اسلامی جمہوریہ پاکستان میں احمدیوں پر ہونے والے دردناک مظالم کی الَم انگیز داستان
ستمبر۲۰۲۳ءمیں سامنےآنے والے چند تکلیف دہ واقعات سے انتخاب
پولیس نے مقامی غیر احمدی احباب کے منع کرنے کے باوجود احمدیہ مسجد کے مینارے شہید کر دیے
کِرتو۔ضلع شیخوپورہ۔ستمبر ۲۰۲۳ء:تحریک لبیک کے مذہبی انتہاءپسندوںنے کرتو میں احمدیہ مسجد کے مینارے اور محراب مسمار کرنے کےلیے پولیس کو درخواست دی۔اس پر پچاس سے زائد اہل سنت اور شیعہ مسلک کے افرد نے اشٹام پیپر پر اپنے دستخطوں کے ساتھ تحریر کیا کہ اس گاؤں میں ہر مسلک کے لوگ بشمول احمدی مذہبی ہم آہنگی سے رہ رہے ہیں۔ساتھ ہی انہوں نے کہا کہ یہ مسجد۱۹۸۴ء کے امتناع قادیانیت قانون سے کئی برس قبل ۱۹۶۳ء میں بنی تھی اور انہیں اس کے تعمیراتی انداز سے کوئی مسئلہ نہیں ہے۔اس لیے انتظامیہ احمدیہ مسجد کے میناروں اور محراب کو نقصان پہنچانے سے باز رہے اور ایسا قدم اٹھا کر ان کے جذبات کو ٹھیس نہ پہنچائے۔
۲۱؍ستمبر کو تحریک لبیک کے ساٹھ کے قریب فسادی گاؤں کے سرپنچ کے پاس گئے اور اسے کہا کہ احمدیوں کی حمایت بند کر دے۔اور اس کو دھمکایا کہ یوں معلوم ہوتا ہے کہ شاید وہ بھی احمدی ہو گیا ہے۔ اس نے کہا کہ اس کا احمدیوں کے ساتھ کوئی مذہبی معاہدہ نہیں ہے بس باہمی ہم آہنگی کے ساتھ رہنے کا معاہدہ ہے۔اس پر شرپسندوں کا وہ ہجوم احمدیت مخالف نعرے بازی کرتا ہوا احمدیہ مسجد کے پاس پہنچا۔وہاں پر چند عالی ظرف غیر احمدی بھی مسجد کی حفاظت کے لیے کھڑے تھے۔اس پر یہ فسادی پرانے چیئرمین کے فارم ہاؤس پر چلے گئے اور اسے احمدیوں کی حمایت نہ کرنے پر اکسانے لگے۔اس پر اس نے بھی ان سب کو جھڑک دیا اور کہا کیوں تم لوگ گاؤں کے امن کو برباد کر رہے ہو؟اور ان کو کہا کہ آئندہ اس گاؤں میں قدم نہ رکھنا۔ اس پر یہ مفسد وہاں سے چلے گئے۔
۲۳؍ستمبر کو ضلعی پولیس افسر نے جماعت احمدیہ کےوفد کو ملاقات کے لیے بلایا اور کہا کہ یہ مہم سوشل میڈیا پر چل رہی ہے اور اگر احمدیوں نے مزاحمتی رویہ اپنایا تو ملک بھر میں ہنگامہ آرائی کا خطرہ ہے۔اور ساتھ ہی کہا کہ اب فیصلہ احمدیوں کے ہاتھ میں ہے کہ آیا ساری مسجد مسمار کروانی ہے یا صر ف مینارے اور محراب۔ احمدی وفد ناانصافی کی آخری حدوں کو چھوتی ہوئی یہ بات سن کر سکتے کی کیفیت میں آگیا۔اور کہا کہ احمدی تو اس ملک کے پُر امن شہری ہیں اور جو فسادی امن عامہ کو تباہ کر رہے ہیں ان کو روکا جانا چاہیے۔ضلعی پولیس افسر نے کہا کہ پولیس پر کارروائی کرنے کے لیے دباؤ ڈالا جا رہا ہے۔بعد ازاں عشاء کی نماز کے وقت پولیس کی بھاری نفری مسجد پہنچ گئی اور کہا کہ وہ حفاظت کی غرض سے آئے ہیں۔لیکن ساڑھے نو بجے کے بعد پولیس والے مسجد کی چھت پر چڑھ گئے اور ہتھوڑوں کی ضربوں سے میناروں کے بالائی حصوں کو مسمار کردیا اوراحمدیوں سے کہا کہ باقی ماندہ میناروں کو ڈھانپ لیں۔
