صحابہ رسولﷺ کے توحید کے اعلیٰ معیار (قسط اوّل) (تقریرجلسہ سالانہ کینیڈا ۲۰۲۳ء)
(عبد السمیع خان۔ کینیڈا)
ہزاروں ہزار درود اور رحمتیں ہوں ہمارے آقا و مولیٰ محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم پر جنہوں نے عرب کے بیابان میں توحید کا پودا لگایا اور ہزاروں سلام ہوں رسول اللہﷺ کے صحابہؓ پر جنہوں نے آپ کے ساتھ مل کر اسے پروان چڑھایا۔ یہ ایک عظیم الشان داستان ہے جو ۱۴۰۰ سال پہلے لکھی گئی اور آج بھی تروتازہ ہے۔ یہ وہ زمانہ تھا جب توحید دنیا سے گم ہو چکی تھی یعنی خدائےواحد تو تھا مگر اس کی وحدانیت کی گواہی دینے والا کوئی نہ تھا۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جو توحید اپنے صحابہ کو سکھائی وہ لفظی اور زبانی توحید نہیں تھی بلکہ وہ دل کے خون اور روح کے قلم سے لکھی گئی ا ور سینوں سے ابل ابل کر باہر آتی تھی۔ صحابہؓ نے اس توحید کو اعلیٰ ترین معیاروں اور تمام تقاضوں کے مطابق قائم کیاجس کی کوئی نظیر اس سے پہلے نہیں ملتی۔
قربانیوں کا خلاصہ
اس توحید کا پہلا اظہار صحابہ کرامؓ کی ان قربانیوں سے ہوتا ہے جو انہوں نے اپنے ایمان باللہ کی خاطر دیں۔آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ کو جن المناک مشکلات کا سامنا کرنا پڑا، ان کے چند نمایاں ابواب یہ ہیں۔
خدا کے نام پر جانیں لی گئیں، تیروں اور تلواروں سے سر قلم کیےگئے، انہیں صلیب دے کر شہید کیا گیا، جلتے انگاروں پر لٹایا گیا، الٹا لٹکا کر نیچے آگ جلا دی گئی۔ لوہے کی زرہیں پہنا کر دھوپ میں کھڑا کیا گیا، بھوک اور پیاس میں مبتلا رکھا گیا۔ عین دوپہر کے وقت گرم پتھروں پر گھسیٹا گیا، زدوکوب کیا گیا اور مار مار کر لہولہان کر دیا گیا، جوتیوں سے اتنا مارا گیا کہ پہچانے نہ جاتے تھے۔ شیرخوار بچوں کو دودھ سے محروم رکھا گیا۔ مسلمان ماؤں سے ان کے چھوٹے بچے جدا کر دیے گئے، قیدوبند کی صعوبتیں برداشت کرنی پڑیں، سوشل بائیکاٹ کیا گیا، ہر قسم کے تعلقات قطع کر دیے گئے،کافر شوہروں نے مسلمان بیویوں کو طلاق دے دی۔ وطن سے بے وطن کیا گیا، مسلمانوں کی محنتوں کا معاوضہ ضبط کرلیا گیا، مقدس حاملہ عورتوں کے حمل گرائے گئے، نام بگاڑے گئے، عبادت گاہیں گرا دی گئیں، خدائے واحد کی عبادت کرنے سے روکا گیا۔
توحید کی خاطرقربانی دینے والوں میں ابوبکرؓ اور عمرؓ اور عثمانؓ جیسے صاحب وجاہت بھی تھےاور آل یاسر جیسے کمزور گھرانےبھی تھے جن کی زندگی موت سے بدتر بنا دی گئی۔ حضرت ابوبکرؓ قریش کے ایک معزز فرد تھے۔ اسلام لائے تو انہوں نے قریش کو بھی دعوت اسلام دی مگر یہ سنتے ہی مشرکین حضرت ابوبکرؓ پر ٹوٹ پڑے اور ان کو گرا کر بہت مارا۔ بدبخت عتبہ بن ربیعہ نےاپنے مضبوط جوتے سے ان کے چہرے پر اتنا مارا کہ پہچانا نہ جاتا تھااوردشمن قریب المرگ سمجھ کر چھوڑ گئے۔ لیکن دن کے آخری حصہ میں جب انہیں ہوش آیا تو ان کے منہ سے پہلا جملہ یہ نکلا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا کیا حال ہے اور پھر والدہ کی منت کرکے ان کے ساتھ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے تو ان کی حالت دیکھ کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی آنکھیں ا ٓنسوؤں سے بھر آئیں آپ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کی۔ میری والدہ کو اسلام کی دعوت دیں اور ان کے لیے دعا بھی کریں۔ چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تبلیغ سے وہ اسلام لے آئیں۔ (البدایہ والنھایہ جلد۳ صفحہ۳۰۔ از حافظ ابن کثیر طبع اولیٰ۔ ۱۹۶۶ء مکتبہ معارف بیروت)
