بنیادی مسائل کے جوابات (قسط۷۲)
٭… جنت کے سات درجات کے بارے میں راہنمائی
٭… Female Genital Mutilationکے بارے میں راہنمائی
٭…کیا خواتین کو Mixed Gym میں جانے کی اجازت ہے؟
٭…کیا ایک احمدی میوزک ٹیچر کا پیشہ اختیار کر سکتا ہے؟
٭… آنحضرتﷺاور حضرت ابوطالب کے مابین ہونے والے مکالمہ کے متعلق راہنمائی
سوال: ایک دوست نے حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی خدمت اقدس میں تحریر کیا کہ بعض غیر جماعتی تفاسیر میں جنت کے سات درجات اور ان کے ناموں کا ذکر کیا گیا ہے، اگرچہ احادیث میں مجھے یہ نام کہیں نہیں ملے۔ دریافت طلب امر یہ ہے کہ کیا ہم احمدی ان ناموں پر یقین رکھتے ہیں اور کیا حضرت مسیح موعود علیہ السلام یا آپؑ کے خلفاء نے اس بارے میں کچھ راہنمائی فرمائی ہے؟حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے اپنے مکتوب مورخہ ۸؍دسمبر ۲۰۲۲ء میں اس سوال کے جواب میں درج ذیل ارشادات فرمائے۔ حضور نے فرمایا:
جواب: آپ نے اپنے خط میں قرآن کریم کی آیات کے حوالہ سے جو مختلف نام لکھے ہیں وہ اخروی زندگی کے مختلف مقامات اور درجات ہیں۔ لیکن جنت کےکل درجات کی کسی معین تعداد کا ذکرقرا ٓن کریم میں مذکور نہیں۔ البتہ بعض احادیث میں مختلف نیکیاں بجا لانے والوں کے لیے جنت میں موجود درجات کی تعداد کا ذکر آیا ہے۔ چنانچہ صحیح بخاری میں ہے کہ حضورﷺ نے فرمایا: اللہ تعالیٰ نے اللہ کی راہ میں جہاد کرنے والوں کے لیے جنت میں سو درجے تیار کر رکھے ہیں، جن میں سے ہر دو درجات کے مابین اتنا فاصلہ ہے جتنا زمین و آسمان کے درمیان فاصلہ ہوتا ہے۔ (بخاری کتاب الجہاد و السیر بَاب دَرَجَاتِ الْمُجَاهِدِيْنَ فِي سَبِيْلِ اللّٰهِ)
اسی طرح سنن ابی داؤد میں مروی ہے کہ حفظ قرآن کی اہمیت بیان کرتے ہوئے حضورﷺ نے فرمایا کہ قیامت کے روز حافظ قرآن سے کہا جائے گا کہ قرآن کریم پڑھتےجاؤ اور بلندی کی طرف چڑھتے جاؤ اور جس طرح تم دنيامیں قرآن مجيد كي تلاوت كرتےتھے اس طرح ترتيل كےساتھ تلاوت كرو اور جہاں تم آخري آيت پڑھو گےوہی تمہاری منزل اور مقام ہو گا۔ (سنن ابی داؤد کتاب الصلاۃ بَاب اسْتِحْبَابِ التَّرْتِيْلِ فِي الْقِرَاءَةِ)
ان احادیث سے تو یہی ثابت ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے نیک بندوں کے لیے جنت میں ان کی نیکیوں کے اعتبار سے مختلف درجات اور مقام تیار کر رکھے ہیں، جن کی تعداد اور مراتب لا متناہی ہیں، اسی وجہ سے حضورﷺ نے ان درجات کی کثرت کی طرف اشارہ کرنے کے لیے انہیں سو کے عدد سے بیان فرمایا ہے۔
