گے تومحض ان کی خام خیالی ہی ہو گی۔
ایسے مقدمات کا اندراج پاکستان کے اندر سرکاری سرپرستی میں احمدیوں کے خلاف بہیمانہ کارروائیوں کی نشاندہی کرتا ہے۔
ایک احمدی خاتون کو مذہبی بنیاد پر بنے مقدمہ میں گرفتار کر لیا گیا
سوہدریکی،ضلع سیالکوٹ؛۲؍فروری۲۰۲۲ء:
پولیس نے کنیز بی بی بعمر ۶۵ سال کے خلافFIR.۵۶ تعزیرات پاکستان دفعہ۲۹۵ الف کے تحت تھانہ بڈیانہ ضلع سیالکوٹ میں مقدمہ درج کرلیا۔مبینہ طور پر انہوں نے ایک احمدیہ مخالف پوسٹر اتارا تھا۔
اطلاعات کے مطابق تحریک لبیک پاکستان نے اس جگہ ایک پوسٹر لگایا جو کہ احمدیوں کے خلاف نفرت اور تشدد پر اکسا رہا تھا۔ مدعی نے الزام لگایا ہےکہ مبینہ طور پر مدعا علیہا نے اس پوسٹر کو پھاڑکر مقدس صحیفے کی توہین کی ہے۔
مجسٹریٹ نے ۱۰؍فروری ۲۰۲۲ء کو ان کی ضمانت منظور کر کے ان کی رہائی کاحکم دیا۔
درحقیقت نفرت انگیز پوسٹر لگانا تعزیرات پاکستان کی دفعہ ۱۵۳ الف اور۲۹۵ الف کے تحت جرم ہے اور اس کی سزا دس سال تک قید ہے۔پولیس نے تحریک لبیک کےاصل مجرم کو چھوڑتے ہوئے ایک کمزور ہدف کو نشانہ بنایا جو ایک احمدی خاتون تھیں۔
مقدمہ کرنے کا یہ قدم کسی عام شہری کی طرف سے نہیں بلکہ پولیس کی طرف سے اٹھایا گیا۔یہ ایک نیا طریقہ شروع ہوچکا ہے جس میں ان غنڈوں اور متعصب لوگوں نے مقدمہ کرنے کی ذمہ داری اب پولیس کے سپرد کر دی ہے۔ اشتہار جو کنیز بی بی نے پھاڑا تھا۔اس کی شہ سرخی یہ ہے:قادیانی پہلے اسلام میں داخل ہوں پھر اس دکان میں داخل ہوں۔پوسٹر کے اوپر اس اشتہار کے مالک اور تحریک لبیک پاکستان کا رابطہ نمبر بھی درج تھا۔
ایک جماعتی عہدیدار کے خلاف پرانے مقدمے میں توہین کی دفعات شامل کر دی گئیں
جماعت احمدیہ کے ترجمان کے خلاف مقدمہ درج کیا گیا۔یہ مقدمہ ۲۸؍ اکتوبر ۲۰۲۰ء کو تعزیرات پاکستان کی دفعات ۲۹۵-A، ۱۵۳-A، اورالیکٹرانک کرائم ایکٹ ۲۰۱۶ءکے سیکشن ۱۱ ایف آئی آر نمبر ۲۰۲۰/۹۹ کے تحت درج ہوا۔
یہ مقدمہ شہزاد ا حمد بریار ایڈووکیٹ ہائی کورٹ کی درخواست پر درج کیا گیا ہے۔ اس درخواست میں اس نے موقف اپنایا کہ ترجمان جماعت احمدیہ نے ایک یوٹیوب کے پروگرام میں اسلامی اصطلاحات کے استعمال اور ختم نبوت اقرارنامہ پر بات کر کے لوگوں کے جذبات کو مجروح کیا ہے۔درخواست گزار کو سیشن کورٹ لاہور کی تائید حاصل تھی جس نے سائبر کرائم ونگ کو کہا کہ اس مقدمہ کو درج کیا جائے۔یہ پروگرام مقدمہ سے سات سال قبل ریکارڈ کیا گیا تھا۔ درخواست گزار نے ایک اور درخواست دفعہ ۳۰ کے تحت جوڈیشل مجسٹریٹ چودھری غلام مرتضیٰ ورک کی عدالت میں دی جس پر مجسٹریٹ نے اس کیس میں ۲۹۵ ج بھی شامل کر دی جس کی سزا سزائے موت ہے۔
ساڑھے سات سال بعد جیل سے رہائی
تین احمدی احسان احمد،مبشر احمدی اور غلام احمد تقصیر شدہ سزا مکمل کرنے کے بعد رہا ہوگئے ۔۱۳؍مئی ۲۰۱۴ءکو چار احمدیوں کے خلاف اپنے گاؤں کی ایک دکان پر لگے احمدیہ مخالف اشتہار کو پھاڑنے کا ایک جھوٹا مقدمہ تعزیرات پاکستان کی دفعہ ۲۹۵ الف کے تحت تھانہ شرق پور میں درج کیا گیا تھا۔اگرچہ مقامی پنچایت نے اس معاملہ میں پڑ کر اسے حل کر دیا تھالیکن مولویوں نے صلح کرنے سے انکار کر دیا اور مظاہرہ کیا اور پولیس کو مجبور کیا کہ وہ مقدمہ درج کریں۔
پولیس نے تعزیرات پاکستان کی دفعہ ۲۹۵ الف اور دیگر دفعات کے تحت مقدمہ درج کر کے خلیل احمد کوگرفتار کر لیا۔ اس کے کچھ دن کے بعد سلیم احمد نامی ایک شخص تھانہ میں داخل ہوا اورخلیل احمد کو دوران حراست ہی گولی مار کر شہید کر دیا۔موصوف نے اپنے پیچھے ایک بیوہ ،دو بیٹے اور دو بیٹیاں سوگوار چھوڑی ہیں۔
دو ماہ بعد۱۸؍ جولائی ۲۰۱۴ء کو دیگر تین احمدیوں کو بھی گرفتار کرلیا گیا اور ایک سال بعد عدالتی حکم پر ان پر لگی دفعات میں ۲۹۵ج بھی شامل کر دی گئی تھی۔۱۱؍کتوبر۲۰۱۷ء کو ان کو سزائے موت سنا دی گئی۔اس کے بعد لاہور ہائی کورٹ میں ایک درخواست دی گئی۔
لاہور ہائی کورٹ کے ججوں عبدالعزیز اور محمد امجد رفیق پر مشتمل ایک بنچ نے ۲۹۵ الف کودفعات میں سے خارج کر دیا اور تمام ملزمان کو دس سال قید اور پانچ لاکھ روپے جرمانے کی سزا سنائی۔
مختلف مواقع پر جب تمام قیدیوں کی سزا میں کمی کی جاتی ہے اس کے مطابق ان احباب کی سزا اپنے مقررہ وقت سے بھی زیادہ ہو گئی تھی اس لیے ان کو رہا کر دیا گیا۔
دس سال قبل مشہور ہفتہ وار اخبار دا فرائیڈے ٹائمز میں نڈر صحافی یاسر لطیف ہمدانی نے ایک اداریہ شائع کیا جس کا عنوان تھا :کیا احمدی پاکستان میں رہنےکا حق رکھتے ہیں؟
(مرتبہ: مہر محمد داؤد )