حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے بے مثل عشق رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا ایمان افروز تذکرہ (خلاصہ اختتامی خطاب حضور انور برموقع جلسہ سالانہ برطانیہ ۲۰۲۴ء)
حضورؑ کا دعویٰ ہی یہی ہے کہ مَیں نے جو کچھ بھی پایا ہے وہ محمدﷺ کے وسیلے سے پایا ہے
حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کا جلسہ سالانہ برطانیہ کے تیسرے روز معرکہ آرا اختتامی خطاب کا خلاصہ
(حديقة المہدي ۲۸؍ جولائی ۲۰۲۴ء، نمائندگان الفضل انٹرنيشنل) آج جلسہ سالانہ کا آخري دن ہے۔ حضورِ انور ايّدہ اللہ تعاليٰ بنصرہ العزيز نے آج شام جلسہ سالانہ کے اختتامي اجلاس سے معرکہ آرا اور پُرمعارف خطاب فرمايا۔اختتامي خطاب کے ليے حضورانور چار بج کرچار منٹ کے قريب نعرہ ہائے تکبير کي گونج ميں جلسہ گاہ ميں رونق افروز ہوئے۔
جلسہ سالانہ کے موقع پر شاہ چارلس سوم کا خصوصي پيغام
اس کے بعد مکرم امير صاحب يوکے نے شاہ چارلس سوم کي جانب سے جلسہ سالانہ پر بھجوايا جانے والا خصوصي پيغام پڑھ کر سنايا جس ميں عزت مآب بادشاہ نے جلسہ سالانہ کے حوالے سے اپنے نيک جذبات کا اظہار فرمايا۔ شاہ چارلس سوم نے اپنے پیغام میں مزید لکھا کہ اس اہم تقریب کے انعقاد میں شامل تمام افراد کی محنت قابل تعریف ہے، جس کا مقصد کمیونٹی کے ارکان کو ایک جگہ جمع کر کے امن، اتحاد اور بھائی چارے کے اقدار کو منانا ہے۔ یہ سن کر دل کو خوشی ہوئی کہ حضور حضرت مرزا مسرور احمد صاحب تشریف لائیں گے اور کانفرنس کے دوران اپنی حکمت اور راہنمائی پیش کریں گے۔
اجلاس کي کارروائي کا باقاعدہ آغاز تلاوت قرآن کريم سے ہوا۔ مکرم محمود وردی صاحب کو سورت آل عمران کی آیات ۱۹۱ تا ۱۹۶کی تلاوت کرنے اور تفسیر صغیر سے ترجمہ پیش کرنے کی توفیق ملی۔ اس کے بعد فرج عودہ صاحب نےحضرت مسیح موعودؑ کا عربی قصیدہ پیش کرنے کی سعادت حاصل کی جس کا آغاز درج ذیل شعرسے ہوا:
یَا عَیْنَ فَیْضِ اللّٰہِ وَالْعِرْفَانٖ
يَسْعٰى اِلَيْكَ الْخَلْقُ كَالظَّمَاٰنِ
ان اشعار کا اردو ترجمہ مکرم منصور ضیاءصاحب نے پیش کیا۔
اس کے بعد مکرم مرتضیٰ منان صاحب نے حضرت اقدس مسیح موعودؑ کے منظوم کلام
ہر طرف فکر کو دوڑا کے تھکایا ہم نے
کوئی دیں دینِ محمدؐ سا نہ پایا ہم نے
میں سے چند اشعار خوش الحانی سے پڑھے۔
تعليمي اعزازات کا اعلان
اس کے بعد پروگرام کے مطابق مکرم سيکرٹري صاحب تعليم جماعت يوکے نے تعليمي ميدان ميں نماياں کاميابي حاصل کرنے والے طلبہ کے نام پڑھ کر سنائے۔ محترم سيکرٹري صاحب تعليم نے کہا کہ اس سال ہميں۲۷۵؍ درخواستيں موصول ہوئيں جن ميں سے ۱۰۳؍ لجنہ کے ليے منظور ہوئيں جبکہ ۷۳؍ مردوں کے ليے منظور ہوئيں۔
جی سی ايس ای
