خلاصہ تقریر: ہستی باری تعالیٰ کے سائنسی دلائل (اردو)
جلسہ سالانہ یوکے کے دوسرے دن کے صبح کے اجلاس کی دوسری تقریر ڈاکٹر فہیم یونس قریشی صاحب(نائب امیر جماعت احمدیہ امریکہ)کی تھی جن کی تقریر کا عنوان تھا’’ہستی باری تعالیٰ کے سائنسی دلائل‘‘۔
تقریر کے آغازمیں انہوں نے بچے کی پیدائش اور اس کے رونے سے ماں کی چھاتیوں میں دودھ اتر آنے کی مثال پیش کرتے ہوئے اس کی ایک حسّاس سائنسی توجیہ پیش کی۔ کہ رونے کی آواز ماں کے کانوں سے اس کے دماغ تک پہنچتی ہے اور پھرماں کے posterior pituitary(جو کہ چنےکے سائز کا ایک گلینڈہے) سے ایک ہارمون نکلتا ہے جسے oxytocinکہتے ہیں۔ اس کے اثر سے ماں کی چھاتیوں میں اُس روتے بِلکتے بچے کے لیے دودھ اُتر آتا ہے۔ ایم آر ائی سکین سے پتا چلتا ہے کہ یہ عمل صرف سیکنڈز میں مکمل ہو جاتا ہے اور یہ ماں کے اختیار میں بھی نہیں ہوتا۔ماں اور بچے کا یہ تعلق ایک تمثیل ہے لیکن اس تمثیل میں آج ہمیں سائنسی طور پر ہستی باری تعالیٰ تک پہنچنےکا راستہ ڈھونڈنا ہے۔
حضورِ اقدس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے بیشتر ورچول(virtual) ملاقاتوں میں فرمایا ہے کہ’’ پہلےہمیں اپنے بچوں کوسنبھالنے کی ضرورت ہے تا کہ وہ ان دہریوں کے اثر میں نہ آجائیں۔‘‘ ہمیں اپنے بچوں کو بتانا ہے کہ اسلام احمدیت اللہ تعالیٰ پر اندھے ایمان کی بات نہیں کرتی۔ حضرت مصلح موعودؓ نے تفسیرِکبیر میں فرمایا ہےکہ ’’یُؤمِنُونَ بِالغیبِکا مطلب اندھا ایمان نہیں۔ اس کا مطلب ہے اُن چیزوں پر ایمان جو حواس خمسہ سے معلوم نہیں کی جا سکتیں۔‘‘ اور یہ کہ’’قرآن خدا کا قول ہے اور سائنس خدا کا فعل ہے‘‘
اس لیےیہ گفتگو ہمیں قرآن شریف کی روشنی میں کرنی ہے۔ ایک دہریہ یہ اعتراض کر سکتا ہے کہ میں قرآن کی بات کیوں مانوں؟ ٹھیک بات ہے۔ لیکن ہم قرآن کو اس لیے پیش کرتے ہیں کہ قرآن سائنسی تقاضوں پر پورا اُترتا ہے۔یہ خدا کی طرح چُھپی ہوئی چیز نہیں۔ اس کا مشاہدہ کیا جا سکتا ہے۔اس کے دلائل کو تجربے سے گزارا جا سکتا ہے۔ آپ حیران ہوںگے کہ قرآن شریف کے بتائے ہوے سائنسی راستے پر چلنے سے، اُسی طرح ہستی باری تعالیٰ پر یقین مل جاتاہےجیسےہمیں بچپن میں رونے سے ماں کی محبت مل جاتی تھی…
محترم مقرر صاحب نے چند جدید سائنسی تحقیقات پیش کیں جو قرآن میں پہلے ہی مذکور تھیں:
