حضرت امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ
آپ کا نام نعمان بن ثابت بن زوطی کنیت ابو حنیفہ اور لقب امام اعظم تھا۔ آپ ۸۰ ہجری میں کوفہ میں پیدا ہوئے۔۱۵۰ہجری میں جب آپ ۷۰ سال کے قریب تھے بغداد میں وفات پائی۔
آپ کا گھرانہ کابل کے ایک معز ز مذہبی پیشوا خانوادہ سے تعلق رکھتا تھا جو کابل کے مجوسی معبد کا مؤید خاندان تھا۔کابل کی فتح کے بعد آپ کے دادا زوطی اپنے خاندان کے ساتھ کوفہ آ بسے یا قید ہوکر آئے اور مسلمان ہوئے۔کہا جاتا ہے آپ کے دادا کو حضرت علیؓ سے خاص عقیدت تھی،آپ نے ایک لذیذ مشروب جس کا نام فالودہ تھااور کابل کے لوگ اس کے بنانے میں ماہر تھے حضرت علی کی خدمت میں پیش کیا۔آپ کے ہاں لڑکا پیدا ہوا تو اس کا نام ثابت رکھا اور اس کی کامیاب زندگی اور مبارک ذریت کے لیے حضرت علیؓ سے دعا کروائی۔
آپ کے دادا نے کوفہ آ کر کپڑے کا کاروبار شروع کیا اور خوب ترقی کی۔بچپن سے ہی والد کا ساتھ دیا،تجارتی مہارت حاصل کی۔بہرحال آپ مالی طور پر خوشحال تھے اور آپ کو کبھی بھی مالی پریشانیوں کا سامنا نہیں کرنا پڑا۔
چونکہ آپ ہوش سنبھالتے ہی کاروبار میں مشغول ہو گئے تھے آپ کو پڑھنے کا موقع نہیں ملا۔لیکن پھر آپ کی ملاقات اس زمانہ کے مشہور محدث امام شعبی سے ہو ئی جنہوں نے آپ کی ذہانت کو محسوس کیا اور آپ کو حصول علم کی طرف توجہ دلائی۔آپ نے کافی تحقیق کے بعد حضرت حماد بن ابی سلیمان کی شاگردی اختیار کی۔حضرت حماد نے اپنے استاد ابراہیم نخعی کے ذریعے حضرت عبد اللہ بن مسعودؓ اور حضرت علی کرم اللہ وجہہ کے علم سے استفادہ کیا اور اس علم سے امام ابو حنیفہ نے بھی فائدہ اٹھایا۔آپ نے ۱۸ سال تحصیل علم میں صرف کیے۔
تحصیل علم کے بعد آپ نے درس و تدریس کا سلسلہ شروع کیا۔اور کوفہ کی جامع مسجد کے ایک حصہ میں اپنا مدرسہ قائم کیا۔ جس کا شمار بالآخر ایک عظیم الشان حلقہ ہائے دروس میں ہونے لگا۔
آپ کا مدرسہ کوئی ابتدائی مدرسہ نہیں تھا بلکہ شہر کے مختلف قابلیتیں رکھنے والے اونچےدرجہ کے طلبہ درس میں شامل ہوتے۔کوئی لغت اور زبان کا ماہر،کوئی حدیث و تاریخ میں ممتاز،غرض آپ کا مدرسہ مختلف استعدادوں کے حامل ارباب علم کا مرکز تھا۔طلبہ کو مختلف سوال اٹھانے کی اجازت ہوتی،بحث میں حصہ لینے کی بھی کھلی اجازت ہوتی،ہر رائے پر خواہ وہ استاد کی رائے ہو تنقید ہو تی تھی،آخر بحث و مباحثہ کے بعد مسئلہ کا حل نکل آتا اور کوئی رائے قائم ہو جاتی اور وہ بات سیاق و سباق کے ساتھ لکھ لی جاتی۔
امام ابو حنیفہ نے بنو عباس اور بنو امیہ کے دور دیکھے لیکن آپ ان حکومتوں کے انداز حکومت کو پسند نہیں کرتے تھے۔آپ دل سے چاہتے تھے کہ نیک لوگ برسر اقتدار آئیں۔لیکن اس کے باوجود آپ نے کبھی بغاوت میں حصہ نہیں لیا تھا۔نصیحت و خیر خواہی کے اصول کو ہمیشہ پیش نظر رکھا۔حکومتوں نے کو شش کی کہ آپ کا قریبی تعاون حاصل کریں۔لیکن آپ نے کبھی کوئی عہدہ قبول نہیں کیا۔
