مخالفین کے لئے دعا
(انتخاب از خطبہ جمعہ حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ ۱۴؍مئی ۲۰۲۱ء)
گذشتہ دنوں ایک مولوی صاحب سوشل میڈیا پر فرما رہے تھے کہ دنیامیں کہیں بھی فساد اور لڑائی ہو رہی ہے اس کی وجہ قادیانی ہیں بلکہ فلسطین کے فساد کی بھی وہ ذمہ داری قادیانیوں پہ، احمدیوں پہ ڈال رہے تھے۔ اور پھر آگے جس طرح ان لوگوں کا طریقہ کار ہے، جس طرح عام طور پر کہا کرتے ہیں کہ اس لیے احمدیوں کے ساتھ یہ سلوک کرو، وہ سلوک کرو اور ان کو قتل کرنا، ان کو مارنا ہر چیز جائز ہے۔ بہرحال یہ ان کا طریقہ ہے یہ ان کی باتیں ہیں اور جب سے احمدیت کی ابتدا ہوئی ہے یہی باتیں یہ لوگ کرتے رہے ہیں جو ائمۃالکفر کہلاتے ہیں۔ لیکن خدا کا لاکھ لاکھ شکر ہے کہ ہم اس مسیح و مہدی کے ماننے والے ہیں جس نے ہمیں یہ تعلیم دی ہے کہ ان کی یہ خرافات سن کر، دل آزاری والی باتیں سن کر اور نہ صرف یہ باتیں بلکہ ان کی عملی کوششیں بھی دیکھ کر، ان کا بھی سامنا کر کے صبر اور دعا سے تم نے کام لینا ہے۔ یہ ائمۃالکفر ہیں جنہوں نے معصوم مسلمانوں کو جماعت احمدیہ کے بارے میں غلط باتیں پھیلا کر بھڑکایا ہوا ہے۔ عوام الناس تو شاید کم علمی کی وجہ سےیہ سمجھتے ہیں کہ واقعہ میں احمدی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی نعوذباللہ توہین کے مرتکب ہو رہے ہیں اس لیے ان کے ساتھ یہ سلوک ضرور ہونا چاہیے، جو مولوی کہتا ہے وہ سچ کہتا ہے۔ یہ تو عوام الناس کی، عامۃ المسلمین کی حالت ہے لیکن جو علم رکھنے والے مولوی ہیں اور حقیقت میں علم رکھتے ہیں کہ جو کچھ وہ کہہ رہے ہیں اس کی کوئی ٹھوس بنیادنہیں ہے اور صرف یہ لوگ فساد پیدا کرنے کی کوشش کرتے ہیں تا کہ ان کے منبر سلامت رہیں اور ان کو کوئی ان کی جگہ سے نہ ہلائے۔ اللہ تعالیٰ بہتر جانتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ان لوگوں کے ساتھ کیا سلوک کرنا ہے۔ ہمارا کام تو جیسا کہ میں نے کہا دعا کرنا ہے اور جیسا کہ میں نے عید کے خطبہ میں بھی کہا تھا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا ہے کہ دشمن کے لیے بھی دعا کرو۔ (ماخوذ از ملفوظات جلد ۳ صفحہ ۹۶)
ہم تو دعا کرنے والے ہیں اور دعا کرتے ہیں اور کرتے رہیں گے۔ یہ مخالفت کوئی نئی چیز نہیں ہے۔ یہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے زمانے سے شروع ہے۔ آپؑ پر بھی حملے کیے جاتے تھے۔ آپؑ کی باتیں سننے کے لیے آنے والوں پر بھی حملے کیے جاتے تھے۔ بعض لوگ جو ویسے ہی جلسوں میں آجاتے ہیں کہ دیکھیں کہتے کیا ہیں۔ ضروری نہیں ہوتا کہ وہ مان بھی لیں گے لیکن ان مولویوں کو خطرہ ہوتا تھا کہ اگر انہوں نے حضرت مرزا صاحبؑ کی، حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی باتیں سن لیں تو یہ لوگ ان کی بیعت کر لیں گے۔ ان کو پتہ تھا کہ سچائی ان کے ساتھ ہے اس لیے روکتے تھے، نہ صرف روکتے تھے بلکہ حملے بھی کرتے تھے لیکن اس کے باوجود حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ان لوگوں کے لیے دعا ہی کی جو روکنے والے تھے اور اس طرح سختیاں کرنے والے تھے۔ یہ دعاؤں ہی کا نتیجہ ہے کہ ان میں سے بعض ایسے ہیں جو باوجود مخالفت کے جماعت میں شامل ہوئے اور اب تک ہورہے ہیں۔ پس ہم تو مولوی کے اس بیان کے باوجود بھی کوئی فضول گوئی کرنے یا ان کی زبان کو استعمال کرنے والے نہیں ہیں۔ ہم تو اس کے باوجود دعا ہی کرتے رہیں گے اور جیسا کہ ہم نے ہمیشہ دیکھا ہے کہ انہی میں سے قطرات محبت ٹپکتے رہے ہیں اور آئندہ بھی ان شاء اللہ ٹپکیں گے۔ عوام الناس کے لیے، عامۃ المسلمین کے لیے ہم ان لوگوں کی سخت باتیں سننے کے بعد بھی دعا کرتے ہیں۔ ان کی تکلیفوں پر ہمیں تکلیف ہوتی ہے اور اس کی وجہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی تعلیم ہی ہے۔ اور آپؑ کو اللہ تعالیٰ کا ارشاد بھی یہی تھا کہ ان کے یہ ظلم بھی غلط فہمی کی وجہ سے ہیں اور رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت کی وجہ سے ہیں جس کا یہ دعویٰ کرتے ہیں۔ عمل کریں یا نہ کریں لیکن دعویٰ ضرور ہے اس لیے ان کے لیے بددعا نہیں کرنی۔ اس بارے میں حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ ایک واقعہ بیان کرتے ہیں۔ کہتے ہیں میں ابھی بچہ تھا۔ لاہور میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام ایک دعوت سے واپس تشریف لا رہے تھے۔ آپ جب بازار سے گزر رہے تھے تو لوگ چھتوں پر کھڑے ہو کر آپ کو گالیاں دیتے تھے اور کہتے تھے کہ مرزا دوڑ گیا۔ مرزا دوڑ گیا۔ حضرت مصلح موعودؓ کہتے ہیں مجھے سمجھ نہیں آ رہی تھی۔ شاید کسی جلسہ میں تقریر میں فساد ہوا تھا تو وہاں سے واپس آ رہے تھے۔ بہرحال کہتے ہیں اسی اثنا میں مَیں نے ایک بڈھے کو دیکھا جس کا ایک ہاتھ کٹا ہوا تھا اور تازہ تازہ ہلدی لگی ہوئی تھی۔ لگتا تھاکہ ہاتھ کو کٹے بھی ابھی کچھ تھوڑا عرصہ ہی ہوا ہے۔ میں نے دیکھا کہ وہ بڈھا بھی اپنا تندرست ہاتھ کٹے ہوئے ہاتھ پہ مارتا جاتا تھا اور پنجابی میں کہہ رہا تھا کہ مرزا نٹھ گیا۔ مرزا نٹھ گیا۔ کہتے ہیں میں اس وقت اپنی عمر کے لحاظ سے حیران ہوتا تھا کہ آخر یہ کیوں کہتا ہے کہ مرزا نٹھ گیا۔ ایسا کیا واقعہ ہو گیا ہے؟ مجھے تو کوئی ایسی بات سمجھ نہیں آئی۔ پھر صرف اس لیے کہ مخالفت تھی اور مولویوں نے لوگوں کو بھڑکایا ہوا تھا اور جو ان کے دل میں آتی تھی وہ کہتے رہتے تھے چاہے بات کا پتہ ہو یا نہ پتہ ہو۔ بس بات کرنی تھی کر دی۔
اسی طرح ایک اَور واقعہ بیان کرتے ہیں کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام ایک دفعہ لاہور شہر میں جا رہے تھے تو پیچھے سے کسی نے حملہ کیا اور آپ گر گئے۔ بعض روایات میں آتا ہے کہ ٹھوکر لگی لیکن گرے نہیں تھے۔ (سیرت مسیح موعودعلیہ الصلوٰۃوالسلام از حضرت یعقوب علی عرفانی صاحبؓ صفحہ ۴۴۲) اسی طرح لوگوں کو پتھراؤ کرتے بھی حضرت مصلح موعودؓ فرماتے ہیں ہم نے دیکھا۔ پتھراؤ بھی کرتے تھے۔