حضرت عمر بن خطابؓ جیسا جری اور بے باک شخص بھی دشمنوں کے شر سے محفوظ نہ رہا۔ انہوں نے اسلام قبول کیا تو ایک شخص جمیل بن معمر نے مسجد حرام میں جا کر اعلان کیا کہ عمر بےدین ہو گیا ہے۔ حضرت عمرؓ وہاں پہنچے اور کہا یہ جھوٹا ہے میں نے توحید کو قبول کیا ہے۔ یہ سن کر سب حضرت عمرؓ پر جھپٹ پڑے اور دیر تک ان کو مارتے رہے۔ حضرت عمرؓ فرماتے تھے: تم جو چاہو کرلو۔ اب تو میں یہ دین نہیں چھوڑ سکتا۔ (البدایہ والنھایہ جلد۳ صفحہ ۸۲ از حافظ ابن کثیر طبع اولیٰ ۱۹۶۶ء مکتبہ معارف بیروت)
حضرت عثمانؓ اسلام لائے تو ان کے چچا حکم بن ابی العاص نے ان کو پکڑ کر رسیوں سے باندھ دیا اور کہا کہ تو اپنے باپ دادا کے دین سے پھر گیا ہے۔ میں تجھے نہیں کھولوں گا جب تک تو اس دین کو چھوڑ نہ دے۔ مگر اس عاشق توحید نے جواب دیا کہ میں کبھی اس دین کو چھوڑ نہیں سکتا۔ حکم بن ابی العاص نے جب دیکھا کہ یہ اپنے دین کے بارے میں انتہائی سخت ہیں تو ان کو چھوڑ دیا ۔(طبقات ابن سعد جلد۳ صفحہ۵۵ داربیروت۔ بیروت۱۹۵۷ء)
حضرت یاسرؓ اور ان کا سارا گھرانہ ظلم کا شکار تھا ایک دفعہ اس سارے گھرانے کو تکلیف دی جارہی تھی کہ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کا ادھر سے گزر ہوا تو آپؐ نے انہیں مخاطب کرکے فرمایا: اے آل یاسر! صبر کرو اور خوش ہو جاؤ کیونکہ تمہاری وعدہ گاہ جنت ہے۔ (مستدرک حاکم کتاب معرفة الصحابہ ذکر مناقب عمار جلد۳ صفحہ ۳۸۳ مکتبۃ النصر الحدیثہ ریاض)
جب دشمن اپنی پوری طاقت کے باوجود اس پاکیزہ گھرانے کے پائے ثبات میں کوئی جنبش پیدا نہ کرسکے توغصہ سے آگ بگولا ہو کر ابوجہل نے ان کی بیوی حضرت سمیہؓ کو نیزہ مار کر شہید کردیا۔ یہ اسلام میں توحید کی خاطر عورت کی پہلی شہادت تھی۔ یہ انجام دیکھنے کے باوجود ان کا خاوند اور بیٹا ایمان پر ثابت قدم رہے۔ تھوڑے دنوں بعد حضرت یاسرؓ بھی بوجہ ضعیف العمری کے ان شدائد سے جانبر نہ ہوسکے اور انتقال کر گئے۔ ان کے بیٹے حضرت عمارؓ کو قریش دوپہر کے وقت انگاروں پر لٹاتے اور پانی میں غوطے دیتے۔ ایک مرتبہ انہیں انگاروں پر لٹایا جارہا تھا کہ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کا ادھر سے گزر ہوا۔ آپؐ نے حضرت عمارؓ کے سر پر ہاتھ پھیر کر یہ دعا کی: یَا نَارُ کُوْنِیْ بَرْدًا وَّ سَلَامًا عَلیٰ عَمَّار کَمَا کُنْت علیٰ ابراہیم اے آگ! عمار کے لیے اسی طرح ٹھنڈک اور سلامتی کا موجب بن جا جس طرح ابراہیم کے لیے بنی تھی۔ (طبقات ابن سعد جلد۳ صفحہ ۳۵۳ مطبوعہ ایجوکیشنل پریس کراچی طبع اول)