بنو امیہ کی حکومت نے بھی کوشش کی کہ وہ آپ کا قریبی تعاون حاصل کرے اور حکومت کے کاموں میں آپ شریک ہوں۔لیکن آپ نے کوئی عہدہ قبول نہ کیا۔پھر بنو عباس کے دور میں بھی یہ کوشش ہوئی۔اور آپ پر زور دیا گیا کہ آپ قاضی کا عہدہ قبول کریں۔لیکن آپ اس پر راضی نہ ہوئے۔حکومت ائمہ دین کا تعاون اس غرض سے حاصل کرنے کی متمنی رہتی تھی کہ عام پبلک ائمہ دین کا نمونہ دیکھ کراطاعت شعار بن جائےلیکن حکومت کی عام پالیسی ایسی نہ تھی کہ ائمہ دین حکومت میں شرکت کی طرز کا تعاون دیتے اور حکومت کا حصہ بنتے کیونکہ یہ بات حکومت کے ظلم وستم میں شرکت کے مترادف ہوتی اور ائمہ دین یہ تاثر دینے سے پرہیز کرتے تھےاور کسی درجہ میں بھی حکومت کا آلہ کار بننےکےلیے تیارنہ تھے۔
ایک دفعہ عباسی خلیفہ ابومنصورنے آپ سے کہا کہ آپ قضاء کا عہدہ کیوں قبول نہیں کرتے؟آپ نے جواب دیا کہ میں اس عہدہ کے لیےاپنے آپ کو اہل نہیں پاتا۔منصور نے غصہ کے انداز میں کہا آپ جھوٹ بولتے ہیں آپ پوری طرح اس عہدہ کے اہل ہیں۔ امام صاحب نے بڑے ادب سے عرض کیا کہ اس کا فیصلہ امیرالمومنین نے فرمایا ہےتو جھوٹا آدمی قاضی نہیں بن سکتا اوروہ اس ذمہ داری کا اہل نہیں۔یہ برجستہ جواب سن کر منصورگم صم ہو کر رہ گیااور اسے مزید کوئی سوال کرنے کی جراٴت نہ ہوئی۔
ایک اور موقع پر ابو جعفر منصور نے خفگی کے رنگ میں کہا:میری حکومت میں نہ آپ کوئی عہدہ قبول کرتے ہیں اور نہ میری طرف سےبھجوائےگئےتحائف اور نذرانے لیتےہیں جس سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ حکومت کے مخالف ہیں۔آپ نے جواب دیا یہ بات نہیں۔قضاءکی ذمہ داریاں میں اٹھا نہیں سکتا۔ امیرالمومنین جو تحفہ دینا چاہتے ہیں وہ امیرالمومنین کا ذاتی مال نہیں بلکہ بیت المال کی رقم ہے جس کا میں مستحق نہیں کیونکہ نہ میں فوجی ہوں اور نہ فوجیوں کے اہل وعیال سے میرا کوئی تعلق ہےاور نہ میں محتاج اور ضرورتمند ہوں اوربیت المال میں انہی لوگوں کا حق ہے۔جب میں اس رقم کا حقدار نہیں تو اس کا لینا میرے لیے کیسے جائز ہوسکتا ہے؟اس پر منصور نے کہا آپ یہ مال لے کر غرباء میں تقسیم کر سکتے ہیں۔آپ نے جواب دیا امیرالمومنین کے وسائل مجھ درویش سے زیادہ ہیں۔ آپ اچھی طرح جان سکتے ہیں کہ کون غریب ہے اور کون امیراس لیے آپ کی تقسیم زیادہ مناسب ہو گی۔
دراصل آپ علم و تربیت کے لیے اپنے آپ کو وقف رکھنا چاہتے تھےتاکہ حکومت کا کوئی عہدہ قبول کرنے کی بجائے حکومت کی ذمہ داریاں قبول کرنے والوں کی علمی و عملی تربیت کر سکیں اور وہ پبلک کی بہتر خدمت کر سکیں۔
یہی وجہ ہے کہ ان ائمہ کے تربیت یافتہ علماء اور صلحاء نے بعد میں بڑی بڑی ذمہ داریاں قبول کیں۔اور اپنے علم اور انصاف کی بنا پر عوام کی خدمت کی۔
حضرت امام ابو حنیفہ کا فقہی منہاج یہ تھا کہ سب سے پہلے قرآن کریم پر غور کرتے اور اس سے راہنمائی حاصل کرتے۔اگر قرآن کریم میں تصریح نہ ملتی تو سنت ثابتہ کی پابندی کرتے۔اگر سنت میں وضاحت نہ ہوتی تو پھر صحابہؓ کےاجتماعی عمل کی پیروی کرتےاور اگر مسئلہ زیر غور کے بارہ میں ان کا کوئی اجتماعی عمل معلوم نہ ہوتا تو پھر صحابہؓ کے مختلف اقوال میں سے اس قول کو اختیار کرتے جو ان کی سمجھ کے مطابق قرآن کریم یا سنت ثابتہ کے عمومی منشاکے قریب تر ہوتا۔اس کے بعد دوسرےذرائع علم و استنباط مثلاً قیاس استحسان اور عرف وغیرہ کو آپ اختیار کرتےاور استخراج مسائل وغیرہ کا فریضہ سر انجام دیتے۔تدوین فقہ کے یہی ذرائع آپ کے سامنے تھےاور انہی ذرائع کو اختیار کرنے کی آپ نے اپنے شاگردوں کو تلقین کی۔
