سیدنا حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کی سیرت کی روشنی میں تربیت اولاد (حصہ دوم۔ آخری)
حضرت مسیح موعودؑ نے فرمایا: ’’حضرت دائود علیہ السلام کا ایک قول ہے کہ میں بچہ تھا، جوان ہوا، اب بوڑھا ہو گیا ہوں۔ میں نے متقی کو کبھی ایسی حالت میں نہیں دیکھا کہ اسے رزق کی مار ہو اور نہ اس کی اولاد کو ٹکڑے مانگتے دیکھا۔ اللہ تعالیٰ تو کئی پُشت تک رعایت رکھتا ہے۔
پس خود نیک بنو اور اپنی اولاد کےلیے ایک عمدہ نمونہ نیکی اور تقویٰ کا ہو جائو اور اس کو متقی اور دیندار بنانے کے لئے سعی اور دُعا کرو۔ جس قدر کوشش تم ان کے لئے مال جمع کرنے کی کرتے ہو اسی قدر کوشش اس امر میں کرو۔‘‘ [ملفوظات جلد۷صفحہ ۳۲۰،ایڈیشن ۲۰۲۲ء]
حضورؑ نے ۱۹۰۵ء میں ہائی اسکول قادیان جاری فرمایا اور فرمایا:’’ہماری غرض مدرسہ کے اجراء سے محض یہ ہے کہ دین کو دنیا پر مقدم کیا جاوے۔ مروجہ تعلیم کو اس لئے ساتھ رکھا ہے کہ یہ علوم خادم دین ہوں۔ ہماری یہ غرض نہیں کہ ایف اے یا بی اے پاس کر کے دنیا کی تلاش میں مارے مارے پھریں۔ ہمارے پیش نظر تو یہ امر ہے کہ ایسے لوگ خدمتِ دین کے لئے زندگی بسر کریں اور اسی لئے مدرسہ کو ضروری سمجھتا ہوں کہ شاید دینی خدمت کے لیے کام آسکے۔‘‘ [ملفوظات جلد۸صفحہ ۱۰۹،ایڈیشن ۲۰۲۲ء] اسی رعایت سے حضور نے مدرسہ کا نام تعلیم الاسلام رکھا تاکہ یہ نصب العین ہمیشہ اساتذہ اور طلبہ کے سامنے رہے۔
صاحبزادہ مرزا مبارک احمد کی وفات پر فرمایا:’’ ہم نے تو اپنی اولاد وغیرہ کا پہلے ہی سے فیصلہ کیا ہوا ہے کہ یہ سب خدا تعالیٰ کا مال ہے اور ہمارا اس میں کچھ تعلق نہیں اور ہم بھی خدا تعالیٰ کا مال ہیں۔ جنہوں نے پہلے ہی سے فیصلہ کیا ہوتا ہے ان کو غم نہیں ہوا کرتا ‘‘۔نیز اس موقعہ پر یہ بھی فرمایا اِنَّ اللّٰهَ مَعَ الْمُتَّقِيْنَ کہ جب متقی کو خدا تعالیٰ کی معیت حاصل ہے تو پھر اسے کس بات کا غم و اندوہ ہو سکتا ہے‘‘۔ فرمایا :’’اولاد کو مہمان سمجھنا چاہئے۔ اس کی خاطر داری کرنی چاہئے۔ اس کی دلجوئی کرنی چاہئے۔ مگر خدا تعالیٰ پر کسی کو مقدم نہیں کرنا چاہئے۔ اولاد کیا بنا سکتی ہے؟ خدا کی رضا ضروری ہے۔‘‘ [ملفوظات جلد۱۰صفحہ ۷۷،ایڈیشن۲۰۲۲ء]
رشتہ داروں میں باہمی محبت اور سلوک کے متعلق ایک روایت بڑی رقت انگیز ہے۔ ایک شخص حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی خدمت میں حاضر تھا۔ باپ نے حضورؑ سے عرض کیا کہ ’’میں تنگ حال رہتا ہوں اور میرا بیٹا میری خبر گیری نہیں کرتا‘‘۔ حضورؑ نے اس وقت قرآن کریم کی یہ آیت پڑھی وَیُطۡعِمُوۡنَ الطَّعَامَ عَلٰی حُبِّہٖ مِسۡکِیۡنًا وَّیَتِیۡمًا وَّاَسِیۡرًا۔ فرمایا کہ’’ اگر باپ قابل امداد ہوتو اس کی امداد اسے مسکین سمجھ کر ہی کر دے اس طرح اگر بیٹا قابل امداد ہو باپ اسے یتیم سمجھ کر ہی اس کی مدد کر دے۔ شوہر اگر بیوی سے نیک سلوک نہیں کرتا تو بیوی اسیر کے حکم میں شامل ہے۔ اسے اسیر سمجھ کر ہی اس کی مدد کرے ‘‘۔ حضور ؑکی اس تقریر کا اس تحصیلدار پر ایسا اثر ہوا کہ حضور کے سامنے اس نے عہد کیا کہ وہ اپنی تنخواہ آئندہ اپنے باپ کے ہاتھ میں دے دیا کرے گا اس میں سے باپ جس قدر چاہے اس کے خرچ کے لئے دے دے۔ اور بعد میں معلوم ہوا کہ وہ شخص اپنے عہد کے مطابق عمل کرتا رہا۔ اس سے ظاہر ہے کہ ’’ گوش زدہ اثرے دارد‘‘ اور نصیحت اکثر کار گر ہوتی ہے۔ یہ روایت کئی لحاظ سے سبق آموز اور قابلِ توجہ ہے۔ اپنی وفات سے دس روز پیشتر ۱۵؍ مئی۱۹۰۸ء کو جو نصیحت حضورؑ نے فرمائی وہ ہمیشہ یاد رکھنے کے قابل ہے۔ فرمایا:’’حدیث ہے‘‘ کہ علم کا طلب کرنا ہر مسلمان مرد اور عورت پر فرض ہے۔ ’’میں پہلے مردوں کا ذکر کرتا ہوں کہ قبل اس کے جو اسلام کی حقیقت معلوم ہو۔ اور اس کی خوبیاں معلوم ہوں پہلے ان علوم کی طرف مشغول ہو جانا سخت خطرناک ہے۔ چھوٹے بچوں کو جب دین سے بالکل آگاہ نہ کیا جائے اور صرف مدرسہ کی تعلیم دی جائے تو وہی باتیں ان کے بدن میں شیر مادر کی طرح رچ جائیں گی۔ پھر سواے اس کے اور کیا ہے کہ وہ اسلام سے پھر جائیں۔ عیسائی تو بہت کم ہوں کیونکہ تثلیث و کفارہ اور ایک انسان کو خدا ماننے کا عقیدہ ہی کچھ ایسا لغو ہے کہ اسے کوئی عقیل و فہیم قبول نہیں کر سکتا۔ البتہ دہریہ ہو جانے کا بہت خطرہ ہے۔ پس ضرور ہے کہ پہلے روز ساتھ ساتھ روحانی فلسفہ پڑھایا جاوے۔ جب آج کل کی تعلیم نے مردوں پر مذہب کے لحاظ سے اچھا اثر نہیں ہیں۔کیا تو پھر عورتوں پر کیا توقع ہے۔ ہم تعلیم نسواں کے مخالف نہیں بلکہ ہم نے تو ایک سکول بھی کھول رکھا ہے۔ مگر یہ ضروری سمجھتے ہیں کہ پہلے دین کا قلعہ محفوظ کیا جائے تا بیرونی باطل تاثرات سے محفوظ رہیں۔ اللہ تعالیٰ ہر ایک کو سواء السبيل، توبہ، تقویٰ و طہارت کی توفیق دے۔‘‘ [ملفوظات جلد۵صفحہ ۶۳۷،ایڈیشن ۱۹۸۸ء]
مندرجہ بالا حوالے کی روشنی میں دینی فلسفہ اور دین سے آگاہی حضرت مسیح موعودؑ کی کتب میں بدرجۂ کمال درج ہے اور چاہیے کہ سکول اور کالج کی تعلیم کے ساتھ ساتھ حضور کی کتابوں کا مطالعہ جاری رکھا جائے اور والدین اس بات کی کڑی نگرانی رکھیں کہ ان کا بچہ علاوہ اپنے مقررہ تعلیمی نصاب کے ہرروز حضرت مسیح موعودؑ کی کسی کتاب کا مطالعہ بھی کرتا رہے۔ ان کتابوں میں علم و حکمت کے دریا بہتے ہیں اور ان کا مطالعہ ’ کُوۡنُوۡا مَعَ الصّٰدِقِیۡنَ‘ کا جلوہ گاہ ہے۔
خاکسار کا تجربہ ہے کہ جن طالب علموں نے اپنے سکول اور کالج کی تعلیم کے زمانے میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کتب کا مطالعہ بھی کیا وہ دنیوی لحاظ سے بھی اعلیٰ مدارج پر پہنچے اور دینی لحاظ سے بھی مغربی فلسفیوں کی زد سے الحاد و اشتراکیت اور دہریت کے اثرات سے محفوظ رہے اور ان کی زندگی نور علیٰ نور بنی :
اے کہ خواندی حکمت یونانیاں
حکمتِ ایمانیاں را ہم بخواں
(الفضل یکم صلح ۱۳۸۴ھ بحوالہ مضامین مظہر صفحہ ۲۲تا۳۲)
(سیرت احمد۔مرتبہ محترم شیخ محمد احمد صاحب مظہررحمہ اللہ)
(مرسلہ:صفیہ چیمہ۔ فرینکفرٹ ،جرمنی)