سیرت النبی ﷺ

سیرت النبی صلی اللہ علیہ وسلم

(’ابو لطفی‘)

آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت کا مضمون بہت وسعت رکھتا ہے۔ یہ ایک نا پیدا کنار سمندر ہے۔ اِس مختصر وقت میں، صرف آپؐ کی عبادت،حِلم،صنفِ نازک سے آپؐ کا حسن سلوک اور عہد معاہدے کی پابندی پر اختصار سے کچھ بیان کیا جائے گا۔

عبادت

آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نبوت سے سرفراز ہونے سے قبل ہی طبعی طور پر اللہ تعالیٰ کی عبادت کے شائق تھے۔ چنانچہ آپؐ غارِحرا میں دنیا سے الگ تھلگ ہو کر خدا تعالیٰ کی یاد اور اس کی عبادت میں مصروف رہتے۔ گھر آکر حضرت خدیجہؓ سے کچھ غذا لے کر پھر غارِحرامیں چلے جاتے اور اپنے رنگ میں عبادت ِالٰہی میں مصروف ہو جاتے۔ پورے انہماک سے اللہ تعالیٰ کی ہستی پر غور فرماتے۔ آپؐ کی عمر اس وقت تیس برس سے کچھ اوپر تھی۔ اسی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے وَ وَجَدَ کَ ضَآ لًّا فَھَدٰی کہ خدا نے تجھے اللہ تعالیٰ کی تلاش میں سرگرداں پایا پس خود تیری راہنمائی کی یعنی وحی کے ذریعے۔

پھر معراج کی رات اللہ تعالیٰ نے آپؐ پر نمازیں فرض کیں۔ اس کی تفصیل یوں ہے کہ کشفی حالت میں آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم حضرت جبریل علیہ السلام کے ساتھ آسمانوں کی طرف روانہ ہوئے۔ پہلے آسمان پر پہنچے تو ان سے پوچھا گیا کون ہے جو اندر آنا چاہتا ہے۔ حضرت جبریل علیہ السلام نے کہا، جبریل ہوں۔ پوچھا گیا،ساتھ کون ہے؟ انہوں نے بتایا کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم۔ سوال ہوا،کیا انہیں بلایا گیا ہے؟ جبریل علیہ السلام نے جواب دیا، ہاں۔ اس پر اندر داخل ہونے کی اجازت ہوئی۔ وہاں حضرت آدم علیہ السلام نے یہ کہہ کر استقبال کیا کہ خوش آمدید بیٹے اورنبی۔

اِسی طرح ہر آسمان پر سوال و جواب کے بعد اندر جانے کی اجازت ملی اور مختلف انبیائے کرام علیہم السلام سے ملاقات ہوئی اورانہوں نے یہ کہہ کر استقبال کیا: خوش آمدید بھائی اورنبی۔ چھٹے آسمان پر حضرت موسیٰ علیہ السلام سے ملاقات ہوئی۔ پھر جب آپؐ ساتویں آسمان کی طرف روانہ ہوئے تو حضرت موسیٰؑ رو پڑے۔ رونے کی وجہ پوچھی گئی تو حضرت موسیٰ علیہ السلام کہنے لگے، یہ جوان میرے بعد مبعوث ہوا ہے، اس کی امت میری امت سے زیادہ جنت میں جائے گی۔