برہان احمد، عدیل طاہر، دانیال احمد علوی، عمیر شیروانی، فیضان عمر احمد، حارث منیر، عطاء خان، جسیر احمد، اذان شاہ، ذیشان اکبر، سدید امین انجم، مسرور لطیف، حمزہ کامران، تنزیل خرم، رانا توحید رحمان، شہریار خرم باجوہ، ظافر احمد، سجیل مرزا، اعزاز محمود، Rupert بھٹی، صباحت امان احمد، ثمر احمد، نبیل حمید، میاں ولید احمد، نیر بادو، حسن رحمان، زایان شکیل
اے ليول
عتیق احمد ڈار، ثاقب علی، فاران احمد، ارحم خان، ذیشان احمد، عمر کامران، روحان ملک، نائل احمد، طلحہ ناصر، طلحہ ظفر، راحیل انور، ماہر محمود، ثاقب عادل، مدبر احمد ظفری، زین سیٹھی، سجیل طفیل، امان احمد
ڈگری
وجیہ معاذ، سہراب احمد سید، محمد ذیشان قریشی، عدیل جھینگور، دانش احمد، معاذ محمود ملک، توفیق احمد، شاذب امیر، ڈاکٹر حارث احمد، فہیم الحق عبداللہ، احسان احمد، جنید نصراللہ، عبدالرحیم بٹ، ثمین شہزاد، کامران احمد، منظر اقبال ملک، صہیب احمد، ڈاکٹر طلحہ احمد، ڈاکٹر صباحت احمد، عرفان اللہ خان، فضل احمد گورایہ، جاذب رحمان، رضوان قریشی، شاہزیب بشیر باجوہ، ڈاکٹرشرجیل طاہر، ڈاکٹر مدثر طاہر اعوان، ڈاکٹر عاقب رشید، ڈاکٹر ذیشان احمد، ڈاکٹر شہروز محمود، ڈاکٹر مبارز احمد، ڈاکٹر اسد ملک، ڈاکٹر ثاقب منیر احمد، ڈاکٹر منادی احمد۔
داؤد احمد (ان کی ڈگری بیرون ملک کی ہے لیکن یہ برطانیہ میں رہائش پذیر ہیں)
احمديہ مسلم انعام برائے فروغ امن
بعد ازاں مکرم امير صاحب يوکے نے احمديہ پيس پرائز کا اعلان کيا۔ امسال اٹلی کے Nicolò Govoni احمديہ پيس پرائز حاصل کرنے کے مستحق ٹھہرے۔ وہ ایک مصنف اور انسانی حقوق کے کارکن ہیں اور این جی او ’’Still I Rise‘‘ کے صدر اور سی ای او ہیں، جوافریقہ اور دیگر ممالک میں پسماندہ بچوں کی تعلیم کے لیے کام کرتی ہے۔ يہ انعام انہيں آئندہ کسي پيس سمپوزيم ميں ديا جائے گا۔
چار بج کر چالیس منٹ پر حضورانور ايدہ اللہ تعاليٰ بنصرہ العزيز منبر پر تشريف لائے اور تمام حاضرين کو السلام عليکم ورحمة اللہ کا تحفہ عطا فرما کر اختتامي خطاب کا آغاز فرمايا۔
خلاصہ اختتامی خطاب
تشہد، تعوذ اور سورة الفاتحہ کي تلاوت کے بعد فرمايا کہ
حضرت مسیح موعودؑ کے آنحضرتﷺ سے عشق و محبت کے حوالے سے کچھ کہوں گا۔ یہ سب باتیں حضورؑ نے اپنی مجالس میں بیان فرمائی ہیں۔ یہ تفاصیل اس قدر ہیں کہ جن کا ایک مجلس میں احاطہ ممکن نہیں۔ اللہ کرے کہ ہمارے مخالفین بھی اس کو غور سے سنیں اور اس پر غور کریں۔ مخالفینِ احمدیت حضورؑ کے دعوے کے آغاز سے ہی یہ الزام لگاتے آرہے ہیں کہ نعوذباللہ آپؑ نے مسیح و مہدی ہونےکا دعویٰ کرکے آنحضورﷺ کی توہین کی ہے۔ آج تک جماعت کی مخالفت اسی بات کا بہانہ بناکر کی جاتی ہے۔یہ سارا فتنہ نام نہاد علما ءکا برپا کیا ہوا ہے اور عوام الناس ان مولویوں کی باتوں کا شکار ہیں۔
حضورؑ کا دعویٰ ہی یہی ہے کہ مَیں نے جو کچھ بھی پایا ہے وہ محمدﷺ کے وسیلے سے پایا ہے۔
