الفضل ڈائجسٹ

الفضل ڈائجسٹ

(محمود احمد ملک)

اس کالم میں ان اخبارات و رسائل سے اہم و دلچسپ مضامین کا خلاصہ پیش کیا جاتا ہے جو دنیا کے کسی بھی حصے میں جماعت احمدیہ یا ذیلی تنظیموں کے زیرانتظام شائع کیے جاتے ہیں۔

محترم صاحبزادہ مرزا وسیم احمد صاحب

لجنہ اماءاللہ جرمنی کے رسالہ’’خدیجہ‘‘برائے2013ء نمبر1 میںمکرمہ مبارکہ روڈولف صاحبہ نے ایک مختصر مضمون میں محترم صاحبزادہ مرزا وسیم احمد صاحب کا ذکرخیر کیا ہے۔

مضمون نگار بیان کرتی ہیں کہ ایک درویش کی بیٹی ہونے کے ناطے میرا بچپن قادیان میں گزرا۔ مجھے بچپن کے وہ دن یاد آتے ہیں جب ہم شام کو کھیل کُود کر واپس گھر آتے تو راستے میں محترم میاں صاحب سے آمنا سامنا ہوتا۔ آپ سیر کرکے واپس آ رہے ہوتے۔ ہم ساری سہیلیاں آپ کو سلام کرتیں تو آپ سلام کا جواب دینے کے بعد ہمارا حال ضرور پوچھتے اورہلکاپھلکا مزاح کرتے۔آپ بچیوں سے بہت پیار کرتے تھے۔ مَیں نے لجنہ کا کام شروع کیا تو بعض اوقات محترمہ آپاجان سیدہ امۃالقدوس صاحبہ سے ہدایات لینے کے لیے میاں صاحب کے گھر جانا پڑتا۔ اکثر آپ سے بھی ملاقات ہوجاتی۔ آپ ضرور حال احوال پوچھتے۔

میرا رشتہ کروانے میں آپ نے ذاتی دلچسپی لی۔ میرے والد اُن دنوں بغرض علاج امریکہ میں تھے۔ محترم میاں صاحب نے ازراہ شفقت حضرت خلیفۃ المسیح الرابع ؒ کی خدمت میں دعا اور اجازت کی غرض سے فیکس کی اور امیر صاحب جرمنی سے بھی معلومات حاصل کیں۔ نکاح اور شادی کے لیے میرے میاں جرمنی سے دسمبر 1993ء میں قا دیان آئے تو آپ نے ہی نکاح پڑھایا اور شادی کی تقریب میں لڑکے والوں اور ہماری طرف سے بھی شامل ہوئے۔محترمہ آپاجان اور آپ کی بیٹی بھی شامل ہو ئیں اور خاکسار کو دعاؤں سے رخصت کیا۔

میں جب بھی جرمنی سے قادیان جاتی تو محترم میاں صاحب سے اور آپاجان سے ضرور ملنے جاتی۔ آپ بڑے خلوص سے ملتے اور میرے بچوں کو بہت پیار دیتے۔ ایک دفعہ جب مَیں نے ملاقات کی غرض سے وقت لینے کے لیے فون کیا تو آپ نے فون اُٹھایا لیکن میں نے آواز نہیں پہچانی اور پوچھا:کون صاحب بول رہے ہیں؟ آپ نے جواب دیا کہ مَیں نے تو پہچان لیا ہے آپ برکت علی صاحب کی بڑی بیٹی جرمنی والی بول رہی ہیں۔مَیں بہت شرمندہ ہوئی اور معذرت بھی کی۔ اللہ تعالیٰ نے آپ کو خداداد صلاحیتوں کے ساتھ کمال کا حافظہ بھی دیا تھا۔

آپ درویشوں کی بچیوں کا بہت خیال رکھتے تھے۔ گرمیوں کی چھٹیوں میں اکثر اپنی فیملی کے ساتھ بیٹیوں کی سہیلیوں اور ملنے ملانے والوں کو پکنک پر لے جاتے اور کھانے کاسارا انتظام آپ کی طرف سے ہوتا۔ آپ کی کوشش ہوتی کہ لڑکیاں بھی حضرت خلیفۃالمسیح الثالثؒ کے ارشاد کے مطابق تیراکی اورسائیکل چلانا سیکھیں۔ ا ٓپ ایک شفیق باپ کی طرح سب کے سر پر شفقت کا ہاتھ رکھتے۔ آپ کی وفات سے قادیان کے باسی ایک شفیق اور مہربان باپ سے محروم ہوگئے۔