ساتویں آسمان پر حضرت ابراہیم علیہ السلام نے یوں استقبال کیا: خوش آمدید بیٹے اور نبی۔ پھر آپؐ سدرۃ المنتہیٰ تک گئے۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں وہاں مجھ پر پچاس نمازیں فرض کی گئیں۔ پھر آپؐ واپس ہوئے۔ آپؐ ساتویں آسمان سے گزرے تو حضرت ابراہیم علیہ السلام نے کوئی سوال آپ سے نہیں کیا کہ وہاں کیا ہوا، مگر چھٹے آسمان پر حضرت موسیٰ علیہ السلام نے پوچھا آگے کیا کچھ ہوا۔ آپؐ نے کہا پچاس نمازیں فرض کی گئی ہیں۔ موسیٰ علیہ السلام کہنے لگے، میں آپ سے زیادہ لوگوں کو جانتا ہوں۔ مجھے بنی اسرائیل کے ساتھ سخت پالا پڑا۔ آپ کی امت پچاس نمازیں ادا نہیں کر سکے گی۔ واپس جائیں اور ان میں کمی کرنے کی درخواست کریں۔ فرماتے ہیں، میں واپس گیا اور اللہ تعالیٰ نے پچاس کی بجائے چالیس نمازیں کر دیں۔ پھر ویسے ہی ہوا یعنی حضرت موسیٰ علیہ السلام نے کہا یہ تو کوئی کمی نہیں،پھر جائیں۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں میں واپس گیا تو نمازیں تیس کر دی گئیں۔ ہربار حضرت موسیٰ علیہ السلام آپؐ کو واپس جانے کا کہتے رہے اور اس طرح بیس،پھر دس اور آخر میں پانچ نمازیں کر دی گئیں۔ اس پر پھر موسیٰ علیہ السلام نے واپس جانے کا کہا۔مگر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا میں نے یہ پانچ قبول کر لی ہیں۔پھر ندا آئی کہ میں نے جو فرض کرنا تھا کر دیا، اور بندوں کے لیے آسانی پیدا کردی، اور ہر نیکی کا بدلہ دس گنا دوں گا۔ یعنی پانچ نمازوں کا ثواب پچاس نمازوں کے برابر دوں گا۔(بخاری كِتَاب الصَّلَاةِبَابُ كَيْفَ فُرِضَتِ الصَّلاَةُ فِي الإِسْرَاءِ)

حضرت مسیح موعودؑ پر اعتراض کیا جاتا ہے کہ آپ نے براہین احمدیہ کے پچاس حصے لکھنے کا وعدہ فرمایا تھا مگر عملاً صرف پانچ حصے لکھے۔ حقیقت یہ ہے کہ یہ پانچ حصے اپنے زبردست حقانی دلائل کی رو سے پچاس حصوں کے برابر اثر رکھتے ہیں بلکہ اس سے بھی زیادہ۔ آپؑ کی تمام کتب جوتقریباً نوّے کے قریب ہیں ان میں سے ہر ایک درحقیقت براہین احمدیہ ہی ہے یعنی احمدﷺ کی صداقت پر عظیم برہان ہے۔

بخاری ہی کی ایک روایت میں آتا ہے کہ جب پانچ نمازوں میں بھی کمی کے لیے موسیٰ علیہ السلام نے واپس جانے کا کہا تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے کہا اب مجھے شرم محسوس ہوتی ہے۔ میں پانچ پر راضی ہوں۔ میں نے انہیں قبول کر لیا ہے۔ اس میں ان لوگوں کے لیے لمحہ فکریہ ہے جو ہفتے میں صرف جمعہ ادا کرنے کو کافی سمجھتے ہیں۔

نمازوں کے بارے میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے کئی ہدایات امت کو دی ہیں۔ ایک یہ کہ امام کو ہلکی نماز پڑھانی چاہیے۔ آپؐ نے فرمایا : اَیُّکُمْ اَمَّ النَّاسَ فَلْیُؤْجِزْ فَاِنَّ مِنْ وَّرائِہِ الْکَبِیْرَ وَالصَّغِیْرَ وَ ذَاالْحَاجَۃِ (مسلم کتاب الصلوٰۃ) یعنی جو لوگوں کی امامت کرائے وہ نماز ہلکی پڑھائے کیونکہ اس کے پیچھے بوڑھے، بچے اور ضرورت مند بھی ہوتے ہیں۔حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اس بارے میں خود اپنا اسوہ پیش فرمایا۔حضرت ابو قتادۃؓ سے روایت ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:میں نماز میں کسی بچے کے رونے کی آواز سنتا ہوں تو نماز مختصر کر دیتا ہوں تا کہ بچے کی ماں کو مشقت میں نہ ڈالوں۔(بخاری کتاب الاذان) ۔یعنی ہلکی نماز کو بھی مزید مختصر فرما دیتے۔ لیکن نماز کے تمام ارکان پوری طرح ادا کرتے۔ہاں خود اکیلے نماز پڑھتے تو بہت لمبی نماز ادا کرتے۔حتی کہ بعض اوقات نماز میں طویل قیام کی وجہ سے آپ کے پاؤں متورم ہو جاتے۔ ایک دفعہ اس پر حضرت عائشہؓ نے عرض کی کہ حضور آپ اس قدر مشقت کیوں کرتے ہیں جبکہ اللہ تعالیٰ نے آپ کے اگلے پچھلے سب گناہ معاف کر دیے ہیں تو آپؐ نے فرمایا :اَفَلَا اَکُوْنُ عَبْدًا شکُوْرًا۔ اے عائشہ !کیا میں اللہ کا شکر گزار بندہ نہ بنوں۔ (مسلم كتاب صفة القيامة والجنة والنار باب إِكْثَارِ الأَعْمَالِ وَالاِجْتِهَادِ فِي الْعِبَادَةِ)

