سیرت حضرت مسیح موعود علیہ السلام

احمد علیہ السلام۔ سیرت و سوانح

(’اے ولیم‘)

مناسب معلوم ہوتاہے کہ یہاں اس اخبار اور اس کے ایڈیٹر رلیارام کامختصر ساتعارف بھی پیش کردیاجائے۔

رلیا رام Rulia Ram

رلیا رام ۱۸۴۷ء میں پیداہوا۔اس کا والد کھتری تھا اور امرتسر میں دکانداری کا کام کرتا تھا۔رلیا رام نے مشن اسکول امرتسر میں تعلیم حاصل کی جہاں اس نے کلکتہ یونیورسٹی کا انٹرینس کا امتحان پاس کیا۔۲۸؍مارچ ۱۸۷۰ءکو پادری ٹاؤن سنڈسٹوورز (Townsend storrs) نے اسے بپتسمہ دیا۔رلیا رام اپنی کل تنخواہ والدین کو دیتا تھا۔مگر جونہی اس نے بپتسمہ لیا اس کو گھر سے نکالا گیا۔اس وقت اس کی جیب میں ۱۲آنے تھے۔جب اس کے والد نے اس کے عیسائی ہونے کا سنا تو اس نےفاقہ کشی شروع کر دی۔آخر اسی سے اس کی وفات ہو گئی۔ اس کی والدہ اس سے چند محلوں کے فاصلے پر رہتی تھی مگر اس کا نام سننا بھی گوارا نہ کرتی تھی۔ایک مرتبہ وہ بازار میں اتفاقاً اس سے مل گئی تو گھر واپس آکر صدمے سے اسے بخار ہو گیا۔۱۸۷۱ء میں اس کی بیوی جو کہ اسے چھوڑ کر چلی گئی تھی واپس آگئی اور وہ بھی بپتسمہ لے کر عیسائی ہو گئی۔۱۸۷۹ءمیں اس کے سب سے چھوٹے بیٹےنارائن داس نے بھی بپتسمہ لے لیا۔وہ ۱۸۹۰ء میں فوت ہو گیا۔اس کےدوسرےبیٹے کا نام دولت رام تھا لیکن وہ آخری وقت تک ہندو رہا۔تیسرے بیٹے کا نام موہن لال تھا۔جس نے’’The Christian‘‘کے نام سے ایک اردو اخبار نکالا۔۱۸۷۲ءمیں رلیارام نے وکالت کا امتحان پاس کیا۔اور سرکاری مقدمات میں تحقیقات کے کام پر مقرر ہوا۔

۱۸۷۷ءمیں جب سی۔ایم۔ایس۔نیٹو چرچ کونسل قائم ہوئی تو اپنی وفات سے چند ماہ پہلے تک اس چرچ کونسل کا سیکرٹری رہااس نے ۲۲؍ستمبر ۱۸۹۲ءکو وفات پائی۔

(The missions by Rev. Robert Clark M.A. page44)

اخباروکیل ہندوستان

رلیا رام نے ایک اخبار بھی نکالا تھا جس کا نام وکیل ہندوستان رکھا گیا۔امرتسر سے یکم جنوری ۱۸۷۴ءکو یہ ہفتہ وار اخبار جاری ہوا۔چہار شنبہ کو سولہ صفحات پر نکلتا تھا۔ سالانہ چندہ تیرہ روپے دس آنہ تھامالک و ایڈیٹر پادری رجب علی ایچ،ایم،ای،سی ہیں۔مطبع وکیل ہند میں طباعت ہوتی تھی۔یہ اخبار عیسائیوں کا آرگن تھا۔(تاریخ صحافت اردو جلد دوم صفحہ۵۲۰)

متفرقات

اب قارئین کی خدمت میں ۱۸۶۷ء سے ۱۸۸۰ء تک کے کچھ دیگر متفر ق واقعات کاذکرکیاجاتاہے۔

سفرسیالکوٹ

حضرت شیخ یعقوب علی صاحب عرفانیؓ اقبال کے استاد شمس العلماء سیدمیر حسن کی روایت درج کرتے ہوئے لکھتے ہیں :’’آخر مرزا صاحب نوکری سے دل برداشتہ ہو کر استعفاء دے کر ۱۸۶۸ء میں یہاں سے تشریف لے گئے۔ ایک دفعہ ۱۸۷۷ء میں آپ تشریف لائے اور لالہ بھیم سین صاحب کے مکان پر قیام فرمایا اور بتقریب دعوت حکیم میر حسام الدین صاحب کے مکان پر تشریف لائے۔

