متفرق مضامین

اے چھاؤں چھاؤں شخص! تری عمر ہو دراز (دورۂ جرمنی ۲۰۱۷ء کے ایام کے چند واقعات۔ حصہ اوّل)

ڈائری مکرم عابد خان صاحب سے ایک انتخاب

تعارف

۸؍اپریل۲۰۱۷ء کو حضورِ انور ایدہ اللہ تعالیٰ سولہ۱۶ روزہ دورے پر جرمنی تشریف لے گئے۔ اس دورے کے دوران حضورِانور نےدو نئی مساجد کا افتتاح فرمایا، دو مساجد کا سنگِ بنیاد رکھا اور متعدد جماعتی میٹینگز کی صدارت فرمائی۔

اس دورے کے دوران حضورِ انور کا قافلہ معمول سے زیادہ بڑا تھا کیونکہ حضور نے ازراہ شفقت کینیڈا کے آٹھ فارغ التحصیل مربیان کرام کی درخواست منظور فرماتے ہوئے انہیں قافلے میں شامل فرمایاتھا۔

کینیڈین مربیان کے لیے حضورِ انور کی فکر

Augsburgکے سفر کے دوران قافلے نے کچھ دیر کے لیے سروس سٹیشن پر وقفہ کیا، جس دوران حضورِانور نے نوجوان کینیڈین مربیان کو بلایا اور ازراہِ شفقت ان کا حال دریافت فرمایا۔ غالباً حضورِانور کو بتایا گیا تھا کہ ان میں سے چند ایک کی طبیعت ناساز تھی حضورِانور نے دریافت فرمایا تھا کہ تم میں سے کس کے سر میں درد تھا؟

اس کے جواب میں دو مربیان نے ہاتھ بلند کیا۔ جس پر حضورِانور نے فرمایا اگر تمہیں سر درد ہو یا طبیعت ناساز معلوم ہو توParacetamolلے لیا کرو اور پہلے کی طرح اپنی ڈیوٹی جاری رکھا کرو۔

حضورِانور کے اس تبصرے سے خوب عیاں تھا کہ آپ کس طرح احمدیوں اور بالخصوص اپنے نمائندگان کو مضبوط اور پُرعزم دیکھنا چاہتے ہیں۔ بجائے یہ نصیحت کرنے کے کہ اگر طبیعت ناساز ہو تو سب کام چھوڑ دیا کریں،حضورِانور نے فرمایا کہ انہیں دوائی لے کر بھر پور طریق سے اپنے فرائض کی انجام دہی میں مصروف ہو جانا چاہیے۔

ان دو نوجوان مربیان میں سے ایک جنہوں نے ہاتھ بلند کیا تھا عزیزم ساجد اقبال تھے،جنہوں نے بعد ازاں مجھے بتایا کہ سروس سٹیشن پر حضورِانور نے مجھے نصیحت فرمائی تھی کہ دورے کے دوران معمولی سی طبیعت خراب ہونے پر مجھے فکرمند نہیں ہونا چاہیے اور ایسی صورت میں Paracetamol لینی چاہیے اور اپنے سپرد کام جاری رکھنا چاہیے۔میرے لیے یہ ایک خاص اور دل کو موہ لینے والا لمحہ تھا جیسا کہ میں نے خود دیکھا کہ اس قدر مصروفیت کے باوجود حضورِانور قافلہ ممبران کے بارے میں چھوٹی چھوٹی باتوں کا بھی خیال رکھتے ہیں۔

اس دوران حضورِانور نے ایک نوجوان مربی صاحب کو دیکھا جو اپنے ہاتھ اپنی پینٹ کی جیبوں میں ڈالے کھڑے تھے۔ یہ دیکھنے پر حضورِانور نے فرمایا اپنے ہاتھ اپنی جیبوں سے باہر نکالو۔ میں تمہیں یہ اس لیے یاد کروا رہا ہوں کیونکہ ایسے آداب بھی تمہاری ٹریننگ کا حصہ ہیں۔

ان مربی صاحب نے بعد ازاں مجھے بتایا کہ وہ حضورِانور کے اس قدر باریک بینی سے مشاہدہ کرنے پر حیران تھے اور اس بات پر بھی کہ حضورِانور جماعتی عہدیداران کے اخلاق اور اوصاف کو بہتر بنانے میں کوئی دقیقہ فروگذاشت نہیں فرماتے۔