حِلم

آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم وَالْکَاظِمِیْنَ الْغَیْظَکا عظیم الشان نمونہ تھے۔حضرت ابو ہریرہؓ سے روایت ہے کہ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے کسی سے قرض لیا ہوا تھا، وہ آپؐ کے پاس آیا اور نہایت گستاخانہ اندا ز میں اپنے قرض کی واپسی کا مطالبہ کیا۔ صحابہ کرامؓ جو وہاں پر موجود تھے انہیں شدید غصہ آیا اوراسے برا بھلا کہنے لگے۔ مگر آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اسے مت ڈانٹو۔ جس نے لینا ہو وہ کچھ نہ کچھ کہنے کا حق رکھتا ہے، اور فرمایا اسے اُس عمر کا جانور دے دو جس کا وہ تقاضا کرتا ہے۔ عرض کی گئی کہ اُس عمر کا جانور فی الحال موجود نہیں۔ فرمایا: اُس سے بڑی عمر کا ہی دے دو، تم میں سے بہتر وہی ہے جو بہتر رنگ میں اپنا قرض ادا کرتا ہے۔(ابن ماجہ، ابواب الصدقات۔باب حسن القضاء)

آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کی مبارک زندگی میں متعدد ایسے واقعات ملتے ہیں جن میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے حِلم کا حیرت انگیز اسوہ پیش فرمایا ہے۔