اسی سال سرسید احمد خان صاحب غفرلہٗ نے قرآن شریف کی تفسیر شروع کی تھی۔ تین رکوع کی تفسیر یہاں میرے پاس آچکی تھی۔ جب میں اورشیخ الہ داد صاحب مرزا صاحب کی ملاقات کے لئے لالہ بھیم سین صاحب کے مکان پر گئے تو اثناءگفتگو میں سرسید صاحب کا ذکر شروع ہوا۔ اتنے میں تفسیر کا ذکر بھی آگیا۔ راقم نے کہا کہ تین رکوعوں کی تفسیر آگئی جس میں دعا اور نزول وحی کی بحث آگئی ہے۔ فرمایا:’’کل جب آپ آویں تو تفسیر لیتے آویں۔ جب دوسرے دن وہاں گئے تو تفسیر کے دونوں مقام آپ نے سنے اور سن کر خوش نہ ہوئے اور تفسیر کو پسند نہ کیا… راقم میر حسن۔‘‘(حیات النبی یعنی سیرت حضرت مسیح موعودؑ جلد اول صفحہ ۶۲) (سیرت المہدی جلد اول روایت نمبر ۱۵۰)

منشی سراج الدین صاحب کی قادیان آمد

ہندوستان کی مشہورسیاسی شخصیت مولانا ظفرعلی خان صاحب کے والدمنشی سراج دین صاحب تھے۔انہوں نے ایک اخباربھی جاری کیاجس کانام زمیندارتھا۔ آغازمیں تو یہ اخبارکسانوں کے حقوق اور ان کے امورپرزیادہ ترمشتمل ہوتاتھالیکن بعد کے زمانے میں ہندوستان کی سیاست میں بھی اس اخبارنے ایک تاریخ رقم کی۔حضرت اقدس ؑجب سیالکوٹ میں مقیم تھے تو منشی سراج الدین صاحب بھی حضرت اقدسؑ کی صحبت سے فیضیاب ہوتے۔یہ آپؑ کے اس زمانے کے چشم دیدراوی بھی تھے۔چنانچہ انہوں نے حضرت اقدسؑ کی وفات کاذکرجب اخبارزمیندارمیں کیاتو اس میں لکھا: ’’مرزاغلام احمدصاحب ۱۸۶۰ء یا ۱۸۶۱ء کے قریب ضلع سیالکوٹ میں محرر تھے اس وقت آپ کی عمر۲۲-۲۴سال کی ہوگی اور ہم چشم دید شہادت سے کہہ سکتے ہیں کہ جوانی میں بھی نہایت صالح اور متقی بزرگ تھے۔کاروبارملازمت کے بعدان کاتمام وقت مطالعہ دینیات میں صرف ہوتاتھا۔عوام سے کم ملتے تھے۔۱۸۷۷ء میں ہمیں ایک شب قادیان میں آپ کے یہاں مہمانی کی عزت حاصل ہوئی ان دنوں بھی آپ عبادت اور وظائف میں اس قدرمحو ومستغرق تھے کہ مہمانوں سے بھی بہت کم گفتگوکرتے تھے۔۱۸۸۱ء یا ۱۸۸۲ء میں آپ نے براہین احمدیہ کی تصنیف کااعلان کر دیااورہم اس کتاب کے اول خریداروں میں سے تھے …ہم بارہا کہہ چکے ہیں اورپھرکہتے ہیں کہ آپ کے دعاوی خواہ دماغی استغراق کانتیجہ ہوں مگرآپ بناوٹ اور افتراء سے بری تھے۔مسیح موعودیاکرشن کا اوتار ہونے کے دعاوی جوآپ نے کئے ان کوہم ایساہی خیال کرتے ہیں جیسا کہ منصورکادعویٰ اناالحق تھا…گو ہمیں ذاتی طورپر مرزا صاحب کے دعاوی یا الہامات کے قائل اور معتقدہونے کی عزت حاصل نہ ہوئی مگرہم ان کوایک پکا مسلمان سمجھتے تھے۔‘‘ (بحوالہ تاریخ احمدیت جلد۲صفحہ ۵۶۴)

