تقریر جلسہ سالانہ جرمنی: صد سالہ جو بلی جماعت احمدیہ جرمنی الٰہی افضال سے بھر پور ماضی اور روشن مستقبل (قسط دوم۔آخری)
(صداقت احمد۔مبلغ انچارج جرمنی)
خلفائے احمدیت کے جرمنی میں اسلام کی ترقی کے بارے میں وقت کی مناسبت سے صرف چند ارشادات پیش کیے ہیں۔ حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ نے جس بنیاد کے رکھے جانے کا ذکر فرمایا ہے اب خاکسار اس کی کچھ تفصیل آپ کے سامنے پیش کرتا ہے۔ یہی وہ بنیاد ہے جس پر اسلام احمدیت کی ترقی کی عظیم الشان عمارت تعمیرہورہی ہے۔
تقریباً پچاس سال قبل جماعت احمدیہ جرمنی کے ترقیات کی طرف سفر میں تیزی آنا شروع ہوئی۔ پہلے پچاس سال تو بنیاد بنانےاور آئندہ ترقیات کے لیے راہ ہموار کرنے میں گزرے۔ آج سے چالیس پچاس سال پہلے یہاں جرمنی میں ہمارے کیا حالات تھے۔ ہم کہاں کھڑے تھے اور اللہ تعالیٰ کے فضل سےآج کہاں پہنچ چکے ہیں۔زمین آسمان کا فرق ہے۔ ان موجودہ ترقیات کا اندازہ ہمارے وہ بھائی بخوبی کر سکتے ہیں جو پچھلے چالیس، پچاس سالوں سے ادھر ہیں اور انہوں نے جماعت احمدیہ جرمنی کو ترقی کی غیر معمولی منازل طے کرتے ہوئے اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے۔ آج بھی ان کی آنکھوں کے سامنے اس کمزور حالت کی تصویر ہوگی جب ہمارے پاس وسائل انتہائی محدود تھے۔
ایک دفعہ ۱۹۲۸ء میں مجلس مشاورت کے لیے لوگ کثرت سے قادیان آئے ہوئے تھے اور حضر ت مصلح موعودؓ نے مسجد نور سے متصل ایک بڑ کے درخت کے نیچے ولولہ انگیز خطبہ دیا۔ آپؓ نے فرمایا کہ ہم اس بڑ کے درخت کے نیچے یہ مشورہ کرنے کے لیے جمع ہوئے ہیں کہ دنیا کس طرح فتح کی جائے۔ فرمایا کہ اگر کوئی آج ہماری تصویر لے لے تو آج سے چھ سات سو سال بعد کوئی یقین نہیں کرے گا کہ یہ ہمارے بڑوں کی تصویر ہے اور کبھی ان کی حالت اتنی کمزور بھی ہوا کرتی تھی۔
جماعت احمدیہ جرمنی کی ترقی کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جا سکتا ہے کہ ۱۹۸۲ء تک جرمنی میں صرف دو مشن ہاؤسز کام کر رہے تھے ایک ہمبرگ میں اور دوسرا فرانکفرٹ میں اور اب اللہ تعالیٰ کے فضل سے جماعتوں کی تعداد ۲۰۷؍ ہو چکی ہے اگر بارہ لوکل امارتوں کے۸۵؍ حلقہ جات کوان کے ساتھ شمار کیا جائے تو پھر یہ تعداد ۲۹۲؍ بنتی ہے۔
آج جرمن جماعت یورپ کی سب سے بڑی جماعت ہے۔ آٹھ افراد سے شروع ہونے والی جماعت خدا کے فضل سے ۵۴؍ ہزار نفوس سے تجاویز کر چکی ہے۔ جوں جوں افراد جماعت کی تعداد میں اضافہ ہوتا گیا ذیلی تنظیمیں بھی قائم ہوتی گئیں اور اشاعت ِاسلام کے کام میں انہوں نے اپنے اپنے دائرے میں خوب حق ادا کیا۔
پاکستان کے بعد سب سے زیادہ واقفین نو جرمنی میں ہیں۔ اس وقت ہمارے واقفین نو اور واقفات نو کی تعدا د خدا کے فضل سے دس ہزار سے زیادہ ہے۔
اسی طرح پاکستا ن اور انڈیا کے بعد سب سے زیادہ موصیان جرمنی میں ہیں۔اس وقت جرمنی میں موصیان کی تعداد ۱۴۴۵۹؍ ہے۔ پچاس فیصد چندہ دہندگان کو نظام وصیت میں شامل کرنے کا ٹارگٹ جماعت جرمنی نے اللہ کے فضل سے ۲۰۰۷ء میں حاصل کر لیاتھا۔ اب ہمارا ٹارگٹ ہے کہ جرمنی کی تجنید کے پندرہ سال سے زائد عمر کے کل افراد کا پچاس فیصد حصہ نظام وصیت میں شامل کیا جائے۔ ۷۱؍ فیصد یہ ٹارگٹ بھی ہم نے حاصل کر لیا ہے۔ الحمد للہ