ان میں سیدنا بلالؓ جیسے کمزور غلام بھی تھے جن کو تپتی ریت پر گھسیٹ کر سینے پر پتھر رکھ کر کہا جاتا تھا کہ خدائے واحد کا انکار کر دو مگر وہ احد احد پکارتے تھے۔ کفار انہیں لڑکوں کے حوالے کر دیتے جو انہیں مکہ کی گلیوں میں گھسیٹتے پھرتے مگر بلالؓ کے منہ سے احد احد کی صدا بلند ہوتی رہتی تھی۔(مستدرک حاکم کتاب معرفة الصحابہ جلد۳ صفحہ ۲۸۴ مکتبۃ النصر الحدیثہ۔ ریاض)حضرت بلالؓ کا آقا امیہ بن خلف ظلم کی انتہا کر دیتا تھا۔ عین تپتی دوپہر کے وقت ان کو باہر نکالتا ایک بھاری پتھر ان کے سینہ پر رکھتا اور پھر کہتا۔ یہ پتھر نہیں ہٹاؤں گا جب تک تو مر نہ جائے یا محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) کا انکار کرکے لات اور عزیٰ کی عبادت نہ کرنے لگے۔ حضرت بلالؓ اس کے جواب میں احد احد پکارتے رہتے تھے۔ حضرت ابوبکر ؓ نے انہیں اس حال میں دیکھا تو خرید کر آزاد کر دیا۔ (البدایہ والنھایہ جلد۳ صفحہ۵۷ از حافظ ابن کثیر طبع اولیٰ ۱۹۶۶ء مکتبہ معارف بیروت)
خبابؓ ایک لوہار تھے۔ان کو انہی کی بھٹی سے انگارے نکال کر ان پر لٹا دیا جاتا تھا ان کی کھال جل کر انگاروں کو ٹھنڈا کر دیتی مگر زبان سے دل تک صرف توحید کا اعلان تھا (کنز العمال علاؤ الدین علی متقی جلد۷ صفحہ۳۲ کتاب الفضائل۔ مطبع دائرة المعارف النظامیہ حیدرآباد ۱۳۱۴ھ) حضرت عمر ؓنے ایک دفعہ حضرت خبابؓ کی پیٹھ دیکھی تو فرمایا: میں نے کبھی کسی شخص کی ایسی پیٹھ نہیں دیکھی۔
اس تشدد اور ظلم سے معزز گھرانوں کے مسلمان بھی محفوظ نہ تھے۔ اس لیے حضرت عبدالرحمٰن بن عوفؓ اور دوسرے صحابہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں ایک دفعہ عرض کیا تھا کہ یارسول اللہ! جب ہم مشرک تھے تو معزز تھے اور کوئی شخص ہماری طرف آنکھ اٹھا کر بھی نہیں دیکھ سکتا تھا مگر مسلمان ہو کر ہم کمزور اور ناتواں ہوگئے ہیں۔ (سنن نسائی کتاب الجہاد باب وجوب الجہاد) ان لوگوں نے بظاہر دنیا کی ذلت قبول کرلی مگرتوحید کا دامن نہیں چھوڑا اور ابدالآباد تک ایک ایسی عزت حاصل کی جس پر کبھی فنا نہیں آئے گی۔
حضرت مسعود بن حراشؓ نے حضرت طلحہؓ کو اس حال میں دیکھا کہ بہت سے لوگ ان کو کھینچتے ہوئے لے جارہے ہیں اور ان کے ہاتھ گردن میں بندھے ہوئے ہیں۔ ایک عورت ان کے پیچھے غراتی اور گالیاں دیتی ہوئی چلی جارہی تھی۔ یہ طلحہؓ کی ماں تھی۔ (التاریخ الکبیر جلد۷صفحہ۴۲۱ از امام بخاری بیروت)
حضرت زبیر بن العوامؓ جب اسلام لائے تو ان کی عمر آٹھ سال کی تھی۔ ان کا چچا انہیں چٹائی میں لپیٹ کر لٹکا دیتا تھا اور نیچے آگ جلا کر ان کی ناک میں دھواں پہنچاتا تھا اور ساتھ کہتا کہ اسلام سے انکار کر دو مگر حضرت زبیرؓ فرماتے: میں کبھی اسلام سے انکار نہیں کروں گا۔ (مستدرک حاکم کتاب معرفة الصحابہ باب مناقب الزبیر جلد۳ صفحہ۳۶۰ ریاض)
حضرت سعد بن عبادہؓ نے بیعت عقبہ ثانیہ میں اسلام قبول کیا۔ وہاں سے واپسی پر دشمنوں نے پکڑ لیا۔ ان کے ہاتھ ان کی گردن سے باندھ دیے، ان کے بال کھینچے، زدوکوب کیا اور سخت اذیت دیتے ہوئے گھسیٹ کر مکہ میں لے آئے۔ ظلم و ستم کا سلسلہ جاری تھا کہ ایک کافر نے آکر انہیں نجات دلائی۔(سیرة ابن ہشام جلد۲ صفحہ ۹۱)