منشی سراج الدین صاحب کے قادیان میں اس قیام کے ساتھ مرزا موحد بھی تھے۔

ایک سیاہ کارسادھوکاقادیان سے اخراج

حیات احمدؑ جلداول میں اس واقعہ کی بابت لکھا ہے ’’ایک طرف آپؑ کی طبیعت میں دنیا کے بکھیڑوں اور جھگڑوں سے نفرت تھی مگر دوسری طرف دوسروں کی ہمدردی ان کی عزت و آبرو کی حفاظت کے لئے اگر آپؑ کو مداخلت کرنے کی ضرورت پیش آتی تو مضائقہ نہ فرماتے۔۱۸۷۷ء میں قادیان میں ایک بدمعاش سادھو کہیں سے آ گیا۔اس کے پاس بڑی بڑی وزنی موگریاں تھیں اور وہ ان کے ذریعہ ورزش کرتا تھا۔عوام اہل ہنود جو اپنی خوش اعتقادی یا صاف الفاظ میں ضعیف الاعتقادی میں مشہور ہیں اس کے متعلق خیال کرتے کہ: ان کی کچَھ ہنومان کی کَچھ ہےکَچھ جانگیہ ہوتا ہے۔گویا اسے بڑا پہلوان اور شہزور سمجھا جاتا تھا۔مگر دراصل وہ ایک غنڈہ اور بدمعاش انسان تھا۔اس کے ارد گرد بھی ایسے لوگوں کا جمگھٹا ہونے لگا جو آوارہ مزاج تھے۔بھائی کشن سنگھ جو حضرت اقدسؑ کی تصانیف میں کیسوں والا آریہ کے نام سے ذکر کیا گیا ہے حضرت مسیح موعودؑ کے پاس طِب پڑھنے جایا کرتا تھا۔اس نے جاکر کہا کہ بڑے مرزا صاحب فوت ہو گئے اور مرزا غلام قادر صاحب نوکر۔آپؑ سے کچھ امید نہیں کیا کریں۔اس پر فرمایا بات کیا ہے؟ تب انہوں نے اصل ماجرا اور کیفیت سنائی جب حضرت کو معلوم ہوا کہ شہر میں ایک بدمعاش لوگوں کی بہو بیٹیوں کی آبرو ریزی کا موجب ہو رہا ہے اور فسق و فجور بڑھ رہا ہے آپؑ کو جوش آ گیا اور فوراً چوکیدار کو بھیج کر اسے حکم دیا کہ یہاں سے چلے جاؤ ورنہ چالان کرا دوں گا۔

اس حکم اور ان الفاظ میں کچھ ایسی ہیبت اور رعب تھا کہ نہ تو اس بدمعاش کو اور نہ اس کے طرفداروں میں سے کسی کو حوصلہ ہوا کہ اسے ایک دن کے لئے بھی اَور رکھ سکیں باوجودیکہ بارشوں کی وجہ سے شہرکے گرد پانی تھا مگر اسے اپنے بوریا بستر اور موگریاں وغیرہ اٹھوا کر بھاگتے ہی بنی اور اس طرح پر حضرت مسیح موعود ؑنے شہر سے فسق و فجور کے ایک اڈا کو اٹھا دیااور لوگوں کی آبرو بچا لی۔

آپ بالطبع اور فطرتاً اس قِسم کی باتوں کو چونکہ سخت نفرت اور کراہت کی نظر سے دیکھتے تھے اس لئے ہر چند آپ کی عادت میں نہ تھا کہ وہ لوگوں کے معاملات میں دخیل ہوں مگر جب دیکھا کہ یہ ایک حیا سوز معاملہ ہے اور اس سے شہر کی اخلاقی حالت بگڑ کر عذاب الٰہی کا موجب ہو سکتی ہے اس وقت آپ نے مداخلت کرنے میں ذرا بھی توقف اور تامل کرناپسند نہیں فرمایا۔ ‘‘(حیات احمد جلد اول صفحہ۲۲۳-۲۲۴)

’’نعمۃ الباری‘‘ کی تصنیف کاارادہ

حضرت اقدس علیہ الصلوٰۃ والسلام اپنے خدائے رحیم وکریم کے عبدشکورتھے۔ اس کی نعمتوں اوراس کے احسانات کی یادسے آپ کادل ہمیشہ معموررہتا۔آپ کی ایک ایک سانس سے یہ صداسنائی دیتی کہ

اگر ہر بال ہو جائے سخن ور

تو پھر بھی شکر ہے امکاں سے باہر

حضرت عرفانی صاحبؓ اپنی تصنیف حیات احمدؑ میں لکھتے ہیں:’’انہی ایام میں آپؑ نے ارادہ فرمایا کہ ایک کتاب نعمۃالباری لکھوں۔کبھی اپنی تحریروں یا نوٹوں میں اسے مثنوی افضال الٰہی بھی لکھتے ہیں۔اسی کتاب کو بعثت کے بعد آپؑ نے آلاء الله کے نام سے لکھنے کا ارادہ فرمایا تھا۔ان ایام میں تو آپؑ اسے نظم میں لکھنا چاہتے تھے۔بلکہ کچھ شعر آپؑ نے لکھے بھی تھے۔مگر بعثت کے بعد آپؑ اسے نثر میں لکھنے کا عزم کرتے تھے۔اس میں ان فیوض اور برکات کا ذکر کرنا چاہتے تھے۔جو آپؑ کی ذات سے مخصوص تھیں۔اوائل میں آپؑ نے فارسی نظم میں جب کچھ شعر کہے تھےتو خدا تعالیٰ کی زبان سے افضال الٰہی کا تذکرہ فرمایا تھاکہ کس طرح انسان کی وہ پرورش فرماتا ہے اور اس کو ہر قِسم کی نعمتوں سے بہرہ ور کرتا ہے۔یہ طریق آپؑ نے محبت الٰہی میں ترقی کرنے کے لئے اور عبادت الٰہی کے لئے شوق پیدا کرنے کے واسطے تجویز فرمایا تھا اس لئے کہ انسان کی فطرت ہے کہ وہ خداتعالیٰ کے حسن یا احسان کو دیکھ کر اس سے محبت میں ترقی کرتا ہے۔خداتعالیٰ کے حسن کے اظہار کے لئے آپؑ نے اس کی حمد و ثناء میں ترانے گائے ہیں اور اس کے احسانات کے اظہار کے لئے یہ طریق اختیار کیا۔چنانچہ آپؑ نے خدا تعالیٰ کی زبان سے چند نعماء کا ذکر کر کے لکھا تھاکہ