حضورؑ نے تو واضح فرمایا ہے کہ مَیں محمدﷺ کے بغیر کچھ بھی نہیں ہوں۔ آپؑ کی ابتدائی کتب سے لے کے آخری کتب اور مجالس تک سوائے عشقِ محمدﷺ کے کچھ اور نظر ہی نہیں آتا۔ حضورؑ کی کتابوں میں حضرت محمدرسول اللہﷺ کی افضلیت اور بلند ترین مقام کا دلفریب ذکر پایا جاتا ہے۔ حضورؑ نے فرمایا ہے کہ
آنحضرتﷺ کی دس روزہ پیروی سے وہ روشنی ملتی ہے جو اس سے پہلے دس ہزار برس کے مجاہدے سے بھی ممکن نہیں۔
آپؐ اللہ تعالیٰ کی وہ عظمت قائم کرنے والے ہیں جس کا کوئی مقابلہ ممکن ہی نہیں۔ فرمایا کہ
تمام انبیاء مسِ شیطان سے پاک ہیں اور سب سے بڑھ کر ہمارے نبیﷺ مسِ شیطان سے پاک ہیں۔
آپؑ نے اس بات کی بھی وضاحت فرمائی کہ اب شفیع صرف اور صرف محمدﷺ کی ذات ہے۔ آپؐ کو ہی یہ حق دیا گیا ہے کہ شفاعت کریں۔ آپؑ اس بات کا اعلان فرماتے ہیں کہ
ہمارے نبیﷺ معصوم اور خاتم الانبیاء تھےاور اس مقام تک اور کوئی نہیں۔
حضورؑ نے آنحضرتﷺ کے نور اور جلال کے مقام کو ثابت فرمایا۔ حضورؑ نے اس بات کا اعلان فرمایا کہ ختمِ نبوت کا انکار کفر ہے۔ آپؑ نے اپنے ماننے والوں کو خاص طور پر آنحضرتﷺ پر دُرود بھیجنے کی تلقین فرمائی۔
اس وقت مَیں حضرت مسیح موعودؑ کے بعض اقتباسات اور ارشادات پیش کروں گا۔ حضورؑ اپنے فارسی شعر میں فرماتے ہیں:
بعد از خدا بعشق محمدؐ مخمرم
گر کُفر ایں بود بخدا سخت کافرم
یعنی: خدا کے بعد مَیں محمدﷺ کے عشق میں مخمور ہوں۔ اگر یہ کفر ہے تو خدا کی قسم مَیں سب سے بڑا کافر ہوں۔
یہ آپؑ کے عشق کی کیفیت ہے۔ آپؑ فرماتے ہیں کہ یہ تمام شرف مجھے صرف ایک نبی کی پیروی سے ملا ہے جس کے مدارج اور مراتب سے دنیا بےخبر ہے یعنی سیدنا محمد مصطفیٰﷺ۔
یہ عجیب ظلم ہے کہ نادان لوگ کہتے ہیں کہ عیسیٰ آسمان پر زندہ ہے حالانکہ زندہ ہونے کی علامات آنحضرتﷺ کے وجود میں پاتا ہوں۔ وہ خدا جسے دنیا نہیں جانتی ہم نے اس خدا کو اس نبی کے ذریعے سے دیکھ لیا۔
فرمایا: اس نبیؐ کی یہ شان ہے کہ اس سے محبت کرنے والے سے خدا کلام کرتا ہے۔ یہ بات آنحضرتﷺ کی شان میں اضافہ کرتی ہے نہ کہ کمی۔
ایک مجلس میں آنحضرتﷺ کے مقام کی حقیقت بیان کرتے ہوئے فرمایا: مَیں سچ کہتا ہوں اور اپنے تجربہ سے کہتا ہوں کہ کوئی شخص حقیقی نیکی کرنے والا اور خدا تعالیٰ کی رضا کو پانے والا نہیں ٹھہر سکتا جب تک کہ وہ محمدرسول اللہﷺ کی اتباع میں کھویا نہ جائے۔
حقیقة الوحی جو آپؑ کی زندگی کی آخری کتابوں میں سے ہے اس میں آپؑ فرماتے ہیں کہ مَیں ہمیشہ تعجب کی نگاہ سے دیکھتا ہوں کہ یہ عربی نبی جس کا نام محمدﷺ ہے ہزار ہزار درود و سلام اس پر۔ یہ کس عالی مرتبے کا نبی ہے اس کے عالی مقام کا انتہا معلوم نہیں ہوسکتا اور اس کی تاثیر قدسی کا اندازہ کرنا انسان کا کام نہیں ہے۔ افسوس! کہ جیسا حق شناخت کا ہے اس کے مرتبے کو شناخت نہیں کیا گیا۔ وہ توحید جو دنیا سے گم ہوچکی تھی وہی ایک پہلوان ہے جو دوبارہ اس کو دنیا میں لایا۔ اس نے خدا سے انتہائی درجے پر محبت کی اور انتہائی درجے پر بنی نوع کی ہمدردی میں اس کی جان گداز ہوئی۔ اس لیےخدا نے جو اس کے دل کے راز کا واقف تھا اس کو تمام انبیاءاور تمام اولین و آخرین پر فضیلت بخشی۔ مخالفین اعتراض کرتے ہیں کہ نعوذ باللہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے مسیح موعود اور مہدی معہود کا دعویٰ کر کے ختم نبوت کی مہر کو توڑا ہے اور آپؐ کی توہین کی ہے ۔ آپؑ فرماتے ہیں
یہ اعتراض تواِن مخالفین پر ہے جو غیر قوموں کا نبی لا کرآنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی امت کی اصلاح کروانا چاہتے ہیں ۔
آپؑ فرماتے ہیں:
مَیں کھول کر کہتا ہوں کہ وہ شخص لعنتی ہے جو آنحضرتﷺ کے سوا آپؐ کے بعد کسی اور کو نبی یقین کرتا ہے اور آپؐ کی ختمِ نبوت کوتوڑتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ کوئی ایسا نبی آنحضرتﷺ کے بعد نہیں آسکتا جس کے پاس وہی مہرِ نبوت محمدیؐ نہ ہو۔
ہمارے مخالف الرائے مسلمانوں نے یہی غلطی کھائی ہے کہ وہ ختم نبوت کی مہر کو توڑ کر اسرائیلی نبی کو آسمان سے اُتارتے ہیں اورمیں یہ کہتا ہوں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی قوت قدسی اور آپؐ کی ابدی نبوت کا یہ ادنیٰ کرشمہ ہے کہ تیرہ سو برس کے بعد بھی آپؐ ہی کی تربیت اور تعلیم سے مسیح موعود آپؐ کی امت میں وہی مہر نبوت لے کرآتا ہے۔ اگر یہ عقیدہ کفر ہے تو میں اس کفر کو عزیز رکھتا ہوں لیکن یہ لوگ جن کی عقلیں تاریک ہو گئی ہیں، جن کو نُور نبوت سے حصہ نہیں دیا گیا اس کو سمجھ نہیں سکتےاور اس کو کفر قرار دیتے ہیں حالانکہ یہ وہ بات ہے جس سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا کمال اور آپؐ کی زندگی کا ثبوت ہوتا ہے۔
حضرت مسیح موعود علیہ السلام، اللہ تعالیٰ سے کلام کرنے اور یہ مقام ملنے کے بارے میں فرماتے ہیں کہ میرے نادان مخالفوں کو خدا روز بروز انواع و اقسام کے نشانات دکھلانےسے ذلیل کرتا جاتا ہے اور میں اُسی کی قسم کھا کر کہتا ہوں کہ جیسا اُس نے ابراہیمؑ سے مکالمہ مخاطبہ کیا اور اسحاق سے اور اسماعیل سے اور یعقوب سے اور یوسف سے اور موسیٰ سے اور مسیح ابن مریم سے اور سب کے بعد ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے ایسا ہمکلام ہوا کہ آپؐ پرسب سے زیادہ روشن اور پاک وحی نازل کی ایسا ہی اُس نے مجھے بھی اپنے مکالمہ و مخاطبہ کا شرف بخشا مگر یہ شرف مجھے محض آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی سے حاصل ہوا۔
اگر میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی امت نہ ہوتا اورآپؐ کی پیروی نہ کرتا تو اگر دنیا کے تمام پہاڑوں کے برابر بھی میرے اعمال ہوتے تو پھربھی میں کبھی شرف مکالمہ مخاطبہ ہرگز نہ پاتا کیونکہ اب بجز محمدی نبوت کے سب نبوتیں بند ہیں۔