حضرت عثمان بن مظعونؓ نے اسلام قبول کیا تو دشمنوں کے مظالم سے بچنے کے لیے ولید بن مغیرہ کی پناہ میں آگئے۔ مگر جب انہوں نے دیکھا کہ دوسرے صحابہ تکالیف برداشت کررہے ہیں اور میں امن سے پھر رہا ہوں تو انہوں نے ولید بن مغیرہ سے کہا کہ تم اپنی پناہ واپس لے لو اور اس کا اعلان مسجد حرام میں کر دیا گیا۔ اس واقعہ کے تھوڑے دن بعد ایک مشرک نے ان کی آنکھ پر ایسا مکا مارا کہ ڈیلے سے باہر نکل آئی۔ اس پر ولید کہنے لگا کہ کاش تم میری پناہ واپس نہ کرتے تو حضرت عثمان بن مظعونؓ نے فرمایا تم اس ایک آنکھ کی بات کرتے ہو میری تو دوسری آنکھ بھی خدا کی راہ میں قربان ہونے کے لیے بیتاب ہے۔(البدایہ والنھایہ جلد۳ صفحہ ۹۲ از حافظ ابن کثیر طبع اولیٰ ۱۹۶۶ءمکتبہ المعارف بیروت)
حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ نے خانہ کعبہ میں قرآن کریم کی چند آیات بلند آواز سے کفار کو سنائیں تو انہوں نے اس قدر مارا کہ چہرے پر نشان پڑ گئے۔ جب دوسرے صحابہ نے ہمدردی کا اظہار کیا تو فرمایا: اگر کہو تو کل پھر اسی طرح ان لوگوں کو اونچی آواز میں قرآن سناؤں۔ (اسد الغابہ جلد۳ صفحہ ۲۵۶ تذکرہ عبداللہ بن مسعود مکتبہ اسلامیہ طہران)
حضرت ابوذرغفاریؓ اسلام لانے سے قبل مخالفین سے اتنے خوفزدہ تھے کہ آپ یمن سے مکہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہی کی تلاش میں آئے مگر کسی سے آپ کا پتا نہ پوچھتے تھے۔ مگر اسلام قبول کرتے ہی ایسی شجاعت پیدا ہوئی کہ مسجد حرام میں جا کر ببانگ دہل کلمہ توحید کا اعلان کیا تو دشمن ان پرآن پڑے اورسر سے پاؤں تک لہولہان کر دیا۔جب آپ مرنے کے قریب ہوگئے تو حضرت عباسؓ نے آکر دشمنوں سے چھڑایا مگر آپ پھر دوسرے دن اسی طرح مسجد حرام میں جا کر توحید کی منادی کرنے لگے تو دشمنوں نے پہلے کی طرح زدوکوب کرنا شروع کر دیا اور حضرت عباسؓ نےدوبارہ اس ظلم و ستم سے نجات دلائی مگر آپ کے پائے ثبات میں کوئی لغزش نہ آئی۔ (مستدرک حاکم جلد۳ صفحہ۳۳۸۔ صحیح بخاری کتاب بنیان الکعبہ باب اسلام ابی ذر)
ضمیر بیچ کے کوئی خوشی قبول نہیں
یہ خود کشی ہمیں قیمت کسی قبول نہیں
جو ہم نے کوچہٴ یار ازل میں دے دی صدا
پھر اس کے بعد کسی کی گلی قبول نہیں
توحید کی خاطر قربانی پیش کرنے والوں میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی دوبیٹیاں حضرت رقیہ ؓ ا ور ام کلثوم ؓ بھی تھیں جن کوتوحید کےجرم میں طلاق دے دی گئی۔ حضرت زینبؓ بھی تھیں جن کا حمل گرایا گیا حضرت عمرؓ کے اسلام لانے میں ان کی بہن فاطمہؓ کی استقامت اور فدائیت کا بڑا دخل ہے۔ ان کو جب پتا لگا کہ ان کی بہن نے اسلام قبول کرلیا ہے تو وہ غصہ میں بھرے ہوئے گھر پہنچے اور اپنی بہن کو اسلام قبول کرنے کی وجہ سے مارا مگر اس نے صاف صاف کہہ دیا کہ تم جو چاہو کرلو میں تو اسلام لاچکی ہوں۔ اب اس سے کسی قیمت پر انکار نہیں کرسکتی (مجمع الزوائد و منبع الفوائد الھیثمی جلد۹ صفحہ۶۲ کتاب المناقب باب مناقب عمر)
کام جو مشکل تر جانا ہے اب ہم نے وہ کر جانا ہے
آپ جلائیں جتنا چاہیں ہم نے اور نکھر جانا ہے