۱۔ سکولز میں سائنس میں پڑھایا جاتا ہے کہ سولہویں اور ستارویں صدی میںCopernicus, GalileoاورKepler جیسے سائنٹسٹس نے دریافت کیا تھا کہ سورج اور زمین ساکت نہیں بلکہ اپنے اپنے مدار میں گردش کر رہے ہیں۔ لیکن اللہ تعالیٰ نے 1400 سال پہلے سورۃالانبیاء کی آیت ۳۳ میں فرمایا’’وہی ہے جس نے رات اور دن کو اور سورج اور چاند کو پیداکیا۔ سب (اپنےاپنے)مدارمیں رَواں دَواں ہیں۔‘‘
۲۔ سکول میں بائیولوجی اور فزکس میں پڑھایا جاتاہے کہ سائنس نے ہر چیز کا جوڑا(یعنی pairs) دریافت کیے ہیں۔لیکن سینکڑوں سال پہلےقرآن شریف سورہ یٰسین کی۳۷ آیت میں فرماتا ہے’’پاک ہے وہ ذات جس نے ہر قسم کے جوڑے پیدا کیے ہیں اس میں سے بھی جس کو زمین اگاتی ہے اور خود ان کی جانوں میں سے بھی اور ان چیزوں میں سے بھی جن کو وہ نہیں جانتے۔‘‘
آیت کے آخری حصہ کے بارہ میں ڈاکٹر صاحب نے بتایا کہ یہ آخری حصہ قابلِ غور ہے۔’’اُن چیزوں میں سے بھی جن کو وہ نہیں جانتے‘‘۔matter یعنی مادہ کا جوڑا antimatter کو Dirac Paul نے ۱۹۳۳ء میں دریافت کر کے نوبیل انعام حاصل کیا۔ ایٹم کے اندر پروٹونز اور نیوٹرونز کے جوڑے کو Rutherford اور Chadwick نے ۱۹۰۹ء اور۱۹۳۲ء میں دریافت کیا۔Gellman اور Zweig نے ۱۹۶۴ءمیں ان پروٹونز اور نیوٹرونز کے اندر اس سے بھی چھوٹے subatomic پارٹیکلز Quarks کو دریافت کیا۔ رونگٹے کھڑے ہوتے ہیں یہ سوچ کرکہ ایک ریت کے ذرہ میں۹۰کروڑ کوارکس ہیں۔ یہ ہم نہیں جانتے تھے۔
ایک طرف لاکھوں پاؤنڈزکی لیبارٹریزمیں کام کرنے والے نوبیل پرائزز جیتنے والےسائنسدان اور دوسری طرف عرب کے صحراؤں میں ایک اُمیّ رسولﷺ جولکھنا پڑھنا نہیں جانتا۔ اگر اس کائنات کا کوئی خالق نہیں،کوئی خدا نہیں، توکس نے یہ سائنسی راز رسول اللہﷺ پر کھول دیے؟ اگر یہ محض اتفاق ہے تو دوسرے مذاہب کی کتابوں میں ایسے اتفاق کیوں نہیں ملتے؟
۳۔ سمندروں کی سائنس یعنی Oceanography میں کروڑوں پاؤنڈز کی تحقیق کے بعد سائنس نے دریافت کیا کہ سمندر کو پانی کی تین تہوں نے ڈھانپ رکھا ہے۔ پہلے ۲۰۰ میٹرز کو یوپھوٹک زون(Euphotic zone) کہتے ہیں، جہاں تک روشنی جاتی ہے۔ پھر ۲۰۰ سے۱۰۰۰ میٹر کی تہ کوڈیسوپھوٹک زون (Dysphotic zone) کہتے ہیں، جہاں جھٹ پٹہ سا رہتا ہے۔ ہلکی روشنی۔ لیکن ایک کلومیٹر کے بعد مکمل اندھیرا ہے۔اسے اپھوٹک زون (Aphotic zone) کہتے ہیں۔
