گناہوں سے نجات اور نیکیوں کی توفیق (انتخاب از خطبہ جمعہ حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ ۱۴؍ مارچ ۲۰۱۴ء)
اللہ تعالیٰ کی معرفت، گناہوں سے نجات، نیکیوں کی توفیق اور دعا کے معیار کے بارے میں حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں کہ’’اصل حقیقت یہ ہے کہ کوئی انسان نہ تو واقعی طور پر گناہ سے نجات پا سکتا ہے اور نہ سچے طور پر خدا سے محبت کر سکتا ہے اور نہ جیسا کہ حق ہے اس سے ڈر سکتا ہے جب تک کہ اسی کے فضل اور کرم سے اس کی معرفت حاصل نہ ہو اور اس سے طاقت نہ ملے۔ اور یہ بات نہایت ہی ظاہر ہے کہ ہر ایک خوف اور محبت معرفت سے ہی حاصل ہوتی ہے۔ دنیا کی تمام چیزیں جن سے انسان دل لگاتا ہے اور ان سے محبت کرتا ہے یا ان سے ڈرتا ہے اور دُور بھاگتا ہے۔ یہ سب حالات انسان کے دل کے اندر معرفت کے بعد ہی پیدا ہوتے ہیں۔ ہاں یہ سچ ہے کہ معرفت حاصل نہیں ہو سکتی جب تک خدا تعالی کا فضل نہ ہو۔ اور نہ مفید ہو سکتی ہے جب تک خدا تعالیٰ کا فضل نہ ہو اور فضل کے ذریعہ سے معرفت آتی ہے۔ تب معرفت کے ذریعہ سے حق بینی اور حق جُوئی کا ایک دروازہ کھلتا ہے‘‘۔ (یعنی سچائی پھر نظر بھی آتی ہے اور اس معرفت کے آنے سے سچائی کی تلاش کی طرف اَور دروازے کھلتے چلے جاتے ہیں۔) ’’اور پھر بار بار دورفضل سے ہی وہ دروازہ کھلا رہتا ہے۔‘‘ (یعنی اللہ تعالیٰ کا یہ فضل پھر دوبارہ دوبارہ آتا چلا جاتا ہے اور اسی فضل کے آنے کی وجہ سے پھر یہ معرفت کا دروازہ کھلا رہتا ہے) ’’اور بندنہیں ہوتا۔ غرض معرفت فضل کے ذریعہ سے حاصل ہوتی ہے اور پھر فضل کے ذریعہ سے ہی باقی رہتی ہے۔ فضل معرفت کو نہایت مصفّیٰ اور روشن کر دیتا ہے اور حجابوں کو درمیان سے اٹھا دیتا ہے اور نفس امّارہ کے لئے گردوغبار کو دُور کر دیتا ہے اور روح کو قوت اور زندگی بخشتا ہے اور نفسِ امّارہ کو امّارگی کے زندان سے نکالتا ہے اور بدخواہشوں کی پلیدی سے پاک کرتا ہے اور نفسانی جذبات کے تند سیلاب سے باہر لاتا ہے۔ تب انسان میں ایک تبدیلی پیدا ہوتی ہے اور وہ بھی گندی زندگی سے طبعاً بیزار ہو جاتا ہے کہ بعد اس کے پہلی حرکت جو فضل کے ذریعہ سے روح میں پیدا ہوتی ہے وہ دعا ہے۔ یہ خیال مت کرو کہ ہم بھی ہر روز دعا کرتے ہیں اور تمام نماز دعا ہی ہے جو ہم پڑھتے ہیں۔ کیونکہ وہ دعا جو معرفت کے بعد اور فضل کے ذریعہ سے پیدا ہوتی ہے وہ اَور رنگ اور کیفیت رکھتی ہے۔ وہ فنا کرنے والی چیز ہے۔ وہ گداز کرنے والی آگ ہے۔ وہ رحمت کو کھینچنے والی ایک مقناطیسی کشش ہے۔ وہ موت ہے پر آخر کو زندہ کرتی ہے۔ وہ ایک تند سیل ہے پر آخر کو کشتی بن جاتی ہے‘‘۔ (ایک تیز سیلاب ہے۔ کشتی بن جاتی ہے۔ ) ’’ہر ایک بگڑی ہوئی بات اس سے بن جاتی ہے اور ہر ایک زہر آخر اس سے تریاق ہو جاتا ہے‘‘۔ (لیکچر سیالکوٹ، روحانی خزائن جلد20صفحہ221-222)یہ معرفت کا مقام ہے۔