حضرت ابوفکیہہؓحضرت بلال ؓ کے ساتھ اسلام لائے تھے۔ اسلام لائے تو آپ کا مالک صفوان آپ کو رسی سے باندھتا اور گرم پتھروں پر گھسیٹتا۔ پھر گلے میں کپڑا ڈال کر گھونٹتا۔ صفوان کے ساتھ اس کا بھائی امیہ بھی شریک تھا جو کہتا تھا اسے مزید عذاب دو۔ تاریخ بتاتی ہے کہ صرف ان کا آقا ہی نہیں سارا قبیلہ ان کے درپے آزار تھا۔ ان کو قبیلے والے سخت گرمی میں نکالتے، پاؤں میں بیڑیاں ڈالتے، پھر گرم پتھروں پر لٹاتے اور اوپر وزنی پتھر رکھ دیتے یہاں تک کہ اذیت کی شدت اور سخت گرمی کی وجہ سے وہ اپنے حواس کھو بیٹھتے۔یہ عذاب جاری تھا کہ حضرت ابوبکر ؓ نے انہیں صفوان سے خرید کر آزاد کر دیا اور وہ ہجرت کرکےحبشہ چلے گئے۔ (اسدالغابہ جلد۵ صفحہ ۲۷۳ از عبدالکریم جزری )
حضرت مصعب بن عمیرؓ مکہ کے ایک مالدار گھرانے کے چشم و چراغ تھے۔ انہوں نے اس قدر نازونعم سے پرورش پائی تھی کہ مکہ میں کوئی ثانی نہ رکھتے تھے۔ عمدہ سے عمدہ لباس پہنتے اور اعلیٰ سے اعلیٰ خوراک کھاتے۔ نہایت بیش قیمت خوشبوئیں اور عطریات استعمال کرتے۔ اسلام لانے کے بعد ایک عرصہ تک تو اسے پوشیدہ رکھا مگر ایک روز ایک مشرک نے انہیں نماز پڑھتے دیکھ لیا اور آپ کی ماں اور دوسرے اہل خاندان کو خبر کردی جنہوں نے آپ کو فوراً نظربند کر دیا۔ ایک عرصہ تک آپ قیدوبند کے مصائب نہایت صبر کے ساتھ برداشت کرتے رہے اور موقع ملنے پر حبشہ کی راہ لی۔لکھا ہے کہ قید میں ان کا بدن بھاری ہوگیا۔ رنگ و روپ بدل گیا۔ اس حال کو دیکھ کر ماں بھی لعنت ملامت کرنے سے باز آگئی تھی۔رسول اللہﷺبھی دیکھتے تھے تو رو پڑتے تھے۔ (طبقات ابن سعد جلد۳ صفحہ ۱۱۶)
حضرت خالد بن سعیدؓ ایک خواب کی بنا پر اسلام لائے۔ ان کے والد کو معلوم ہوا تو انہیں ایک کوڑے سے مارا یہاں تک کہ ان کے سر پر مارتے مارتے وہ کوڑا ٹوٹ گیا۔ ان کے والد نے سمجھا کہ اب شاید ان کے خیالات بدل گئے ہوں گے اور پوچھا: کیا تم اب بھی محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) کی اتباع کرو گے؟ خالد نے جواب دیا: خدا کی قسم یہ سچا دین ہے۔ میں اسی پر رہوں گا۔ اس پر والد نے بہت گالیاں دیں اور انہیں قید کر دیا۔ بھوکا پیاسا رکھا یہاں تک کہ تین دن اسی حال میں گزر گئے۔ آخر ایک دن موقع پاکر فرار ہوگئے اور حبشہ کی طرف ہجرت کرگئے۔ (طبقات ابن سعد جلد۴صفحہ۹۴)
مسلسل تکلیف دینے کے باوجود بھی جب کفار مکہ نے دیکھا کہ مسلمان صبر و استقامت سے ان تمام مراحل کو برداشت کرتے چلے جارہے ہیں اور ان کی تعداد میں مسلسل اضافہ ہورہا ہے تو انہوں نے رسول اللہ ﷺکے دعویٰ کے ساتویں سال میں ایک باقاعدہ معاہدہ لکھا کہ کوئی شخص خاندان بنو ہاشم اور بنو مطلب کے پاس کوئی چیز فروخت نہ کرے گا۔ نہ ان سے کچھ خریدے گا۔ نہ ان کے پاس کوئی کھانے پینے کی چیز جانے دے گا۔ نہ ان کے ساتھ رشتہ کرے گا۔ نہ ان سے کسی قسم کا تعلق رکھے گا جب تک وہ محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) سے الگ نہیں ہو جاتے۔ اس معاہدہ پر تمام بڑے بڑے رؤساء نے دستخط کیےاور پھر قومی عہد نامہ کے طور پر کعبہ میں لٹکا دیا گیا۔ چنانچہ مسلمان اور ان کے حامی شعب ابی طالب میں قیدیوں کی طرح نظر بند کر دیے گئے۔ (سیرت ابن ہشام حالات شعب ابی طالب۔ طبقات ابن سعد ذکر حصر قریش)