حضرت عبد اللہ بن سلامؓ روایت کرتے ہیں کہ ایک یہودی زید بن سَعْنَہ اِس ٹوہ میں رہتا تھا کہ نبی آخرالزمان کی جو عَلامات یہودی کتب میں مذکورہیں،کیا وہ آپؐ میں پائی جاتی ہیں۔ وہ یہودی بیان کرتا ہےایک دن میں نے دیکھا کہ آپؐ اپنے گھر سے باہر آئے، آپؐ کے ساتھ حضرت علیؓ تھے۔ اتنے میں ایک دیہاتی آپؐ کے پاس آیا اور کہا میں نے فلاں گاؤں کے لوگوں سے کہا تھا کہ مسلمان ہو جاؤ تو اللہ تعالیٰ تمہیں بہت برکات عطا کرے گا اور رزق کی فراوانی ہوگی۔ اب وہ قحط سالی کی وجہ سے بہت تنگی میں ہیں۔ اگر حضورصلی اللہ علیہ وسلم مناسب سمجھیں تو کچھ امدا د انہیں بھجوا دیں۔ آپؐ نے حضرت علیؓ سے اس بارے میں بات کی تو انہوں نے عرض کیا کہ اس وقت کچھ نہیں جو بطور امداد بھیجا جا سکے۔ زید بن سعنہ کہتے ہیں کہ اس پر میں آگے بڑھا اور آپؐ سے کہا کہ کیا آپؐ فلاں باغ کی اتنی مقدار میں کھجور طے شدہ مدت کی شرط پر میرے پاس بیچ سکتے ہیں؟ آپؐ نے فرمایا کہ اتنی مقدار میں کھجور طے شدہ مدت کے لیے دے سکتا ہوں، مگر یہ شرط منظور نہیں کہ ضرور فلاں باغ کی ہی ہو۔میں نے کہا ٹھیک ہے اور بیس مثقال بطور پیشگی قیمت ادا کر دی۔ آپ نے وہ بیس مثقال اُس دیہاتی کو دیے کہ مصیبت زدہ لوگوں میں یہ رقم تقسیم کر دی جائے۔ کچھ عرصہ بعد جبکہ طے شدہ مدت میں دو تین دن باقی تھےمیں آپؐ کے پاس آیا اور آپ سے سخت کلامی کی، آپ کا گریبان پکڑ لیا آپ کی چادر کھینچی۔ اور بڑے غصے سے کہا: اے محمد! (صلی اللہ علیہ وسلم) میرا حق دو۔ خدا کی قسم، تم بنو عبدِ المطلب قرض ادا کرنے میں بہت بُرے ہو۔ اُس وقت حضرت عمرؓ جو پا س ہی تھے غصے سے بے تاب ہو رہے تھے،وہ کہنے لگے، اے خدا کے دشمن! رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے جو تُو کہہ رہا ہے، میں سن رہا ہوں۔ تیری گستاخی میں دیکھ رہا ہوں۔ خدا کی قسم! اگر مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ڈر نہ ہوتا تو ابھی تیرا سر تلوار سے قلم کر دیتا۔ لیکن حضور صلی اللہ علیہ وسلم بڑے اطمینان سے حضرت عمرؓ  کی طرف دیکھ کر تبسم فرما رہے تھے۔ پھر آپؐ نے حضرت عمرؓ سے فرمایا: میں اور یہ شخص،ہم دونوں، اس بات کے مستحق ہیں کہ تم مجھے حسنِ ادائیگی کے لیے، اور اُسے حسنِ تقاضا کے لیے کہو۔ اگرچہ ابھی معاہدے کی رُو سے کچھ دن باقی ہیں۔ لیکن شاید اسے جلد ضرورت پڑ گئی ہے۔ جاؤ اسے سٹور میں سے ادا کر دو، اور بیس صاع زیادہ دینا۔ کھجوروں کی ادائیگی ہو جانے پر میں نے حضرت عمرؓ سے پوچھا یہ بیس صاع زائد کیوں دیےہیں، تو حضرت عمرؓ نے کہا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے فرمایا تھا کہ جو سختی میں نے کی ہے، اس کے عوض بیس صاع زیادہ ادا کروں۔ میں نے عمرؓ سے کہا آپ جانتے ہیں میں کون ہوں؟انہوں نے کہا،نہیں۔ میں نے کہا، میں زید بن سعنہ ہوں۔ حضرت عمرؓ کہنے لگے، وہ یہود کاعالم؟ میں نے کہا ہاں۔ اس پر انہوں نے کہا، اتنابڑا عالم ہو کر تم نے یہ گستاخی کا طریق کیوں اختیار کیا؟ میں نے کہا، جتنی علامات میں نے اپنی کتب میں نبی آخر الزمان کی پڑھی ہیں وہ سب مجھے آپؐ میں نظر آئیں سوائے دو علامات کے۔ ایک یہ کہ اس نبی کا حِلم اس کے غصے پر غالب ہوگا۔ اور دوسری یہ کہ جتنی زیادہ جہالت سے اس سے پیش آؤ، اُسی قدر زیادہ حلم سے وہ پیش آئے گا۔ میں نے ان دو علامات کی آزمائش میں یہ سب کچھ کیا ہے۔ پھر کہا: اے عمرؓ! گواہ رہ کہ میں اللہ کو اپنا ربّ اور اسلام کو اپنا دین اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنا نبی ماننے پر خوش ہوں۔ میں ایک مالدار شخص ہوں،میرا آدھا مال امت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے صدقہ ہے۔ حضرت عمرؓ نے کہا: بعض امت کے لیے کہو، کیونکہ سار ی امت تو بہت ہے،سب کے لیے کیسے یہ مال پورا ہو سکتا ہے۔ میں نے کہا، اچھا بعض ضرورتوں کے لیے خرچ ہو۔ پھر زید بن سعنہ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے،اور عرض کیا: میں گواہی دیتا ہوں کہ خدا کے سوا کوئی معبود نہیں اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے بندے اور اس کے رسول ہیں۔ پھر زید بن سعنہ نے آپؐ کی بیعت کی۔ اور کئی جنگوں میں آپؐ کے ساتھ شریک ہوئے۔ غزوہ تبوک سے واپس آتے ہوئے رستے میں ہی وفات پائی۔ (مستدرک مع التلخیص۔ کتاب معرفۃ الصحابہ)

صنف نازک سے حسن سلوک

آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم صنف نازک سے حسنِ سلوک کا خاص خیال رکھتے تھے۔ اس میں اس قدر بڑھے ہوئے تھے کہ جس کے عام عرب روادار نہ تھے۔ عرب لوگ عورتوں کے حقوق تسلیم نہیں کرتے تھے اورنہ ہی پسند کرتے تھے کہ عورتیں مردوں کو کسی معاملے میں مشورہ دیں۔ حضرت عمرؓ بیان کرتے ہیں کہ ان کی اہلیہ جب ان کی باتوں میں دخل دیتیں تو وہ کہا کرتے کہ عورتوں کا کام نہیں کہ مردوں کو ان کے کاموں میں مشورہ دیں۔ اس پر ان کی اہلیہ کہتیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ازواج حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو مشورہ دیتی ہیں،تو میں کہتا کہ اگر تمہاری بیٹی حفصہؓ  بھی ایسا کرتی ہے تو وہ ایک دن اس کی سزا پائے گی۔