جنت کے ان مقامات کے ذکر کے علاوہ احادیث میں جنت کے بعض دروازوں کا ذکر بھی ملتا ہے، جنہیں کسی نہ کسی نیکی کے ساتھ خاص کیا گیا ہے۔ چنانچہ صحیح بخاری میں حضرت ابو ہریرہ ؓسے مروی ہے کہ حضورﷺ نے فرمایا جو اللہ کے راستے میں دو چیزیں خرچ کرتا ہے اسے فرشتے جنت کے دروازوں سے بلائیں گے کہ اے اللہ کے بندے! یہ بھی نیکی ہے۔ پس جو شخص نمازی ہو گا اسے نماز کے دروازہ سے بلایا جائے گا اورجو جہاد کرنے والا ہو گا اسے جہاد کے دروازے سے بلایا جائے گا۔ اور جو روزہ دار ہو گا اسے باب ریان سے بلایا جائے گا۔ اور جو زکوٰۃ دینے والا ہو گا اسے زکوٰۃ کے دروازہ سے بلایا جائے گا۔اس پر حضرت ابو بکرؓ نے عرض کیا کہ یا رسول اللہؐ! میرے ماں باپ آپ پر فدا ہوں ان دروازوں میں سے جس دروازے سے بھی کوئی پکارا جائے اس پر کوئی حرج نہیں ہے لیکن کوئی ایسا بھی ہوگا جو ان تمام دروازوں سے پکارا جائے گا؟ آپؐ نے فرمایا ہاں ! اور مجھے امید ہے کہ تم ان میں سے ہو گے۔ (بخاری کتاب الصوم بَاب الرَّيَّانُ لِلصَّائِمِينَ)
اس حدیث میں مذکور جنت کے چار دروازوں بَابُ الصَّلاَةِ، بَابُ الجِهَادِ، بَابُ الرَّيَّانِ اور بَابُ الصَّدَقَةِ کے علاوہ علمائے حدیث نے بعض اور احادیث سے استدلال کرتے ہوئے مزید چار دروازوں بَابُ الْحَجّ،الْبَابُ الْأَيْمَنُ،بَابُ الذِّكْرِ او بابَ الْعِلْمِاور بَابُ الْكَاظِمِينَ الْغَيْظَ وَالْعَافِينَ عَنِ النَّاسِکا بھی ذکر کیا ہے۔
حضرت علامہ ابن حجر عسقلانی صحیح بخاری کی شرح میں جنت کے ان مذکورہ بالا دروازوں کا ذکر کرنے کے بعد مزید لکھتے ہیں کہ ممکن ہے کہ جن دروازوں سے بلایا جائے گا ان کے اندر بھی اصل جنت کے (ذیلی) دروازے ہوں، کیونکہ اعمال صالحہ کی تعداد آٹھ سے زیادہے۔ (فتح الباری شرح بخاری لابن حجر کتاب المناقب بَاب قَوْلِ النَّبِيِّ صَلَّى اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَوْ كُنْتُ مُتَّخِذًا خَلِيلًا)
حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ سورۃ الحجر جس میں جہنم کے سات دروازوں کا ذکر ہے، کی تفسیر میں فرماتے ہیں: یہ جوسات دروازے بتائے ہیں۔ان سے مراد ضرور ی نہیں کہ سات ہی دروازے ہوں۔ کیونکہ سات اور ستر کا ہندسہ عربوں میں تکمیل یاکثرت کے اظہارکے لئے بھی استعمال ہوتاہے۔اس محاورہ کے رو سے دوز خ کے سات دروازے ہونے سے یہ مراد ہے کہ اس کے کثرت سے دروازے ہوں گے اور تمام گناہوں کا خیال رکھا جائے گا۔ اورلِکُلِّ بَابٍ مِّنْہُمْ جُزْءٌ مَّقْسُوْمٌ جو فرمایا تواس کے یہ معنے ہیں کہ جس قسم کے گنا ہ ہوں گے ویسے ہی دروازے سے وہ جہنم میں داخل ہوگا۔جنت کے متعلق بھی احادیث میں آتا ہے کہ مختلف نیکیوں کے الگ الگ دروازے ہوں گے اورہرشخص اپنی مناسب حال نیکی کے راستہ سے جنت میں داخل ہوگا۔ (تفسیر کبیر جلد چہارم صفحہ ۸۲،۸۱مطبوعہ۲۰۰۴ء)
حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام جنت اور جہنم کے دروازوں کی وضاحت کرتے ہوئے ایک موقع پر فرماتے ہیں: چند روز سے جو مستورات میں وعظ کا سلسلہ جاری ہے ایک روز یہ ذکر آگیا کہ دوزخ کے سات دروازے ہیں اور بہشت کے آٹھ۔اس کا کیا سر ہے تو ایک دفعہ ہی میرے دل میں ڈالا گیاکہ اصول جرائم بھی سات ہی ہیں اور نیکیوں کے اُصول بھی سات۔بہشت کا جو آٹھواں دروازہ ہے وہ اللہ تعالیٰ کے فضل و رحمت کا دروازہ ہے۔