ان ایام میں رسول کریم ﷺاور صحابہ ؓکو جو سختیاں برداشت کرنی پڑیں ان کا حال پڑھ کر بدن پر لرزہ طاری ہو جاتا ہے۔ صحابہؓ بیان کرتے ہیں کہ بعض اوقات انہوں نے جانوروں کی طرح جنگلی درختوں کے پتے کھا کھا کر گزارہ کیا۔ (السیرة المحمدیہ باب اجتماع المشرکین علی منابذہ بنی ھاشم) حضرت سعد بن ابی وقاص ؓ بیان کرتے ہیں کہ ایک دفعہ رات کے وقت ان کا پاؤں کسی ایسی چیز پر جا پڑا جو تر اور نرم معلوم ہوتی تھی ان کی بھوک کا یہ عالم تھا کہ انہوں نے فوراً اسے اٹھا کر نگل لیا اور وہ بیان کرتے ہیں کہ مجھے آج تک پتا نہیں وہ کیا چیز تھی۔ ایک دوسرے موقع پر بھوک کی وجہ سے ان کا یہ حال تھا کہ انہیں سوکھا ہوا چمڑا مل گیا تو اس کو انہوں نے پانی میں نرم کیا اور پھر بھون کر کھالیا۔ (الروض الانف جلد۲ صفحہ۱۶۰ حالات نقض الصحیفة)
بچوں کی یہ حالت تھی کہ بھوک سے ان کے رونے اور چلاّنے کی آواز باہر جاتی تھی تو قریش اسے سن سن کر خوش ہوتے۔ حضرت حکیم بن حزامؓ ایک دفعہ اپنی پھوپھی حضرت خدیجہؓ کے لیے خفیہ طور پر کوئی کھانے کی چیز لے کر جارہے تھے کہ ابوجہل کو پتا لگ گیا تو اس نے سختی کے ساتھ روکا۔ (سیرة ابن کثیر جلد۲ صفحہ۴۷ تا۵۰ دارالاحیاء التراث العربی بیروت) تین سال کے بعد اس مصیبت سے مسلمانوں نے رہائی پائی۔
حضرت عیاش بن ابی ربیعہ ؓ ماں کی طرف سے ابوجہل کے بھائی تھے۔ اسلام لائے اور ہجرت کرکے مدینہ کی نواحی بستی قبا پہنچے تو ابوجہل اور حارث بن ہشام وہاں آگئے اور ان کو بہلا پھسلا کر مکہ لے آئے اور قید کر دیا۔ حضرت سلمہ بن ہشامؓ بھی قدیمی مسلمانوں میں سے ہیں۔ آپ ہجرت کرکے حبشہ چلے گئے تھے۔ واپس آئے تو ابوجہل نے انہیں قیدکردیا اور بھوکا اور پیاسا رکھا۔
حضرت ولیدؓ خالد بن ولید کے بھائی تھے۔ وہ اسلام لائے تو انہیں حضرت سلمہؓ اور عیاش بن ابی ربیعہؓ کے ساتھ قید کر دیا گیا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ان تینوں کی رہائی کے لیے دعا کیا کرتے تھے۔ ولید کسی طرح قید سے چھوٹ کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس پہنچے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے باقی دو ساتھیوں کا حال پوچھا۔ انہوں نے بتایا کہ وہ سخت اذیت اور مصیبت میں ہیں۔ ایک کا پاؤں دوسرے کے پاؤں کے ساتھ باندھا ہوا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد پر حضرت ولید ؓمکہ گئے اور ایک خفیہ طریق سے ان دونوں کو لے کر مدینہ کی طرف روانہ ہوئے۔ خالد بن ولید نے پیچھا کیا مگر یہ بچ کر مدینہ پہنچ گئے۔ (طبقات ابن سعد جلد۴ صفحہ ۱۲۹ تا۱۳۳ داربیروت۔ بیروت ۱۹۵۷ء)
ذبح عظیم کا دور
خون بہنے اور جذبات کے قلع قمع ہونے اور زندگی کی ہر خوشی سے بے نصیب کیے جانے کا سلسلہ ۱۳؍ سال جاری رہا۔صحابہؓ جلاوطن کر دیے گئے تو پھر توحید کے لیے قربانیوں کا ایک نیا سلسلہ شروع ہوا وہ اپنے پیارے خدا کی راہ میں بھیڑ بکریوں کی طرح ذبح کیے گئے یہ ذبح عظیم کا دور تھا جس نے اسماعیلی قربانی کے ۲۵۰۰؍ سال بعد ظاہر ہونا تھا۔