ایک وقت وہ تھا جب روزمرہ کے بنیادی اخراجات کے لیے جماعت جرمنی کے پاس وسائل نہ تھے۔فضل الٰہی انوری صاحب مسجد نور میں شدید سردی کے باوجود ہیٹنگ اس وقت چلاتے جب مسجد میں کسی مہمان نے آنا ہوتا۔ ورنہ چادریا کمبل اوڑھ کر گزارا کرتے۔آج مالی لحاظ سے یورپ کی سب سے مستحکم جماعت جرمنی کی جماعت ہے اور اس کا بجٹ ۴۰ ملین یوروز سے تجاوز کر چکا ہے۔۱۹۸۲ء میں ہمارا بجٹ ۴۹۵۳۰ جرمن مارک تھا۔ تحریک جدید میں سب سے زیادہ قربانی کی توفیق بھی جرمن جماعت کو مل رہی ہے۔ وقف جدید میں بھی ہماری قربانی خدا کے فضل سے مثالی ہے۔
یورپ میں بڑے بڑے ممالک ہیں۔برطانیہ ہے، سپین ہے، فرانس ہے، اٹلی ہے لیکن سو مساجد کا ٹارگٹ خلیفۃ المسیح الرابع ؒنے دیا تو جرمن جماعت کو دیا۔ کیونکہ آپ جانتے تھے کہ جرمنوں نے یورپ میں سب سے پہلے مسلمان ہونا ہے اور پھر سارے یورپ کو آنحضرت ﷺ کے پرچم کے نیچے جمع کرنا ہے۔آئندہ یہاں ترقیات کی رفتار میں ہزاروں گنا اضافہ ہونے والا تھا اور مساجد کی تعمیر کے ذریعہ سے اس روحانی انقلاب کی تیاری ہو رہی ہے۔ سو مساجد سکیم کے تحت اس وقت تک کل ۸۳؍ مساجد تعمیر ہو چکی ہیں یا پھر تعمیر کے مراحل میں ہیں۔ جلد ہم نے انشاء اللہ سو کی تعداد پوری کرنی ہے۔ ہم نے چار چرچ خرید کر ان کو مساجد میں تبدیل کیا ہے۔ مسجد فنڈ میں ہر سال تقریباً ساڑھے پانچ ملین یوروز کی قربانی کرنے کی توفیق جرمنی کے احمدیوں کو مل رہی ہے۔
حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے جماعت احمدیہ جرمنی کو خوشخبری سناتے ہوئے فرمایا: ’’ان شاءاللہ تعالیٰ جرمنی یورپ کا پہلا ملک ہوگا جہاں کے سو شہروں یا قصبوں میں ہماری مساجد کے روشن مینار نظر آئیں گے اور جس کے ذریعہ سے اللہ کا نام اس علاقے کی فضاؤں میں گونجے گا جو بندے کو اپنے خدا کے قریب لانے والا بنے گا۔‘‘(خطبہ جمعہ فرمودہ۱۶؍ جون۲۰۰۶ء الفضل انٹرنیشنل ۷تا ۱۳ جولائی ۲۰۰۶ ء صفحہ۶)
جرمنی کی کل آبادی کا پانچ فیصد مسلمانوں پرمشتمل ہے اور ہم احمدی مسلمانوں کی آبادی کا ایک فیصد ہیں جہاں تک مساجد کی تعمیر کا تعلق ہے جرمنی میں کل مساجد کا پچاس فیصد تعمیرکرنے کی توفیق اللہ کے فضل سے ہمیں ملی ہے جو کہ بہت بڑی کامیابی ہے۔ دوسرے فرقوں کےمسلمان ہم سے پوچھتے ہیں کہ تم لوگ تو ایک فیصد ہو پھر بھی سب فرقوں سے زیادہ ترقی کر رہے ہو۔ اس کے پیچھے راز کیا ہے؟ ہم ان کو بتاتے ہیں کہ یہ سب ترقیات خلافت کی بدولت ہیں۔ جب ہم خلافت کی اطاعت میں کوئی کام کرتے ہیں تو اللہ تعالیٰ ہمارے کاموں میں غیر معمولی برکت ڈال دیتا ہے۔
فلائیرز کی تقسیم
پچھلے دس سالوں میں جرمنی بھر میں کل ۷۲ ملین تبلیغی فلائیرز تقسیم ہو ئے اور اس طرح اسلام احمدیت کا پیغام جرمنی کے طول وعرض میں پہنچا۔ پہلےفیز میں ہم نےامن کا پیغام دیا اور یہ فیزمکمل ہوچکا ہے اور ہم جرمنی کے تقریباً ۱۰۰ فیصد حصے کو کور کر چکے ہیں جبکہ دوسرے فیز میں ہم نے یہ پیغام دیا کہ مسیح موعودؑ تشریف لا چکے ہیں اور اس فیز میں جرمنی کا ۵۵ فیصد حصہ کور ہو چکاہے۔ اس با برکت کام میں پندرہ ہزار افراد جماعت نے حصہ لیا، ۷۹۶۱؍ ٹیمیں بھجوائی گئیں اور ۷۴۸۲۰؍ مقامات پر فلائیرز تقسیم ہوئے۔ تین ملین کلومیٹر سے زائد کا سفر کیا گیا۔ صرف اس سال چھ ملین فلائیرز تقسم کیے گئے۔