دوزخ کے سات دروازوں کے جو اُصول جرائم سات ہیں ان میں سے ایک بد ظنی ہے۔بدظنی کے ذریعہ بھی انسان ہلاک ہوتا ہے اور تمام باطل پرست بدظنی سے گمراہ ہوئے ہیں۔
دوسرا اصول تکبر ہے۔تکبر کرنے والا اہل حق سے الگ رہتا ہے اور اسے سعادت مندوں کی طرح اقرار کی توفیق نہیں ملتی۔
تیسرا اصول جہالت ہے یہ بھی ہلاک کرتی ہے۔
چوتھا اصول اتباع ھویٰ ہے۔
پانچواں کورانہ تقلید ہے۔
غرض اسی طرح پر جرائم کے سات اصول ہیں اور یہ سب کے سب قرآن شریف سے مستنبط ہوتے ہیں۔خدا تعالیٰ نے ان دروازوں کا علم مجھے دیا ہے۔جو گناہ کوئی بتائے وہ ان کے نیچے آجاتا ہے۔ کورانہ تقلید اور اتباع ھویٰ کے ذیل میں بہت سے گناہ آتے ہیں۔(ملفوظات جلد پنجم صفحہ ۲۲۵،۲۲۴۔ مطبوعہ ۲۰۲۲ء)
پس خلاصہ کلام یہ کہ اللہ تعالیٰ نے جنت میں نیک لوگوں کی نیکیوں کے مطابق اور جہنم میں گناہگاروں کے جرائم کے اعتبار سے داخل ہونے کے دروازے بھی تیار کر رکھے ہیں اور پھراسی طرح آگے جنت نیکوں کے لیے ان کے اعمال صالحہ کے حساب سے اور جہنم میں بدوں کی بدیوں کے مطابق جزا اور سزا کے لیے درجات اور مراتب بھی بنا رکھے ہیں، جن کا کسی قدر ذکر قرآن کریم اور احادیث نبویہؐ میں مذکور ہے لیکن ان کی حتمی تعداد کا علم اللہ تعالیٰ ہی کی ہستی کو ہے جس کا علم تمام کائنات پر حاوی ہے۔
سوال: جرمنی سے ایک غیر احمدی خاتون نے حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز سے Female Genital Mutilationکے بارے میں راہنمائی چاہی۔حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے اپنے مکتوب مورخہ ۱۲؍دسمبر ۲۰۲۲ء میں اس مسئلہ کے بارے میں درج ذیل ہدایات عطا فرمائیں۔ حضور نے فرمایا:
جواب: قرآن کریم اور احادیث مبارکہ میں کہیں پر بھی عورتوں کے ختنہ کا حکم نہیں دیا گیا۔ جبکہ لڑکوں کے ختنہ کو فطرت کا حصہ قرار دیا گیا ہے۔ چنانچہ صحیح بخاری میں حضرت ابو ہریرہ ؓسے مروی ہے کہ حضورﷺنے فرمایا کہ الْفِطْرَةُ خَمْسٌ أَوْ خَمْسٌ مِنْ الْفِطْرَةِ الْخِتَانُ وَالِْاسْتِحْدَادُ وَنَتْفُ الْإِبْطِ وَتَقْلِيمُ الْأَظْفَارِ وَقَصُّ الشَّارِبِ۔(بخاری کتاب اللباس بَاب قَصِّ الشَّارِبِ)یعنی پانچ چیزیں فطرت کا حصہ ہیں، ختنہ کرنا، زیر ناف بال صاف کرنا، بغلوں کے بال صاف کرنا، ناخن تراشنا اور مونچھیں کترنا۔
لڑکوں کے ختنہ پر امت محمدیہ کا تعامل ثابت ہے۔ جبکہ عورتوں کے ختنہ کے بارے میں ہمیں آنحضورﷺکے زمانہ سے کوئی تعامل نہیں ملتا اور جن دو تین احادیث میں عورتوں کے ختنہ کا ذکر آیا ہے، ان کے راویوں پر علماء حدیث نے تنقید کرتے ہوئے بعض راویوں کو مجہول اور مدلس کہا ہے اور ان احادیث کو ضعیف اور منقطع قرار دیا ہے۔
اسلام کی بعثت سے قبل عرب میں بعض قبائل میں عورتوں کے ختنہ کا رواج تھا، جیسا کہ اس زمانہ میں بھی افریقہ کے بعض علاقوں میں اس کا رواج ہے۔ لیکن شریعت اسلام نے کہیں عورتوں کے ختنہ کا حکم نہیں دیا۔
