برکات کے دن آئے
احساس سے لبالب جذبات کے دن آئے
ہم پر ہیں نعمتوں کی بہتات کے دن آئے
کیونکر ہو شکر رب کا، جس نے دکھائے یہ دن
خوشیوں، مسرّتوں کی بارات کے دن آئے
ذکر خدا، عبادت، کثرت سے ہوں دعائیں
مقبول دعاؤں کی ساعات کے دن آئے
ملتے ہوئے گلے سب، لگتے ہیں بچھڑے بھائی
ہمدردی، ہم کلامی، اخوات کے دن آئے
عرشِ بریں سے اترے کرّوبياں کے لشکر
قدّوسیوں کے سننے، نغمات کے دن آئے
یہ تین دن ہیں رب کی برکات سے منوّر
عرفان و علم کی پھر برسات کے دن آئے
یاں پر عرب عجم کا آپس میں ہو تعارف
قادر کی قدرتوں کی سوغات کے دن آئے
اللہ نے دی عظمت، جلسے میں رکھ کے برکت
دنیا ہے اس کی شاہد، برکات کے دن آئے
جلسہ بھی یہ ہمارا رب کا نشان ہے اک
صدقِ مسیح ؑ کے پھر اثبات کے دن آئے
جلسہ ہے اک نشانی، مولا نے جو عطا کی
تازہ دکھانے سب کو آیات کے دن آئے
سب طفل، مرد و زن ہیں خدمات پر مقرّر
خوش خلقی، خوش دلی کی عادات کے دن آئے
جو میزبان ہیں وہ دلشاد ہو رہے ہیں
مہمان آ رہے ہیں، خدمات کے دن آئے
ذكرِ خدا سے سب کا معمور لمحہ لمحہ
بھر پُور لذّتوں سے اوقات کے دن آئے
قربت خدا کی ہر یک محسوس کر رہا ہے
پُر کیف، پُر معارف لمحات کے دن آئے
سجدے میں آنکھ پُرنم، دل بے قرار بھی ہیں
رکھنے خدا کے آگے حاجات کے دن آئے
سروَر کی بھی دعاؤں کو كوئی پھل عطا ہوں
گلزار اور مثمّر باغات کے دن آئے
(محمد ابراہیم سرور۔ قادیان)