ان مربیان میں سے ایک عزیزم سجیل احمد بھی تھے جنہوں نے بعد ازاں مجھے بتایا کہ ہر لمحہ جو ہم نے حضورِانور کی شفقتوں میں گزارا وہ اپنی ذات میں ناقابلِ فراموش تھا۔ حضورِانور نے اس دورے کے دوران ہمارا بے حد خیال رکھا۔ مثال کے طور پر حضورکبھی کبھار اپنے سٹاف ممبرز سے ہمارے متعلق استفسار فرماتے اور بہت بعد میں ہمیں پتا چلتا کہ حضور نے ہماری خیریت دریافت فرمائی تھی۔

موصوف نے مزید بتایا کہ ایک موقع میرے لیے بہت خاص تھا جب حضورِانور نے Augsburg جاتے ہوئے ایک سروس سٹیشن پر ہم سے گفتگو فرمائی اور اس دورے کے بارے میں ہمارے خیالات کی بابت استفسار فرمایا۔ یہ نہایت ناقابلِ یقین تھا کہ امامِ وقت اس طرح ہمارے ساتھ گفتگو فرما رہے تھے۔ حضورِانور نے ہمارے ساتھ بے تکلفی کے ساتھ گفتگو فرمائی اور اس قدر محبت اور شفقت سے پیش آئے جو ناقابلِ فراموش تھا۔

احمدیوں کے جذبات

۱۲؍اپریل ۲۰۱۷ء کو حضورِانور کی مسجد  المہدی میں واپسی ہوئی اور آپ نے صبح مقامی احمدیوں سے ملاقات فرمائی۔ خاکسار نے چند احباب سے ان کی ملاقات کے بارے میں اُن سے تاثرات لیے۔

اس صبح حضورِانور سے ملاقات کرنے والوں میں امجد علی بھٹی صاحب (عمر اکتیس سال) بھی تھے،جن کا تعلق Stuttgartسے تھا۔ اپنی ملاقات کے اختتام پر امجد صاحب نے بتایا کہ اتفاق سے کل میں پاکستان جا رہا ہوں اور پندرہ سال یہاں جرمنی میں گزارنے کے بعد پہلی مرتبہ اپنے وطن واپسی کر رہا ہوں۔ جب میں وہاں اپنی فیملی سے ملوں گا تو انہیں بتاؤں گا کہ صرف ایک دن پہلے میری خلیفۂ وقت سے ملاقات ہوئی ہے۔میں انہیں بتاؤں گا کہ میں نے اپنی آنکھوں سے حضورِانور کے چہرے کا وہ نور دیکھا ہے جس جیسی کوئی چیز پہلے نہیں دیکھی۔ میں انہیں بتاؤں گا کہ ہمارے خلیفہ سے زیادہ محبت کرنے والا وجود کوئی نہیں ہے جو ہماری کمزوریوں سے درگزر فر ما کر محبت سے ہماری راہنمائی فرماتے ہیں۔

ایک اَور دوست جنہیں اس صبح حضورِانور سے ملاقات کا شرف ملا وہ ایک طالب علم عزیزم ثمر احمد Albrechtمحمود صاحب (عمر چھبیس سال) تھے۔ اپنی ملاقات کے بارے میں ثمر صاحب نے بتایا کہ یقینی طور پر حضورِانور سے شرف ملاقات ملنا میرے لیے اور میری فیملی کے لیے نہایت بابرکت بات ہے لیکن اس کے ساتھ برکات کے حصول کا اصل ذریعہ خلافت کی کامل اطاعت ہے۔ حضورِانور سے ملاقات اور براہ راست آپ کی محبت سے حصہ ملنے کی سعادت نے بلاشبہ مجھے حضور کا حقیقی مطیع اور فرمانبردار بنا دیا ہے اور یہی آپ سے ملاقات کی حقیقی برکت ہے کیونکہ یہ آپ کو خلافت کے حقیقی مقام اور اہمیت سے روشناس کرواتی ہے اور آپ کو اس بات پر پختگی سے کاربند کرتی ہے کہ حضورِانور کی بات کو غور سے سنیں اور اس پر عمل پیرا ہوں۔