ایک دفعہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے کسی وجہ سے فیصلہ کیا کہ وہ کچھ عرصہ گھر سے باہر رہیں گے، اور بیویو ں کے پاس نہیں جائیں گے۔ اس پر میں نے کہا، دیکھا وہی ہوا جو میں کہا کرتا تھا۔ میں اپنی بیٹی کے گھر گیا۔ وہ رو رہی تھی۔ میں نے کہا، حفصہ !کیا حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے تمہیں طلاق دے دی ہے؟ کہنے لگیں، طلاق کا تو مجھے علم نہیں، مگر حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے کچھ عرصہ کے لیے گھر نہ آنے کا فیصلہ کیا ہے۔ میں نے کہا کہ میں تمہیں بار بار سمجھایا کرتا تھا کہ عائشہؓ  کی نقلیں نہ کیا کرو۔ اس کے بعد میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس گیا۔آپؐ ایک چٹائی پر لیٹے ہوئے تھے۔ آپؐ کے جسم پر کرتہ نہیں تھا آپ کے سینے اور جسم پر چٹائی کے نشان تھے… پھر میں نے حفصہؓ کے ساتھ جو بات کی تھی بیا ن کی۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم اس پر ہنس پڑے اور فرمایا میں نے اپنی بیویوں کو طلاق نہیں دی۔ میں نے صرف ایک مصلحت کی بنا پر کچھ عرصہ کے لیے گھر سے باہر رہنے کا فیصلہ کیا ہے۔(بخاری کتاب النکاح)

پس آنحضرتﷺکا کچھ عرصہ کھر سے باہر رہنا ایک مصلحت کی بنا پر تھا۔ آنحضرتﷺکا ارشاد عورتوں سے حسن سلوک کے بارے میں بڑا واضح ہے کہ خَیْرُکُمْ خَیْرُکُمْ لِاَھْلِہٖ وَ اَنَا خَیْرُکُمْ لِاَھْلِیْ۔ یعنی تم میں سے بہتر وہ ہے جو اپنے اہل سے حسن سلوک کرنے میں بہتر ہے اور میں اہل کے ساتھ حسن سلوک کرنے میں تم سب سے بہتر ہوں۔

حضرت انسؓ بیان کرتے ہیں ایک سفر میں ایک سیاہ غلام انجشہ اونٹ کو چلاتے ہوئے حُدی خوانی کر رہا تھا( جس کی وجہ سے اونٹ تیز چل رہا تھا)۔ اس پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے فرمایا رُوَیْدَ، سَوْقًا بِقَوَارِیْرَ۔ ذرا آہستہ۔آبگینوں کا خیال رکھو۔ (مسلم کتاب الفضائل)۔یعنی صنف نازک کا خیال رکھو۔قَوَارِیْرَ (شیشے) یعنی نازک چیزیں، جنہیں احتیاط کے ساتھ handle کرتے ہیں۔اس میں بالکل فریجائل (fragile) کا مفہوم ہے۔ امریکن اس کا تلفظ فَریجَل کرتے ہیں۔

حضرت انسؓ ہی سے روایت ہے ایک سفر میں آپؐ اونٹنی پر سوار تھے۔ آپؐ کے پیچھے ام المومنین حضرت صفیہؓ  تھیں۔ اونٹنی نے ٹھوکر کھائی اور آپ دونوں نیچے گر گئے۔ ابوطلحہؓ جلدی سے آپ کے پاس آئے اور کہا یا رسول اللہ! اللہ مجھے آپ پر فدا کرے۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا (مجھے چھوڑو) خاتون کی طرف جاؤ۔ اس پر ابو طلحہ نے اپنے چہرے پر کپڑا ڈالا اور جا کر حضرت صفیہؓ کے اوپر ڈال دیا۔ پھر آپ کی سواری کو درست کیا اور آپ دونوں اونٹنی پر سوار ہوئے۔ (بخاری۔کتاب الجہاد)