اس سکیم کی برکت سے اب ہر ماہ تقریباً پندرہ لاکھ لوگ ہماری ویب سائٹ پر آکر معلومات حاصل کر رہے ہیں۔
اسی طرح پچھلے دس سالوں میں ۷۲۴۷؍ تبلیغی سٹینڈ لگائے گئے۔۲۴۱۸؍ تبلیغی نشستیں منعقد ہوئیں۔ ۵۲۳؍ پریس کانفرنسز کا انعقاد کیا گیا۔۲۲۳؍ بڑی جبکہ ۱۹۶۶؍ چھوٹی نمائشیں لگائی گئیں۔ سو شہروں میں بل بورڈ لگائے گئے اور ۲۳۰؍ میئرز کے ساتھ ملاقات کی گئی۔ اس کے ساتھ ساتھ سوشل میڈیا کے ذریعہ ان پروگراموں کی خوب تشہیر کی گئی۔
اس وقت جرمن، عربی اور ترکی زبان میں تین ہاٹ لائنیں چوبیس گھنٹے کام کررہی ہیں اور سالانہ تیس ہزار کالز موصول ہوتی ہیں۔
آذربائی جانی، چینی، روسی، یوکرائینی، ازبک اور فارسی کی ویب سائٹس جرمنی سے کام کررہی ہیں اسی طرح ان زبانوں میں یو ٹیوب اور سوشل میڈیا کے چینلز بھی کام کررہے ہیں۔ جرمن ریڈیو Stimme des Islams کے ساتھ ساتھ ترکی اور عربی میں بھی ریڈیو کام کر رہے ہیں۔
البانیہ، بوزنیا، میسی ڈونیا، رومانیہ، سلووینا، چیک ریپبلک، سلواکیا، کروشیا، سربیا، آئس لینڈ،بلغاریہ،ہنگری،مالٹا میں جماعت جرمنی کو اسلام احمدیت کا پودا لگانے کی توفیق ملی۔ جرمنی اشاعت اسلام کے کام میں یورپ کی قیادت کرے گا والی پیشگوئی پوری ہو رہی ہے۔
روس میں جرمنی کے ذریعہ تبلیغ
حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ نے فرمایا تھا روس کا دروازہ برلن ہے۔پس روس میں تبلیغ اسلام کا کام جرمنی کے ذریعہ ہونا ہے۔ حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ نے جامعہ جرمنی کے افتتاح کے موقع پر فرمایا تھا کہ اللہ تعالیٰ کا یہ عجیب توارد ہے کہ جس سال برلن میں مسجد خدیجہ کا افتتاح ہوا اسی سال جرمنی میں جامعہ کا بھی افتتاح عمل میں آیا ہے اور اس میں اس طرف اشارہ ہے کہ جامعہ جرمنی سے فارغ ہونے والے مربیان روس میں پھیلیں گے اور اس کو فتح کرکے آنحضرتﷺ کے جھنڈے تلے لے کر آئیں گے۔ (روزنامہ الفضل ۴؍ستمبر ۲۰۰۸ء)
حضور انور کی یہ پيشگوئی حیرت انگیز طور پر پوری ہورہی ہے۔ سابق سوويت يونين کےسات ممالک اسٹونيا، لٹويا،ليتھوينيا، آذربائيجان، آرمينيا، جارجيا اور مالدووا ميں جماعت کا پودا لگانے، رجسٹريشن کرانے، مشن قائم کرنے، مبلغين کوبھجوانے وغيرہ کے بنيادي کام کرنے کی توفيق جماعت احمديہ جرمنی کو ملی ہے اور سابق سوويت يونين کے دس ممالک ميں جامعہ احمديہ جرمنی سے فارغ التحصيل مبلغين مصروف عمل ہيں۔
جلسہ سالانہ جرمنی کا آغاز بھی خلافت ثالثہ کے دور میں ہوا۔ پہلا جلسہ ۱۹۷۵ء میں ہمبرگ میں ہوا۔ جس میں ۷۰ کے قریب افراد نے شرکت کی۔ اس کے بعد سے بفضل خدا یہ جلسے باقاعدگی سے منعقد ہو رہے ہیں۔ جلسہ سالانہ ہمبرگ، فرانکفرٹ، ناصر باغ، من ہائیم، کالسروئے سے ہوتا ہوا اس سال خدا کے فضل سے سٹٹ گارٹ کے وسیع و عریض ہالز میں منعقد ہور ہا ہے۔ خلفائے احمدیت نے یو کے کے بعد سب سے زیادہ جرمنی کے جلسوں کو رونق بخشی ہے۔خلافت کے سایہ تلے ہمارا جلسہ اس قدر وسعت اختیار کر گیا ہے کہ ۲۰۱۹ء میں ہونے والے جلسہ میں شمع خلافت کے ۴۲ ؍ہزار پروانوں نے شرکت کی اور اس سال توقع ہے کہ ۵۰ ہزار لوگ اس جلسہ میں شامل ہوں گے۔
ہیومینٹی فرسٹ جرمنی اور النصرت کا قیام عمل میں آچکا ہے۔ النصرت جرمنی میں قائم ہونے والی پہلی اسلامی رفاہی تنظیم ہے اور اس تنظیم نے آہستہ آہستہ جرمن معاشرے میں اپنی جڑیں مضبوط کرنا شروع کردی ہیں۔
