اسلامی جمہوریہ پاکستان میں احمدیوں پر ہونے والے دردناک مظالم کی الَم انگیز داستان
۲۰۲۳ءمیں سامنےآنے والے چند تکلیف دہ واقعات سے انتخاب
مسلم ورلڈ لیگ کےایک بیان کا عمومی جائزہ
۲۵؍اپریل ۲۰۲۳ء: رابطہ اسلامی کے سیکرٹری جنرل اور مسلم علماء تنظیم کے چیئر مین ڈاکٹر شیخ محمد بن عبد الکریم العیسی کا ایک بیان حال ہی میں ہماری نظروں سے گزرا ہے۔اس میں سویڈن کی جسٹس کمیٹی کے چیئرمین رچرڈ جومشوف کے ایک بیان پر شیخ نے تبصرہ کیا ہے اور چیئرمین کے اسلام مخالف،تقسیم کرنے والے اورنفرت کو ہوا دینے والے بیان کی مذمت کی ہے۔شیخ نے اسلام کو عفو و درگزر، دوسروں کو خود میں ضم کرنے والا، مہذبانہ راہ و رسم کا درس دینے والااور اپنی ریاست کے ساتھ وفاداری کا حکم دینے والا مذہب قرار دیا ہے اور ساتھ ہی شیخ نے شدت پسندی کی بھی مذمت کی ہے۔
شیخ کا بیان مناسب،متوازن اوربر محل معلوم ہوتا ہے۔یہ بیان قرآن کی تعلیم کے مطابق ہے۔ شیخ نے نفرت کا جواب نفرت سے دینے اوراکسائے جانے والے رویّے کے خلاف عقل و دانش کا استعمال کرنے کو کہا ہے۔ شیخ کے اس بیان پر دیانتداری کے ساتھ غور وخوض کرنے اور ان کی طرف سے بیان شدہ بعض باتوں کی حقیقت جاننا بھی ضروری ہےکیونکہ مسلم امہ کا ایک بڑا حصہ بشمول مذہبی سکالرز عملاً شیخ کے بیان سےمتفق دکھائی نہیں دیتے اور اپنے ممالک میں اسلام کی ایسی تعلیم بیان کرتے ہیں جو شیخ کے بیان کے خلاف ہے۔لہٰذا مسلم ممالک اور مسلم سکالروں تک شیخ کی بیان کردہ تعلیم کا پہنچانا ضروری ہے۔
سویڈش چیئر مین نے اسلامی تعلیمات پر جو الزامات لگائے اور جو تنقید کی ہےقبل اس کے کہ ہم ان کا درست یا غلط ہونا ثابت کریں یہ بات واضح کرنا ضروری ہے کہ ان الزامات کو غلط طور پر قرآن کریم کی طرف منسوب کیا جاتا ہے لیکن پھر بھی بہت سے مسلم ممالک میں انہی باتوں کو درست اور صحیح سمجھا جاتا ہے۔چنانچہ اصلاح کی گنجائش تبھی ممکن ہےجب حقیقی طور پر ان الزامات کا غلط ہونا تسلیم کیا جائے۔
سویڈش چیئرمین نے اپنے مضمون میں غلط کاریوں کی ایک لمبی فہرست بنا کر اسلام اور مسلمانوں کو ان کا مورد الزام ٹھہرایا ہے۔ان میں سے بعض تو محض الزامات یاتاریخی واقعات سے غلط استنباط ہیں جن کا جواب دلائل کے ساتھ دیاجا چکا ہے۔مثلاًوہ لکھتا ہےکہ(نعوذباللہ) آنحضورﷺ نے جارحانہ جنگیں لڑیں۔اپنی جنگوں کو جاری رکھنے کےلیے لوٹ مار کی،غلاموں کی تجارت کی،اپنے سیاسی حریفوں کو قید کرکے تشدّد کیا اور پھر قتل کروایا وغیرہ۔ جب ان الزامات کا گہرائی سے مطالعہ کیا جائے تو صاف معلوم ہوتا ہے کہ ایسے الزامات بے بنیاد ہیں۔کوئی بھی تعلیم یافتہ انسان ان الزامات سے متاثر نہیں ہو گا۔