………٭………٭………٭………

خواتین مبارکہ کی چند باتیں

لجنہ اماءاللہ جرمنی کے رسالہ ’’خدیجہ‘‘برائے2013ء نمبر1 میں مکرمہ رضیہ بیگم صاحبہ نے خاندان حضرت مسیح موعودؑ کی چند خواتین کے حوالے سے اپنے مشاہدات اور اُن کی شفقتوں کو بیان کیا ہے۔

مضمون نگار رقمطراز ہیں کہ مَیں تب بہت چھوٹی تھی جب ہمارے خاندان میں احمدیت آئی تو پھر والد صاحب نے قادیان میں ایک گھر لے دیا اور ہم والدہ صاحبہ کے ساتھ اُدھر رہنے لگے۔مجھے خاندانِ مسیح موعودؑ کی خواتین مبارکہ کو دیکھنے کا اس قدر شوق تھا کہ مَیں اسی کوشش میں رہتی کہ کوئی موقع پیدا ہو تو مَیں ان کے ہاں جائوں۔ایک مرتبہ مَیں دارالمسیح میں گئی۔ حضرت امّاں جانؓ کے چولہے پر کچھ پک رہا تھا۔ آپؓ قریب ہی کھڑی تھیں اور غالباً خود ہی کچھ پکارہی تھیں۔ آپؓ نے تنگ پاجامہ،لمبا کُرتہ اور بڑا سا دوپٹہ لیا ہوا تھا۔آپؓ کے چہرہ پہ اس قدرنُور تھاکہ مَیں بیان نہیں کرسکتی۔ میں آپؓ کو دیکھتی جا رہی تھی اور دل چاہ رہا تھا کہ واپس ہی نہ جائوں۔

حضرت اُمِّ طاہر صاحبہؓ کی ذات میں بھی میرے لیے بڑی جاذبیت تھی۔مَیں بہانے بہانے سے ان کے گھر جانے کی کوشش کرتی۔ ایک مرتبہ مَیں اپنی پڑوسن خالہ رحمت صاحبہ کے ساتھ جمعہ پڑھنے گئی۔ اُن دنوں جمعہ حضرت اُمِّ طاہرصاحبہؓ کے صحن میں ہی ہوتا تھا۔ جمعہ کے بعد خالہ صاحبہ مجھے ہمراہ لے کر حضرت اُمِّ طاہرؓ کے ساتھ ملاقات کرنے اوپر تشریف لے گئیں۔ آپؓ کے کمرے میں دو چارپائیاں بچھی ہوئی تھیں۔ ایک پر بستر تھا اور ایک خالی تھی۔ ہم بغیر بستر والی چارپائی پر بیٹھ گئے۔کچھ دیر بعد حضرت سیدہ اُمِّ طاہر صاحبہؓ تشریف لائیں تو ہمیں ننگی چارپائی پر بیٹھا دیکھ کر فرمانے لگیں کہ اِدھر اِس چارپائی پر آجائو۔ اور خود بھی اُسی پر تشریف فرما ہو گئیں۔ ہم ٹانگیں لٹکا کر بیٹھ گئے۔ وہ فرمانے لگیں کہ ٹانگیں اوپر کرلو اور رضائی لے لو۔ہمیں رضائی کے اندر اچھی طرح بٹھانے کے بعد خالہ رحمت صاحبہ سے ان کا حال احوال پوچھنے لگیں۔خالہ صاحبہ نے میرے بارہ میں بتایا کہ یہ محلہ میں نئے آئے ہیں۔ آپؓ نے میرے سر پر نہایت شفقت سے ہاتھ پھیرا اور پیار کرتی رہیں۔ اس کے بعد بھی مَیں موقع پاکر آپؓ کے گھر پہنچ جاتی اور دل چاہتا کہ کسی طرح دیدار کی پیاس بجھاتی رہوں۔ آپ کی آخری بیماری کے دنوں میں مَیں آپؓ کے گھر چلی جاتی، چُھپ چُھپ کر اُوپر چڑھتی، آخری سیڑھی سے جھانک کر آپؓ کو دیکھتی، پھر ڈر کر جلدی سے بھاگتی ہوئی نیچے اُتر آتی۔پھر جذبۂ شوق زور مارتا، پھر ڈرتی ڈرتی اُوپر جاتی اور سیڑھیوں سے جھانک کر واپس آجاتی۔ اگر اس وقت کوئی مجھے دیکھ لیتا تو سوچتا کہ معلوم نہیں کہ یہ ایسا کیوں کر رہی ہے۔مگر ایک چھوٹی سی بچی کے دل کی حالت کی کسے خبر تھی جس کے دل میں بس یہی ایک لالچ تھا کہ آپؓ کے پاک چہرہ کی ایک جھلک دیکھ لوں۔ اس کے کچھ عرصہ بعد آپؓ کی وفات ہو گئی اور پھر مَیں آپؓ کو کبھی نہ دیکھ سکی۔آپؓ کی وفات پر مَیں نے سات مرتبہ قطار میں لگ کر آپؓ کے مبارک چہرے کا دیدار کیا۔