جماعت احمدیہ کو عیسائیوں کے دوبڑے فرقوں کے برابر حقوق
جرمنی کے دو صوبوں میں جماعت احمدیہ جرمنی کو عیسائیوں کے دو بڑے فرقوں رومن کیتھولک اور پروٹسٹنٹ کے برابر حقوق مل چکے ہیں۔ پانچ ملین مسلمانوں میں سے کسی اور مسلمان تنظیم کو یہ حق نہیں دیا گیا۔ ان دونوں صوبوں میں سکولوں کے لیے اسلامیات کے نصاب کی تیار ی کے عمل میں جماعت کو شامل کیا جاتا ہے۔
جامعہ احمدیہ کا قیام
۲۰۰۸ء میں حضور انور کی خواہش اور تحریک پر جامعہ احمدیہ جرمنی کی بنیاد رکھی گئی۔ ۲۰؍اگست ۲۰۰۸ء کو حضور انور نے باقاعدہ اس جامعہ کا افتتاح فرمایا۔ پہلے یہ بیت السبوح کی عمارت میں تھا پھر Riedstadt میں الگ سے ایک خوبصورت عمارت تیار ہوئی جس کا افتتاح حضورانور نے ۲۰۱۲ء میں فرمایا۔اس موقع پر حضور انور نے فرمایا کہ اس چھوٹے سے شہر سے روشنی نکل کر سارے یورپ میں پھیلنے والی ہے۔(الفضل انٹرنیشنل یکم مارچ۲۰۱۳ء، صفحہ۱۴)
اللہ تعالیٰ کے فضل سے ہرسال مربیان تیار ہو رہے ہیں۔ اس وقت تک ۱۲۲ مربیان تیار ہو چکے ہیں جو جرمنی کے علاوہ دیگر یورپی ممالک، روس اور سابقہ روسی ریاستوں میں خدمات کی توفیق پا رہے ہیں۔حکومت اور دوسرے مسلمان ابھی تک اسی بحث میں لگے ہوئے ہیں کہ امام جرمنی میں تیار ہونے چاہئیں۔ جو سوچ دوسروں کو کئی سال بعد آتی ہے خلافت کی برکت ہے کہ جماعت اس سے بہت پہلے اس کو عملی شکل دے چکی ہوتی ہے۔
اس وقت اللہ تعالیٰ کے فضل سے جرمنی میں ۱۳۵مربیان خدمت دین کی توفیق پا رہے ہیں۔ الحمدللہ۔ ایک مبلغ سے جرمنی میں تبلیغی سرگرمیوں کا آغاز ہوا۔ پھر ان کی تعداد تین ہوئی اور خلافت رابعہ کے دور میں یہ تعداد بڑھ کر نو ہوگئی۔
حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنی کتب کی صورت میں جو روحانی خزانہ چھوڑا ہے اس تک رسائی ملنا بڑی برکت اور سعادت کا باعث ہے۔ جماعت جرمنی کو اللہ تعالیٰ کے فضل سے حضرت مسیح موعودؑ کی تمام کتب کا جرمن زبان میں ترجمہ کرنے کا اعزاز بھی حاصل ہے۔ ان کتب کے علاوہ بھی وسیع لٹریچر جرمن زبان میں مہیا ہے۔جرمن بولنے والے افراد جماعت کو ضرور اس سے استفادہ کرنا چاہیے اور ان کتب کا مطالعہ جرمنوں کے اندر بھی ان شاءاللہ روحانی تبدیلی لانے کا باعث بنے گا۔
اس سال جو اظہار تشکر کا سال ہے ۹۰؍ سے زائد استقبالیے جرمنی بھر کی جماعتوں میں منعقد ہوئے جن میں بہت سی سیاسی اور سماجی شخصیات نے شمولیت اختیار کی۔ ایک وقت تھا کہ یہ لوگ سمجھتے تھے کہ یہ مسلمان مبلغ یہاں چند دن کے مہمان ہیں مایوس ہو کر خودبخود یہاں سے چلے جائیں گے۔ لیکن اب جب ہم انہیں بتاتے ہیں کہ ہم ۱۰۰ سال سے یہاں موجود ہیں تو وہ حیران ہوتے ہیں اور وہ یہ تسلیم کرنے پر مجبور ہیں کہ اب یہ لوگ اس ملک سے جانے والے نہیں۔ ان کی جڑیں اب یہاں مضبوطی کے ساتھ قائم ہو چکی ہیں۔ جب ہم انہیں اسلام کے زندہ اور حی و قیوم خدا کے بارے میں بتاتے ہیں تو بڑی توجہ اور انہماک سے وہ ہماری باتیں سنتے ہیں۔
جرمنی کے احمدیوں کی سعادت
