جو خیرِ امم تھی، وہ اُمت کدھر ہے
دریدہ بدن اور مغموم بچے
کسی بھی سہارے سے محروم بچے
دکھی دل زمانے کے مظلوم بچے
گلہ کر رہے ہیں یہ معصوم بچے
علمدار تقدیسِ انساں کہاں ہیں
نگہ دار عصرِ پریشاں کہاں ہیں
زمین آسماں دے رہے ہیں گواہی
ہر اک سمت پھیلی ہوئی ہے تباہی
نظر آ رہی ہے دلوں کی سیاہی
کہاں پر ہے دنیا میں اب خیر خواہی
سبھی صاحب امر و ذی شاں کہاں ہیں
نگہ دارِ عصر پریشاں کہاں ہیں
ملا کیا مٹا کر غریبوں کی بستی
ہوئی ہے جہاں جان پانی سے سستی
ہے صبح و مسا جاری یہ چیرا دستی
کہاں لے کے آئی تخیل کی پستی
وہ آدابِ جنگ، عہد و پیماں کہاں ہیں
نگہ دار عصرِ پریشاں کہاں ہیں
جو خیرِ اُمم تھی، وہ اُمت کدھر ہے
نبی پاکؐ کی آج سنت کدھر ہے
وہ اک دوسرے سے محبت کدھر ہے
جو سیکھی تھی تم نے اخوت کدھر ہے
مسلمان دنیا کے سلطاں کہاں ہیں
نگہ دار عصرِ پریشاں کہاں ہیں
کوئی ہوتا زخموں پہ مرہم جو رکھتا
بدن کا انہیں اپنے حصہ سمجھتا
وہ بہنوں کے بھائی وہ ماؤں کی ممتا
ہیں دیتی دہائی نہیں کوئی سنتا
جو رکھتے تھے غیرت مسلماں کہاں ہیں
نگہ دار عصر پریشاں کہاں ہیں
کوئی ناخدا نَے کوئی رہنما ہے
جو آیا تھا، امت نے ٹھکرا دیا ہے
اب امت کا شیرازہ بکھرا ہؤا ہے
یہ بیڑا تو گرداب میں گھر چکا ہے
حقیقی وفادارِ قرآں کہاں ہیں
نگہ دارِ عصر پریشاں کہاں ہیں
خدایا! تُو خود ظالموں کو سزا دے
زمانے کو پھر اپنی طاقت دکھا دے
تُو ہی مالک الملک ہے اب بتادے
جو پھیلی ہیں تاریکیاں سب مٹادے
تو قدرت کا اپنی کرشمہ دکھا دے
شریروں پہ ان کے شرارے گرا دے
(مبارک احمد ظفرؔ)