عورتوں کے ختنہ کے قائلین اس کا ایک مقصد جنسی خواہش میں کمی قرار دیتے ہیں۔ مرد و عورت میں جنسی خواہش کا پایا جانا اللہ تعالیٰ کی طرف سے فطرتاً ودیعت کردہ ہے۔ اسلام نےکسی جگہ فطرت کے خلاف حکم نہیں دیا۔ لیکن ان فطرتی جذبات کو درست سمت میں رکھنے کے لیے اسلام نے مختلف ہدایات ضرور دی ہیں۔ چنانچہ بناؤ سنگھار کرنا بھی عورت کی فطرت کا حصہ ہے۔اسلام نے اسے اس سے بھی نہیں روکا لیکن اس بارے میں اسے یہ ہدایت دی ہے کہ وہ بناؤ سنگھار اپنے خاوند کے لیے کرے، بناؤ سنگھار کر کے غیروں کے سامنے نہ جائے، کیونکہ اس کے نتیجہ میں معاشرہ میں برائیاں پیدا ہونے کا احتمال ہوتا ہے، جو اسلامی تعلیم کے خلاف ہے۔
ختنہ کے ذریعہ عورت کی جنسی خواہش کو بالکل ختم کرکےاگر اسے غلام بنانا مقصود ہو تو یہ بھی اسلام کی تعلیم کے خلاف ہے کیونکہ اسلام نے غلامی کے خلاف تعلیم دی اور غلاموں کو آزاد کرنے کا بار بار حکم دیا ہے۔
حضرت عمرؓ نے اپنے عہد خلافت میں رات کے وقت مدینہ کی گلیوں میں چکر لگاتے ہوئے ایک گھر سے کسی خاتون کے اپنے خاوند کی جدائی میں جذباتی اشعار سنے تو آپ نےاس عورت سے پوچھا کہ تجھے کیا ہو گیا ہے؟ اس نے عرض کیا کہ میرا خاوند کئی مہینوں سے جنگ پر گیا ہوا ہے اور اب اس کا شوق مجھ پر غالب آ گیا ہے۔ حضرت عمرؓ نے اس سے پوچھا! تو نے کوئی بد ارادہ تو نہیں کیا؟ اس نے کہا معاذ اللہ۔ آپ نے فرمایا! اپنے آپ کو سنبھالے رکھو۔ میں تمہارے خاوند کو بلانے کے لیے قاصد روانہ کرتا ہوں۔ آپ نے اس کے خاوند کو بلانے کے لیے قاصد روانہ کیا اور پھر آپ حضرت حفصہ ؓ کے پاس تشریف لائے اور فرمایا کہ میں تم سے ایک ایسی بات پوچھنے لگا ہوں جس نے مجھے پریشان کر دیا ہے۔ پس تم میری پریشانی دور کر دو۔ عورت مرد کے بغیر کتنی مدت اپنے آپ کو روک سکتی ہے۔یہ سن کر حضرت حفصہؓ نے شرم سے سر نیچے کر لیا۔ حضرت عمرؓ نے فرمایا اللہ تعالیٰ حق بات سے شرم نہیں کرتا۔ اس پر حضرت حفصہؓ نے ہاتھ کے اشارہ سے بتایا کہ تین مہینے یا چار مہینے۔ چنانچہ حضرت عمرؓ نے اپنے عاملین کو حکم بھجوایا کہ کسی فوجی کو چار ماہ سے زیادہ جنگ پر نہ رکھا جائے۔ (مصنف عبدالرزاق جلد ۷، صفحہ ۱۵۱، حدیث نمبر ۱۲۵۹۳)(تاریخ الخلفاء مصنفہ علامہ جلال الدین سیوطیؒ،باب حضرت عمرؓ فصل في نبذ من أخباره وقضاياه)
اگر ختنہ کے ذریعہ عورت کی جنسی خواہش ہی ختم ہو جاتی تھی اور عرب میں عورتوں کے ختنہ کا عام رواج تھا تو اس عورت کو اپنے خاوند کے ساتھ جسمانی تعلق کی ضرورت کیوں محسوس ہو رہی تھی۔
پس ثابت ہوا کہ حضورﷺاور خلفائے راشدین کے عہد مبارک میں عورتوں کے ختنہ کا رواج بالکل نہیں تھا۔ اگر کسی علاقہ میں اس کا رواج تھا تو وہ صرف ایک علاقائی رواج تھا، اسلام کی تعلیم کے ساتھ اس کا کوئی تعلق نہیں تھا۔
