جماعتِ احمدیہ کی امن کے لیے مساعی…غیروں کا اعتراف
آج ہم جس تیز رفتار اور ترقی یافتہ دور سے گزر رہے ہیں۔ایسا پر آسائش زمانہ آج سے قبل اہل دنیا کو کبھی میسر نہیں تھا اور یہ سب کچھ جدید سائنسی ایجادات کی بدولت ہی ہمیں میسر ہے۔ دوسری طرف یہی جدید ایجادات اور برق رفتار ترقی دنیا کے امن اور سکون کو برباد کرنے کا باعث بھی بنی اور اب انسانوں نے ایسے ایسے مہلک ہتھیار بنا لیے ہیں کہ جو ساری انسانیت کے لیے شدید خوف و بے چینی کا سبب بن چکے ہیں۔دنیا کے کسی بھی خطے میں رہنے والے لوگ ہوں ہر کوئی خود کو غیر محفوظ محسوس کرتاہے۔ انسانی معاشرے سے امن ختم ہورہا ہے۔ہر کوئی بے چینی اور بے امنی کا شکار ہے۔ایسے میں صرف اور صرف ایک ہی جماعت ہے جو دنیا میں امن کے لیے اپنی تمام تر صلاحیتوں کو بروئے کار لاتے ہوئے اس کوشش میں ہے کہ ایسا پر امن معاشرہ قائم ہو سکے جہاں ہر کوئی خود کو محفوظ سمجھے اور پر سکون زندگی گزار سکے۔یہ عظیم امن کی داعی جماعت جماعت احمدیہ ہے جو خلافت احمدیہ کی بدولت دنیا میں پیارو محبت کےساتھ قیام امن کے لیے کوشاں ہے۔
آج حضرت امیر المومنین ایدہ اللہ تعالیٰ نے جس کثرت سے ساری دنیا میں امن کے پیغام کی اشاعت اور مشرق و مغرب اور شمال و جنوب میں اسلام کے عافیت بخش پیغام کی منادی کی ہے اس کا اتنا گہرا تاثر قائم ہوا ہے کہ اب اِن ملکوں میں حضورانور کو امن کے سفیر کے خطاب سے یاد کیا جاتا ہے اور دنیا کے سربراہان میں یہ فکری وحدت پختہ تر ہوتی جارہی ہے کہ اگر دنیا میں واقعی امن قائم کیا جاسکتا ہے تو اُن نظریات کو اپنانے سے ہی ممکن ہے جو حقیقی اسلام پیش کرتا ہےاور جن کی منادی حضرت امام جماعت احمدیہ کی زبان سے ہو رہی ہے۔ سربراہان مملکت اور دنیا کے دانشوروں پر یہ بات اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے روشن ترہوتی جارہی ہے اور اب تو وہ برملا اس بات کا اظہار کرتے ہیں کہ حقیقی اسلام وہی ہے جو جماعت احمدیہ پیش کرتی ہے۔ اس سلسلے میں غیر مسلم عمائدین کے اعترافات کا باب بہت وسیع ہے۔ ان میں سےچند ایک بطور نمونہ پیش کرتا ہوں جو اس بات پر شاہدِ ناطق ہے کہ خلیفۂ وقت کی زبانِ مبارک سے بیان کردہ نظریات دنیا کے دلوں کو فتح کرتے چلے جارہے ہیں۔
یہ مسلمانوں کی وہ جماعت ہے جس کا نصب العین ’’محبت سب کے لیے نفرت کسی سے نہیں‘‘ ہے
حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے دورۂ امریکہ 2022ء کے دوران زائن شہر کے میئر آنریبل Billy Mckinne نے استقبالیہ ایڈریس پیش کرتے ہوئے کہا: جب میں اس پیغام کو دیکھتا ہوں جو احمدیہ مسلم کمیونٹی ہمارے شہر میں لے کر آئی ہے تو مجھے بہت خوشی ہوتی ہے۔ یہ مسلمانوں کی وہ جماعت ہے جس کا نصب العین’’محبت سب کے لیے نفرت کسی سے نہیں ‘‘ہے۔ یہ ایک ایسی جماعت ہے جو اسلام کے پیغمبر محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی تعظیم کرتی ہے جنہوں نے عیسائیوں کے ساتھ عہد کیا تھا کہ ان کے پیروکار گرجا گھروں کی مرمت میں عیسائیوں کی مدد کریں گے اور گرجا گھروں کی ہر قسم کے خطرات سے حفاظت اور دفاع کے لئے لیے اپنی جانیں بھی قربان کریں گے۔ بس آج جماعت احمدیہ مسلمہ اس شہر ’’زائن‘‘ میں اسی مسلک اور عقیدہ کا اظہار کر رہی ہے۔ اس جماعت نے اپنے خلیفہ کی بابرکت قیادت میں امن، انصاف، عالمی انسانی حقوق اور انسانیت کی خدمت کے پیغام کے ساتھ تمام مذاہب کے لوگوں تک رسائی حاصل کی ہے، لہذا احمدیہ مسلم کمیونٹی کی طرف سے اس شہر میں جو شاندار خدمات انجام دی گئی ہیں اور اس شہر کی ترقی اور اس کے لوگوں کی فلاح و بہبود کو بہتر بنانے کے لئے جو کام کیے گئے ہیں ان پر میں آپ کا تہہ دل سے سے شکر گزار ہوں اور ہم اس شہر کی کلید عزت مآب خلیفہ کی خدمت میں پیش کرتے ہیں۔ (روزنامہ الفضل آن لائن لندن24اکتوبر 2022ء صفحہ 11)
امن کے فروغ کے حوالہ سے ایک سرکردہ مسلم راہنما
ممبر آف Illinois جنرل اسمبلی آنریبل Joyce Mason کہتی ہیں کہ احمدیہ مسلم کمیونٹی کا نعرہ ’’محبت سب کے لیے نفرت کسی سے نہیں‘‘ اکثر اپنے سامنے رکھتی ہوں کیونکہ یہ صرف ایک نعرہ نہیں ہے بلکہ یہ ان احمدی مسلمانوں کے لیے زندگی گزارنے کا ایک طریقہ ہے۔ اس لیے میں اس کمیونٹی اور آپ سب کی طرف کھنچی چلی جاتی ہوں۔ درحقیقت اس کمیونٹی کے بہت سے افراد ہیں جنہیں میں اپنا خاندان سمجھتی ہوں۔ عزت مآب خلیفہ امن کے فروغ کے حوالہ سے ایک سرکردہ مسلم رہنما ہیں، جو اپنے خطبات، لیکچرز، کتابوں اور ذاتی ملاقاتوں میں جماعت احمدیہ مسلمہ کی خدمت انسانیت، عالمی انسانی حقوق اور ایک پر امن اور انصاف پسند معاشرے کے قیام پر مشتمل اقدار کو پروان چڑھا رہے ہیں۔ انہوں نے امن کے قیام پر زور دیتے ہوئے دنیا بھر کے قانون سازوں اور دیگر رہنماؤں سے بات کی ہے۔(روزنامہ الفضل آن لائن لندن24؍اکتوبر 2022ء صفحہ 11)