ربوہ میں ایک مرتبہ مَیں مکرمہ سلیمہ بیگم صاحبہ کے ساتھ حضرت نواب امۃالحفیظ بیگم صاحبہؓ کو ملنے گئی۔ آپؓ نے ہمیں اپنے بستر پر اپنے پاس ہی بٹھالیا۔میں آپؓ کے ہاتھ دبانے لگی، آپؓ کے ہاتھ بہت نرم تھے۔ آپؓ ہم سے باتیں کرتی رہیں۔ دورانِ گفتگو آپؓ نے سمجھایا کہ عورت کے اپنے نام بھی کوئی جائیداد ہونی چاہیے۔

ایک دفعہ حضرت صاحبزادی سیّدہ ناصرہ بیگم صاحبہ سے ملنے مَیں اور مکرمہ سلیمہ بیگم صاحبہ گئیں۔ آپ بہت پیار سے ملیں، ہمیں بٹھایا اور کہنے لگیں کہ مَیں اپنے میاں کے لیے ہانڈی بھون رہی تھی، ان کا کھانا مَیں خود ہی پکاتی ہوں۔ چنانچہ ہمیں بٹھا کر آپ ہا نڈی بھون کر واپس آگئیں۔ باتیں ہوئیں تو آپ ہمیں سمجھاتی رہیں کہ عورتیں جماعتی کام کے لیے عادتاً کہہ دیتی ہیںکہ یہ بہت ذمہ داری کا کام ہے ہم نہیں کر سکتے یا ہم نے عہدہ نہیں لینا تو فرمایا کہ جو عہدہ ملے اسے اللہ کا فضل سمجھنا چاہیے اور سلسلہ کی خدمت کرنی چاہیے۔

مَیں اور میری بیٹی ایک مرتبہ صاحبزادی امۃالحکیم بیگم صاحبہ سے ملنے گئیں۔ آپ بہت بےتکلّف، سادہ اور درویش صفت طبیعت کی مالک تھیں، بہت چاہت سے ملتیں۔ کمرہ بالکل سادہ طرز میں سجا ہوا تھا۔آپ ہمیں اپنے بزرگ آباء کی باتیں سناتی رہیں۔ مَیں نے بھی اپنے ابّا کی قبولیت احمدیت کا واقعہ سنایا۔آپ دوسرے کی بات بھی بہت دلچسپی سے سنتی تھیں۔ جب ہم نے رخصت کی اجازت چاہی تو فرمایا:کچھ دیر اَور بیٹھو۔ اسی اثنا میں ایک عورت شہد بیچنے آگئی اور اپنے شہد کی بہت تعریف کرنے لگی۔ مَیںنے ایک بوتل خرید کر بی بی صاحبہ کو تحفۃً دی۔ ہماری واپسی پر ہمیں روک کر آپ اندر تشریف لے گئیں۔ چند منٹ بعد واپس آئیں تو ہاتھ میں دو بوتلیں شہد کی تھیں۔ ایک مجھے اور ایک میری بیٹی کو دیتے ہوئے فرمانے لگیں کہ اُس شہد کا تو پتا نہیں مگر یہ شہد بالکل خالص ہے۔ واپسی پر آپ ضرور دروازے تک چھوڑنے آتیں۔