سوال: یوکے سے ایک مربی صاحب نے حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی خدمت اقدس میں استفسار بھجوائے کہ کیا خواتین کو Mixed Gym میں جانے کی اجازت ہے جبکہ زیادہ Rush نہ ہو؟ اورکیا ایک احمدی میوزک ٹیچر کا پیشہ اختیار کر سکتا ہے؟ نیز یہ کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنی تصنیف ازالہ اوہام میں آنحضرتﷺاور حضرت ابوطالب کے مابین ہونے والے مکالمہ کے متعلق تحریر فرمایا ہے کہ’’یہ تمام عبارت الہامی ہے۔‘‘لیکن اس عبارت میں حضورﷺکا ارشاد فرمودہ یہ فقرہ موجود نہیں جس میں حضورﷺنے فرمایا تھا کہ اگر یہ سورج میرے ایک ہاتھ میں چاند دوسرے ہاتھ میں رکھ دیں تب بھی میں اپنے اس کام کو نہیں چھوڑوں گا۔اس بارے میں راہنمائی کی درخواست ہے۔ حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے اپنے مکتوب مورخہ۱۲؍دسمبر۲۰۲۲ء میں ان سوالات کے درج ذیل جواب عطا فرمائے۔ حضور نے فرمایا:
جواب: اسلام نے اگرچہ مرد و خواتین دونوں کو ہی غض بصر کرنے اور اپنے اپنے ستر کی حفاظت کا حکم دیا ہے لیکن چونکہ مردوں کا زیادہ تر کام گھر سے باہر سے تعلق رکھتا ہے اور خواتین کے لیے ان کا گھروں میں رہنا اسلام نے زیادہ پسند کیا ہے۔اور باہر جانے کی صورت میں ان کے لیے نسبتاً زیادہ احتیاط اختیار کرنے کی تعلیم دی ہے جیسا کہ فرمایا وَلَا یُبۡدِیۡنَ زِیۡنَتَہُنَّ اِلَّا مَا ظَہَرَ مِنۡہَا وَلۡیَضۡرِبۡنَ بِخُمُرِھِنَّ عَلٰی جُیُوۡبِہِنَّ…وَلَا یَضۡرِبۡنَ بِاَرۡجُلِہِنَّ لِیُعۡلَمَ مَا یُخۡفِیۡنَ مِنۡ زِیۡنَتِہِنَّ۔(سورۃ النور:۳۲) یعنی اور اپنی زینت کو ظاہر نہ کیا کریں سوائے اس کے جو آپ ہی آپ بے اختیارظاہر ہوتی ہو۔ اور اپنی اوڑھنیوں کو اپنے سینہ پر سے گزار کر اور اس کو ڈھانک کر پہنا کریں… اور اپنے پاؤں (زور سے زمین پر) اس لیے نہ مارا کریں کہ وہ چیز ظاہر ہو جائے جس کو وہ اپنی زینت سے چھپا رہی ہیں۔
پس اگر خواتین کے لیے Mixed Gym میں جانا ناگزیر ہو پھر انہیں ان ارشادات کی روشنی میں اپنے پردہ اور لباس کا پورا خیال رکھنا چاہیے، یعنی ان کا لباس ڈھیلا ہو اور سر وغیرہ ڈھکا ہوا ہو۔ نیز وہاں پر بھی انہیں مردوں کے ساتھ Mix up نہیں ہونا چاہیے۔
۲۔ ایک احمدی کو ایساپیشہ اختیار کرنا چاہیے جو مشتبہ امور سے پاک ہو۔ چنانچہ حضورﷺنے اس بارے میں ہماری راہنمائی کرتے ہوئے فرمایا ہے کہ حلا ل اور حرام واضح ہیں اور ان دونوں کے درمیان بعض چیزیں مشتبہ ہیں جن کو بہت سے لوگ نہیں جانتے۔پس جو کوئی مشتبہ چیزوں سے بھی بچ گیااس نے اپنے دین اور عزت کو بچالیا۔ اور جو کوئی ان مشتبہ چیزوں میں پڑ گیا اس کی مثال اس چرواہے کی سی ہے جو کسی کی محفوظ چراگاہ کے قریب اپنے جانوروں کو چراتا ہے۔ اور ممکن ہے کہ اس کے جانور کبھی اس چراگاہ میں گھس جائیں۔سن لو کہ ہر بادشاہ کی ایک چراگاہ ہوتی ہے اور اللہ کی چراگاہ اس کی زمین پر حرام چیزیں ہیں۔(صحیح بخاری کتاب الایمان باب فضل من استبر لدینہ)