غزوہ اُحد کے قریب زمانہ میں دس صحابہؓ کو بےقصور ظالمانہ طور پر موت کے گھاٹ اُتار دیا گیا۔ مگر کسی نے صداقت سے منہ نہ موڑا۔ حضرت خبیبؓ نے شہادت سے قبل دو نفل ادا کیے اور یہ شعر پڑھتے ہوئے تختہ دار کو چوم لیا۔
لست ابالی حین اقتل مسلمًا
علی ای جنب کان للّٰہ مصرعی
و ذالک فی ذات الالٰہ و ان یشأ
یبارک علیٰ اوصال شلو ممزع
یعنی جب میں مسلمان ہونے کی حالت میں قتل کیا جاؤں تو مجھے اس بات کی کوئی پرواہ نہیں کہ میں کس پہلو پر گرتا ہوں۔ میری یہ سب قربانی اللہ کی رضا کے لیے ہے۔ وہ اگر چاہے گا تو میرے ریزہ ریزہ اعضاء میں بھی برکت ڈال دے گا۔ (صحیح بخاری کتاب المغازی) ان کے اعضاء تو قانون قدرت کے مطابق مٹی ہو گئے مگر ان کی قربانی کے ہر ذرہ پر خدا نے برکت نازل کر دی اورآج زمین کے اس سرے سے دوسرے سرے تک ان کا ذکر خیر ہو رہا ہے اور ان کے نقش قدم پر چل کر جان دینے والے ان پر سلام بھیج رہے ہیں۔
اسی زمانہ میں ستّر صحابہؓ کو دھوکاسے تبلیغ کے بہانے بلایا گیا مگر انتہائی سفاکی کے ساتھ شہید کر دیا گیا۔ حضرت حرام بن ملحان ؓکو پشت کی طرف سے نیزہ مارا گیا جو سینےسے پار ہوگیا۔ جب خون کا فوارہ پھوٹا تو حضرت حرام نے وہ خون منہ اور سر پر پھیرا اور فرمایا: فُزتُ بِرَبِّ الکعبۃ۔ کعبہ کے رب کی قسم میں کامیاب ہوگیا۔ (صحیح بخاری کتاب المغازی باب غزوة الرجیع)کیونکہ توحید ایسی ہی قربانیاں مانگتی ہے
حضرت عروہ بن مسعود ثقفیؓ اسلام قبول کر کے واپس اپنی قوم میں گئے اور انہیں اسلام کی طرف دعوت دی۔ مگر انہوں نے حضرت عروہ کو بہت نازیبا کلمات کہے اور واپس چلے گئے۔ صبح فجر کے وقت حضرت عروہ نے اپنے گھر کے صحن میں کھڑے ہو کر اذا ن دی تو ایک بدبخت وہاں پہنچا اور تیر سے انہیں شہید کردیا (مستدرک حاکم جلد۳ صفحہ ۶۱۵ کتاب معرفة الصحابہ مکتبہ النصر الحدیثہ۔ ریاض)
کب نکلتا ہے کوئی دل میں اتر جانے کے بعد
اس گلی کے دوسری جانب کوئی رستہ نہیں
حضرت فروہ بن عمرو ؓ فلسطین کے علاقہ میں قیصر روم کے عامل تھے۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا پیغام سن کر اسلام لے آئے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں چند تحائف بھی بھجوائے۔ جب قیصر روم کو ان کے اسلام لانے کی اطلاع ہوئی تو انہیں دربار میں بلایا اور قید کردیا اور جب اس پر بھی تسلی نہ ہوئی تو انہیں صلیب پر لٹکا کر شہید کر دیا مگر حضرت فروہ نے جادۂ حق سے ہٹنا گوارا نہ کیا۔ (شرح زرقانی علی المواہب اللدنیہ جلد۴صفحہ۴۴مطبع ازھریہ مصریہ۔ طبع اولیٰ ۱۳۲۷ھ)ایک روایت میں ہے کہ وہ قید کی حالت میں فوت ہوگئے تھے۔ ان کے مرنے کے بعد انہیں صلیب پر لٹکایا گیا۔ (طبقات ابن سعد جلد نمبر۷صفحہ ۴۳۵ بیروت ۱۹۵۸ء)
حضرت حبیب بن زید انصاریؓ صحابی تھے۔ مسیلمہ کذاب نے اپنی بغاوت کے زمانے میں انہیں پکڑ لیا اور کہا کیا تم گواہی دیتے ہو کہ میں اللہ کا رسول ہوں تو آپ نے فرمایا: نہیں۔ میں یہ بات سننا بھی نہیں چاہتا اس پر مسیلمہ نے ان کا ایک ایک عضو کاٹ کر انہیں شہید کردیا۔ (سیرة النبی ابن ہشام جلد۲ صفحہ۱۱۰ مطبع مصطفیٰ البابی الحلبی۔ مصر ۱۹۶۳ء)
صحابہ کی ان عظیم قربانیوں کا نقشہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے یوں کھینچاہے۔