جماعت جرمنی کو چارخلفاء سے براہ راست روحانی فیض حاصل کرنے کی توفیق ملی۔ ۱۹۵۵ء میں حضرت خلیفۃ المسیح الثانؓی نے جرمنی کا دورہ کیا۔چھ دفعہ حضرت خلیفۃ المسیح الثالثؒ جرمنی تشریف لائے۔ حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ نے اپنے ۲۱؍ سالہ با برکت دور میں ۳۱؍ بار سرزمین جرمنی کو قدم بوسی کا شرف بخشا۔حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز سے بھی جماعت جرمنی کو برطانیہ کے بعد سب سے زیادہ فیض حاصل کرنے کی سعادت حاصل ہوئی۔ مسند خلافت پر متمکن ہونے کے بعد تقریباً ہر سال ہی حضور پر نور جرمنی تشریف لاتے رہے۔ کووڈ کے سالوں میں حضور تشریف نہ لا سکے اس کے علاوہ صرف ایک سال ہے جب کہ جرمنی کے احمدی اپنے پیارے آقا کے دیدار سے محروم رہے۔ ہر دفعہ جب حضور پر نور جرمنی تشریف لاتے ہیں تو جماعت میں زندگی کی نئی لہر دوڑ جاتی ہے اور ترقیات کی شاہراہ پر نئی منازل طے کرنے کے لیے جرمنی کے احمدیوں میں نیا عزم اور حوصلہ پیدا ہوجاتا ہے۔
ان گنت اور غیر معمولی ترقیات پر ہمارے دل خوشی، مسرت اور شکر کے جذبات سے لبریز ہیں۔شکر کا حق ادا کرنے کی ہم میں طاقت نہیں۔
خدایا اے مرے پیارے خدایا
یہ کیسے ہیں ترے مجھ پر عطایا
اگر ہر بال ہو جائے سخن ور
تو پھر بھی شکر ہے امکاں سے باہر
خدا کا وعدہ ہے کہ اگر تم شکر کرو گے تو وہ مزید ترقیات سے نوازےگا اور پہلے سے بہت بڑھ کر اپنے افضال کی بارش برسائے گا۔ جیسا کہ وہ فرماتا ہے: وَإِذ تَأَذَّنَ رَبُّكُم لَئِن شَكَرتُم لَأَزيدَنَّكُم ۖ وَلَئِن كَفَرتُم إِنَّ عَذابي لَشَديدٌ(سورت ابراہیم آیت:۸)یہ محض اللہ تعالیٰ کا احسان ہے کہ اس نے ہماری کمزوریوں کے باوجود ہمیں ان ترقیات اور کامیابیوں سے نوازا۔ ان کا تذکرہ ہم صرف اور صرف تحدیث نعمت کے طور پر کرتے ہیں اور یہ اللہ تعالیٰ کے حکم کے عین مطابق ہے۔ جیسا کہ وہ فرماتاہے: وَاَمَّا بِنِعْمَۃِ رَبِّکَ فَحَدِّثْ(الضحیٰ:۱۲) یعنی تو اپنے رب کی نعمتوں کا ضرورتذکرہ کرتا رہ۔ پس خدا کی نعمتوں کا ذکر ہوتے رہنا چاہیے۔
حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں:’’عجز ونیاز اور انکسار… ضروری شرط عبودیت کی ہے لیکن بحکم آیۃکریمہ وَاَمَّا بِنِعْمَۃِ رَبِّکَ فَحَدِّثْ نعماء الٰہی کا اظہار بھی از بس ضروری ہے ‘‘۔( مکتوبات احمد جلد دوم صفحہ ۶۶بحوالہ تفسیر حضرت مسیح موعودؑ صفحہ ۲۹زیر سورت الضحیٰ آیت ۱۲)
جماعت احمدیہ جرمنی کا مستقبل اور ہماری ذمہ داریاں
اس سال جہاں جماعت کو جرمنی میں قائم ہوئے ایک سو سال ہوئے ہیں اس کے ساتھ ہی ہم نئی صدی میں داخل ہورہے ہیں۔ سو سال پورے ہونے پر ہم ایک منزل پر پہنچے ہیں۔ ہمارا سفر ختم نہیں ہوا بلکہ اس کے بعد اس سے بڑھ کر اور بلند منازل کی طرف ہمارے قدم اٹھنے ہیں اور احمدیت کی ترقیات اور فتوحات کے نئے دَور میں ہم نے داخل ہونا ہے۔ ہم یقین رکھتے ہیں کہ اس نئے دور میں اللہ تعالیٰ کی تائیدات کے ایسے باب کھلنے والے ہیں کہ ہم سابقہ ترقیات کو بھول جائیں گے اور ہر آنے والا دن غیر معمولی فتوحات کے ساتھ طلوع ہوگا۔ ان شاءاللہ
پس اس سنہری اور روشن دور کو قریب سے قریب تر لانے کے لیے ہمیں انتہائی محنت، جانفشانی اور دعا سے کام لینا ہوگا۔ پہلے سے بڑھ کر جدوجہد کرنی ہوگی۔دین کو دنیا پر مقدم رکھنے کا جو عہد ہم نے کیا ہے اس کو پورا کرنا ہوگا۔ خدمت دین کے لیے اپنی جان، مال وقت اور عزت کو قربان کرنے کے لیے تیار رہنا ہوگا۔ ہمارے اوپر بہت زیادہ ذمہ داریاں عائد ہوتی ہیں۔ شکر کا اظہار اپنی ذمہ داریوں کی طرف توجہ کرنے اور ان کو باحسن ادا کرنے کے ذریعہ سے بھی ہو سکتا ہے۔