تحریک لبیک کے کارندوںنے احمدیوں کی مخالفت میں کوئی کسر باقی نہیں چھوڑی۔مقامی غیر احمدی آبادی کے تحریری مطالبے کے باوجودپولیس تحریک لبیک کے مذہبی جنونیوں کے سامنے بے بس نظر آرہی تھی۔یہ ان واقعات میں ایک اَور اضافہ ہے جہاں پولیس نے ان مذہبی غنڈوں کے سامنے ہتھیار ڈال دیے ا ور اپنے شہریوں کو مذہبی حقوق دینے میں ناکام رہی۔اب تو یہ ایک روایت بنتی جا رہی ہے کہ یہ انتہا پسند مولوی جتھوں کو جمع کر کے ریاستی انتظامیہ پر دباؤ ڈالتے ہیں اور اپنے ناجائز مطالبات منوا لیتے ہیں۔اور انتظامیہ ان کے جرم میں برابر کی شریک بن جاتی ہے۔
پولیس نے ایک احمدیہ مسجد کے مینارے اور محراب شہید کر دیے
شاہدرہ ٹاؤن۔ ضلع لاہور۔ ۹؍ستمبر ۲۰۲۳ء: پولیس نے احمدیہ مسجد کے مینارے اور محراب شہید کر دیے۔مولویوں کا ایک گروہ آیا او رمطالبہ کیا کہ محراب کو مسمار کیا جائے۔پولیس کو لاہور ہائی کورٹ کے اس فیصلے سے آگاہ کیا گیا کہ ۱۹۸۴ء سے قبل بنی کسی بھی عمارت میں تبدیلی نہیں کی جاسکتی۔اور یہ مسجد تو ۱۹۴۷ء میں بنی تھی۔لیکن پولیس نے کہا کہ امن عامہ کے قیام کے لیے محراب کو مسمار کرنا لازمی ہے۔جس وقت محراب کو ڈھانپنے کےلیے مزدوروں کو لایا گیا تو مولوی اس بات پر مصر ہو گئے کہ محراب کو ہر صور ت منہدم ہی کیا جائے گا۔ اس پر پولیس نے گلی کو دونوں جانب سے بند کر دیا اور مزدوروں کی مدد سے محراب اور میناروں کو مسمار کر دیا۔ حالانکہ وہ پہلے سے ہی دیوار کی اونچائی کے باعث نظروں سے اوجھل تھے۔ سوشل میڈیا پر نشر ہونے والی ایک ویڈیو میں صاف طور پر دیکھا جاسکتا ہے کہ پولیس اس کام میں مولویوں کی بھرپور مدد کر رہی ہے۔
احمدیہ ہال کراچی پر اِسی سال دوسرا حملہ
۴؍ستمبر ۲۰۲۳ء:ایک مشتعل ہجوم نے احمدیہ ہال کراچی پر حملہ کرکے مینارے شہیدکر دیے اور مسجد کو نقصان پہنچایا اور احمدیت مخالف نعرے بازی کی۔چند شرپسندوںنے وہاں پر موجود احمدیوں کو زد وکوب بھی کیا۔
فرائیڈے ٹائمز نے بھی اس خبر کو یوں شائع کیا کہ ہجوم نے کراچی میں احمدیہ عبادتگاہ کے مینارے مسمار کردیے۔سوموار کے روز سہ پہر کے وقت کراچی کے کاروباری علا قے میں ہجوم نے احمدیہ مسجد پر حملہ کر دیا اور اس کے مینارے مسمار کر دیے۔بعد ازاں پولیس نے اس واقعہ کا نوٹس لیا اور تین مشکوک افراد کو گرفتار کر لیا۔