اپنے آپ کو خدمت کے لیے وقف کر دیا ہے
آنریبل راجہ کرشن مورتی Krishn Moorthi صاحب نے مسجد فتح عظیم کے افتتاح کے موقع پر اپنے خطاب میں جماعت احمدیہ کی امن مساعی کا ذکر کرتے ہوئے کہا: احمدیہ مسلم کمیونٹی کے لوگوں میں سے کچھ ایسے لوگوں سے بھی آپ ملیں گے جنہوں نے اپنے آپ کو ہسپتالوں کے قیام سے لے کر اسکولوں تک، خون کے عطیات کی مہم، ضرورت مند لوگوں کی مدد کرنے سے لے کر قدرتی آفات میں امدادی کارروائیاں کرنے تک اپنے آپ کو خدمت کے لیے وقف کر دیا ہے۔ یہ لوگ ان اقدار کا مجسم ہیں جن کی وہ تبلیغ کرتے ہیں…(روزنامہ الفضل آن لائن لندن24؍اکتوبر 2022ء صفحہ 11)
سب کو مل کر کام کرنا ہے۔ یہی خلیفہ کا پیغام ہے
مسجد بیت الاکرام ڈیلس کی افتتاحی تقریب میں آنے والے ایک مہمان Tom Berry اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہتے ہیں:میں آپ کا اور خلیفۃالمسیح کا شکریہ ادا کرنا چاہتا ہوں۔ آپ کا پیغام، مہمان نوازی، باہمی میل جول سب کچھ بہت خوب تھا۔ یہ بلاشبہ ایک نعمت ہے کہ عقیدے یا مذہب سے قطع نظر ایک دوسرے کی زیادہ سے زیادہ بھلائی کے لیے کام ہو۔ زندگی کی قدر ہو، زندگی سے پیار ہو، انسانوں کا احترام ہو، انسانوں سے محبت ہو، یہ ظاہر کرتا ہے کہ ایسے معاشرے میں کسی ایک فرد یا ادارے کی اجارہ داری نہیں ہے۔ سب کو مل کر کام کرنا ہے۔ یہی خلیفہ کا پیغام ہے۔ یہ پیغام ایسا ہے جسے روزانہ سونے سے قبل اور صبح اٹھنے کے بعد دہرانا چاہیے اور اسی پیغام کو پھیلانا چاہیے۔ یہی پیغام ہمیں اپنے بچوں کو سمجھانا چاہئے۔ کیونکہ جب ہم نہیں ہوں گے تو وہ اس پیغام کو جاری رکھیں گے۔(روزنامہ الفضل آن لائن لندن18؍نومبر 2022ءصفحہ12)
خلیفہ نے وہ کام کیا ہے جو اس ملک کے سیاستدانوں نے بھی نہیں کیا
Sandeep Srivastava Campaign کے فیلڈ ڈائریکٹر جناب Hector Amaya صاحب اپنے تاثرات کا اظہار کرتے ہوئے کہتے ہیں:میں حضور سے مل کر بہت متاثر ہوا ہوں۔ آپ کا پیغام بھی متاثر کن ہے خاص طور پر جب آپ نے عالمی امن کے بارے میں بات کی۔ یقین جانیں خلیفہ نے وہ کام کیا ہے جو اس ملک کے سیاستدانوں نے بھی نہیں کیا۔ (روزنامہ الفضل آن لائن لندن18؍نومبر2022ءصفحہ12)
یہ جماعت مذہبی آزادی کی کاوشوں میں صفحہ اول پر رہی
پروفیسر ڈاکٹر رابرٹ ہنٹ (Dr.Robert Hunt) جو کہ Southern Methodist Universities, Perkins School of Theology میں گلوبل تھیولوجیکل (Global Theological) شعبہ کے ڈائریکٹر ہیں، کہتے ہیں: حضرت مرزا مسرور احمد صاحب دو خوبیوں کو فروغ دینے کے لیے وقف ہیں جس میں پہلی مذہبی آزادی اور دوسری بین المذاہب مکالمہ مخاطبہ ہے۔ ان دونوں خوبیوں کا آپس میں گہرا تعلق ہے۔ کیونکہ مذاہب کے اندر اگر باہمی افہام و تفہیم نہ ہو اور باہمی احترام نہ ہو تو تفرقہ کی آواز کو تقویت ملتی ہے اور میں یہ بات کرتا ہوں کہ میری آدھی بالغ زندگی ایسے ممالک میں گزری ہے جہاں میں خود مذہبی اقلیت میں تھا۔
یہاں امریکہ میں جہاں ہمیں آئین میں مذہبی آزادی دی گئی ہے، ہم پر لازم ہے کہ نہ صرف مذہبی کمیونٹیز کے لیے بلکہ ہر شخص کے لئے یہ آزادی برقرار رکھیں۔ اکثر یہ سمجھا جاتا ہے کہ مغربی حکومتیں جو کہ مذہب سے منسلک نہیں ہوتیں اس لیے مذہبی آزادی کو دباتی ہیں۔ مگر یہ بات کسی صورت درست نہیں۔ مذہبی آزادی کے سب سے بڑے دشمن کسی مذہب کے گمراہ پیروکار ہوتے ہیں۔ مذہبی آزادی کے سب سے بڑے دشمن وہ جنون پسند پیروکار ہوتے ہیں جو فرقہ واریت کو فروغ دیتے ہیں۔ لہٰذا چاہے ہم فرقہ وارانہ حالات میں پھنسے ہوئے ہوں یا کسی خاص طبقہ کی سوچ کو بدلنے کی کوشش میں ہوں، یہ ضروری ہے کہ ہر ایک کو مذہبی آزادی میسر ہو۔ تاریخ گواہ ہے کہ جماعت احمدیہ کو ظلم کا نشانہ بنایا گیا اور اسی وجہ سے یہ جماعت مذہبی آزادی کی کاوشوں میں صفحہ اول پر رہی اور یہی چیز ہے کہ جب تک ہم ایک دوسرے کے ساتھ احترام اور کھلی ذہنیت کے ساتھ پیش نہ آئیں ہم تفرقہ بازی پر قابو نہیں پا سکتے اور ان منفی افکار کو معاشرے سے ختم نہیں کر سکتے۔ ہمیں ایک دوسرے کی مذہبی آزادی اور وقار کا خیال کرنا پڑے گا ورنہ ہر شخص اس مذہبی آزادی کو کھودے گا۔ مجھے امید ہے کہ حضور کا یہاں تشریف لانا اور اس مسجد کا بننا ہماری حوصلہ افزائی کرے گا تاکہ ہم باہمی بات چیت کے ذریعہ ایک امن پسند معاشرے کے حصول کے لیے اپنی کاوشوں کو اور بھی تیز کردیں۔ (روزنامہ الفضل آن لائن لندن18؍نومبر 2022ءصفحہ 9)
ہم آپ کی انفرادی اور بین الاقوامی امن کے قیام کے لیے انتھک کوششوں کو سراہتے ہیں