شریعت والا نبی کوئی نہیں آ سکتا اور بغیر شریعت کے نبی ہو سکتا ہے مگر وہی جو پہلے امتی ہو ۔ پس اسی بنا پر میں امتی بھی ہوں اور نبی بھی۔
اور میری نبوت یعنی مکالمہ مخاطبہ الٰہیہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت کا ایک ظل ہے اوربجز اس کے میری نبوت کچھ بھی نہیں۔ وہی نبوت محمدیہ ہے جو مجھ پر ظاہر ہوئی اور چونکہ میں محض ظل ہوں اور امتی ہوں اس لیے آنجناب صلی اللہ علیہ وسلم کی اس سے کچھ قصر شان نہیں اور یہ مکالمہ الٰہیہ جو مجھ سے ہوتا ہے یقینی ہے اگر میں ایک دم کے لیے بھی اس میں شک کروں تو کافر ہوجاؤں اور میری آخرت تباہ ہوجائے ۔ اب یہ دعویٰ ہے اللہ تعالیٰ کو گواہ بنارہے ہیں کہ میں نے جو کچھ پایا اس طرح پایا۔اللہ تعالیٰ مجھے تباہ کرسکتا ہے اگر میں اس کو نہ مانتا ہوں ۔
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے مقام اورآپؐ کے لیے غیرت کے جذبات کا اظہار کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ
وہ اعلیٰ درجہ کا نور جو انسان کو دیا گیا یعنی انسان کامل کو۔ وہ ملائک میں نہیں تھا۔ نجوم میں نہیں تھا۔ قمر میں نہیں تھا۔ آفتاب میں بھی نہیں تھا۔ وہ زمین کے سمندروں اور دریاؤں میں بھی نہیں تھا۔ وہ لعل اور یاقوت اور زمرد اور الماس اور موتی میں بھی نہیں تھا۔ غرض وہ کسی چیز اَرضی اور سماوی میں نہیں تھا۔ صرف انسان میں تھا۔ یعنی انسان کامل میں جس کا اتم اور اکمل اور اعلیٰ اور ارفع فرد ہمارے سید و مولیٰ سید الانبیاء سیدالاحیاء محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم ہیں۔ سو وہ نور اس انسان کو دیا گیا اور حسب مراتب اس کے تمام ہم رنگوں کو بھی یعنی ان لوگوں کو بھی جو کسی قدر وہی رنگ رکھتے ہیں۔ …اور یہ شان اعلیٰ اور اکمل اور اتم طور پر ہمارے سیّد، ہمارے مولیٰ، ہمارے ہادی، نبی اُمّی صادق مصدوق محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم میں پائی جاتی تھی
ا ٓنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے عشق و محبت کا اظہار آپؑ کے ایک خط سے بھی ہوتا ہے جو آپؑ نے عرب کے بزرگوں اور صلحاء کے نام عربی زبان میں لکھا تھا ۔ اس کا آغاز جن الفاظ میں کیا اس کے ایک ایک حرف سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات بابرکات سے عشق و محبت شہد کی طرح ٹپکتا نظر آتا ہے۔اس میں آپؑ نے ایک جگہ لکھا کہ میں تمہارے ملکوں کی اور تمہاری جمعیت کی برکات دیکھنے کا مشتاق ہوں تا اس زمین کو دیکھوں جس کو مخلوق کے سردار کے قدموں نے چھؤا۔اور اس مٹی کا سرمہ اپنی آنکھوں میں لگاؤں،اس زمین کی صلاحیتوں اور صلحاء کو ملوں ۔پس کیسا عربوں کو پیغام دیا اور عربوں کو بھی اس پر غور کرنا چاہیے ۔کیا کوئی عقلمند کہہ سکتا ہے کہ یہ شخص آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی توہین کرسکتا ہے ؟