فَدَمُ الرِّجَالِ لِصِدْقِھِمْ فِیْ حُبِّھِمْ
تَحْتَ السُّیُوْفِ اٴَرِیْقَ کَالْقُرْبَانٖ
ان عظیم انسانوں کا خون سچائی یعنی توحید سے محبت کی وجہ سے تلواروں کے نیچے قربانی کے جانوروں کی طرح بہایا گیا۔
رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابی حضرت عبداللہ بن حذافہ ؓحضرت عمرؓ کے زمانہ میں رومیوں کے ساتھ ایک جنگ میں گرفتار ہوگئے۔ ان کو بادشاہ کے سامنے پیش کیا گیا اور بتایا گیا کہ یہ اصحاب محمد میں سے ہیں۔ بادشاہ نے اولاً تو انہیں لالچ دیا اور کہا: اگر تم عیسائی ہو جاؤ تو میں تمہیں اپنی حکومت اور سلطنت میں شریک کرلوں گا۔ حضرت عبداللہؓ نے ان سے کہا کہ اگر تم اپنی ساری سلطنت اور دولت بھی مجھے اس شرط پر دے دو کہ میں دین محمد صلی اللہ علیہ وسلم سے پھر جاؤں تب بھی میں یہ بات ایک لمحہ کے لیے بھی قبول نہیں کروں گا۔ تب بادشاہ نے انہیں موت کی دھمکی دی تو انہوں نے کہا: یہ تیرا اختیار ہے تو جو مرضی کر۔
چنانچہ بادشاہ کے حکم سے انہیں صلیب پر لٹکا دیاگیا اور اس نے تیراندازوں سے کہا: ان پر اس طرح سے تیر چلاؤ کہ ان کو نہ لگیں، ہاتھوں اور پاؤں کے قریب سے گزر جائیں۔ اس کے ساتھ ہی بادشاہ کہہ رہا تھا کہ اگر تم عیسائی ہو جاؤ تو بچ جاؤ گے مگر وہ مسلسل انکار کرتے رہے۔ آخر بادشاہ نے ایک اور چال چلی۔ ان کو صلیب سے اتروا لیا۔ ایک دیگ منگوائی اور اس کو لبالب پانی سے بھروایا، نیچے آگ جلوائی اور خوب جوش دلوایا۔ پھر دو مسلمان قیدیوں کو بلوایا۔ ان میں سے ایک کو دیگ میں پھینکنے کا حکم دیا اور اسے پھینک دیا گیا۔ اس طرح بادشاہ نے اپنے خیال میں حضرت عبداللہؓ پر اذیت ناک موت کا خوف طاری کرکے انہیں پھر عیسائی ہو جانے کا مشورہ دیا مگر انہوں نے اسے پائے حقارت سے ٹھکرا دیا۔
تب بادشاہ نے کہا کہ انہیں بھی اسی دیگ میں ڈال دیا جائے جب ان کو لے جایا جانے لگا تو حضرت عبداللہؓ رو پڑے۔ بادشاہ کو پتا لگا تو وہ سمجھا کہ موت سے خوفزدہ ہوگئے ہیں۔ چنانچہ انہیں قریب بلاکر پھر عیسائیت کا پیغام پیش کیا تو انہوں نے انکار کر دیا۔ اس پر بادشاہ نے تعجب سے کہا کہ پھر رونے کی کیا وجہ تھی۔ حضرت عبداللہؓ نے فرمایا:میں نے سوچا کہ ابھی مجھے دیگ میں ڈال دیا جائے گا اور میری ایک ہی جان ہے جو چلی جائے گی۔ میری خواہش تو یہ ہے کہ میرے جسم کے بالوں جتنی تعداد میں یعنی ہزاروں لاکھوں جانیں ہوتیں جو سب کی سب راہ خدا میں آگ میں ڈال دی جاتیں۔ اس صدمہ سے مجھے رونا آگیا۔
بالآخر بادشاہ نے ان سے کہا کہ اگر تم میرے سر پر بوسہ دو تو میں تمہیں چھوڑدوں گا۔ اس پر حضرت عبداللہؓ نے تمام مسلمان قیدیوں کی رہائی کا وعدہ لیا اور سوچا کہ اس کے سر کو بوسہ دینے سے میرے تمام ساتھیوں کو بریت نصیب ہوتی ہے تو اس میں کیا ہرج ہے۔ چنانچہ تمام قیدی رہا ہو کر حضرت عمرؓ کے پاس پہنچے اور انہیں یہ سارا واقعہ بتایا گیا تو حضرت عمرؓ نے فرمایا: ہر مسلمان پر فرض ہے کہ وہ عبداللہ بن حذافہ کے سر کو بوسہ دے اور اس کا آغاز میں کروں گا۔ (کنزالعمال کتاب الفضائل جلد۷ صفحہ۶۲)
(باقی آئندہ )