Republican کانگریس مین آنریبل Micheal McCaul نے کہا: دنیا کے تین مذاہب یہودیت، عیسائیت اور اسلام حضرت ابراہیم علیہ السلام سے اپنی تاریخ جوڑتے ہیں۔ آج میں حضور سے دوسری دفعہ ملا ہوں اور یقین ہے کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام سے وابستہ یہ تینوں مذاہب امن کے ساتھ رہ سکتے ہیں۔ اس بات کا تجربہ جماعت احمدیہ سے زیادہ کس کو ہوسکتا ہے۔ یہ وہ جماعت ہے جو پاکستان میں ظلم کا نشانہ بنائی جارہی ہے اور اسی وجہ سے حضور لندن میں مقیم ہیں۔ جیسا کہ ڈاکٹرہنٹ نے بڑی وضاحت سے بیان کیا کہ یہ جماعت احمدیہ ہی ہے جس نے مذہبی آزادی کے حق میں آواز بلند کی۔
مجھے حضور انور کے ساتھ حضرت عیسیٰ علیہ السلام اور جماعت احمدیہ کی تعلیم، نئے عہد نامہ اور انجیل کے بارے میں بات کرنے کا موقع ملا۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ ہم جماعت احمدیہ سے امن، رحمدلی اور محبت کے بارے میں بہت کچھ سیکھ سکتے ہیں۔ میری پرورش بطور کیتھو لک ہوئی ہے۔ میں اب امریکی کانگریس میں احمدیہ کا کس (ahmadiyya Cacus) کا چیئرمین ہوں۔ اس کا کس میں دونوں پارٹیوں اور مختلف مذاہب سے تعلق رکھنے والے ممبران شامل ہیں۔ میں آج جماعت احمدیہ کے روحانی سربراہ کو Illinois, Texas اور Mary Land میں خوش آمدید کہتا ہوں اور خاص طور پر دنیا میں امن پھیلانے اور قومی اتحاد قائم کرنے، عدم تشدد، انتہا پسندی کے خاتمہ، اقتصادی مساوات، عالمی انسانی حقوق کے لئے اور عالمی مذہبی آزادی کے لئے آپ کی کوششوں کو سراہتا ہوں۔
قیام امن کے حوالے سے جماعت احمدیہ کے خلیفہ کا شمار صف اول کے رہنماؤں میں ہوتا ہے۔ آپ اپنے خطبات، تقاریر، کتب اور اپنی ذاتی ملاقات کے ذریعہ امن کو فروغ دیتے ہیں اور مسلسل انسانیت کی خدمت اور انسانی حقوق، امن اور معاشرے میں انصاف کی تعلیم دیتے ہیں۔ جبکہ جماعت احمدیہ کو بار بار مشکلات، امتیازی سلوک اور ظلم و ستم اور تشدد کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ 28؍مئی 2010ء کو 88 احمدی مسلمانوں کو پاکستان کی دو مساجد میں درد ناک طریقے سے دہشت گردوں نے قتل کیا اور متعدد احمدی مسلمانوں کو ٹارگٹ کرکے قتل کیا گیا۔ اس ظلم وستم کی جاری داستان کے باوجود حضور نے دوسروں سے انتقامی تشدد کرنے سے منع فرمایا جو کہ ایک بہت ہی عظیم عمل ہے۔
حضور نے مذہبی آزادی پر زور دیا جو اسلامی تعلیم پر مبنی ہے اور امریکہ کے قوانین میں بھی شامل ہے۔ آپ نے اس دورہ میں زائن میں پہلی مسجد کا افتتاح کیا اور آج یہاں Allen میں بھی مسجد کا افتتاح کر رہے ہیں۔ حضورانور نے اپنے دنیا بھر کے دوروں میں انسانیت کی خدمت کے جذبہ کو فروغ دیا ہےاور اس ضمن میں مختلف ممالک کے صدران، وزیراعظم، ارکان پارلیمنٹ، مذہبی رہنماؤں سے ملے ہیں۔ آپ نے بار بار دنیا کے رہنماؤں کو سمجھایا کہ حقیقی اور دیرپا امن کے لیے انصاف ضروری ہوگا۔
حضور نے دنیا کی بہت سی مظلوم قوموں کے حقوق کے لیے آواز اٹھائی۔ آپ 2008ء، 2012ء، 2013ء اور 2018ء میں امریکہ تشریف لائے۔ آپ نے 27؍جون 2012ء کو یو ایس کیپیٹل کی Raven House Building میں دونوں پارٹیوں کی طرف سے منعقدہ ایک استقبالیہ میں خطاب فرمایا۔ جس میں امن کے راستے اور بین الاقوامی منصفانہ تعلقات پر بات کی۔ ہماری خواہش ہے آپ دوبارہ ہمارے دارالحکومت میں آکر خطاب فرمائیں۔ آپ نے 2020ء میں یوکے کی ایک Ministerial Conferenceمیں خطاب فرمایا جس کا موضوع ’’آزادی مذہب‘‘ تھا۔ آپ نے 2022ء میں واشنگٹن میں ہونے والے عالمی مذہبی Summit کے لئے بھی ایک خصوصی پیغام بھیجا۔
ہم آپ کی انفرادی اور بین الاقوامی امن کے قیام کے لیے انتھک کوششوں کو سراہتے ہیں اور آپ کو شدت پسندی اور دہشت گردی کی پُرزور مذمت کرنے پر سلام پیش کرتے ہیں اور آخر میں ہم آپ کی ان کاوشوں کو سراہتے ہیں جن میں آپ نے جماعت احمدیہ مسلمہ کی رہنمائی فرمائی کہ تمام ظلم و جبر کے باوجود انتقام نہیں لینا۔(روزنامہ الفضل آن لائن لندن18؍نومبر2022ءصفحہ9)
امن جُو پیغام
حضرت خلیفۃ المسیح الثالث رحمہ اللہ 1967ء میں دورہ یورپ پر تشریف لے گئے آپ رحمہ اللہ کے کامیاب وکامران دورہ یورپ سے واپسی پر میر پور خاص کے سندھی ہفت روزہ ہمدرد نے 11؍اگست 1967 صفحہ 4 پر ’’امن جو پیغام ‘‘(امن کا پیغام) کے زیر عنوان ایک نوٹ شائع کیا جس کا ترجمہ درج ذیل ہے۔ امام جماعت احمدیہ حافظ مرزا ناصر احمد صاحب ایم۔ اے آکسن ایک ماہ کے تبلیغی دورہ کی غرض سے 8 ؍جولائی کو بذریعہ ہوائی جہاز یورپ روانہ ہوئے آپ کے سفر کا مقصد یہ ہے کہ وہاں تبلیغی مشنوں کا جائزہ لیں نیز اہل یورپ پر اتمام حجت کر دیں کہ اب نجات محض اسلام کے دامن میں ہی حاصل ہو سکتی ہے۔ آپ کے ہمراہ بیرونی ممالک میں احمدیہ مشنوں کے انچارج مرزا مبارک احمد صاحب بھی ہیں آپ کراچی سے فرینکفورٹ (مغربی جرمنی) پہنچے پھر زیورک (سوئٹزرلینڈ) تشریف لے گئے وہاں کے ریڈیو نے امام صاحب کا خصوصی انٹرویو نشر کیا اور ٹیلی ویژن پر مناظر دکھائے گئے پھر ہمبرگ تشریف لے گئے کئی لوگ حلقہ بگوش اسلام بھی ہوئے۔ اسی طرح آپ ہالینڈ بھی تشریف لے گئے۔ہمبرگ سے کوپن ہیگن تشریف لے گئے وہاں آپ نے عورتوں کے چندہ سے بنی ہوئی مسجد کا 21؍جولائی بروز جمعہ افتتاح فرمایا۔ ہزاروں افراد مسجد کو دیکھنے آئے۔وہاں سے آپ لندن پہنچے۔ لندن میں اخباری نمائندوں کو بتایا: ’’ امن کے امکانات مشتبہ ہیں۔ جب تک انسان اپنے خالق کی طرف رجوع نہیں کرے گا اور اس سے زندہ تعلق قائم نہیں کرے گا۔دنیا ہولناک تباہی کی طرف بڑھتی چلی جائے گی۔ ‘‘