آنحضرت ﷺنےکبھی سمندروں کا سفر نہیں کیا۔ اگر قرآن خدا کا کلام نہیں تو سورہ نورآیت ۴۱ میں یہ کیسے آگیا کہ ترجمہ: ’’یا (ان کے اعمال) اندھیروں کی طرح ہیں جو گہرے سمندر میں ہوں جس کو موج کے اوپر ایک اور موج نے ڈھانپ رکھا ہو اور اس کے اوپر بادل ہوں۔ یہ ایسے اندھیرے ہیں کہ اُن میں سے بعض بعض پر چھائے ہوئے ہیں۔ جب وہ اپنا ہاتھ نکالتا ہے تو اسے بھی دیکھ نہیں سکتا۔ ‘‘
آج جب آکسیجن سلنڈرز کی مدد سے تیراک سمندروں کی گہرائیوں میں جا سکتے ہیں تو گواہی دیتے ہیں کہ ایک کلومیٹر کے بعدسمندر میں ایسا اندھیرا ہے کہ انسان کو اپنا ہاتھ تک نظر نہیں آتا۔
۴۔ کائنات کی سائنس یا cosmology پڑھنے والے طلبہ جانتے ہیں کہ پچھلے ۱۰۰ سال میں Edwin Hubble نے دریافت کیا کہ ہماری کائنات پھیل رہی ہے یعنی اس کا کوئی آغاز ہے۔ اس سے بگ بینگtheory وجود میں آئی اور پھر بلیک ہولز کی دریافت ہوئی۔ کیا یہ بھی اتفاق ہےکہ سورہ انبیاء کی آیت ۳۱ میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: ’’کیا کفّار نے یہ نہیں دیکھا کہ آسمان اور زمین دونوں بند تھے پس ہم نے ان کو کھول دیا؟‘‘
مزید غور کریں تو ایک اور لطیف نکتہ سمجھ میں آتا ہے… اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: اَوَلم یَرَا… یعنی کیا اُس نےنہیں دیکھا۔ پہلے سائنس کہتی تھی کہ ایک بلیک ہول کو نہیں دیکھا جا سکتاکیونکہ روشنی بھی اس میں سے نکل نہیں سکتی۔ آج خاص آلات سے سائنسدان بگ بینگ کی حرارتcosmic microwave background کو دیکھ سکتے ہیں۔Event Horizon Telescope کی بدولت…پچھلے چار سال میں بلیک ہولزکی تصویریں بھی ساری دنیا نے دیکھی ہیں۔کیا یہ سب دیکھ کر بھی ہم ہستی باری تعالیٰ کو ماننے سے انکار کر دیں؟
۵۔قرآن کے سائنسی دلائل نےاولاد کے بارہ میں بھی راہنمائی کی ہے۔ اولاد نرینہ کی خواہش کے سبب دنیا میں ماؤں کو قصوروار ٹھہرایا جاتا رہا ہے۔ طعنے بھی کسے گئے اور ظلم بھی ہوئے۔لیکن بیسویں صدی کے شروع میں بہت سے سائنسی تجربات سے ثابت ہوگیاکہ ہونے والے بچے کی جنس کا تعلق تو صرف مرد کے جرثومے یا کروموسوم سے ہوتا ہے۔عورت کا تو اس میں کوئی ہاتھ نہیں۔مغربی دنیا کے لیے یہ ایک حیران کن سائنسی انکشاف تھا۔لیکن اس اُمّی نبی کو یہ حقیقت کس نے بتائی؟اللہ تعالیٰ سورۃ نجم کی آیت 46 میں فرماتا ہے ’’اسی نے نطفہ سے نر اور مادہ کو پیدا کیا۔‘‘ قرآن اور سائنس تو ہماری سب ماؤں کے حق میں کھڑے ہیں۔