غلبہ اسلام ایک آسمانی تقدیر ہے اورجرمنی میں اشاعت اسلام کا کام ہمارے ذمہ لگایا گیا ہے اور یہی وہ خاص مقصد ہے جس کے لیے اللہ تعالیٰ ہمیں یہاں لایا ہے اور یہ کا م ہم نے ہی کرنا ہے۔ اور کوئی نہیں جو یہ کام کرسکے۔ جہاں کوئی اور کام کرنے والا ہو وہاں کوئی سستی بھی کرسکتا ہے لیکن جہاں ایک ہی کام کرنے والا ہو اس کی سستی کا نتیجہ خطرناک نکلتا ہے۔ پس اسلام کی ترقی کا انحصار صرف اور صرف ہم پر ہے۔ جو کام ہمارے ذمہ لگایا گیا ہے اس کی مناسبت سے نہ ہمارے پاس مال ہےاور نہ تعداد کے لحاظ سے ہم دنیا کا مقابلہ کر سکتے ہیں۔پس ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم خوب محنت کریں اور ساتھ ساتھ اپنا محاسبہ بھی کرتے رہیں اور دیکھیں کہ ہر روز ہمارا قدم آگے بڑھ رہا ہے یا کہ نہیں۔
حضرت خلیفۃ المسیح الثالث رحمہ اللہ علیہ نے ۱۹۶۷ء میں دورہ یورپ میں لوگوں کو متنبہ کیا کہ اگلے پچیس تیس سال انسانیت کے لیے بڑے نازک ہیں۔ حضورؒ فرماتے ہیں کہ ’’ہمارے ایک مبلغ نے وہاں ایک خواب دیکھی کہ ۶۴ سال کے بعد وہ واقعا ت ہوں گے۔ انہوں نے مجھے خواب لکھی۔ فوری طور پر میرے ذہن میں یہ تعبیر آئی کہ اللہ تعالیٰ نے ان کو یہ بتایا ہے کہ جس رفتار سے تم چل رہے ہو۔ اس سے تو معلوم ہوتا ہے کہ ۶۴ سال کے بعد موعودہ واقعا ت رونما ہونے والے ہیں۔ حالانکہ ہونے ہیں جلدی۔ اس واسطے اپنی رفتار تیز کرو۔‘‘ (تاریخ احمدیت جلد ۲۴ صفحہ ۲۰۲۔۲۰۳)
تاریخ مذاہب سے یہ پتا چلتا ہے کہ قوم کی سستی سے خدائی وعدے مؤخر ہو جایا کرتےہیں جیسا کہ حضرت موسیٰ کی قوم کی سستی کی وجہ سے موعود سرزمین جس کے فوری طور پر ملنے کا وعدہ تھا چالیس سال بعد جاکر بنی اسرائیل کو ملی۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ ہماری سستی کی وجہ سے جرمنی میں اسلام کی فتح اور خدائی وعدوں کے پوراہونے میں تاخیر ہوجائے۔ پس ہم نے سستی نہیں کرنی، اپنی رفتار کو بڑھانا ہے۔ آج اسلام کے مقابل پر بہت سے جھنڈے بلند ہیں۔ بت پرستی کا جھنڈا ہے، مادہ پرستی کا جھنڈا ہے، فحاشی اور بے حیائی کا جھنڈا ہے۔ جب تک یہ سب جھنڈے سرنگوں نہیں ہو جاتے۔ جب تک اس ملک میں تحمید و تکبیر کے نعرے بلند نہیں ہو جاتے ہم اپنے فرائض کو پورا کرنے والے قرار نہیں دیے جا سکتے۔
اس ترقی کو جاری رکھنے اور اس میں تیزی پیدا کرنے کے لیے ضروری ہے کہ ہم دین کی خاطر قربانیاں کرنے والوں اور دین کی خدمت کرنے والوں کی قدر کرتے رہیں۔ وہ لوگ جنہوں نے پچھلے سو سال میں کسی بھی رنگ میں جماعت کی خدمت میں حصہ ڈالا اور ان کو بھی جو اس وقت خدمات دینیہ میں مصروف ہیں ہمیں اپنی دعاؤں میں یاد رکھنا چاہیے۔
خلیفۃ المسیح ہمیں اس طرف بلا رہے ہیں کہ ہم اپنے اندر روحانی تبدیلی پیدا کریں اس لیے مالی قربانی کے لحاظ سے اور تبلیغ و تربیت کے لحاظ سے ہمیں اپنے اندر نیک تغیر پیدا کرنا ہے۔ ہر احمدی عورت، مرد بچہ، بوڑھا، کمزور، مضبوط اپنے اوپر فرض کرلے کہ میں احمدیت کی ترقی کے لیے اپنا وقت وقف کروں گا۔ اپنا اولین فرض اسلام احمدیت کی اشاعت کو سمجھوں گا۔