آپ لنڈن سے گلاسگو تشریف لے گئے۔ ایک ماہ کے کامیاب دورہ کے بعد حضرت امام صاحب واپس پاکستان تشریف لا رہے ہیں۔ آپ نے اہل یورپ پر اتمام حجت کر دی اور عیسائیوں پر واضح کر دیا ہے کہ’’دنیا اگر امن چاہتی ہے تو اسلام کے دامن میں آ جائے یا تو اسلام قبول کر لو اور خدا کے حضور جھک جاؤ ورنہ تباہ ہو جاؤ گے۔‘‘(تاریخ احمدیت جلد نمبر 24صفحہ176تا 177)
تمام دنیا میں حقیقی امن
Godfrey Magri صاحب مالٹا (Malta) یونیورسٹی میں پروفیسر ہیں۔ریٹائر ہونے کے بعد بھی یونیورسٹی میں انگریزی اور مالٹی زبان پڑھاتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ’’آپ کا ماٹو محبت سب کے لیے نفرت کسی سے نہیں تمام دنیا میں حقیقی امن قائم کرنے والا ہے اور اگر ساری دنیا ان باتوں پر عمل کرے تو دنیا حقیقی امن کا گہوارہ بن جائے۔‘‘(الفضل انٹرنیشنل 7؍نومبر 2008ء صفحہ11)
جماعت کی امن کی تعلیم اور کرداد قابل ستائش ہے
البانیہ کےCult Committeeکے صدر Rasim Hasanaj نے جلسہ سالانہ میں حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کا خطبہ جمعہ اور خطابات سنے اور دیگر انتظامات کو بھی نہایت قریب سے دیکھا موصوف نے اپنے تاثرات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ جماعت احمدیہ اسلام کی حسین اور امن پسند تعلیمات کو دنیا میں پھیلانے کے لیے جو مثبت کردار ادا کر رہی ہے وہ قابل ستائش ہے اور جماعت کی تعلیم Love For All Hatred For None معاشرہ میں امن کے قیام کے لیے ایک زبردست ماٹو پیش کرتی ہے۔ (الفضل انٹرنیشنل 7؍نومبر 2008ء صفحہ 11)
پُر امن کردار
نائب صدر مملکت گھانا الحاج Aliou Mahama نے حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی موجودگی میں کہا ’’احمدیہ مشن نے معاشرہ میں محبت، رواداری قائم کرنے کے سلسلہ میں بڑا اہم اور پرامن کردار ادا کیا ہے اور دوسرے لوگوں اور مذاہب کے ساتھ روابط میں امن کے پہلو کو برقرار رکھا ہے۔‘‘( الفضل انٹرنیشنل 30؍مئی 2008 صفحہ 12)
ایک پُر امن جماعت
میئر ڈیوزن باخ جرمنی نے کہا:’’سب کو علم ہے کہ جماعت احمدیہ ایک پرامن جماعت ہے۔‘‘ (الفضل انٹرنیشنل6؍اگست 2011ء)
امن قائم کرنے والی صرف ایک جماعت
Mr. Robert Gates, Mayor Of Alton – UK نے جلسہ سالانہ برطانیہ2011ء کے موقع پر کہا :’’اسلام کا مطلب امن ہے جس کا قول اور فعل کے ساتھ اظہار کیا جائے اور دنیا میں صرف ایک جماعت احمدیہ ہے جو ایسا کرتی نظر آرہی ہے۔‘‘( الفضل انٹرنیشنل 23؍ستمبر 2011ء)
جماعت احمدیہ دنیا کے لیے امن اور برداشت کی اعلیٰ مثال ہے
آنریبلDr. Charles Tannock نے کہا کہ احمدیہ مسلم کمیونٹی عالمی سطح پر امن کا پیغام پھیلا رہی ہے اور شدت پسندی کے خلاف لڑ رہی ہے…مسلمانوں کے راہنما سے اس قسم کے پیغامات کی دنیا کو ضرورت ہے۔یہ امن کا پیغام دراصل ہمارے اپنے دلوں کی آواز ہے جن کا تعلق اسلام سے نہیں بلکہ دیگر مذاہب سے بھی ہے…جماعت احمدیہ دنیا کے لئے امن اور برداشت کی اعلیٰ مثال ہے۔(الفضل انٹرنیشنل 4؍جنوری 2013ء صفحہ 14)
جماعت احمدیہ کا عالمی بھائی چارے کا تصور اور ماٹونہایت اہمیت کا حامل ہے
مالٹا سے تعلق رکھنے والے Prof. Arnold Cassola صاحب 30 سے زائد کتب تصنیف کر چکے ہیں آپ سیدنا حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصر ہ العزیز کے برسلز(بیلجیم) میں یورپین پارلیمنٹ سے خطاب 2012ء کے موقع پرجماعت کی پرامن تعلیمات اور مساعی کےمتعلق اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہتے ہیں:’’کانفرنس کا انتظام نہایت اعلیٰ تھا یہاں تک کہ چھوٹی چھوٹی چیزوں کا بھی خاص طور پر خیال رکھا گیا اور کہیں کسی قسم کی کمی نظر نہیں آئی۔ جماعت احمدیہ کا عالمی بھائی چارہ کا تصور اور ماٹو’محبت سب کے لیے نفرت کسی سے نہیں‘ایک نہایت اہمیت کا حامل تصور ہے جو تمام انسانیت کو اکٹھا کر دیتا ہے اور ہر قسم کی نسلی اور مذہبی تفریق کو الگ کر کے انسانیت کو یکجا کرنے کی ضمانت دیتا ہے خلیفہ (ایدہ اللہ تعالیٰ) کی تقریر عالمی امن کے قیام کی جدوجہد کی واضح عکاسی ہے۔درحقیقت جماعت احمدیہ دنیا کے تمام لوگوں کے لیے جو امن اور رواداری کی تلاش میں ہیں مذاکرات کا ایک اہم پلیٹ فارم مہیا کر رہی ہے،یہاں تک کہ سیاسی سطح پر بھی وہ اس معاملہ کو خوب اچھی طرح سے پیش کر رہی ہے۔‘‘(الفضل انٹرنیشنل 4؍جنوری 2013ء صفحہ14)