اگر ہم قرآن کے سارے سائنسی دلائل کا ذکر کریں جو اللہ تعالیٰ نے بیان فرمائے ہیں تو ہمیں شام ہو جائے گی۔
پہاڑ ساکت نہیں بلکہ بادلوں کی طرح چل رہے ہیں۔(سورۃ نمل ۸۹)۔ہم نے پانی سے ہر زندہ چیز پیدا کی۔ (سورۃ انبیا:۳۱)۔ جلد سب سے زیادہ درد کو محسوس کرتی ہے۔(النساء:۵۷)
جنینیت یا امبریولوجی کی تفصیل المؤمنون آیت ۱۴ میں، جنیٹک انجنیئرنگ النساء آیت ۱۲۰ میں، گریویٹی یعنی کشش ثقل سورۃ الرعد آیت ۳ میں، ایسڈ رین سورۃ الواقعہ ۷۱ میں، واٹر سائیکل۔الذاریات آیت ۳میں بیان ہوا۔ اور بہت سی آیات ہیں جو نظریہ ارتقا یا ایولیوشن کی جزوی تائید کرتی ہیں۔قرآن نےتو سائنسی دلائل کے انبار لگا دیے ہیں۔
اس مقام سے آگے دو رستے نکلتے ہیں۔ایک دہریت کا رستہ ہے جس کے بارے میں Quantum physics کا ایک بانی Werner Heisenbergکہتا ہے کہ ’’سائنس کے گلاس سے پہلا گھونٹ پیتے ہی آپ دہریہ ہو جائیں گے۔… لیکن اسی گلاس کے پیندے میں خدا آپ کا انتظار کرہاہے۔‘‘یہ ہے وہ دوسرا راستہ۔ یقین کا راستہ۔ لیکن اس راستے پر چلنے والے وہ ہیں جو سائنس کے پہلے گھونٹ کے بعد رُک نہیں جاتے،تکبر نہیں کرتے،عاجزی سے اپنی تحقیق جاری رکھتے ہیں۔
محترم مقرر صاحب نے دہریوں کے ساتھ گفتگو میں پیش آمدہ چار سوالات پیش کرتے ہوئے ان کے مختصراً جوابات بھی پیش کیے۔
۱۔پہلا سوال یہ ہے کہ کیا یہ کائنات خود بخود پیدا ہوگئی یا اِس کا کوئی خالق ہے ؟ دہریت کے رستے پر چلنے والے کہتے ہیں کہ اس دنیا کا کوئی خالق نہیں۔یہ خود ہی پیدا ہوگئی۔ دوسرے راستے پر بیسویں صدی کا سب سے بڑا سائنسدان آئن سٹائن،کائنات کی تخلیق کے بارے میں کہتا ہے کہ بنی نوع انسان ایک بچہ کی طرح ایک ایسی لائبریری میں کھڑا ہے جس میں غیر زبانوں کی بے شمار کتابیں ہیں۔ وہ اس لائبریری میں ایک پُر اسرار نظم وضبط دیکھتا ہے لیکن اسے سمجھ نہیں سکتا۔میرے خیا ل میں دنیا کا سب سے ذہین انسانی دماغ بھی خدا کے بارے میں یوں ہی سوچ سکتا ہے۔ آئن سٹائن مذہبی انسان نہیں تھا لیکن خدا کے بارے میں اس نے تکبر سے کام نہیں لیا۔