میری ملاقات ایک احمدی دوست مکرم عمار لطیف(عمر اکتیس سال )سے بھی ہوئی، جن کا تعلق Augsburgسے تھا۔ انہوں نے بتایاکہ ہمیں Augsburgکی مسجد کو مکمل کرنے میں آٹھ سال کا طویل عرصہ لگا اور یہ آٹھ سال کئی صدیاں معلوم ہوتی تھیں اور بسا اوقات ایسا خیال آتا تھا کہ کبھی یہ مسجد مکمل ہوگی بھی یا نہیں؟ تاہم گذشتہ روز حضورِانور نے اس کاافتتاح فرمایا۔ لازمی طور پر خلیفۃ المسیح کا ہمارے شہر میں تشریف لانا ایک عظیم برکت ہے ۔ایسا معلوم ہوتا تھا کہ ہماری ساری مشکلات اور کئی سال کی تھکن ایک لمحے میں دُور ہو گئی ہو۔ محض خلافت ہی ہے جو مشکلات اور مشقتوں کو ایسی راحت اور فرحت سے بدل سکتی ہے۔

موصوف نے مزید بتایا کہ اگر کوئی مجھے دنیا بھر کے خزانے اور دولت دے تو وہ اس خوشی اور فرحت کے مقابلے میں کچھ بھی نہیں ہو گا جو آج مجھے اپنے روحانی باپ کو ملنے سے حاصل ہوئی ہے۔

انہوں نے یہ بھی بتایا کہ مَیں نےخلافت سے قبل حضورِانور کو ربوہ میں بھی ایک بار دیکھا تھا۔ اس تجربے کے بارے میں عمار صاحب نے بتایا کہ ایک مرتبہ میں ربوہ میں سپورٹس ریلی میں شامل ہوا جہاں حضورِانور جو اس وقت ناظرِ اعلیٰ تھے، بحیثیت مہمانِ خصوصی تشریف لائے اور تقریر بھی فرمائی۔ اس وقت میں ایک نوجوان لڑکا تھا اور میرے وہم و گمان میں بھی نہ تھا کہ آپ ایک دن خلیفہ منتخب ہو جائیں گے۔ تاہم مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ اس موقع پر بھی آپ کے لیے میرے دل میں عزت اور تعظیم کے جذبات نمایاں تھے۔ اب جب میں ماضی کے بارے میں سوچتا ہوں تو مجھے بہت فخر محسوس ہوتا ہے کہ مجھے حضورِانور کے خلیفۃ المسیح منتخب ہونے سے قبل براہ راست آپ سے ہدایات اور راہنمائی حاصل کرنے کی سعادت حاصل ہو چکی ہے۔

ایک اور احمدی دوست عرفان طارق صاحب (عمر تیس سال )نے بتایا کہ میں یہاں Bavariaمیں پلا بڑھا ہوں اور ایک کمپنی میں بطور مینجمنٹ کنسلٹنٹ کام کر رہا ہوں۔ جب آپ باہر کام کرتے ہیں تو زیادہ امکان ہوتا ہے کہ آپ اپنے مذہبی فرائض سے غافل ہو جائیں۔ اس لیے ہم بہت خوش قسمت ہیں کہ حضورِانور ہر سال جرمنی تشریف لاتے ہیں۔ حضورِ انور کو دیکھنا ہمیں اپنے ماحول کو جانچنے کا موقع فراہم کرتا ہے اور ہمیں باور کرواتا ہے کہ دنیاوی پیشے اور دنیا پرستی کی کوئی اہمیت نہیں ہے اور ہمارا ایمان ہی ہے جو حقیقی اہمیت کا حامل ہے اور یہی ہمارا اصل مقصد ہونا چاہیے۔ آج اپنی ملاقات کے دوران میں نے حضورِانور سے اپنی زندگی کے بارے میں عمومی راہنمائی کی درخواست کی تو آپ نے فرمایا کہ پانچ وقت نمازوں کی ادائیگی سب سے اہم چیز اور ہماری زندگیوں میں کامیابیوں کی بنیاد ہے۔

موصوف نے مزید بتایا کہ جب بھی حضورِانور جرمنی تشریف لا کر جماعت کا وسیع پیمانے پر تعارف کرواتے ہیں تو یہ حیرت انگیز امرلگتا ہے۔ مجھے وہ وقت بھی یاد ہے جب ہمیں بہت تگ و دَو کرکے میڈیا کو بلانا پڑتا تھا کہ وہ آئیں اور ہمارے پروگرامز میں شامل ہوں اور اب حضورِانور کی برکات اور راہنمائی کی وجہ سے میڈیا ہمارے مدعو کیے بغیر خود ہی ہمارے پروگرامزمیں شرکت کے لیے متوجہ ہوجاتا ہے۔

(مترجم:’ابو سلطان‘ معاونت:مظفرہ ثروت)

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button