غرض ان دنوں میں مخالفت بڑے زوروں پر تھی اور قدرتی طور پر جماعت کے بعض دوستوں کو بھی غصہ آ جاتا تھا کہ آخر یہ لوگ بلا وجہ ایسا کیوں کرتے ہیں۔ اس وقت حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو الہام ہوا گو کہ ابھی تک کی معلومات کے مطابق یہ الہام اَور کسی روایت میں تو نہیں ملا لیکن حضرت مصلح موعودؓ نے یہی فرمایا ہے کہ یہ الہام تھا۔ بہرحال حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا شعر تو ہے کہ
اے دل تو نیز خاطرِ ایناں نگاہ دار
کآخر کنند دعوئے حُبِ پیمبرمؐ
(ازالۂ اوہام حصہ اول، روحانی خزائن جلد ۳ صفحہ ۱۸۲)
یعنی اے ہمارے مامور! یہ مسلمان جو تمہیں گالیاں دیتے ہیں، اگر یہ الہاماً ہے تو اللہ تعالیٰ فرما رہا ہے کہ پھر بھی تُو ان کا لحاظ کر۔ آخر یہ تمہیں کیوں گالیاں دیتے ہیں، تمہیں مارنے کیوں دوڑتے ہیں اور تم پر حملہ آور کیوں ہوتے ہیں؟ یہ لوگ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وجہ سے ہی تمہیں مارتے ہیں اور گالیاں دیتے ہیں۔ اس لیے ان کا لحاظ رکھنا بڑا ضروری ہے۔ جس عشق کی وجہ سے یہ مار رہے ہیں، وہ جس وجہ سے مار رہے ہیں، وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت ہے جو اللہ تعالیٰ کو بہت پیارے ہیں اس لیے اس غلط فہمی کی وجہ سے ہو یا جو بھی وجہ ہے تم ان کا لحاظ کرو۔ بددعا نہ کرو۔ غرض ہماری جو مخالفت ہوتی ہے تو تمہیں یہ دیکھنا چاہیے کہ اس کے پیچھے کیا بات ہے۔ کیا یہ لوگ جو ہمیں گالیاں دیتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ہماری چائے جو ہے وہ شراب سے بھی بدتر ہے اور شراب پینا جائز ہوسکتا ہے لیکن احمدیوں کی چائے پینی جائز نہیں ہو سکتی۔ حضرت مصلح موعودؓ یہ بیان کر کے فرماتے ہیں کہ اگر انہیں پتہ لگ جائے کہ میرے اندر محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت کاجو شعلہ جل رہا ہے وہ ان کے لاکھوں لاکھ کے اندر بھی نہیں جل رہا تو آپؓ نے فرمایا وہ فوراً تمہارے، احمدیوں کے قدموں میں گر جائیں گے۔ یہ لوگ مخالفت اسی لیے کرتے ہیں کہ وہ سمجھتے ہیں کہ ہم محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے مخالف ہیں۔ یہ مخالفت بعض غلط فہمیوں کے نتیجہ میں ہے۔ پھر اپنی تفصیل بیان کرنے کے بعد آپؓ نے یہ بھی بیان فرمایا کہ اگر لوگ مخالفتیں کرتے ہیں اور مجھے یا بانیٔ سلسلہ احمدیہ ؑکو یا تمہیں برا بھلا کہتے ہیں تو جماعت کو یاد رکھنا چاہیے کہ یہ تمہارے بھائی ہیں اور کسی غلط فہمی میں مبتلا ہیں۔ پس تم بجائے ناراض ہونے کے دعائیں کرو اور ان مخالفت کرنے والوں کو اصل حقیقت سے واقف کرو۔ جب تم انہیں اصل حقیقت سے واقف کر دو گے تو انہیں پتہ لگ جائے گا کہ ہم محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دشمن نہیں بلکہ آپؐ کے سچے عاشق ہیں اور وہی لوگ جو ہمیں مارنے پر آمادہ ہیں ہماری خاطر مرنے کے لیے تیار ہو جائیں گے۔ (ماخوذ از بھیرہ کی سرزمین میں ایک نہایت ایمان افروز تقریر، انوارالعلوم جلد۲۲صفحہ۸۴تا ۸۶)