آج کل غیر اسلامی دنیا میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی توہین اور قرآن کریم کی ہتک اور توہین کے واقعات ہوتے رہتے ہیں۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے زمانے میں بھی اس طرح ہوا کرتا تھا۔ایک جگہ آپؑ نے فرمایا کہ
خدا کی قسم اگر میری ساری اولاد اوراولاد کی اولاد اور میرے سارے دوست اور وہ سارے معاون میری آنکھوں کے سامنے قتل کر دیے جائیں اور خود میرے اپنے ہاتھ اور پاؤں کاٹ دیے جائیں اور میری آنکھ کی پتلی نکال پھینکی جائے، اپنی تمام مرادوں سے محروم کر دیا جاؤں اور اپنی تمام خوشیوں اور تمام آسائشوں کو کھوبیٹھوں تو ان ساری باتوں کے مقابل پر بھی میرے لیے یہ صدمہ زیادہ بھاری ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم پر ایسے ناپاک حملے کیے جائیں۔
حضور انور نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے عشق سے متعلق تحریرات میں سے مختلف اقتباسات پیش کرتے ہوئے فرمایا کہ
اس محبت کے اظہار کے لیے اپنی زبانوں کو ہمیشہ درود سے تر رکھیں۔ یہاں سےجب جائیں تو عشق رسول صلی اللہ علیہ وسلم پہلے سے بڑھ کر قائم کریں۔ درود شریف کی حقیقت اور اس کے پڑھنے کی ضرورت کے بارے میں پہلے سے زیادہ توجہ دیں۔
آپؑ نے فرمایا درود شریف وہی بہتر ہے کہ جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان مبارک سے نکلا اور وہ یہ ہے
اَللّٰھُمَّ صَلِّ عَلیٰ مُحَمَّدٍ وَّعَلیٰٓ اٰلِ مُحَمَّدٍکَمَا صَلَّیْتَ عَلیٰٓ اِبْرَاہِیْمَ وَعَلیٰٓ اٰلِ اِبْرَاہِیْمَ اِنَّکَ حَمِیْدٌ مَّجِیْدٌ
اَللّٰھُمَّ بَارِکْ عَلیٰ مُحَمَّدٍ وَّعَلیٰٓ اٰلِ مُحَمَّدٍکَمَا بَارَکْتَ عَلیٰٓ اِبْرَاہِیْمَ وَعَلیٰٓ اٰلِ اِبْرَاہِیْمَ اِنَّکَ حَمِیْدٌ مَّجِیْدٌ
اللہ تعالیٰ آپ لوگوں کو خیریت سے اپنے گھروں میں لے کرجائے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی عظمت قائم کرنے کے لیے ہمیشہ آپ کے دلوں میں ایک جوش بھی ہو اور اس کے لیے کوشش بھی کرتے رہیں اوریہ کوشش کریں کہ جلد سے جلد آپؐ کے جھنڈے تلے دنیا کو لانے والے بنیں گے۔ اس کے لیے کوشش بھی ہو اور دعا بھی ہو۔ اللہ تعالیٰ ہمیں اس کی توفیق عطا فرمائے۔
حضور انور کا خطاب پانچ بج کر تیس منٹ تک جاري رہا۔ اس کے بعد حضور انور نے اجتماعي دعا کروائي۔ دعا کے بعد حضور انور نے اعلان فرمايا کہ امسال اللہ تعاليٰ کے فضل سے۱۲۱ ؍ممالک سے کُل ۴۳؍ ہزار ۴۶۰؍احباب جماعت نے شرکت کي جبکہ ۵۲ ممالک میں ۹۸؍ سینٹرز پر احباب بذريعہ لائيو سٹريمنگ شامل ہوئے۔
اس کے بعد عربي، اردو، افريقي، بنگالي اور سپينش زبانوں ميں گروپس کي صورت ميں ترانے پيش کيے گئے۔
پانچ بج کر سینتالیس منٹ پر حضور انور نے جلسہ سالانہ کے تمام شرکاء اور ايم ٹي اے کے توسط سے دنيا بھر کے تمام احمديوں کو السلام عليکم ورحمة اللہ کا تحفہ عنايت فرمايا اور جلسہ گاہ سے تشريف لے گئے۔