پھر فرمایا کہ انسان گناہ کی طرف کیوں زیادہ گرتا ہے۔ نفس امّارہ کیوں دلوں پر قبضہ کرتا ہے؟ اس کی وضاحت میں فرماتے ہیں کہ’’گناہ پر دلیری کی وجہ بھی خدا کے خوف کا دلوں میں موجودنہ ہونا ہے۔ لیکن یہ خوف کیونکر پید اہو۔ اس کے لیے معرفت الٰہی کی ضرورت ہے۔ جس قدر خدا تعالیٰ کی معرفت زیادہ ہوگی اسی قدر خوف زیادہ ہوگا۔ ہر کہ عارف تر است ترساں تر۔‘‘ یعنی جو زیادہ عرفان رکھتا ہے وہ اتنا ہی خوف رکھتا ہے۔ لرزاں و ترساں رہتا ہے۔ فرمایا: ’’اس امر میں اصل معرفت ہے۔‘‘ (یہ جو بات ہے اس میں اصل بنیادی چیز جو ہے وہ معرفت ہے۔ ) ’’اور اس کا نتیجہ خوف ہے‘‘۔ (اگر معرفت پیدا ہو گی تو اللہ تعالیٰ کی پہچان ہوگی۔ اللہ تعالیٰ کی حقیقت کا علم ہو گا تو پھر ہی خوف بھی پیدا ہو گا۔ ) ’’معرفت ایک ایسی شئے ہے کہ اس کے ہوتے ہوئے انسان ادنیٰ ادنیٰ کیڑوں سے بھی ڈرتا ہے‘‘۔ (یعنی جن کیڑوں کے بارے میں انسان کو علم ہوتا ہے کہ ان کی حقیقت کیا ہے، ان سے بھی ڈرتا ہے۔ ) فرمایا: ’’جیسے پسّو اور مچھر کی جب معرفت ہوتی ہے تو ہر ایک اُن سے بچنے کی کوشش کرتا ہے۔ پس کیاوجہ ہے کہ خد اجو قادر مطلق اور علیم اور بصیر ہے اور زمینوں اور آسمانوں کا مالک ہے، اس کے احکام کے برخلاف کرنے میں یہ اس قدر جرأت کرتا ہے۔ اگر سوچ کر دیکھو گے تو معلو م ہوگاکہ معرفت نہیں‘‘۔ (اللہ تعالیٰ کا صحیح علم ہی نہیں۔ اس لئے گناہوں کی طرف رغبت پیدا ہوتی ہے۔ ) ’’بہت ہیں کہ زبان سے تو خداتعالیٰ کا اقرار کرتے ہیں لیکن اگر ٹٹول کر دیکھو تو معلوم ہو گا کہ ان کے اندر دہریت ہے کیونکہ دنیا کے کاموں میں جب مصروف ہوتے ہیں تو خدا تعالیٰ کے قہر اور اس کی عظمت کو بالکل بھول جاتے ہیں۔ اس لیے یہ بات بہت ضروری ہے کہ تم لوگ دعا کے ذریعہ اﷲ تعالیٰ سے معرفت طلب کرو۔ بغیر اس کے یقینِ کامل ہرگز حاصل نہیں ہو سکتا۔ وہ اس وقت حاصل ہوگا جبکہ یہ علم ہو کہ اﷲ تعالیٰ سے قطع تعلق کرنے میں ایک موت ہے۔ گناہ سے بچنے کے لیے جہاں دعا کرو وہاں ساتھ ہی تدابیر کے سلسلہ کو ہاتھ سے نہ چھوڑو اور تمام محفلیں اور مجلسیں جن میں شامل ہونے سے گناہ کی تحریک ہوتی ہے ان کو ترک کرو اور ساتھ ہی دعا بھی کرتے رہو …‘‘
اب آج کل اس دنیا میں ہماری کون سی مجلسیں ہیں جو گناہ کی طرف لے جاتی ہیں۔ کہیں ٹی وی ہے، کہیں انٹرنیٹ ہے، کہیں فیس بُک (facebook) ہے۔ یہ اب ایسی چیزیں ہیں جن کو دنیا والے بھی محسوس کرنے لگ گئے ہیں۔ گزشتہ دنوں میں پہلے یہ خبر آئی تھی کہ امریکہ میں ہی اس بات پر کہ فیس بُک نے لوگوں میں بے چینیاں پیدا کر دی ہیں انہوں نے چھ لاکھ سے زیادہ اکاؤنٹ وہاں بند کر دئیے۔
بہر حال فرمایا کہ ’’… جہاں دعا کرو وہاں ساتھ ہی تدابیر کے سلسلہ کو ہاتھ سے نہ چھوڑو اور تمام محفلیں اور مجلسیں جن میں شامل ہونے سے گناہ کی تحریک ہوتی ہے ان کو ترک کرو اور ساتھ ہی دعا بھی کرتے رہو۔ اور خوب جان لو کہ ان آفات سے جو قضاء و قدر کی طرف سے انسان کے ساتھ پیدا ہوتی ہیں جب تک خدا تعالیٰ کی مدد ساتھ نہ ہو ہرگز رہائی نہیں ہوتی‘‘۔ (ملفوظات جلد4صفحہ نمبر95-96۔ ایڈیشن 2003ء)