۲۔ دوسرا سوال ہے کہ اگر یہ کائنات خدا نے بنائی ہے تو پھروہ خدا کہاں ہے ؟ نظر کیوں نہیں آتا ؟ دہریت کے راستے پر چلنے والوں کا یہ سوال تو ایسے ہی ہے جیسے ایک بچہ، پیدائش سے پہلے اپنی ماں کے پیٹ میں یہ اعتراض کرے کہ چونکہ ماں نظر نہیں آتی اس لیے ماں کی ہستی کا انکار کرتا ہوں۔ اور یقین کے راستہ پر چلنے والا یہ کہے گا کہ ماں تو ہر طرف ہے… جیسے الیکٹرومیگنیٹک سپیکٹرم کی شعاعیں ہمارے ہر طرف ہیں لیکن ہم اسکے ہزار حصوں میں سے نو سو چھیانوے حصوں کو نہیں دیکھ سکتے۔ حضرت مسیح موعودؑ فرماتے ہیں ’’جس کو خدائی کا جلوہ دیکھنا ہے اسے چاہئے کہ دعا کرے۔ ان آنکھوں سے وہ نظر نہیں آتا بلکہ دعا کی آنکھوں سے نظر آتا ہے۔‘‘(ملفوظات جلد۳ صفحہ ۶۱۸ )
۳۔دہریت کے راستے پر چلنے والوں کا تیسرا سوال عموماً یہ ہوتا ہے کہ اگر دنیا اللہ تعالیٰ نے بنائی ہے تو اللہ تعالیٰ کو کس نے بنایا ہے ؟ یہ تو ایسے ہی ہے جیسے کوئی کہے کہ زاہد نے اس کمرے کو پینٹ کیا ہے تو زاہد کو کس نے پینٹ کیا ہے ؟ اسے’’کیٹگری مسٹیک ‘‘کہتے ہیں یعنی کسی چیز کو غلط زمرہ میں پرکھنا۔ خدا ہماری طرح مادہ سے نہیں بنا…لطیف الخبیر ہے۔ یقین کے راستہ پر چلنے والے جانتے ہیں کہ جیسے سائنسی طور پر ہم روشنی کی رفتار سے تیز سفر نہیں کر سکتے،اُسی طرح اِس روحانی اسرار کو ہم ایک مادی ز ندگی میں تو نہیں سمجھ سکتے۔
۴۔ دہریت کے رستے پر چلنے والوں کا چوتھا سوال یہ ہوتا ہے کہ میں کسی اَن دیکھی ہستی کی غلامی کیوں کروں ؟ میں آزاد ہوں۔اچھا؟ یہ آزادی ہے ؟ یا آپ دنیاوی خداؤں کو پوج رہے ہیں ؟ ہستی باری تعالیٰ کے منکرین تو سب سے بڑے غلام ہیں۔ فیس بک Likes، YouTube ویوز،retweets کے غلام۔فلمی اداکاروں، گلوکاروں، فن پاروں کے غلام۔ حضرت خلیفۃ المسیح الرابع ؒ نے ستائیس سال پہلے اِسی جلسہ سالانہ میں فرمایا تھا…’’وہ انسان جس نے کسی نہ کسی کو ضرور پوجنا ہے،جب وہ خدا کو نہیں پوجتا تو اس کے محبوب ذلیل سے ذلیل تر ہوتے چلے جاتے ہیں۔ یقین کے راستہ پر چلنے والے ان مصنوعی خداؤں سے آزاد رہتے ہیں۔ ‘‘
پس ہمیں اپنے بچوں کو بتانا ہے کہ دہریت کا راستہ سائنس کا راستہ نہیں، بلکہ تکبر کا راستہ ہے۔اسی تکبر کی طرف اشارہ کرتے ہوئے تو حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے Richard Dawkinsکو قرآن شریف کی volume commentary ۔5اور اسلامی اصول کی فلاسفی کا انگریزی ترجمہ بھجوایا تھا لیکن اُس نے تکبر سے کام لیتے ہوئے کہا کہ آپ میری کتاب پڑھیں۔مجھے آپ کی کُتب پڑھنے کی ضرورت نہیں۔
یہ نام نہاد فلاسفرز اپنے تکبر اور لاف وگزاف کو سائنس کا نام دیتے ہیں۔اسی لیے تو حضرت مسیح موعودؑ نے فرمایا :
آوازآرہی ہے یہ فونو گراف سے
