ڈنمارک کے شیلینڈ اور ملحقہ جزیروں پر تبلیغی پروگرام
اللہ تعالیٰ کے فضل سے جماعت احمدیہ ڈنمارک کو شیلینڈ(Sjælland) جزیرہ کے ۱۵؍ شہروں میں تبلیغی سٹال لگانے کی توفیق ملی۔ یہ ڈنمارک کا سب سے بڑا اور سب سے زیادہ آبادی والا جزیرہ ہے اور اس پر کوپن ہیگن جو کہ ڈنمارک کا دارالحکومت اور چھ لاکھ سے زائد آبادی کا شہر ہے بھی واقع ہے۔
کوپن ہیگن میں کیونکہ جماعتی اور ذیلی تنظیموں کی طرف سے مختلف پروگرام منعقد کیے جاتے ہیں اس لیے تبلیغی سٹال کے لیے شیلینڈ ریجن کے نسبتاً چھوٹے شہروں کا انتخاب کیا گیا جن کی آباد ی دس ہزار سے زائد ہے۔
مقامی کونسل اور پولیس سے اس سلسلہ میں باقاعدہ اجازت لی گئی اور اس پروگرام کا مقصد بیان کیا گیا۔ اکثر کونسلز نے اس پروگرام کو سراہا۔یہ سٹالز ہر شہر کے مین بازار میں لگائے گئے۔ ٹینٹ پر ’مسلم فار پیس‘ اور ’محبت سب کے لیے نفرت کسی سے نہیں‘ لکھا ہوا تھا۔ اسی طرح مسجد نصرت جہاں کی تصویر کو بیک گراؤنڈ میں پرنٹ کروا کر لگایا گیا۔
جن شہروں میں تبلیغی سٹالز لگائے گئے ان کی تفصیل درج ذیل ہے:
تاثرات
مختلف شہروں میں تبلیغی سٹالز کو دیکھ کر اکثر لوگ رکتے اور خوشی کا اظہار کرتے کہ آپ کا یہ امن کا پیغام بہت اچھا ہے اور یہ وقت کی ضرورت ہے کہ ہم اس موضوع پر بات چیت کریں۔ کچھ احباب گزرتے ہوئے ہاتھ کے اشارہ سے پسندیدگی کا اظہار کرتے۔ کئی یہودی بھی سٹال پر تشریف لائے اور اسرائیل اور حماس کے درمیان جنگ کے بارے میں اپنے خدشات کا اظہار کیا۔
ایک اخبا ر نے ہماری اس تبلیغی مہم کی خبر لگاتے ہوئے لکھا کہ جبکہ غزہ میں بم گرائے جا رہے ہیں، یہاں مسلمانوں کی ایک تنظیم امن کا پیغام پھیلا رہی ہے۔ ایک بات ہر شہر میں دیکھنے میں آئی کہ اسرائیل اور یوکرائن کی وجہ سےجو جنگی حالات پیدا ہوئے ہیں ان کے بارے میں لوگ بڑی تشویش رکھتے ہیں اور اس کے پائیدار اور مستقل حل کو دیکھنا چاہتے ہیں۔
میڈیا کوریج
گیارہ مختلف شہروں کے اخبارات نے ہمارے تبلیغی سٹالزکی خبر کو شائع کیا۔ دو شہروں میں صحافی خود تشریف لائے اور انٹرویو لیا جبکہ باقی شہروں میں کچھ نے بذریعہ ٹیلی فون انٹرویو لیا اور بعض نے پریس ریلیز جو بھجوائی گئی تھی اس سے معلومات لے کر خود مضمون بنا کر جماعت کے تعارف کے ساتھ شا ئع کیا۔ بعض اخبارات نے بڑے دلچسپ عنوان لگائے،جیسے ’’چار گھنٹے امن کا پیغام منفی ۱۳؍ ڈگری میں‘‘۔
ان سٹالز پر قرآن کریم، جماعتی تعارف پر مبنی فولڈرز اور دیگر جماعتی کتب تقسیم کی گئیں۔
(رپورٹ: محمد اکرم محمود۔ نمائندہ الفضل انٹرنیشنل)