آپ ہمیشہ کہا کرتے کہ ہم نے اپنی سمجھ کے مطابق مذکورہ بالا ماخذ سے مسائل مستنبط کیے ہیں،اگر کوئی اور اس سے بہتر استنباط اور اجتہاد پیش کرے تو ہم اس کی پیروی کریں گےاور اپنی رائے پر ہمیں اصرار نہیں ہو گا۔اگر آپ نے کسی روایت کا انکار کیا یا وہ نظر انداز ہوئی تو اس کی وجہ یہ ہوتی تھی کہ وہ روایت بوجوہ ان کے نزدیک ثابت نہیں تھی یا زیادہ ثقہ روایت ان کے علم میں تھی یا ایسی کوئی روایت ان کے علم میں نہیں آئی تھی۔کیونکہ روایات بہت بعد میں جمع ہوئی ہیں اور بتدریج ان میں اضافہ ہوا ہے۔ نیز آپ کے زمانہ میں مختلف اسباب کی وجہ سے وضع احادیث کا زور بڑھ گیا تھا۔اس وجہ سے بھی اخذ روایات میں آپ بڑی احتیاط برتنے پر مجبور تھے۔ حضرت امام ابو حنیفہؒ نے تدوین فقہ میں ایک اور نیا انداز بھی اختیار کیا تھا۔آپ نے ممکنہ مسائل زندگی کا جائزہ لے کر اور ان کے بارہ میں سوالات ترتیب دے کرقرآن کریم،احادیث نبویہ کی مدد سے ان سوالات کے جوابات تلاش کیےاور انہیں مدوّن کرایا تاکہ ضرورت کے وقت ارباب علم ان جوابات سے مدد لے سکیں۔اس طرح آپ کے شاگردوں کی کوشش اور آپ کی راہنمائی سے’’فقہ تقدیر‘‘یا ’’فقہ فرضی‘‘کا ایک بڑا ذخیرہ مہیا ہو گیا۔
امام ابو حنیفہؒ کی عظمت
غرض امام ابو حنیفہ نعمان بن ثابت ایک عظیم فقیہ،بےمثال امام اور بڑی کامل شخصیت کے مالک بزرگ تھے۔اُمّت نے آپ کو امام اعظم کا لقب دیااور آپ اس لقب کے بجا طور پر مستحق تھے۔عمر کےلحاظ سے بھی تمام ائمہ فقہ سے بڑے تھے۔آپ کی علمی سبقت کو بھی سبھی مانتے تھے۔ تدوین علم فقہ کے آغاز کا شرف بھی آپ کو حاصل ہے۔آپ کے حلقہ درس میں ایسے طلبہ شریک تھے جو بعد میں عظیم انسان تسلیم کیے گئے اور ان عظیم شاگردوں کو اپنے استاد کی عظمت پر فخر تھا۔ اُصول کی وسعت اورتفریعات کی کثرت کے لحاظ سے بھی آپ کی فقہ ایک بحر ذخارقرار پائی۔ مختلف ادوارکی اسلامی حکومتوں نے آپ کے فقہی مسلک کواپنایا اوراس کی سرپرستی کی۔ آپ کے پیرو بھی دوسرے ائمہ فقہ کے پیرووٴں سے نسبتاً زیادہ ہیں یہی وجہ ہے کہ امام الزمان حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے آپ کی تعریف میں فرمایا: ’’اصل حقیقت یہ ہے کہ امام صاحب موصوف اپنی قوت اجتہادی اور اپنے علم اور درایت اور فراست میں ائمہ ثلاثہ سے افضل و اعلیٰ تھے اور ان کی خدا داد قوت فیصلہ ایسی بڑھی ہوئی تھی کہ وہ ثبوت اور عدم ثبوت میں بخوبی فرق کرنا جانتے تھے۔اور ان کی قوت مدرکہ کو قرآن شریف کے سمجھنےمیں ایک خاص دستگاہ تھی اور ان کی فطرت کو کلام الٰہی سے ایک خاص مناسبت تھی اور عرفان کے اعلیٰ درجہ تک پہنچ چکے تھے۔اور اسی وجہ سے اجتہاد و استنباط میں ان کے لئے وہ درجہ علیا مسلّم تھا جس تک پہنچنے سے دوسرے قاصر تھے۔‘‘(ازالہ اوہام،روحانی خزائن جلد ۳صفحہ ۳۸۵)
یہ وہ قابل قدر مقام تھا جو سیدنا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی نظر میں امام ابو حنیفہ کو حاصل تھا۔
(اس مضمون کے لیے کتا ب ’’تاریخ افکار اسلامی ‘‘از حضرت ملک سیف الرحمان صاحب کے صفحہ ۱۱۱ تا ۱۳۳ سے استفادہ کیا گیاہے۔)