پھر اس بات کو مزید کھولتے ہوئے کہ گناہوں سے بچنا بغیر معرفت الٰہی کے ممکن نہیں ہے۔ آپؑ فرماتے ہیں کہ:’’یقیناً یاد رکھو کہ گناہوں سے بچنے کی توفیق اس وقت مل سکتی ہے جب انسان پورے طور پر اللہ تعالیٰ پر ایمان لاوے۔ یہی بڑا مقصد انسانی زندگی کا ہے کہ گناہ کے پنجہ سے نجات پالے۔ دیکھو ایک سانپ جو خوشنما معلوم ہوتا ہے بچہ تو اس کو ہاتھ میں پکڑنے کی خواہش کرسکتا ہے اور ہاتھ بھی ڈال سکتا ہے لیکن ایک عقلمند جو جانتا ہے کہ سانپ کاٹ کھائے گا اور ہلاک کر دے گا وہ کبھی جرأت نہیں کرے گا کہ اس کی طرف لپکے بلکہ اگر معلوم ہو جاوے کہ کسی مکان میں سانپ ہے تو اس میں بھی داخل نہیں ہوگا۔ ایسا ہی زہر کو جو ہلاک کرنے والی چیز سمجھتا ہے تو اس کے کھانے پر وہ دلیر نہیں ہوگا۔ پس اسی طرح پر جب تک گناہ کو خطرناک زہر یقین نہ کرلے اس سے بچ نہیں سکتا۔ یہ یقین معرفت کے بدُوں پیدا نہیں ہو سکتا۔ …‘‘(جب تک معرفت نہ ہو اس وقت تک یہ یقین پیدا نہیں ہو سکتا۔ یعنی انسان کو یہ پتا ہے، معرفت ہے، اس کا علم ہے کہ زہر بھی خطرناک ہے، سانپ بھی خطرناک ہے تبھی ان سے بچتا ہے۔ ) فرمایا کہ: ’’…پھر وہ کیا بات ہے کہ انسان گناہوں پر اس قدر دلیر ہو جاتا ہے باوجودیکہ وہ خدا تعالیٰ پر ایمان لاتا ہے اور گناہ کو گناہ بھی سمجھتا ہے۔ اس کی وجہ بجز اس کے اور کوئی نہیں کہ وہ معرفت اور بصیرت نہیں رکھتا جو گناہ سوز فطرت پیدا کرتی ہے۔ اگر یہ بات پیدا نہیں ہوتی تو پھر اقرار کرنا پڑے گا کہ معاذ اللہ اسلام اپنے اصلی مقصد سے خالی ہے لیکن مَیں کہتا ہوں کہ ایسا نہیں۔ یہ مقصد اسلام ہی کامل طور پر پورا کرتا ہے اور اس کا ایک ہی ذریعہ ہے مکالمات و مخاطبات الٰہیہ۔ کیونکہ اسی سے اللہ تعالیٰ کی ہستی پر کامل یقین پیدا ہوتا ہے اور اسی سے معلوم ہوتا ہے کہ فی الحقیقت اللہ تعالیٰ گناہ سے بیزار ہے اور وہ سزا دیتا ہے۔ گناہ ایک زہر ہے جو اول صغیرہ سے شروع ہوتا ہے اور پھر کبیرہ ہو جاتا ہے اور انجام کار کفر تک پہنچا دیتا ہے‘‘۔(لیکچر لدھیانہ روحانی خزائن جلد20صفحہ287)
پھر گناہوں سے رکنے کے لئے معرفت کی اہمیت کو ایک جگہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے یوں بیان فرمایا ہے۔ فرماتے ہیں کہ:’’معر فت بھی ایک شئے ہے جو کہ گناہ سے انسان کو روکتی ہے جیسے جو شخص سمّ الفار، سانپ اور شیر کو ہلاک کرنے والا جانتا ہے تووہ ان کے نزدیک نہیں جاتا‘‘۔ (یعنی ان چیزوں کے بارے میں علم ہے کہ یہ انسان کو مار سکتے ہیں، ہلاک کر سکتے ہیں اس لئے وہ ان کے نزدیک نہیں جاتا۔) ایسے جب تم کو معرفت ہو گی تو تم گناہ کے نزدیک نہ پھٹکوگے۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ یقین بڑھا ؤ اور وہ دعا سے بڑھے گا اور نماز خود دعا ہے۔ نماز کو جس قدر سنوار کرادا کرو گے اسی قدر گناہوں سے رہائی پاتے جاؤگے۔ معرفت صرف قول سے حاصل نہیں ہو سکتی۔ بڑے بڑے حکیموں نے خدا کو اس لیے چھوڑ دیا کہ ان کی نظر مصنوعات پر رہی اور دعا کی طرف توجہ نہ کی جیسا کہ ہم نے براہین میں ذکر کیا ہے‘‘۔