لیکن چیئرمین نے کچھ ایسے الزامات لگائے ہیں جن کا تعلق مسلمانوں کی موجودہ حالت سے ہے اور ان کا ذکر کرنا اور ان کا جواب دینا یہاں ضروری ہے۔
اس سے قبل کہ ہم ان اعتراضات کا جواب دیں یہاں یہ وضاحت ضروری ہے کہ ان اعتراضات کا جواب کیسے دیا جائے گا۔ پہلے ہم یہ دیکھیں گے کہ کیا اعتراض کیا گیا ہے پھر اسلامی جمہوریہ پاکستان میں جماعت احمدیہ کےساتھ سلوک کا جو پیمانہ مقرر کیا گیا ہے اس کی روشنی میں اس کی حقیقت بیان کریں گے۔ جماعت احمدیہ دو سو چودہ ممالک میں قائم ہے۔ جماعت احمدیہ کی بنیاد کلمہ لا الٰہ الا اللہ محمد رسول اللہ ہے یعنی اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور محمدﷺ اللہ کے رسول ہیں۔احمدیوں کی کتاب قرآن کریم ہے اور قبلہ کعبہ شریف ہے۔ احمدی خود کو مسلمان کہتے اور ارکانِ ایمان نماز،روزہ،حج، زکوٰۃپر ایمان اور عمل باقی مسلمانوں کی طرح ہی کرتے ہیں۔ احمدی قرآن کریم کی بالا دستی کو تسلیم کرتے ہوئے اس بات کو نہیں مانتے کہ دو ہزار سال قبل حضرت عیسیٰؑ جسم سمیت آسمان پر چلےگئے تھے۔ احمدیوں کا عقیدہ ہے کہ حضرت عیسیٰؑ طبعی وفات پا چکے ہیں۔نیز احمدی مانتے ہیں کہ مسیح اور مہدی جس کے آخری دنوں میں نازل ہونے کا مسلمانوں سے وعدہ کیا گیا تھا ان کا نزول ہو چکا ہے اور وہ حضرت مرزا غلام احمد قادیانیؑ ہیں۔احمدی حضرت مرزا غلام احمد قادیانیؑ کو ظلّی اور بروزی نبی مانتے ہیں۔ریاستِ پاکستان نے ۱۹۷۴ء میں احمدیوں کو غیر مسلم قرار دے دیا اور تب سے احمدی ریاست اور معاشرے کی جانب سے انتہائی شدید ایذارسانی اور ظلم وستم کا سامنا کر رہے ہیں۔
پاکستان ایک اسلامی ملک ہے اور اس کی چھیانوے فیصد آبادی مسلمان ہے جن میں پندرہ فیصد اہل تشیع ہیں۔ پچیس کروڑ کی آبادی کے ساتھ یہ دنیا کا دوسرا بڑا اسلامی ملک ہے۔ ملک جمہوری ہے اور لوگ مذہب کے معاملے میں انتہائی حساس ہیں۔ ملاں کے پاس بڑی مذہبی اور سیاسی طاقت ہے۔چند ایک علماء دنیا بھر میں مشہور ہیں جیسے مودودی صاحب اورغامدی صاحب۔بریلوی،دیوبندی اور اہل حدیث فرقوں سے تعلق رکھنے والوں کی تعداد زیادہ ہے۔ایسے مولویوں کی کوئی کمی نہیں جو کھلے عام اسلام کا شدت پسندانہ نظریہ پیش کرتے اور اس کا پرچار کرتے ہیں۔سب نے احمدیوں کے خلاف گٹھ جوڑ کر رکھا ہے اور اِکّادُکّاہی کوئی احمدیوں کے حق میں بات کرنے کی ہمت کرتا نظر آتا ہے۔ سب احمدیوں کے خلاف ختم نبوت کا ’ہتھیار‘ استعمال کرتے ہیں حالانکہ احمدی دل و جان سے آنحضرتﷺ کی ختم نبوت پر ایمان رکھتے ہیں۔پاکستان میں احمدی کسی بھی صورت میں اپنے عقائد کے پرچار اور اپنے اوپر لگنے والے الزامات کا دفاع کرنےکا کوئی حق نہیں رکھتے۔
