اسلامی جہاد سے کیا مراد ہے؟ (حصہ اول)
دین اسلام ایک مکمل اور کامل دین ہے۔ انسانی زندگی میں پیش آنے والے تمام حالات و مسائل کا حل اس میں موجود ہے۔ یہ ایک ایسا ضابطہ حیات ہے جو زندگی کے ہر میدان میں انسان کی راہنمائی کرتا ہے، اسے یہ سکھاتا ہے کہ اس کی پیدائش کی غرض کیا ہے، اس نے کس کی اور کیسے عبادت کرنی ہے، اس دنیا میں اسے زندگی گزارنے کے لیے کون سے اصول و قوانین پر عمل پیرا ہونا ہو گا۔ اسلام اپنے ماننے والوں کو یہ بھی بتاتا ہے کہ امن سے رہنے اور اسے قائم رکھنے کے کیا اصول ہیں اور اس سے بھی باخبر کرتا ہے کہ اگر کسی وقت تم پر جنگ مسلط کی جائے تو تمہیں اپنا دفاع کن حالات میں اور کن قوانین کو ملحوظ رکھتے ہوئے کرنا ہے۔ اسلام جارحیت کی اجازت نہیں دیتا بلکہ اپنے دفاع کی اجازت دیتا ہے۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے: وَہُمۡ بَدَءُوۡکُمۡ اَوَّلَ مَرَّۃٍ(التوبہ : ۱۳) بِأَنَّهُمْ ظُلِمُوْا (الحج : ۴۰)۔ یہ صرف نظریہ اور دعویٰ ہی نہیں بلکہ ہمارے پیارے آقا دو جہاں سیدنا محمد مصطفیٰ ﷺ جو ہمارے لیے ایک اسوہ اور نمونہ بن کر مبعوث ہوئے انہوں نے اس پر عمل کر کے مسلمانوں کو سمجھایا کہ ان کو اپنا دفاع ویسی حالت میں کرنا ہے جس حالت میں نبی کریم ﷺ نے کیا تھا۔
اسلام جو امن اور سلامتی کا مذہب ہے، وہ رسولؐ جسے اللہ تعالیٰ نے رحمت بنا کر بھیجا۔ مخالفین اسلام اور بعض مستشرقین کی طرف سے اس مذہب کو خون بہانے والا مذہب ثابت کرنے کی کوشش کی گئی اور جہاد کی غلط اور من گھڑت تفسیریں کر کے اسے بدنام کرنے کی کوشش اب تک جاری ہیں۔ واضح ہو کہ ’’جہاد‘‘ عربی زبان کا لفظ ہے جو جھد سے نکلا ہے جس کے معنی مشقت برداشت کرنا ہے اور جہاد کے معنی کسی کام کے کرنے میں پوری کوشش کرنا اور کسی قسم کی کمی نہ چھوڑنے کے ہیں۔
قرآن کریم میں ارشاد ہوا: فَلَا تُطِعِ الۡکٰفِرِیۡنَ وَجَاہِدۡہُمۡ بِہٖ جِہَادًا کَبِیۡرًا (الفرقان : ۵۳)۔ترجمہ: پس کافروں کی پیروی نہ کر اور اس (قرآن) کے ذریعہ اُن سے ایک بڑا جہاد کر۔ اس آیت کی تفسیر کرتے ہوئے حضرت مصلح موعودؓ فرماتے ہیں: ’’فرماتا ہے تُو ان کافروں کی باتیں نہ مان بلکہ قرآن کریم کے ذریعہ سب دنیا کے ساتھ جہاد کر جو سب سے بڑا جہاد ہے یعنی تبلیغ کا جہاد۔ جس کے قریب جانے سے بھی آج کل کے مسلمانوں کا دم گھٹتا ہے۔ وہ اس جہاد سے تو اس بہانہ سے بھاگتا ہے کہ اصل جہاد تلوار کا ہے اور تلوار کے جہاد سے اس لئے بھاگتا ہے کہ دشمن بہت طاقت ور ہے۔ مولوی فتویٰ دیتا ہے کہ اے مسلمانو! بڑھو اور لڑو۔ اور مسلمان کہتے ہیں کہ اے علماء ِکرام آپ آگے بڑھیں اور لڑیں کیونکہ آپ ہمارے لیڈراور راہنما ہیں۔ اور پھر دونوں اپنے اپنے گھروں کی طرف بھاگتے ہیں۔ حالانکہ خدا نے ہمیں وہ تلوار دی ہے جسے کبھی زنگ نہیں لگ سکتا اور جو کسی لڑائی میں بھی نہیں ٹوٹ سکتی۔ تیرہ سو سال گزر گئے اور دنیا کی سخت سے سخت قوموں نے چاہا کہ اس تلوار کو توڑ دیں۔ اس کے ٹکڑے ٹکڑے کر دیں اور اسے ہمیشہ کے لئے ناکارہ بنا دیں مگر یہ تلوار ان سے نہ ٹوٹ سکی۔ یہ وہ قرآن ہے جو خدا نے ہم کو دیا ہے اوریہ وہ تلوار ہے جس سے ہم ساری دنیا کو فتح کر سکتے ہیں۔ فرماتا ہے جَاہِدۡہُمۡ بِہٖ جِہَادًا کَبِیۡرًا۔ تلوار کا جہاد اور نفس کے ساتھ جہاد اور دوسرے اور جہاد سب چھوٹے ہیں۔ صرف قرآن کا جہاد ہی ہے جوسب سے بڑا اور عظیم الشان جہاد ہے۔ یہ وہ تلوار ہے کہ جو شخص اس پر پڑے گا اس کا سر کاٹا جائے گا اور جس پر یہ پڑے گی وہ بھی مارا جائے گا یا اسلام کی غلامی اختیارکر کے زندہ جاوید ہو جائے گا۔ اگر تیرہ سو سال میں بھی ساری دنیا میں اسلام نہیں پھیلا تو اس کی وجہ یہ نہیں کہ یہ تلوار کند تھی بلکہ اس کی بڑی وجہ یہ تھی کہ مسلمانوں نے اس تلوار سے کام لینا چھوڑ دیا۔ آج خدا نے پھر احمدیت کو یہ تلوار دے کر کھڑا کیا ہے اور پھر اپنے دین کو دنیا کے تمام ادیان پر غالب کرنے کا ارادہ کیاہے۔ مگر کئی نادان مسلمان احمدیت پر حملہ کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ احمدی جہاد کے قائل نہیں۔ ان کی مثال بالکل ایسی ہی ہے جیسے کوئی شخص غلیلے لے کر قلعے پر حملہ کر رہا ہو تو یہ دیکھ کر کہ غلیلوں سے قلعہ کب فتح ہو سکتا ہے کچھ اَور لوگ توپ خانہ لے کر آ جائیں مگر غلیلے چلانے والا بجائے اس کے کہ ان کا شکریہ ادا کرے ان پر اعتراض کرنا شروع کر دے کہ یہ لوگ غلیلے کیوں نہیں چلاتے۔ یہ نادان بھی اپنی نادانی کی وجہ سے اس شخص کو جہاد کا منکر قرار دیتے ہیں جس نے اسلام کو دنیا کے کونے کونے تک پہنچایا اور اپنے آپ کو صف اول کے مجاہدین میں شمار کرتے ہیں۔ حالانکہ انہوں نے عمر بھر میں کسی ایک شخص کو بھی اسلام میں داخل نہیں کیا ہوتا۔ نہ انہیں قرآن کریم کا کوئی علم ہوتا ہے۔ وہ ہوش سنبھالنے سے لے کر بڈھے ہونے تک صَرف اور نحو پڑھتے رہتے ہیں اور یہی دو علم پڑھ پڑھ کر ان کے دماغ خالی ہو جاتے ہیں۔ انہوں نے ساری عمر کبھی قرآن کی طرف آنکھ اٹھا کر بھی نہیں دیکھا ہوتا اور نہ اس کے معنی اور مطالب پر کبھی غور کیا ہوتا ہے مگر اعتراض وہ اس شخص پر کرتے ہیں جس کے نام سے بھی عیسائی پادریوں کا خون خشک ہوتا ہے۔ اور جس کے ادنیٰ اور معمولی غلاموں سے بھی وہ بحث کرنے کے لئے تیار نہیں ہوتے۔ حقیقت یہ ہے کہ جس زمانہ میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے دعویٰ کیا مسلمانوں کی عملی سستی اور بےچارگی حد سے بڑھی ہوئی تھی۔ عوام الناس کی قوتیں مفلوج ہو رہی تھیں اور خواص عیسائیت کے حملہ سے بچنے کے لئے اس کی طرف صلح کا ہاتھ بڑھا رہے تھے۔ اسلام کے خادم اپالوجسٹس کی صفوں میں کھڑے ان اسلامی عقائد کے لئے جنہیں یورپ ناقابل قبول سمجھتا تھا معذرتیں پیش کر رہے تھے۔ اس وقت بانی سلسلہ احمد یہ نے ان طریقوں کے خلاف احتجاج کیا۔ اس وقت انہوں نے اپنی تنہا آواز کو دلیرانہ بلند کیا کہ اسلام کو معذرتوں کی ضرورت نہیں۔ اس کا ہر حکم حکمتوں سے پُر اور اس کا ہر ارشاد صداقتوں پرسے معمور ہے۔ اگر یورپ کو اس کی خوبی نظر نہیں آتی تو یا وہ اندھا ہے یا ہم شمع اس کے قریب نہیں لے گئے۔ پس اسلام کی حفاظت کا ذریعہ معذرتیں نہیں بلکہ اسلام کی حقیقی تعلیم کو یورپ تک پہنچانا ہے۔
اس وقت جبکہ یورپ کے اسلام لانے کا خیال بھی نہیں آسکتا تھا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة والسلام نے انگریزی میں اپنے مضامین ترجمہ کرا کے یورپ میں تقسیم کرائے۔ اور جب خدا تعالیٰ نے آپؑ کو جماعت عطا فرمائی تو آپ نے انہیں ہدایت کی کہ جہاد اسلام کا ایک اہم جزو ہے جو کسی وقت بھی چھوڑا نہیں جا سکتا۔ جس طرح نماز اور روزہ اور حج اور زکوٰۃ اسلام کے ایسے احکام ہیں جن پر عمل کرنا ہر زمانہ میں ضروری ہے اسی طرح جہاد بھی ایسے اعمال میں سے ہے جن پر ہر زمانہ میں عمل کرنا ضروری ہے…
اسی طرح آپ نے لوگوں کو یہ بھی بتایا کہ اللہ تعالیٰ نے جہاد کی دو صورتیں مقرر کی ہیں۔ ایک جنگ کے ایام کے لئے اور ایک صلح کے ایام کے لئے۔ جب مسلمانوں پر کوئی قوم اس وجہ سے حملہ آور ہو کہ کیوں انہوں نے اسلام قبول کیا ہے اور انہیں بزور اسلام سے منحرف کرنا چاہے جیسا کہ مکہ کے لوگوں نے رسول کریمﷺ کے زمانہ میں کیا تو اس وقت ان کے لئے یہ حکم ہے کہ تلوار کا مقابلہ تلوار سے کریں۔ اور جب غیر مسلم لوگ تلوار کے ذریعہ سے لوگوں کو اسلام میں داخل ہونے سے نہ روکیں تو اسوقت بھی جہاد کا سلسلہ ختم نہیں ہو جاتا۔ اس وقت دلیل اور تبلیغ کی تلوار چلانے کا مسلمانوں کو حکم ہے تا کہ اسلام جس طرح جنگ کے ایام میں ترقی کرے صلح کے ایام میں بھی ترقی کرے۔ اور دونوں زمانے اس کی روشنی پھیلانے کا موجب ہوں اور مسلمانوں کی قوت عملیہ کمزور نہ ہو۔ مگر مسلمانوں کی عملی طاقتیں چونکہ مفلوج ہو گئی تھیں ان کے لیڈروں نے اس مسئلہ میں بھی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی مخالفت کی اور چونکہ وہ کام نہیں کرنا چاہتے تھے اور یہ اقرار بھی نہیں کرنا چاہتے تھے کہ وہ کام سے جی چراتے ہیں انہوں نے یہ عجیب چال چلی کہ لوگوں میں شور مچانا شروع کر دیا کہ بانی سلسلہ احمدیہ جہاد کے منکر ہیں۔ حالانکہ یہ سراسر بہتان اور جھوٹ تھا بانی سلسلہ احمدیہ جہاد کے منکر نہیں تھے بلکہ ان کا یہ دعویٰ تھا کہ جہاد باقی ارکان اسلام کی طرح ہر زمانہ میں ضروری ہے اور چونکہ تلوار کا جہاد ہر زمانہ میں نہیں ہو سکتا اور چونکہ جماعت کا سست ہو جانا اس کی ہلاکت کا موجب ہوتا ہے اس لئے اللہ تعالیٰ نے جہاد کی دو قسمیں مقرر کی ہیں جب تلوار سے اسلام پر حملہ ہوتو تلوار کا جہاد فرض ہوتا ہے اور جب لوہے کی تلوار کا حملہ ختم ہو تو قرآن کریم کی تلوار لے کر کافروں پر حملہ کرنا ہمارا فرض ہے۔ غرض جہاد کسی وقت چھوڑا نہیں جا سکتا۔ کبھی مسلمانوں کو تلوار کے ذریعہ جہاد کرنا پڑے گا اور کبھی قرآن کے ذریعہ۔ یہ ایک عجیب اور پُر لطف جنگ تھی کہ جو شخص جہاد کے لئے مسلمانوں کو بلا رہا تھا اور جہاد کو ہر زمانہ میں فرض قرار دے رہا تھا اسے تو جہا د کا منکر کہا جاتا ہے اور جو لوگ نہ تلوار اٹھاتے تھے اور نہ قرآن کریم کے ذریعہ جہاد کرتے انہیں جہاد کا ماننے والا قرار دیا جاتا تھا۔ مگر ہر عقلمند سمجھ سکتا ہے کہ اس جنگ سے سلسلہ احمدیہ کے راستہ میں روکیں تو پیدا کی جا سکتی تھیں مگر اسلام کو کیا فائدہ تھا۔ اسلام حضرت زین العابدینؒ کی طرح میدان کربلا میں بے یارو مددگار پڑا تھا۔ مسلمان جہا دکی تائید کا دعویٰ کرتے ہوئے اسلام کے لئے جہاد کرنے والوں کا مقابلہ کر رہے تھے اور دشمنان اسلام کے لئے انہوں نے میدان خالی چھوڑ رکھا تھا۔ مگر آج اس قدر لمبے عرصہ کے تجربہ کے بعد سب دنیا دیکھ رہی ہے کہ عملی پروگرام جو بانی سلسلہ احمدیہ نے تجویز کیا تھا وہی درست تھا ستر سال تک شور مچانے کے باوجود مسلمان آج تک تلوار کا جہاد نہیں کر سکے۔ کفر کا فتویٰ لگانے والے مولویوں میں سے کسی ایک کو بھی آج تک تلوار پکڑنے کی توفیق نہیں ملی۔ لیکن قرآن کریم کے ذریعہ جہاد کرنے والے احمدیوں کو خدا تعالیٰ نے ہر میدان میں فتح عطا فرمائی ہے۔ وہ لاکھوں آدمی ان مولویوں کی مخالفت کے باوجود غیر مذاہب والوں سے چھین کر لے آئے ہیں اور یورپ اور امریکا اور افریقہ میں ہزارہا آدمیوں کو جو پہلے ہمارے آقا اور مولیٰ محمد رسول اللہ ﷺ کو گالیاں دیتے تھے حلقہ بگوشان اسلام بنا چکے ہیں۔ اور وہ جو ایک زمانہ میں رسول کریمﷺ کے شدید دشمن تھے آج آپﷺ پر درود اور سلام بھیج رہے ہیں۔ (تفسیر کبیر جلد ۶ صفحہ ۵۱۲-۵۱۵)(باقی آئندہ)
(مرسلہ: فوزیہ شکور ۔جرمنی)