ہم نے اپنے اخلاق بھی درست کرنے ہیں تاکہ ہم اپنے بہترین نمونے کے ذریعہ لوگوں کو اسلام کی حقیقی تعلیم پہنچا سکیں اور ان کے دل بھی جیت سکیں۔
جرمنی میں اسلام کی فتح اور کامیابی ایسا امر ہے جو آسمان پر قرار پا چکا ہے۔ناممکن ہے کہ زمینی حربے اور منصوبے اس کو محو کر سکیں۔یہ خدا کے وسیع پلان کا حصہ ہے۔ اس عظیم قوم کے بارے میں جو پیشگوئیاں کی گئی ہیں ان کے پورا ہونے کے دن بہت ہی قریب ہیں اور اس کےآثار ہم اپنی آنکھوں سے مشاہدہ کررہے ہیں۔ ایک طرف تو جماعت احمدیہ کی ترقی ہے اور دوسری طرف ہم دیکھتے ہیں کہ عیسائیت مسلسل روبہ زوال ہے۔ حضرت مسیح موعودعلیہ السلام کے ذمہ جو کسر صلیب کا کام لگایا گیا تھا وہ اب خدا کے فضل سے اپنے انجام کو پہنچ چکا ہے۔ دن بدن عیسائی اور خاص طور پر نوجوان عیسائی چرچ سے بیزار ہو کر چرچ کو خیرآباد کہہ رہے ہیں۔ صرف پچھلے سال ۲۰۲۲ء میں نو لاکھ دوہزار لوگوں نے چرچ کو چھوڑا اور چرچ کے اپنے اندازے کے مطابق اگلے پینتیس سالوں میں چالیس ہزار چرچز بکنے والے ہیں۔ ایک طرف تو یہ حال ہے کہ ان کی زمین مسلسل سکڑ تی اور سمٹتی چلی جارہی ہے اور دوسری طرف اللہ تعالیٰ ہماری زمین کو وسیع سے وسیع تر کرتا چلا جارہاہے۔ قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: اَفَلَا یَرَوۡنَ اَنَّا نَاۡتِی الۡاَرۡضَ نَنۡقُصُہَا مِنۡ اَطۡرَافِہَا ؕ اَفَہُمُ الۡغٰلِبُوۡنَ۔(الانبیاء :۴۵)کیا یہ دیکھتے نہیں کہ ان کی زمین کناروں سے سمٹتی چلی جا رہی ہے اور مسلمانوں کی زمین بڑھتی چلی جا رہی ہے۔ کیا پھر بھی وہ یہ گمان کرتے ہیں کہ وہ غالب آنے والے ہیں۔ ہرگز نہیں۔ دیکھیں ہماری مساجد میں اضافہ ہو رہاہے۔ مشن ہاؤسز بڑھ رہے ہیں۔ اس سے پتا چلتاہے کہ خدا کی تقدیر نے کیا فیصلہ کیا ہوا ہے۔
ستمبر ۱۹۶۷ء کو حضرت خلیفۃ المسیح الثالث رحمہ اللہ نے خطبہ جمعہ میں فرمایا :’’آسمان پر سے فرشتے نازل ہو چکے۔ اور انہوں نے عیسائیت کو یورپ اور امریکہ کے ملکوں سے مٹا دیا۔ اب ہمارا کام ہے کہ ہم اپنی انتہائی کو شش کر کے خدائے واحد کے جھنڈے ان ملکوں میں گاڑ دیں۔‘‘( تاریخ احمدیت جلد ۲۴ صفحہ ۲۰۰)
پس صلیب اب ٹوٹ چکی ہے اور وہ دن دور نہیں جب ہزاروں نہیں بلکہ لاکھوں، کروڑوں جرمن احمدیت کے پُرامن حصار میں آجائیں گے اور جرمنی کے طول و عرض میں احمدی ہی احمدی آباد ہوں گے۔ ان شاءاللہ
خدا خود جبر و استبداد کو برباد کردے گا
وہ ہر سو احمدی ہی احمدی آباد کردے گا
صداقت میرے آقا کی زمانے پر عیاں ہوگی
جہاں میں احمدیت کامیاب و کامراں ہوگی
پس اے مسیح محمدی کے غلامو! آپ کے درخت وجود کی سرسبز شاخو! شکرگزاری کے جذبات کے ساتھ جماعت احمدیہ جرمنی کی دوسری صدی میں داخل ہو جاؤ اور اس جوش،ولولے،جانفشانی اور دعا کے ساتھ اسلام احمدیت کا پیغام اس عظیم قوم تک پہنچاؤ کہ اللہ تعالیٰ اس قوم کے دل اسلام کے لیے کھول دے اورہمیں اپنی زندگیوں میں اسے فوج در فوج اللہ کے دین میں داخل ہوتے ہوئے دیکھنا نصیب ہو۔اللہ کرےکہ ہماری یہ ترقیات آئندہ حاصل ہونے والی ترقیات کے لیے بطور بیج کے ہوجائیں اور آئندہ ترقیات کے ساتھ ان کو وہی نسبت ہو جو کہ ایک چھوٹے سے بیج کو ایک شاندار درخت کے ساتھ ہوا کرتی ہے۔ آمین