مسٹر جومشوف سویڈن میں آزادیٔ حق رائے دہی اور مذہبی آزادی کا علمبردار ہے۔وہ یہ الزام عائد کرتا ہے کہ اسلام میں ایسی کوئی آزادی نہیں ہے اور ساتھ ہی اس بات کا بھی مطالبہ کر تا ہےکہ سویڈن میں مسلمانوں کو اذان دینے کا حق نہیں دیا جانا چاہیے۔ اس کی اپنی بات میں کھلم کھلا تضاد ظاہر ہے۔ بہرحال وہ بعض مسلم ممالک میں آزادیٔ رائے اور آزادیٔ مذہب نہ دیے جانے کے متعلق درست بات کر رہا ہے۔ جیسے کہ پاکستان میں ۱۹۷۴ء کی دوسری آئینی ترمیم کے تحت احمدیوں کو غیر مسلم قرار دےدیا گیا اور پھر اس ظلم و جبر میں مزید اضافے کرتے ہوئے ۱۹۸۴ء میں امتناع احمدیت آرڈیننس ۲۰؍ کے ذریعے احمدیوں سے خود کو مسلمان کہنے،تبلیغ کرنے،مسجد کو مسجد کہنے حتیٰ کہ اذان دینے کا حق بھی چھین لیا گیا۔ ان قوانین کی معمولی سی خلاف ورزی بھی احمدیوں کو لمبے عرصے تک جیل بھجوا سکتی ہے۔ ان قوانین نے احمدیوں پر ظلم و ستم کے دروازے کھول دیے اور تب سے احمدیوں کو یہ ظلم برداشت کرتے ہوئے دہائیاں گزر چکی ہیں۔ مولوی اور عدالتیں ان قوانین کی ظاہری الفاظ سے زیادہ سخت تشریح بیان کرتے ہیں اور ساتھ ہی مقدمہ درج ہونے کی صورت میں توہینِ مذہب وغیرہ کی دفعات بھی شامل کروا دیتے ہیں۔احمدی کھلےعام نہ تو قرآن پڑھ سکتے ہیں اور نہ ہی اسے اپنے پاس رکھ سکتے ہیں۔ احمدیوں کو سلام کہنے اور نماز پڑھنے پر سخت سزائیں دی گئی ہیں۔حکومت نے احمدیوں کے حج پر پابندی عائد کر رکھی ہے۔ ملاں اگر کسی احمدی کو قربانی کرتا دیکھ لیں تو جانوروں کو ضبط کروانے پولیس کے پاس دوڑے جاتے ہیں۔ جو کچھ اذان کے بارے میں جومشوف سویڈن میں لاگو کروانا چاہتا ہے وہ تو احمدیوں پر پہلے سے ہی پاکستان میں لاگو ہے۔ جومشوف قرآن اور آنحضورﷺ پر ناجائز طور پر نفرت اور تشدد پر اکسانے کا الزام عائد کرتا ہے۔اس لحاظ سے وہ بہت سے موجودہ مسلم معاشروں کی کرتوتوں پر نظر ڈالتے ہوئے بات کر رہا ہے۔قرآن یا آنحضور ﷺ کی تو کوئی ایسی تعلیم نہیں ہے لیکن آج کل نفرت و تشدد مسلم معاشروں کا طرّہ امتیاز ہے۔ پاکستان میں ایسا کوئی دن نہیں جب احمدیوں کے خلاف مولوی نفرت نہ اُگلیں اور لوگوں کو اُن کے خلاف نہ اکسائیں۔اس کام میں صرف ملاں ہی شامل نہیں بلکہ اب پولیس،انتظامیہ اور سیاستدان بھی اپنا کردار ادا کر رہے ہیں۔ بدنام زمانہ آمر جنرل ضیاءالحق نے احمدیت کو ’کینسر‘ قرار دیا۔۲۰۲۲ء میں ایک وفاقی وزیر نے کہاکہ قادیانیت اور صیہونیت اسلام کے سینے میں خنجر پیوست کرنے کی ایک سازش ہے۔آپ سوچیں ایسے بیانا ت کا عام لوگوں پر کیا اثر ہوتا ہوگا؟