ڈھونڈو خدا کو دل سے نہ لاف وگزاف سے
سائنس ہمیں اس گلاس کے پیندے تک نہیں پہنچا سکتی جس کا Heisenberg نے ذکر کیا تھا۔حضرت مسیح موعود ؑ فرماتے ہیں : ہم اس حیی وقیوم کو محض اپنی ہی تدبیروں سے ہرگز نہیں پا سکتے۔لیکن دعاؤں کی قبولیت سے پا سکتے ہیں۔
یہ ہے یقین کا راستہ۔جب بچپن میں بھوک لگتی تھی تو ہم ماں پر شک نہیں کرتے تھے۔ بحث نہیں کرتے تھے۔ اس کی موجودگی کا انکار نہیں کرتے تھے اور اونچا روتے تھے۔ ہمارے پاس ماں تک پہنچنے کی طاقت نہیں تھی لیکن ہماری چیخیں سن کر ماں ہم تک پہنچ جاتی تھی۔ خدا تک بھی ہم اپنی طاقت سے نہیں پہنچ سکتے لَا تُدۡرِکُہُ الۡاَبۡصَارُ وَہُوَ یُدۡرِکُ الۡاَبۡصَارَیعنی نظریں اس تک نہیں پہنچ سکتی لیکن وہ نظروں تک پہنچتا ہے۔
آخر وہ عظیم نبی ﷺ جو پیدا ہوا تو ایک یتیم بچہ تھا،جس کی ماں چھ سال میں اُسے چھوڑ گئی،اُس نے غار حرا کی تاریکی میں کس کرب سے دعائیں کی ہوں گی کہ خدا اس تک پہنچ گیا۔بہت سال بعد بھی ایک صحابی فرماتے ہیں: ’’میں نے رسول اللہ ﷺ کو دیکھا جب وہ نماز پڑھ رہے تھے۔اُنکی چھاتی سے رونے کی وجہ سے ایسے آواز آرہی تھی جیسے کیتلی میں پانی ابل رہا ہو۔‘‘
یہی یقین کا راستہ آپ کے غلامِ صادق نے اپنایا۔ ایک روایت ہے کہ طاعون کے دنوں میں ایک رات میں نے مسیح موعودؑ کو سجدہ ریز اس طرح گڑگڑاتے ہوئے دیکھا ہے جیسے ہنڈیا اُبل رہی ہو۔قریب ہو کرمیں نے سنا تو آپ دعا کررہے تھے کہ اےاللہ، اس عذاب سے دنیا کو بچا لے۔
ہمیں اپنے بچوں کو بتا نا ہے کہ ہر سچا احمدی اسی یقین کے راستے سے ہستی باری تعالیٰ کا حتمی ثبوت پاتا ہے اور وہ راستہ نمازوں میں گڑگڑانا ہے۔ دعاؤں کی قبولیت ہے۔ ایک زندہ خدا کو محسوس کرنا،اس کا تجربہ کرنا ہے۔ دہریوں کے لیے بھی ہمیں دعایں کرنی ہیں۔ ہم نے دماغوں کو ہرانا نہیں بلکہ دلوں کو جیتنا ہے۔
حضرت مسیح موعودؑ فرماتے ہیں کہ ایک بچہ جب بھوک سے بے تاب ہو کر دودھ کے لیے چِلاّتا اورچیختا ہے تو ماں کے پستان میں دودھ جوش مار کر آجاتا ہے۔ بچہ دعا کا نام بھی نہیں جانتا لیکن اُسکی چیخیں دودھ کو کیوں کر کھینچ لاتی ہیں۔کیا ہماری چیخیں جب اللہ تعالیٰ کے حضور ہوں تو وہ کچھ نہیں کھینچ کر لا سکتیں ؟آتا ہے اور سب کچھ آتا ہے۔ مگر آنکھوں کے اندھے جو فاضل اور فلاسفر بنے بیٹھیں ہیں وہ دیکھ نہیں سکتے۔
ڈھونڈو خدا کو دل سے۔۔۔ نہ لاف وگزاف سے