مزیّن یہ نگینوں سے ہمیں رمضان بخشا ہے
زمیں والوں کو رحماں نے کھلا دامان بخشا ہے
مزیّن یہ نگینوں سے ہمیں رمضان بخشا ہے
جو چاہیں مانگ لیں ہم بھی ترے سارے خزانوں سے
ہمیں محبوب نے دیکھو کھلا میدان بخشا ہے
ہے پیاسوں کی طلب پیارے فقط تُو ہی تو ساقی ہے
معطّر جو کرے روحوں کو وہ عرفان بخشا ہے
ترے اک عشق میں ہی بس سحر سے شام ہوتی ہے
زباں پر رقص کرتا یہ ہمیں فیضان بخشا ہے
رکن اسلام کے پانچوں بہت انمول ہیں پیارے
پرو کے اک لڑی میں یوں ہمیں عنوان بخشا ہے
فرشتوں کے احاطے میں یہ رہتی ہے زمیں ساری
مرے لولاک پیارے نے حسیں مرجان بخشا ہے
ترے انعام میں پیارے حسیں انعام یہ سب سے
گناہوں کو یوں دھونے کا ہمیں سامان بخشا ہے
بدل دیتا ہے تقدیریں وہ اک سجدہ گدائی کا
خدائے کبریا نے ہی ہمیں ایقان بخشا ہے
بجھے گی پیاس آنکھوں کی خدا ہی کا یہ وعدہ ہے
عوض روزوں کے مولا نے درِ ریّان بخشا ہے
تہجد کی نمازوں میں عجب کشفی نظارے ہیں
خدا سے قرب کا دلکش ہمیں سامان بخشا ہے
بہت افضال کا حامل ہے اس کا آخری عشرہ
اسی کی ہی تجلی نے حسیں وجدان بخشا ہے
مزے ہیں رتجگوں کے خوب گزریں جو عبادت میں
خدا سے ہمکلامی کو ہمیں قرآن بخشا ہے
(فہمیدہ بٹ، جرمنی)