آپ مجھ سے بہت پیار کاسلوک فرماتی تھیں۔ ایک دفعہ جلسہ سالانہ جرمنی کے موقع پر آپ سٹیج پر بیٹھی ہوئی تھیں اور مَیں سامنے پہلی صف میں بیٹھی ہوئی تھی کہ آپ نے مجھے ایک سوٹ بھجوایا جو آج بھی مَیں نے سنبھال کر رکھا ہوا ہے۔

………٭………٭………٭………

چند خوبصورت یادیں

لجنہ اماءاللہ جرمنی کے رسالہ ’’خدیجہ‘‘برائے2013ء نمبر1 میں مکرمہ بشریٰ طاہرہ صاحبہ بیان کرتی ہیں کہ میرے دادا جان مکرم شیخ محمد اسمٰعیل صاحب پانی پتی جب جلسہ سالانہ پر ربوہ جاتے تومیرے ماموں مکرم عبدالمنان دہلوی صاحب مرحوم (باڈی گارڈ حضرت خلیفۃ المسیح الثالثؒ) کے گھر رہائش رکھتے تھے۔ حضرت چھوٹی آپا جان کا یہ اِرشاد تھا کہ شیخ صاحب جتنے دن بھی ربوہ میں رہائش رکھیںان کاکھانامیرے گھر سے آئے گا۔ چنانچہ تینوں وقت کھانا اُن کے ہاں سے آتا۔ ایک دن میری والدہ نے اُن سے عرض کیا کہ آپ کو بہت زحمت ہوتی ہوگی۔ انہوں نے فرمایا کہ مَیں تو یہ کھانا تبرک کے طور پر آپ کو بھیجتی ہوں کیونکہ جس ٹرے میں حضرت خلیفۃالمسیح الثالثؒ کو کھانا دیا جاتا ہے مَیں وہی ٹرے کھانے سمیت آپ کے گھر بھجوادیتی ہوں۔یہ حضرت سیّدہ کا بہت بڑا احسان تھا۔ یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ حضرت چھوٹی آپاجان کے والد حضرت ڈاکٹر میر محمد اسمٰعیل صاحبؓ جب فوت ہوئے تو ان کو غسل دینے والوں میں میرے دادا جان بھی شامل تھے۔

میرے والدشیخ مبارک محمود پانی پتی صاحب بتایا کرتے تھے کہ خلافتِ ثالثہ میں مَیں حضرت مرزا طاہر احمد صاحبؒ کے ساتھ بعض خدمات بجا لاتا تھا۔ ایک بار دل کے عارضہ کے سبب سروسز ہسپتال لاہور میں داخل ہوا تو روزانہ بےشمار دوست عیادت کے لیے تشریف لاتے۔ ایک روز حضرت مرزا طاہر احمد صاحبؒ تشریف لائے اور کافی دیر عیادت کی۔ آپؒ کے جانے کے بعد ڈاکٹر اور عملے کے ارکان نے پوچھا کہ یہ کون صاحب تھے؟ مَیں نے کہا کہ پہلے تو آپ نے کبھی کسی کے بارے میں نہیں پوچھا، آج کیا خاص بات ہے؟ اس پر انہوں نے کہا کہ ہم نے ایسا نورانی چہرہ پہلے کبھی نہیں دیکھا۔ اس پر مَیں نے آپؒ کا تعارف کروایا اور یہ بھی کہا کہ کبھی ہمارے حضور (حضرت خلیفۃالمسیح الثالثؒ)کو جاکر دیکھو تو اُن کے چہرے پر بھی آپ کو ایسا ہی نُور نظر آئے گا۔

………٭………٭………٭………

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button