(۱)اگرآئی بمن اے کردہ پرواز

ندآرم بحال خویش باز

(۲)نباشد نزد جز ہر پختہ رائے

جز احسان اہل احسان را جزائے

آپ نے ایک مرتبہ فرمایا تھا کہ میں یہ کتاب لکھنا چاہتا تھا۔لیکن جب میں نے قلم لے کر لکھنا شروع کیا تو یکبارگی بارانِ رحمت کا نزول ہوااور میں نے محسوس کیا کہ ہر ایک قطرہ بارش اپنے ساتھ لا انتہا برکات اور فیوض لے کر آتا ہے۔اس کو دیکھ کر اور اس احساس کے بعد میں نے قلم رکھ دیاکہ میں خدا تعالیٰ کی نعمتوں اور فضلوں کو گن نہیں سکتا۔جیسے ان بارش کے قطرات کا شمار اور احصاء میرے امکان سے باہر ہے۔اسی طرح یہ امر میرے امکان سے خارج ہےکہ میں خدا تعالیٰ کے انعامات کو جو مجھ پر ہوئے ہیں گن سکوں۔ساری دنیا اور اس کا ایک ایک ذرہ اور نظام عالم کو میں نے اپنی ذات کے لئے دیکھا اور ایک معرفت کا دفتر مجھ پر کھولا گیا۔اور میں نے سمجھا کہ یہ بارش کا نزول محض اس لئے تھاکہ میں اس حقیقت کو پاوٴںکہ میں افضال الٰہی اور انعام الٰہی کو شمار کرنے کی جرأت نہیں کر سکتا۔اور یہ راز منکشف ہو گیاکہ اگر تم خدا کی نعمتوں کا شمار کرنا چاہوتو ہرگز نہ کر سکو گے۔

اور اس طرح پر یہ کتاب آلاء الله یا نعمۃ الباری یا افضال الٰہی ہمیشہ کے لئے معرض التوا میں چلی گئی۔جیسا کہ میں لکھ چکا ہوں حقیقت یہی ہےکہ اس کتاب کی تالیف کا ابتدائی عزم آپ نے انہیں ایام میں فرمایا تھااور اس کی داغ بیل کے نشانات مثنوی افضال الٰہی یا نعمۃ الباری کے عنوانوں اور ناموں سے نظر آتی ہے اور اس کے پڑھنے سے آپؑ کے مقام اور قیام فی ما اقام الله کا پتہ لگتا ہے۔مگر ہمیشہ کے لئے اس کتاب کی تالیف کا معرض التوا میں چلا جانایہ بعثت کے بعد کا واقعہ ہے۔‘‘(حیات احمدؑ جلداول صفحہ ۳۸۸-۳۸۹)

حضرت اقدسؑ نے اس کے لیے خطبہ کتاب نعمۃالباری کے عنوان سے ایک نظم بھی لکھی جودرمکنون صفحہ۱۰۷،۱۰۶پرموجودہے۔

خطبہ کتاب نعمۃ الباری

کیمیائے است حضرت دادار

ہمہ عیبش ہنر کہ شاہش یار

ہر سرِ مو گرم زبان گردد

شکر جودش کجا بیان گردد

سر و پائم تمام نعمتِ اوست

چون شمارم ہر آنچہ منتِ او است

ہر چہ بینی بما تفضلِ او است

کفش و پاء و کلاہ و سر ہمہ زو است

صدق یاری است در وفاداری

ہان اگر کردۂ تو نگذاری

چون دہی دل جمال صوری را

نتوانی و مے صبوری را

جان بلب آیدت بفرقت دوست

مے پسندی ہر آنچہ مرضیٔ اوست

صحبت فاسد و حداثت سن

میشود مرد را ز بیخ افگن

فرّخا شعر و شاعری بگذار

یار دلبر طلب کند کردار

ترسمت در عمل زیان نبود

بہرۂ تو ہمین زبان نبود

چون بمردی حصار خود بزنیم

دست بر دست یار خود بزنیم

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button