ظہر کے بعد ہی ہتھوڑوں سے لیس ہجوم میگزین لین کے پاس جمع ہونا شروع ہو گیا اور چار افراد مسجد کی چھت پر چڑھ گئے اور ہتھوڑوں کی ضربوں سے میناروں کو مسمار کر دیا۔ عین اسی وقت احمدیہ ہال کی گلی کو ہجوم نے دونوں اطراف سے بند کر دیا اور ختم نبوت کے نعرے لگانے لگے۔تھوڑی دیر کے بعد یہ لوگ منتشر ہو گئے۔لیکن بعد ازاں ایک بڑے ہجوم کی شکل میں دوبارہ نمودار ہو گئے۔مقامی صحافی ارشد یوسفزئی نے بتایا کہ احمدیہ ہال سے چند گلیاں دور پریڈی پولیس سٹیشن ہے لیکن وہاں پر کوئی ایک بھی پولیس والا نظر نہیں آیا۔ دوسری بار جب ہجوم جمع ہوا تو پولیس نے چند افراد کو گرفتار کیا۔ اس کے بعد کراچی کے میئر مرتضیٰ وہاب نے بیان جاری کیا کہ پولیس نے تین افراد کو گرفتار کر لیا ہے اور مزید کارروائی کر رہی ہے۔ارشد نے بتایا کہ اس سال یہ احمدیہ ہال پر ہونے والا دوسرا حملہ ہے۔جماعت احمدیہ کے ایک ترجمان نے بھی ان سب باتوں کی تصدیق کی۔انہوں نے اس واقعے کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ یہ واقعہ جڑانوالہ واقعہ کے چند ہفتوں بعد ہی رونما ہوا ہے۔ نگران وزیر اعظم انوار الحق کاکڑ نے کہا تھا کہ وہ مظلوموں کے ساتھ کھڑے ہوں گے۔تاہم ریاستی انتظامیہ کہیں بھی نظر نہیں آرہی تھی۔
جماعت احمدیہ کے ترجمان نےمزید بتایا کہ اسی سال فروری میں بھی اس مسجد پر حملہ ہوا تھا۔ اور اس وقت واقعہ کی ایف آئی آر بھی درج کروائی گئی تھی لیکن پولیس نے مجرموں کو آزاد کر دیا تھا۔ اگر اس وقت ہی ان مجرموں کے خلاف سخت کارروائی کی گئی ہوتی تو آج یہ واقعہ رونما نہ ہوتا۔یہ کس قدر افسوس ناک ہے کہ ایسے مفسد گروہ مذہب کا نام استعمال کر کے ہماری مسجدوں کو نشانہ بنا رہے ہیں۔
کراچی میں ایک اَور احمدیہ مسجد پر حملہ
بین الاقوامی انسانی حقوق کمیشن کا اعلامیہ۔۲۷؍ستمبر ۲۰۲۳ء:کراچی میں ایک اور احمدیہ مسجد پر حملہ کیا گیا۔پولیس بے حس ہے اور حملہ آور آزاد گھوم رہے ہیں۔بین الاقوامی انسانی حقوق کمیشن پہلے بھی اس بات کی طرف توجہ دلا چکا ہے کہ سال ۲۰۲۳ء میں احمدیوں کے خلاف متعصبانہ رویے کی خطرناک ترین لہر میں مزید اضافہ ہو رہا ہے۔ یہ انتہائی پریشان کن لمحہ ہے کہ سال ۲۰۲۳ء میں اب تک اکتیس احمدیہ مساجد پر حملہ کیا جا چکا ہے۔۲۱؍ستمبر کو ایک اور انتہائی افسوسناک واقعہ پیش آیا جہاں ایک احمدیہ مسجد پر حملہ کیا گیا۔ ہمارے ذرائع کے مطابق دن ساڑھے بارہ بجے کے قریب ۱۵ سے ۲۰؍ حملہ آور مارٹن روڈ پر موجود احمدیہ مسجد پر حملہ آور ہوئے۔ ان میں سے ایک سیڑھی لگا کر مسجد کے اند ر کودا اور صدر دروازہ کھول دیا تا کہ باقی حملہ آور بھی اندر داخل ہو سکیں۔