میوزک کا پیشہ اختیار کرنا بھی میرے نزدیک مشتبہ امور میں شامل ہے۔ اس لیے بہتر ہے کہ اس سے بچا جائے۔گھر میں بیٹھ کر میوزک سننا یا آلات موسیقی بجا لینا اَور بات ہے لیکن لوگوں کو سکھانے کے لیے اس پیشہ کو اختیار کرنا کئی قباحتوں کا دروازہ کھولنے کا باعث بن سکتا ہے۔ اس صورت میں پھر مختلف پروگراموں اور Concerts میں جانا پڑے گا۔ جس سے مختلف برائیوں کے راستے کھلیں گے۔ اس لیے بہتر ہے کہ اس کی بجائے کوئی اور پیشہ کو اختیار کیا جائے۔
۳۔ حضرت ابوطالب والے معاملہ میں ایک بات تو یہ یاد رکھنے والی ہے کہ مخالفین اسلام نے آنحضورﷺکو اسلام کی تبلیغ اور اللہ تعالیٰ کے پیغام کو پھیلانے سے روکنے کے لیے متعدد کوششیں کیں اور کئی بار حضرت ابوطالب کے پاس حضورﷺکی شکایت کی اور مخالفین حضرت ابوطالب کو ان کی سرداری نیز حضورﷺکی زندگی کے بارے میں دھمکیاں بھی دیتے رہے۔ اسی طرح مخالفین نے حضورﷺکو مختلف قسم کی دنیاوی لالچیں بھی دیں۔ لیکن ان تمام کارروائیوں کے جواب میں حضورﷺنے ہمیشہ یہی فرمایا کہ میں اس کام کو جو خدا تعالیٰ نے میرے سپرد فرمایا ہےکسی بھی قیمت پر نہیں چھوڑ سکتا۔
پس ممکن ہے کہ یہ دونوں الگ الگ واقعات ہوں۔وہ واقعہ جس میں حضورﷺنے ایک ہاتھ میں چاند اور دوسرے ہاتھ میں سورج رکھنے کی بات فرمائی ہو الگ ہو۔ اور یہ مکالمہ جسے حضرت مسیح موعوو علیہ السلام نے ازالۂ اوہام میں درج فرمایا ہے الگ واقعہ ہو۔ جس میں حضورﷺنے فرمایا کہ’’یہی تو کام ہے جس کے لیے میں بھیجا گیا ہوں اگر اس سے مجھے مرنا درپیش ہے تو میں بخوشی اپنے لیے اس موت کو قبول کرتا ہوں میری زندگی اسی راہ میں وقف ہے میں موت کے ڈر سے اظہار حق سے رک نہیں سکتا۔ ‘‘
پھر اس بات کا بھی امکان ہے کہ چاند اور سورج والی بات کو کسی راوی نے زور ڈالنے کے لیے اس مکالمہ میں شامل کر دیا ہو، اصل مکالمہ میں یہ بات موجود ہی نہ ہو۔ کیونکہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام اس عبارت کو جو آپ نے ازالۂ اوہام میں درج فرمائی ہے، الہامی عبارت قرار دے رہے ہیں۔ اور خدا تعالیٰ کی طرف سے بتائی جانے والی بات غلط نہیں ہو سکتی۔
نیز دونوں باتوں پر غور کریں تو ایک ہاتھ پر چاند رکھنے اور دوسرے ہاتھ پر سورج رکھنے والی بات میں کسی قدر لالچ کی ترغیب پائی جاتی ہے جبکہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بیان فرمودہ عبارت میں جان تک قربان کرنے کا حضورﷺفرما رہے ہیں۔ یعنی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بیان فرمودہ الہامی عبارت میں قربانی کا معیار بہت بڑھا ہواہے۔ کیونکہ کسی کام کے لیے جان دے دینا آسان کام نہیں۔
علاوہ ازیں دونوں صورتوں میں حضورﷺکے جواب کامقصد اور نتیجہ بہرحال ایک ہی ہے کہ چاہے میری جان چلی جائے، اور خواہ مخالفین میرے ایک ہاتھ میں چاند اور دوسرے ہاتھ میں سورج رکھ دیں مَیں ہر گز ہر گز اس کام سے باز آنے والا نہیں ہوں۔