خاکسار حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے مبارک الفاظ کے ساتھ اپنی تقریر ختم کرتا ہے۔آپ فرماتے ہیں:’’امیر صاحب جر منی گذشتہ دنوں مجھ سے پوچھ رہے تھے کہ ہمارا اگلی صدی کا ٹارگٹ کیا ہے۔ پہلی بات تو یہ کہ جن چند باتوں کا میں نے ذکر کیا ہے۔ یہ ساری باتیں نہیں ہیں چند باتیں ہیں جن کی طرف حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ہمیں توجہ دلائی ہے کیا یہ ہم نے اس گزری ہوئی صدی میں حاصل کرلیا ہے ؟ کیا ہمارا خدا تعالیٰ سے پختہ تعلق پیدا ہو گیا ہے؟ کیا ہماری نمازوں کے اعلیٰ معیار قائم ہو گئے ہیں ؟ کیا ہم نماز کے اوقات میں دنیاوی کاموں کو چھوڑ کر نماز کے لیے حاضر ہو جاتے ہیں یا صرف مسجدیں بنانے پر ہی زور ہے؟ کیا ہم قرآن کریم کی تلاوت میں با قاعدہ ہیں ؟ کیا ہم قرآنی احکامات کو تلاش کر کے ان پر عمل کرنے کی کوشش کرتے ہیں؟ کیا ہم اپنے بچوں کو دین سے جوڑنے کے لیے بھر پور کوشش کر رہے ہیں؟ کیا ہمیں صرف اپنے بچوں کی دنیاوی تعلیم کی فکر ہے یا ان کی دین کی بھی فکر ہے۔ کیا ہمارے اعلیٰ اخلاق آپس کے تعلقات میں وہ معیار حاصل کر چکے ہیں جو رُحَمَآءُ بَیۡنَہُمۡ(الفتح:۳)کا نظارہ ہمیں دکھائیں؟ کیا اعلیٰ اخلاق کے نمونے غیروں پر ظاہر کر کے انہیں اسلام کی خوبصورت تعلیم سے ہم آگاہ کر رہے ہیں یا صرف کہیں اعلیٰ اخلاق دکھا کر ہم یہ بتارہے ہیں کہ ہم پر امن لوگ ہیں؟
بہت سی جگہوں پر جب مجھے غیروں سے کچھ کہنے کا موقع ملا تو اکثر لوگوں نے یہی کہا ہے کہ ہمیں اسلام کی اس خوبصورت تعلیم کا پہلی دفعہ علم ہوا ہے۔ اس سے صاف ظاہر ہے کہ آپ اپنے تعلقات اور اخلاق اسلام کا پیغام پہنچانے کے لیے استعمال نہیں کر رہے جس طرح کرنے چاہئیں۔ لاکھوں کی تعداد میں پمفلٹ تقسیم کرنے کا کیا فائدہ ہے جب اس سے اسلام کی تعلیم کا تعارف ہی لوگوں میں نہ ہو۔
پس پہلے یہ جائزہ لیں کہ حقوق اللہ اور حقوق العباد کے معیاروں کو کس حد تک ہم نے حاصل کر لیا ہے۔ اگر حاصل کر لیا ہے جو میرے نزدیک ابھی حاصل نہیں ہوا اور خود اپنے جائزے سے ہر ایک کو پتا لگ جائے گا، میرے کہنے کی ضرورت نہیں۔ تو پھر اگلی صدی کا نیا ٹارگٹ کیا ہے! اگلی صدی کا ٹارگٹ یہی مختصر لائحہ عمل ہے جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ارشادات کی روشنی میں میں نے بیان کیا ہے۔ ہم یہ دعویٰ لے کر اٹھے ہیں کہ ہم نے دنیا کے دل جیتنے ہیں۔ اس دنیا کو خدا تعالیٰ کی وحدانیت کا قائل کرنا ہے۔ دنیا کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے قدموں میں لا کر ڈالنا ہے۔ پس اس حوالے سے ہم میں سے ہر ایک کو اپنے جائزے لینے چاہئیںاور ایک نئے عزم کے ساتھ جرمنی کی جماعت احمدیہ کو نئی صدی میں داخل ہونا چاہیے کہ ہم دین کو دنیا پر مقدم رکھتے ہوئے اپنے اس مقصد کو حاصل کرنے کی بھر پور کوشش کریں گے اور اپنی اولادوں اور نسلوں کو بھی یہ نصیحت کرتے رہیں گے اور ان کی اس طرح تربیت کریں گے کہ اللہ تعالیٰ سے تعلق کی یہ جاگ ایک نسل سے دوسری نسل میں لگتی چلی جائے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں اس کی توفیق عطا فرمائے۔‘‘(خطبہ جمعہ یکم ستمبر۲۰۲۳ءمطبوعہ روزنامہ الفضل انٹرنیشنل۲۲ستمبر۲۰۲۳ء)
اے مرے پیارے فِدا ہو تجھ پہ ہر ذرّہ مرا
پھیر دے میری طرف اے سارباں جگ کی مہار