امن کے عظیم سفیر
lvan Bartolo صاحب جو مالٹا میں میڈیا سے تعلق رکھتے ہیں کہتے ہیں کہ’’درحقیقت عزت مآب خلیفہ امن کے عظیم سفیر ہیں اورمیں آپ کی شخصیت اور امن اور عالمی بھائی چارہ کے لیے آپ کے مشن اور جدوجہد سے بہت متاثر ہوا ہوں۔‘‘(الفضل انٹرنیشنل4؍جنوری 2013ء صفحہ 14)
امن اور باہمی تعلقات کا ایک عظیم لیڈر
فرانس کی یونیورسٹی کے پروفیسر Mr. Marco Tiani کہتے ہیں کہ میں بہت خوش قسمت ہوں کہ مجھے حضور کی سربراہی میں یورپین پارلیمنٹ میں ہونے والے اجلاس میں شامل ہونے کا موقع ملا۔میرے لیے یہ بہت عزت اور برکت کا باعث تھا کہ میں ایک حقیقی امن والے انسانی حقوق کے عظیم لیڈر اور مذہبی آزادی کے حقیقی علمبردار کی موجودگی میں وہاں موجود ہوں میرے لیے یہ ایک فخر کی بات ہے کہ میں ایک مرد خدا سے ملا جو امن اور باہمی تعلقات کا ایک عظیم لیڈر ہے اور’’ محبت سب کے لیے نفرت کسی سے نہیں‘‘کا نعرہ سب سے طاقتور امن کی ضمانت دینے والا ہے۔‘‘( الفضل انٹرنیشنل 4؍جنوری 2013ء صفحہ 14)
امن و سکون کی شعاعیں
Jose Maria Alonso میڈرڈ میں Popular Partyکی نمائندہ رکن اسمبلی نے اپنے تاثرات کا اظہار کرتے ہوئے کہا:’’ عزت مآب جناب خلیفہ ایک عظیم انسان ہیں جن کےوجود سے امن و سکون کی شعاعیں نکلتی ہیں۔‘‘(الفضل انٹرنیشنل 4؍جنوری 2013ء صفحہ 14)
امن کا پرچار آپ کا مشن
حضرت خلیفۃالمسیح الثالث رحمہ اللہ تعالیٰ امن اور محبت کے عالمی سفیر تھے آپ کی ان کوششوں کا اعتراف ایک ریٹائرڈ امریکی جنرل رونالڈ ڈیلمار(Gen . Ronald Delmar) نے ایک استقبالیہ میں ان الفاظ میں کیا: ’’یہاں بہت سے لوگ ہیں جو آپ سے ملنے اور تبادلہ خیالات کرنے کے متمنی ہیں کیونکہ آپ جہاں جاتے ہیں امن لے کر جاتے ہیں۔ آپ امن کی باتیں کرتے ہیں۔ امن ہی آپ کی گفتگو کا موضوع ہوتا ہے۔ امن کا پرچار ہی آپ کا مشن ہے اور باہمی تفرقوں،مخاصمتوں اور نفرتوں کو ختم کرنا آپ کا مقصد ہے آپ کو تو امریکہ میں زیادہ عرصہ ٹھہرنا اور قیام کرنا چاہیے تاکہ ملاقات کے متمنی آپ سے مل سکیں اور آپ کے بیش قیمت خیالات سے مستفید ہو سکیں۔‘‘(دورہ مغرب صفحہ 510)
یہ خطاب اقوام متحدہ میں پڑھا جانا چاہیے
24؍مارچ 2007ء کو جماعت احمدیہ یوکے کے زیرانتظام بیت الفتوح میں امن کانفرنس منعقد ہوئی جس میں ممبران پارلیمنٹ، ممبران ہاؤس آف لارڈز، میئرز،کونسلرز، چرچ کے ممبران کے علاوہ بہت سے لوگوں نے شرکت کی حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے اس موقع پر حاضرین سے خطاب فرمایا جو حاضرین نےبہت پسند کیا۔ لارڈ ایوبری(Lord Avebury) نے حضور کے خطاب کے بارے میں کہا:’’یہ خطاب اتنا اہم ہے کہ اسے تو اقوام متحدہ میں پڑھا جانا چاہیے۔‘‘(روزنامہ الفضل 27؍جولائی 2007ء )
دنیا میں امن و سلامتی کے پیغام کی قدر کرتا ہوں
جب حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ جاپان تشریف لائے تو9؍مئی 2006ءکو دورہ جاپان میں ایک تقریب استقبالیہ جس میں بہت سے معززین نے شرکت کی ممبر پارلیمنٹ Suzuki Juji نے اپنے مختصر ایڈریس میں کہا :’’میں حضور کو اپنے دل کی گہرائیوں سے جاپان آنے پر خوش آمدید کہتا ہوں۔حضور نے دنیا میں امن و سلامتی کے قیام کے لیے جو پیغام دیا ہے میں اس کی قدر کرتا ہوں اور سب کو پیغام دیتا ہوں کہ حضور کے پیغام کو سمجھیں اور ان باتوں پر عمل کرنے کی کوشش کریں۔مجھے دین سے زیادہ تعارف نہیں آج مجھے دین حق کی امن کی تعلیم کا پتہ چلا ہے۔میں اس تقریب میں شامل ہو کر اپنے آپ کو خوش پاتا ہوں۔‘‘( الفضل 2؍جون 2006ء )
امن کے پیغامبر
جلسہ سالانہ کینیڈا 2008ء کے موقع پر جناب جیسن کینی(Hon . Jason Kenny) نے اپنا ایڈریس پیش کیا۔موصوف 2006ءمیں وزیراعظم کینیڈا کے پارلیمانی سیکرٹری مقرر کیےگئے۔ اب Multiculturism & Canadine Identityکے سیکرٹری آف سٹیٹ ہیں اور جلسہ کے موقع پر وزیراعظم کینیڈا کا پیغام لے کربھی آئے۔ انہوں نے خطاب کے دوران اردو زبان میں کہا ’’ہم خلیفہ مسرور احمد کو کینیڈا میں خوش آمدید کہتے ہیں‘‘ اس کے بعد دوران خطاب حضور کے بارے میں فرمایا: ’’حضور امن کے پیغامبر ہیں۔ آپ کینیڈا میں سلامتی اور امن کا پیغام لائے ہیں۔‘‘ (روزنامہ الفضل 23؍جولائی 2008ء)
یہ دنیا امن اور بھائی چارہ کا گہوارا بن سکتی ہے