۲۸؍مئی ۲۰۱۰ء کو اسی طرح کے بیانات کے زیراثر دہشتگردوں نے دو احمدیہ مساجد پر حملہ کر کے چھیاسی احمدیوں کو شہید کر دیا تھا۔اس آئینی ترمیم کے بعد سینکڑوں احمدی شہید کیے جاچکےہیں اور پانچ فیصد مجرم بھی قانون کےکٹہر ے میں نہیں لائے گئے۔ پاکستان میں رہنے والے احمدی اس قدر خوف کی حالت میں اپنے شب و روز بسر کرتے ہیں کہ وہ اپنی شناخت بھی ظاہر نہیں کرتے۔ گذشتہ سال ایک شخص نے ایک احمدی سے صرف ایک منٹ بات کی اور اندازہ لگا لیا کہ وہ احمدی ہے اور اس نے چاقو کے وار کر کے اسے شہید کر دیا۔قاتل اس احمدی کو پہلے نہیں جانتا تھااور ایک مدرسے سے پڑھا ہو ا مولوی تھا۔
جومشوف کہتا ہےکہ اگر عیسائی چاہتےہیں کہ وہ تفریق،ناانصافی اور ہر اقسام کے جارحانہ رویے کے خلاف جنگ کریں تو ان کو چاہیے کہ وہ اسلامیت کے خلاف جنگ کریں۔جومشوف کا ان سب باتوں کو اسلامیت کے ساتھ منسوب کرنا جائز ہےلیکن اسلام کے ساتھ نہیں۔ ان نام نہاد اسلامیت پسندوں نے ساری اسلامی دنیا پر قبضہ جما رکھا ہے۔ پاکستان تو مکمل طور پر ان کے زیر اثر ہے۔ کم از کم احمدیوں کے معاملے میں تو سو فیصدانہی کی چلتی ہے۔احمدی پاکستان میں سرکاری اور غیر سرکاری سطح پر تفریق،ناانصافی اور امتیازی سلوک کا سامنا کرتے ہیں۔احمدیوں کو تمام سرکاری محکموں میں رکاوٹوں کا سامنا ہے۔ جب کوئی احمدی عسکری اداروں میں خدمت کا خواہاں ہوتا ہے تو باوجود تمام تر قابلیتوں کے اس کو کہا جاتا ہے کہ وہ تبھی نوکری حاصل کر سکتاہے اگر وہ اپنے آپ کو سنی مسلم بنالے۔آئین میں تو سب شہری برابر ہیں لیکن پاکستان میں اقلیتوں کوبرابر کا شہری نہیں سمجھا جاتا۔ پاکستان میں احمدیوں کو ایذا پہنچانا نیکی اور ثواب کا کام سمجھا جاتا ہے۔ ہائی کورٹ کے ایک چیف جسٹس نے تو یہاں تک کہہ دیا تھا کہ ’’قادیانیوں اور دوسرے غیر مسلموں کو شناخت کر کے ان کےخلاف مقدمے درج کرنے چاہئیں اور ان کو گرفتار کرنا چاہیے۔جو کوئی اسلامی تعلیمات کو توڑتا مروڑتا ہے وہ پاکستان میں جرم کرتا ہے۔ریاست کو ان پر مقدمات کرنے چاہئیں اور عام آدمیوں کو بھی ان پر مقدمات کرنے چاہئیں‘‘۔اسی بات کے زیر اثر ایک مُلاں پولیس کی نفری کےساتھ ربوہ آیا جہاں ایک ادارے کے سربراہ کو اس الزام پر گرفتار کر لیا کہ ایک تقریب تقسیم انعامات کے دوران طلبہ میں قرآن کریم کے نسخے تقسیم کیے جارہے تھے کیونکہ یہ امتناع قادیانیت آرڈیننس نمبر ۲۰؍ اور بلاسفمی کے قانون کی خلاف ورزی ہے۔ جج نے ان کی ضمانت منظور نہیں کی اور اگر ان کوسزا ہوئی تو عمر قید بھی ہو سکتی ہے۔ایک جج نے ایک معاملے پر ایک سو بہتر صفحات کا فیصلہ کسی احمدی دلیل کو سنے بغیر دے دیا اور ساتھ ہی یہ بھی مطالبہ کیا کہ احمدیوں کے لیے الگ لباس اور ناموں کے ساتھ غلام احمدی لکھا جائے تا کہ پہچان میں آسانی ہو۔کئی دہائیوں سے کوئی ایسا دن نہیں گزرا جب کوئی احمدی کسی مذہبی مقدمہ میں جیل میں نہ ہو۔ یقیناً جومشوف کو مسلم ممالک کی موجودہ صورت حال کا اچھی طرح سےادراک ہے۔
(باقی آئندہ)
(مرتبہ: مہر محمد داؤد )