کتب مینار: (قسط ۳۷) سلسلہ احمدیہ کی مستورات کے لئے عورتوں کی طرز پر پنجابی نظم (مصنفہ حضرت مولوی غلام رسول صاحب راجیکی رضی اللہ عنہ )
حضرت اقدس مسیح موعودعلیہ السلام کی بالکل نوجوانی کی عمر میں بیعت کی سعادت پانے والے حضرت مولانا غلام رسول صاحب راجیکیؓ نہ صرف صاحب رؤیا و کشو ف بزرگ تھےبلکہ آپ سلسلہ کے انتہائی کامیاب مناظربھی تھے اور آپ عربی، فارسی، اردو اور پنجابی میں شاعرانہ مزاج بھی رکھتے تھے۔
آپؓ خود بیان کرتے ہیں :’’اس ابتدائی زمانہ میں جبکہ یہ علماء سوء گاؤں گاؤں میری کم علمی اور کفر کا چرچا کر رہے تھے ،مجھے خود میرے خدا نے الہام کے ذریعہ سے یہ بشارت دی:’’مولوی غلام رسول جوان صالح کراماتی‘‘
چنانچہ اس الہام الٰہی کے بعد جہاں اللہ تعالیٰ نے مجھے بڑے بڑے مولویوں کے ساتھ مباحثات کرنے میں نمایاں فتح دی ہےوہاں میرے ذریعے سیدنا حضرت امام زمان علیہ السلام کی برکت سے انذاری اور تبشیری کرامتوں کا اظہار بھی فرمایا ہے جس کا ایک زمانہ گواہ ہے۔‘‘(حیات قدسی، صفحہ ۲۱-۲۲)
حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ نے مولانا موصوف کے بارے میں فرمایا :’’میں سمجھتا ہوں کہ مولوی غلام رسول صاحب راجیکی کا اللہ تعالیٰ نے جو بحر کھولا ہے وہ بھی زیادہ تر اسی زمانہ سے تعلق رکھتا ہے۔ پہلے ان کی علمی حالت ایسی نہیں تھی۔ مگربعد میں جیسے یکدم کسی کو پستی سے اٹھا کر بلندی تک پہنچا دیا جاتا ہے اسی طرح خدا تعالیٰ نے ان کو مقبولیت عطا فرمائی اور ان کے علم میں ایسی وسعت پیدا کر دی کہ صوفی مزاج لوگوں کے لئے ان کی تقریر بہت ہی دلچسپ، دلوں پر اثرکرنے والی اور شبہات و وساوس کو دور کرنے والی ہوتی ہے۔ گزشتہ دنوں میں شملہ گیا تو ایک دوست نے بتایا کہ مولوی غلام رسول صاحب راجیکی یہاں آئے اور انہوں نے ایک جلسہ میں تقریر کی جو رات گیارہ ساڑھے گیارہ بجے ختم ہوئی۔ تقریر کے بعد ایک ہندو ان کی منتیں کر کے انہیں اپنے گھر لے گیا اور کہنے لگا کہ آپ ہمارے گھر چلیں۔ آپ کی وجہ سے ہمارے گھرمیں برکت نازل ہو گی۔ ‘‘(خطبہ جمعہ فرمودہ ۸؍نومبر۱۹۴۰ء)
حضرت مولوی صاحبؓ کے کلام سے بطور نمونہ تین مختلف زبانوں میں کہے گئے چند اشعار پیش ہیں۔
پنجابی زبان کے مشہورمنظوم کلام ’جھوک مہدی والی‘ میں لکھا :
سُنیاں نی سیّو ماہی بلے نے ویس نی
چھوڑ مدینہ آگئے ساڈڑے دیس نی
ایک عربی قصیدہ کا ایک شعر حضرت مسیح موعودؑکی مدح میں درج ذیل ہے:
وَ ھُوَ الَّذِیْ فِی ذَاتِہٖ وَ صِفَاتِہٖ
فَردٌ وَ لَیْسَ کَمِثْلِہ شیٌ بَدا
فارسی کے منظوم کلام میں فرمایا:
من ذرّہ ام کہ از خورِ تاباں درخش من
و ایں نگہت و شمیم ز گلہائے آں چمن
آپؓ کی زیر نظر کتاب محض ۱۲؍ صفحات پر مشتمل ہے جو انوارالاسلام پریس قادیان سے طبع ہوئی۔
اس منظوم پنجابی کلا م میں ہر دو اشعار کے بعد درج ذیل مصرعہ آتا ہے:
ایھ پاک زمانہ آیا مہدی پاک مسیحا آیا
بطور نمونہ اس منظوم پنجابی کلام سے چند اشعار پیش ہیں:
اُٹھو لوکو، کرو زیارت، حضرت مہدی آئے
ایہا مسیح، رسول اللہ دا وعدے جسدے آئے
لکھ ہزار نشان صداقت ظاہر اسدے ہوئے
سب نشان کھڑے صف بستہ ،لڑیاں وانگ پروئے