2012ء میں حضور انور ایدہ اللہ نے برسلز میں یورپین پارلیمنٹ سے خطاب فرمایا۔ اس موقع پر Bishop Dr Amen Howard جنیوا (سوئٹزرلینڈ) سے حضور انور ایدہ اللہ بنصرہ العزیز کے خطاب میں شمولیت کے لیے آئے تھے، موصوف انٹرفیتھ انٹرنیشنل کے نمائندہ اورایک رفاہی تنظیم Feed a Familyکے بانی صدر بھی ہیں۔ انہوں نے اپنے خیالات کا اظہار جن الفاظ میں کیا وہ توجہ سے سننے والے ہیں۔ انہوں نے کہا: ’’یہ شخص جادوگر نہیں لیکن ان کے الفاظ جادوکا سا اثر رکھتے ہیں۔ لہجہ دھیما ہے لیکن ان کے منہ سے نکلنے والے الفاظ غیر معمولی طاقت، شوکت اور اثر اپنے اندر رکھتے ہیں۔ اس طرح کا جرأت مند انسان میں نے اپنی زندگی میں کبھی نہیں دیکھا۔ آپ کی طرح کے صرف تین انسان اگر اِس دنیا کو مل جائیں تو امن عامہ کے حوالے سے اِس دنیا میں حیرت انگیز انقلاب مہینوں نہیں بلکہ دِنوں کے اندر برپا ہوسکتا ہے اور یہ دنیا امن اور بھائی چارہ کا گہوارہ بن سکتی ہے۔ میں اسلام کے بارہ میں کوئی اچھی رائے نہیں رکھتا تھا۔ اب حضور کے خطاب نے اسلام کے بارے میں میرے نقطۂ نظر کو کلیۃً تبدیل کر دیا ہے۔ ‘‘(احمدیہ گزٹ کینیڈامئی 2018ء صفحہ 20)
امن کی کاوشیں
حضورانور نے 2016ء میں کینیڈا کا کامیاب دورہ فرمایا۔ 18؍نومبر2016ء کےخطبہ جمعہ میں آپ نے غیراز جماعت مہمانوں کے تاثرات بیان فرمائے۔ جن میں غیرازجماعت مہمانوں نے خلافتِ احمدیہ کے ذریعہ دُنیا میں جو امن کی کاوشیں ہو رہی ہیں اُن کا اپنے اپنے انداز میں ذکر کیا۔ چند ایک پیش ہیں:
’’Presbyterian Church کے پادری پیس سمپوزیم سن کے کہتے ہیں کہ آج امام جماعت کے خطاب سے مجھے بڑا اثر ہوا کیونکہ یہ پیغام امن، محبت اور امید کا پیغام تھا جس کا رنگ ونسل، شرق و غرب یا کسی خاص وقت یا جگہ سے تعلق نہیں بلکہ تمام دُنیا کے لئے تھا۔ اس خطاب کی اہمیت یہ بھی ہے کہ دُنیا میں بہت سی غلط فہمیاں اور خوف و ہراس پھیلا ہوا ہے۔ لیکن آج کے پیغام میں یہ بات واضح تھی کہ ہمارے درمیان مشترک چیزیں زیادہ ہیں اور اختلاف کی باتیں کم۔ یہ ایک بہت بڑی خوشخبری ہے جسے لوگوں کو سننے کی ضرورت ہے۔
…محمد الحلاواجی (Muhammad al Halawaji) صاحب جو پارلیمنٹ میں تھے اور نائل ایسوسی ایشن کے صدر ہیں۔ یہ کہتے ہیں کہ آج کا پیغام نہایت واضح تھا کہ ہم سب کو محبت کے ساتھ رہنا چاہئے اور ہمیں کسی سے نفرت کی ضرورت نہیں ہے۔ اگر ہم ایک دوسرے سے نفرت کرتے رہیں گے تو امن قائم نہیں ہو سکتا۔ کہتے ہیں کہ جب میں نے پارلیمنٹ میں امام جماعت کا خطاب سنا تو مجھے یقین نہیں آ رہا تھا کہ پارلیمنٹ میں اس طریق پر کوئی مسلمان رہنما اس طرح خطاب کر سکتا ہے۔ خوف کی کوئی جھلک نظر نہیں آئی اور نہایت نڈر طریق پر اپنی تقریر کی اور لوگوں کو یقین ہو گیا کہ یہی اسلام کا صحیح اور سچا پیغام ہے۔ جو جنگیں ہو رہی ہیں ان کے پیچھے کچھ لوگ ہیں جو اس سے فائدہ اٹھا رہے ہیں اور پھر کہتے ہیں آج کے خطاب میں بھی ’’محبت سب کے لئے نفرت کسی سے نہیں ‘‘کے حوالے سے بات کی اور یہی ہمارا لائحہ عمل ہونا چاہئے اور یہی سچ ہے۔
…سابق منسٹر برائے امیگریشن اینڈ ڈیفینس Jason Kenney ان کے ہمارے پُرانے تعلقات ہیں۔ جماعت سے اور مجھ سے بھی ذاتی طور پر ان کا کافی تعلق ہے۔ وہ بھی وہاں آئے ہوئے تھے اور کہتے ہیں کہ جماعت احمدیہ ایک چھوٹی جماعت ہے لیکن بہت بڑھ چڑھ کر کام کرتی ہے اور اسلام کا روشن چہرہ دُنیا کے سامنے پیش کر رہی ہے۔ اس وقت جو دُنیا کے حالات ہیں اور انتہا پسندی کے بارے میں غلط تصورات ہیں کہ اسلام انتہا پسندی کی اجازت دیتا ہے ایسی صورتحال میں جماعت احمدیہ ایک اکسیر کی سی حیثیت رکھتی ہے۔ یہ وہ اسلام ہے جو کینیڈا کی تہذیب کے عین مطابق ہے اور امن کا ضامن ہے اور کہتے ہیں میرے خیال میں مسجد کا افتتاح اور امام جماعت احمدیہ کا دورہ اس پورے علاقے کے لئے علم میں اضافے کا باعث ہو گا اور لوگوں کے سامنے اسلام کا خوبصورت چہرہ پیش کیا جائے گا۔ ‘‘(خطبہ جمعہ فرمودہ18؍نومبر2016ءمطبوعہ الفضل انٹرنیشنل9؍دسمبر2016ءصفحہ7تا8)
دنیا کا متحد کرنے کا ذریعہ
جاپان کے ایک پروگرام میں ایک مشہور وکیل نے برملا اس بات کا اظہار کیا کہ آج ہم نے اسلام کا ایک خوبصورت چہرہ دیکھا ہے اور اس یقین پر پہنچے ہیں کہ اگر دنیا کسی ایک معاملے پر جمع ہوسکتی ہے تو وہ جماعت احمدیہ کے امام کا ہاتھ ہی ہوسکتا ہے۔ (عالم اسلام اور احمدیت از عبدالماجد طاہر صاحب الفضل انٹرنیشنل10؍ستمبر2021ء)
اصل امن پسند یہ لوگ ہیں
2009ء میں جب یورپ میں یہ تحریک چلی کہ مسلمانوں کی مسجدوں کے میناروں پر پابندی لگائی جائے تو اس وقت خلافت احمدیہ ہی اس تحریک کی راہ میں عالم اسلام کے لیے ڈھال بن گئی اور جماعت کے اعلیٰ کردار اور نمونہ کی بنیاد پر یہ منصوبہ ناکام ہوگیا۔ چنانچہ حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے خطبہ جمعہ 18؍ دسمبر 2009ء میں فرمایا: ’’اسلام کی یہ روشنی پھیلانے کا کام اب صرف اور صرف جماعت احمدیہ کا ہی مقدر ہے اور اسی کے ذمہ لگایا گیا ہے۔ چنانچہ صرف سوئٹزرلینڈ میں ہی نہیں، سپین کے ایک بہت بڑے سیٹلائٹ چینل نے یہ خبردی اورخبر کے ساتھ پیڈروآباد میں جو ہماری مسجد بشارت ہے اس کی تصویر دی اور مقامی لوگوں کے انٹرویو دئیے اور سب نے یہ کہا کہ اس قسم کے قوانین غلط ہیں اور یہ بتایا کہ ہمارے علاقہ میں مسلمانوں کی یہ مسجد ہے یہاں سے تو امن و محبت کا پیغام پھیلانے والی آواز اٹھتی ہے۔ بلکہ ایک شخص نے تو یہاں تک کہا کہ تم ان لوگوں سے Terrorismکی بات کرتے ہو، یا کسی قسم کی نفرت کی بات کرتے ہو، میں تو کہتا ہوں کہ اصل امن پسند یہ لوگ ہیں اور ہمیں بھی ان جیسا ہونا چاہئے۔ یہ ایک انقلاب ہے جو دنیا میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی جماعت نے آپؑ سے تربیت پاکر پیدا فرمایا ہے کہ وہ ملک جہاں چند دہائیاں پہلے مسلمان سے سلام کرنا بھی شاید ایک دوسرے کو خوفزدہ کردیتا تھا۔ آج ٹی وی پر کھل کر وہاں سے اعلان کیا جاتا ہے کہ اگر سپینش لوگ امن چاہتے ہیں تو ان مسلمانوں جیسے بنیں جو اسلام کی خوبصورت تعلیم کو ساری دنیا میں پھیلا رہے ہیں اور وہ یہ لوگ ہیں جو امن اور محبت کا سمبل (Symbol) ہیں۔ ‘‘(خطبہ جمعہ فرمودہ 18؍دسمبر2009ءمطبوعہ الفضل انٹرنیشنل8؍جنوری2010ءصفحہ6)
خطاب سے امن کی خوشبو
حضورانورایدہ اللہ تعالیٰ نے 22؍اکتوبر 2019ء کو برلن میں ایک تاریخی خطاب فرمایا جس میں بڑی تعداد میں ممبرانِ پارلیمنٹ اور دیگر اعلیٰ حکام شامل ہوئے۔ اس موقع پر جرمنی کی پارلیمنٹ کے ایک ممبر Bettina Muller (بیٹینا مولر) نے کہا کہ ’’امام جماعت احمدیہ کے خطاب سے بھی امن کی خوشبو آتی ہے اور آپ کے وجود میں بھی امن، سلامتی اور سچائی کی تاثیر تھی جو دورانِ پروگرام سارے ماحول میں مجھے محسوس ہوتی رہی۔ ‘‘(الفضل انٹرنیشنل10؍ستمبر2021ء)
امن و انصاف کا سپوت
یونائیٹڈ نیشن کے ادارہ UNESCO میں حضورانورایدہ اللہ تعالیٰ نے ایک تاریخی خطاب ارشاد فرمایا۔ وہاں مالی سے UNESCO کے ایمبیسڈر عمر کائتا صاحب نے اپنے خیالات کا اظہارکرتے ہوئے کہاکہ امام جماعت احمدیہ وسیع النظر شخصیت ہیں اور امن کے قیام کےلیے کوشاں ہیں۔ اور یہی وہ چیز ہے جس کی امتِ مسلمہ کو ضرورت ہے۔ عالمی انصاف، ہم آہنگی کا جو تصور امام جماعت احمدیہ پیش کرتے ہیں دنیا کو اس کی اشد ضرورت ہے۔ اور آج امت مسلمہ کو ایسے ہی لیڈر کی ضرورت ہے۔ آج میں ایک ایسے انسان کے قریب تھا جو امن و انصاف کا سپوت ہے۔ ( الفضل انٹرنیشنل10؍ستمبر2021ء)
اسلام کتنا پُر امن اور خوبصورت مذہب ہے
مختلف تقریبات کے ایڈریسز ہوں، خواہ پریس کانفرنسز ہوں، الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا کے انٹرویوز ہوں، سرکردہ افراد سے ملاقاتیں ہوں ہر جگہ حضورانور نے اسلام کا دفاع کرتے ہوئے اسلام کا خوبصورت چہرہ دکھایا ہے۔ اور غیروں نے اس بات کا برملا اظہار کیا کہ آج ہمیں علم ہوا ہے کہ اسلام کتنا پُر امن اور خوبصورت مذہب ہے۔
حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز اپنے خطبہ جمعہ فرمودہ 28؍اپریل 2017ء میں فرماتے ہیں: ’’پس ہم جب قرآن کی تعلیم کی روشنی میں دنیا کو امن، بھائی چارے صلح اور آشتی کا راستہ دکھاتے ہیں تو بے اختیار اکثر شریف الطبع غیر مسلموں کے منہ سے یہ الفاظ نکلتے ہیں کہ اسلام کی تعلیم تو بڑی خوبصورت تعلیم ہے۔ چنانچہ اس بات کا اظہار میرے جرمنی کے اس دورے کے دوران بھی مختلف فنکشنز میں ہوا جو مسجدوں کے افتتاح اور سنگ بنیاد کے موقع پر تھا۔
ایک شہر والڈ شُٹ (Waldshut) ہے وہاں مسجد تعمیر ہوئی ہے وہاں ایک مسجد کی افتتاحی تقریب میں ایک دوسرے شہر باسل (Basel) سے آئے ہوئے ایک ڈاکٹر صاحب تھے۔ وہ کہنے لگے کہ میری ساری زندگی یہ جستجو رہی کہ مجھے امن پسند مسلمان کہیں مل جائیں۔ آج آپ لوگوں نے میری اس خواہش کو پورا کر دیا۔ میں اپنے آپ کو بہت خوش قسمت محسوس کر رہا ہوں کہ آج مجھے یہ لوگ مل گئے ہیں۔ پھر وہاں اٹلی سے تعلق رکھنے والی ایک خاتون بھی آئی ہوئی تھیں۔ اپنے دوست کے ساتھ پروگرام میں شامل ہوئیں۔ اس نے بتایا کہ میرا دوست اس پروگرام میں شامل ہونے سے گھبرا رہا تھا کیونکہ اسلام کے بارے میں اس کے منفی جذبات تھے لیکن پروگرام میں شامل ہونے اور امام جماعت احمدیہ کا خطاب سننے کے بعد اس کا اسلام کے بارے میں نظریہ بالکل بدل گیا یہاں تک کہ اس نے فوراً اپنے موبائل سے اپنے کسی دوسرے مسلمان دوست کو میسج کیا کہ آج مجھے پتا لگا ہے کہ تمہارا مذہب کتنا خوبصورت ہے۔
پھر بوسنیا سے تعلق رکھنے والی تین بڑی تعلیم یافتہ خواتین اس تقریب میں شامل ہوئیں۔ انہوں نے اپنے تأثرات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ آج کا پروگرام موجودہ مشکل حالات میں امن کے قیام کے لیے ایک شمع کی حیثیت رکھتا ہے اور امام جماعت احمدیہ کا جو خطاب تھا اس میں آپ نے محبت اور ہمسایوں کے حقوق کی ادائیگی کی تاکید کی۔