جونہی یہ حملہ آور مسجد میں داخل ہوئے انہوں نے کھڑکیوں کے شیشے اور دروازے توڑ دیے اور لائٹوں،میز اور کرسیوں کو شدید نقصان پہنچایا۔احمدیہ جماعت کی مقدس شخصیات کی تصاویر کی بےحرمتی کی۔اور بہت ساری چیزیں اور دستاویزات یہ حملہ آور اپنے ساتھ لے گئے۔ اس سال کراچی میں احمدیہ مساجد پر یہ پانچواں حملہ ہے۔اس سے قبل ہونے والے حملوں میں کسی بھی شخص کو گرفتار نہیں کیا گیا۔اگر جمشید کوارٹرز والے حملہ آوروں کو گرفتار کر لیا جاتا تو آج یہ حملہ نہ ہوتا۔پہلے سے ہی مقاطعہ کی شکار اس بے بس جماعت کے لیے زمین کو مزید تنگ کیا جارہا ہے۔اور یہ جماعت شدت پسندوں او رپولیس کے ہاتھوں ظلم کا شکار ہو رہی ہے۔ انتظامیہ نے ایسے لوگوں کو کھلی چھوٹ دے رکھی ہے اور میناروں کو مسمار کرنے کا عمل پورے پاکستان میں زور و شور سے جاری ہے۔اور ریاست نے اپنی آنکھیں بند کر رکھی ہیں۔
سپریم کورٹ کے جج تصدق حسین جیلانی کے فیصلے کے مطابق تمام عبادت گاہوں کی حفاظت کو یقینی بنانا حکومت کا فرض ہے اور پولیس اس کی ذمہ دار ہے۔ احمدیہ جماعت کی مساجد کے میناروں کو مسمار کرنا نہ صرف اس فیصلے کی خلاف ورزی ہے بلکہ یہ آرڈیننسXXکے بھی خلاف ہے۔ اسی سپریم کورٹ کے ۲۰۱۴ءکے فیصلے میں کہا گیا تھا کہ حکومت کو چاہیے کہ ایک ایسی ٹاسک فورس بنائے جو اقلیتوں کی عبادت گاہوں کی حفاظت کرے۔ لیکن اس کے برعکس حکومت ایسے پر تشدد ایجنڈے پر چل نکلی کہ جس میں احمدیوں کی مساجد پر حملوں کی حوصلہ افزائی شروع کر دی گئی۔ یہ نہ صرف سپریم کورٹ کے فیصلوں کے منافی ہے بلکہ یہ ہر قسم کے مذہبی و اخلاقی جواز سے بھی دُورہے۔
مختلف انسانی حقوق کے کمیشنوں نے موجودہ حالات پر شدید تشویش کا اظہار کیا ہے اور احمدیوں کے ساتھ ہونے والے سلوک پر بین الاقوامی انتظامیہ کو بھی توجہ دلائی ہے کہ وہ اس ظلم و ستم کے خلاف حکومت پاکستان پر دباؤ ڈالیں۔ جولائی ۲۰۲۱ء میں بین الاقوامی انسانی حقوق کے ماہرین نے بھی اسی طرح شدید تشویش کا اظہار کیا تھا اور احمدیوں پر ہونے والے ظلم و ستم کو اجاگر کرتے ہوئے عالمی طاقتوں سے اس کو روکنے کے لیے پاکستان پر دباؤ ڈالنے کا مطالبہ کیا تھا۔
ہم ایک بار پھر حکومت پاکستان سے مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ اپنے شہریوں کے حقوق کی حفاظت کی ذمہ داری کو پورا کرے۔ اور خاص طور پر احمدیوں کی مذہبی آزادی کو یقینی بنائے اور ان کے خلاف جرائم میں شریک مجرموں کو قرار واقعی سزا دے۔ساتھ ہی پاکستان کو اپنے ملکی قانون کو قوانین کے عالمی معیار کے مطابق ڈھالنا چاہیےجو کہ شہری اور سیاسی حقوق کی فراہمی کے لیے ایک سند ہیں۔
(مرتبہ: مہر محمد داؤد )