(صفحہ۱)
زور ہویا شیطانی، غلبہ دین گھٹایا
قوم دجالی کفر شرک دا فتنہ سخت اٹھایا
گھر گھر شرک پھیلایا اس نے راہ توحید بھلایا
دشمن دین نبی دا پھردا، ہر شیطانداجایا
(صفحہ۳)
ابابیلاں دا لشکر پھردا ،ایہہ طاعون قہاری
ڈار،اندی ایہہ ڈار ملکو چہ دشمن چن چن مارے
اجے بھی احمق باز نہ آون دیکھ مصیبت بھاری
توبہ تائب مول نہ ہوون ،دل گناہ ول لایا
(صفحہ ۵)
نام غلام رسول ہے میرا، راجیکی گھر میرے
اوہ دس کوہ ہے گجراتوں لہندے ،جتھے خاص بسیرے
بھائی شرف الدین غلام علی تے رحمت فضل گنہیرے
جہناندی فرمائش موجب میں ایہہ ذکر بنایا
یا رب بخشیں مینوں نالے بخشیں بہناں بھائیاں
بخشیں نالے ماں پیئو جیڑا فضل کرم دیا سائیان
ہور احمدی پاک جماعت جتنی تینوں نے وڈیائیاں
کریں قبول دعائیں یا رب میں سائل در آیا
(صفحہ ۱۲)
اس مختصر کتابچہ میں مصنف موصوف نے خدا کی حمد و ثناء بیان کی ہے، نبی کریمﷺ اور آپؐ کی مطہر آل پر درود سلام بھیجا ہے اور حضرت امام مہدیؑ کی آمد کا احوال بیان کیا ہے۔ صداقت حضرت مسیح موعود علیہ السلام بتاتے ہوئے قرآن کریم اوراحادیث نبویہ میں مندرج نشانات کے پورا ہونے کا ذکر کیاہے، جیسا کہ ہر صدی کے سر پر تجدید دین کرنے والے کی آمد، وَاِذَا الۡعِشَارُ عُطِّلَتۡ، سورج اور چاند کو رمضان المبارک کی معین تاریخوں میں گرہن لگنے ، طاعون کا نشان ، دجال اور قوم نصاریٰ، عیسائی پادری کا ظہور اور عروج، گھر گھر شرک کے ڈیرے جمانے کا احوال لکھا۔ امام مہدی کے ظہور، اس کے حلیہ، زمانہ کی حالت، مثیل المسیح کی حقیقت اور ضرورت، امت مسلمہ کی یہود سے مماثلت و مشابہت ہونےکا معاملہ کھول کر فاضل مصنف نے وفات مسیح الناصری کے مسئلہ کو حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کے پیش کردہ ثقہ دلائل کی روشنی میں قارئین کے لیے لکھا ہے۔ واقعہ صلیب، اس کے ما بعد کے غیر معمولی حالات، مرہم عیسیٰ، ہجرت کشمیر اور پھراسی جنت نظیر میں سری نگر کے محلہ خانیار میں بعد طبعی وفات مدفون ہونے کا اس منظوم تبلیغی پیغام میں اعلان عام کیاہے۔
جسمانی رفع الی السماء کے قائلین کا رد کرتے ہوئے حضرت مولوی صاحبؓ نے اپنے محبوب آقا حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کے بطور فتح نصیب جرنیل کے ان غیر معمولی کارناموں کا تذکرہ کیا ہے جن سے قتل خنزیر اور کسر صلیب اور احیائے شریعت جیسے اہم کام تکمیل پذیر ہوئے اوراپنی نظم کے آخر پر احمدیت قبول کرنے والوں کی اس خاص الخاص خوش قسمتی کاذکر کرکے متفرق دعائیں لکھی ہیں۔
الغرض اس مختصر منظوم پنجابی کلام میں حضرت مولوی غلام رسول صاحب راجیکی رضی اللہ عنہ نے برصغیر کے مقامی لوگوں کے مزاج اور انداز کے مطابق صداقت حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے دلائل، ضرورت زمانہ ، مخالفین حضرت مسیح موعود علیہ السلام پر قہری تجلیات اور ان کے عبرتناک انجام اور آپؑ کی تائید میں ظاہر ہونے والے آسمانی و زمینی نشانات کا خوب نقشہ کھینچا ہے جو پنجابی جاننے ، سمجھنے اور بولنے والے احباب و خواتین میں تبلیغی ضروریات کو پورا کرنے والا ہے۔