پھر ایک مہمان نے کہا: ’’یہاں آپ کی محفل سے مجھے بھی کچھ برکتوں کو سمیٹنے کا موقع ملا اور یہاں آنا میرے لئے اعزاز کی بات ہے۔ اگر آج میں یہاں نہ آتا تو یقیناً بہت بڑی چیز سے محروم رہ جاتا۔ جماعت احمدیہ کے ذریعہ مجھے حقیقی اسلام کا تعارف حاصل ہوا جو ٹی وی میں نفرت اور تشدد والے اسلام کے بالکل برعکس ہے اور یہاں سے مجھے امن اور محبت ملی ہے اور صرف یہ نہیں کہ لفظاً امن اور محبت ملی ہے بلکہ عملی طور پر بھی یہاں ایسے انسان ملے ہیں جو نفرت نہیں چاہتے۔ ‘‘ پس ہر احمدی کا جو ذاتی فعل اور عمل ہے وہ بھی ایک خاموش تبلیغ کر رہا ہوتا ہے۔
ایک مہمان آئے تو ان کے امن کے حوالے سے اور عورتوں کے حقوق کے حوالے سے بعض تحفظات تھے اور یہ بھی ان کا سوال تھا کہ آپ کا خلیفہ امن کے لئے کیا کوششیں کرتا ہے؟ اور جب خطاب سن لیا تو کہنے لگے کہ ’’ان سب باتوں کا جو میرے ذہن میں تھیں، خطاب میں ذکر کر دیا اور میرے سب تحفظات دور ہو گئے ہیں ‘‘۔ اور کہنے لگے کہ ’’آپ لوگ تو امن کے سفیر ہیں۔ تمام مسلمانوں کو اس تعلیم پر عمل کرنا چاہئے‘‘۔ اور پھر یہ بھی انہوں نے کہا کہ ’’اب میں اپنے دائرہ کار میں، جو بھی میرا حلقہ ہے اس میں آپ کا یہ پیغام پھیلانے میں پوری پوری کوشش کروں گا‘‘۔(خطبہ جمعہ فرمودہ 28؍اپریل 2017ء)
جماعت احمدیہ کی امن مساعی کاایک واضح اعتراف
27؍جون 2012ء کو کیپیٹل ہل واشنگٹن ڈی سی میں ایک تاریخی واقعہ رونما ہوا امام جماعت احمدیہ حضرت مرزا مسرور احمد صاحب خلیفۃالمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے اہم اراکین کانگریس و سینیٹ، سفیروں، وائٹ ہاؤس اور سینیٹ ڈیپارٹمنٹ کے سٹاف، غیرسرکاری تنظیموں کے راہنماؤں، مذہبی قائدین، اساتذہ کرام، مشیروں، سفارتی نمائندوں، تھنک ٹینک اور پینٹاگان کے نمائندوں اور میڈیا کے افراد سے خطاب فرمایا۔
یہ اپنی نوعیت کا پہلا اجلاس تھا جس نے ریاست ہائے متحدہ امریکہ کے بعض با اثر ترین سیاست دانوں، بشمول ایوان نمائندگان میں ڈیمو کریٹک لیڈر محترمہ نینسی پلوسی(Nancy Pelosi) کو یہ موقع فراہم کیا کہ وہ براہ راست اسلام کے پیغام کو سن سکیں۔اس تقریب کے بعد حضرت صاحب کو کیپیٹل ہل کی عمارت کا دورہ کروایا گیا بعد ازاں آپ کو پورے اہتمام سے ایوان نمائندگان میں لے جایا گیا جہاں آپ کے دورہ امریکہ کے احترام میں ایک قرارداد پیش کی گئی۔یہ قرار داد جماعت احمدیہ کی امن مساعی کاایک واضح اعتراف ہے۔
امریکی کانگریس قرارداد 709
یہ قرارداد امام جماعت احمدیہ عالمگیر حضرت مرزا مسرور احمد صاحب جو جماعت کے روحانی اور انتظامی سربراہ ہیں کو ان کی واشنگٹن آمد پر خوش آمدید کہنے کے لیے پیش کی جا رہی ہے۔ ہم امن عالم،انصاف،عدم تشدد، حقوق انسانی،مذہبی آزادی اور جمہوریت سے ان کی وابستگی کو سراہتے ہیں۔
یہ قرارداد جماعت احمدیہ عالمگیر کے امام اور روحانی اور انتظامی سربراہ حضرت مرز ا مسرور احمد صاحب کے ریاست ہائے متحدہ امریکہ کے تاریخی دورہ کے موقع پر پیش کی جا رہی ہے جو آپ 16 جون 2012ء تا 2جولائی 2012ء فرما رہے ہیں۔
یہ قرارداد اس لیے پیش کی جا رہی ہے کہ آپ 22 اپریل 2003ء کو حضرت مرزا غلام احمد (قادیانی علیہ السلام) کے تاحیات خلیفہ منتخب کیے گئے تھے۔ یہ قرارداد اس لیے بھی پیش کی جا رہی ہے کہ حضرت مرزا مسرور احمد صاحب امن کو فروغ دینے والے ایک اہم مسلمان رہنما ہیں۔ آپ نے اپنے خطبات،تقاریر، کتب اور انفرادی ملاقاتوں کے ذریعہ مسلسل خدمت انسانیت دنیا بھر میں انسانی حقوق اور امن وانصاف پر مبنی معاشرہ کے قیام کے لیے آواز بلند کی ہے یہ وہ اقدار ہیں جن پر جماعت احمدیہ قائم ہے۔
یہ قرارداد اس لیے بھی پیش کی جا رہی ہے کہ جماعت احمدیہ وہ مسلمان جماعت ہے جو بار بار امتیازی سلوک ظلم و ستم اور تشدد کا نشانہ بنی ہے۔
28؍مئی 2010ء کوچھیاسی احمدی مسلمانوں کو لاہور پاکستان میں اس وقت قتل کر دیا گیا جب جماعت احمدیہ کی دو مساجد پر دہشت گردوں نے حملہ کیا۔
یہ قرارداد اس لیے پیش کی جا رہی ہے کہ مسلسل فرقہ وارانہ تشدد کا نشانہ بننے کے باوجود حضور نے تشدد کا راستہ اختیار کرنے سے ہمیشہ منع فرمایا۔
یہ قرارداد اس لیے پیش کی جا رہی ہے کہ 27؍جون2012ء کی صبح کو حضور کیپیٹل ہل کےRayburn House Office Building میں دونوں سیاسی پارٹیوں کی طرف سے دیے گئے ایک استقبالیہ تقریب میں ’’امن کا راستہ۔ اقوام عالم کے مابین انصاف پر مبنی تعلقات‘‘ کے موضوع پر ایک فکرانگیز خطاب فرمائیں گے۔
پس یہ قرار پایا کہ ایوان نمائندگان :
حضرت مرزا مسرور احمد صاحب واشنگٹن ڈی سی میں تشریف لانے پر خوش آمدید کہتا ہے۔
عالمی اور انفرادی امن نیز عالمی انفرادی انصاف کے فروغ کے لیے حضور کی کوششوں کو سراہتا ہے۔
حضور کو اس امر پر بھی سراہتا ہے کہ آپ نے بڑی استقامت سے شدید ظلم کے باوجود احمدیوں کو ہمیشہ یہ تلقین فرمائی کہ وہ کسی قسم کا تشدد کا راستہ اختیار نہ کریں۔(عالمی بحران اور امن کی راہ صفحہ57 و71-72)