بعض لوگ عورتوں کو مسجد جانے سے روکتے تھے کہ یہ مردوں کا کام ہے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: لَاتَمْنَعُوْا النِّسَاءَ حُظُوْ ظَھُنَّ مِنَ الْمَسَاجِدِ اِذَا اسْتَاذَنُوْکُمْ (مسلم کتاب الصلوٰۃ)۔یعنی تم عورتوں کو مساجد میں سے سعادت کا اپنا حصہ لینے سے نہ روکو جب وہ اس کی اجازت مانگیں۔یعنی مسجد جانے کی اجازت طلب کریں۔ اس میں اِذَا اسْتَاْذَنُوْکُمْ قابل غور ہے، جو کہ مذکر کا صیغہ ہے، جس کا لفظی ترجمہ ہے جب یہ مرد تم سے اجازت مانگیں، بظاہر یہ اِذَا اسْتَاْذَنَّکُمْ ہونا چاہیے تھا، کہ جب عورتیں تم سے اجازت مانگیں۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم افصح العرب تھے، آپ نے مذکر کا صیغہ استعمال کر کے ان لوگوں کی عادت پر دلچسپ طنز کی ہے کہ تم سمجھتے ہو کہ باہر جانا مردوں کا کام ہے تو میں تمہیں ہدایت دیتا ہوں کہ اِن ’مردوں‘کو مساجد میں جانے دو۔یعنی انہیں بھی سعادت حاصل کرنےد و جو تم سمجھتے ہو کہ مردوں کے لیے ہے۔

ماں سے حسن معاشرت کے بارے میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا اہم ارشاد:ایک شخص آنحضرت ﷺ کے پاس آیا اور عرض کیا میرے حسن معاشرت کا سب سے زیادہ مستحق کون ہے؟ فرمایا اُمُّکَ تیری ماں۔عرض کیا پھر؟ فرمایا تیری ماں۔ کہا پھر؟ فرمایا تیری ماں۔ اس نے کہا اس کے بعد پھر؟ فرمایا تیرا باپ۔ (بخاری۔کتاب الادب)

تین بار کیوں فرمایا؟ قرآن کریم میں آتا ہے ؕ یَخۡلُقُکُمۡ فِیۡ بُطُوۡنِ اُمَّہٰتِکُمۡ خَلۡقًا مِّنۡۢ بَعۡدِ خَلۡقٍ فِیۡ ظُلُمٰتٍ ثَلٰثٍ (الزمر:۷)تفسیر صغیر سے اس کا ترجمہ :وہ تم کو تمہاری ماؤں کے پیٹوں میں پیدا کرتا ہے (یعنی) ایک پیدائش کے بعد دوسری پیدائش میں بدلتے ہوئے،تین ظُلمتوں میں سے گزار کر۔

اس پر یہ حاشیہ میں لکھا ہے: ’’جب بچہ ماں کے پیٹ میں ہوتا ہے تو تین وقت اس پر خطرہ کے آتے ہیں۔…یعنی دوسرے سے تیسرے مہینے تک۔ پھر تیسرے سے پانچویں مہینے تک اور پھر آٹھویں مہینے کے شروع میں۔ چنانچہ طبی طور پر اس کا تجربہ کیا گیاہےکہ یہ تین وقت ہی زیادہ تر اسقاط کے ہوتے ہیں۔‘‘

چونکہ تین خطرات سے گزر کر ماں بچے کو جنم دیتی ہے، اس لیے تین بار ماں سے حسن سلوک کا ارشاد فرمایا۔

عہد، معاہدے کی پابندی

آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم عہد کو شان کے ساتھ نبھانے میں اعلیٰ مقام پر تھے۔ زمانۂ جاہلیت میں حرب فجار چار سال جاری رہی تھی۔(اسے حربِ فجار اس لیے کہتے ہیں کہ یہ حرمت والے مہینہ میں شروع کی گئی تھی)۔ اس میں بہت کشت و خون ہوا تھا۔اس جنگ کے بعد قریش کے ذہن میں زور سے یہ خیال پیدا ہوا کہ کسی صورت میں ظلم و تعدی نہیں ہونی چاہیے اور مظلوم کی مدد کرنا ہم سب پر لازم ہونا چاہیے۔ اس خیال سے عبداللہ بن جدعان کے مکان پر بنی ہاشم، بنی زہرہ اور بنی تیم جمع ہوئے۔ اور سب نے حلفیہ یہ عہد کیا کہ ہم ہمیشہ مظلوموں کی مدد کریں گے اور انہیں ان کا حق دلائیں گے۔ اس معاہدے کو حِلف الفضول کے نام سے موسوم کیا جاتا ہے۔ اس عہد میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم بھی شامل تھے، اس وقت آپؐ کی عمر بیس سال ہوگی۔

اِس معاہدے میں شامل لوگوں میں سے کسی نے اپنا عہد نبھایا یا نہیں، مگر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ عہد جو نبوت کے دعوے سے پہلے کیا تھا، ساری عمر خوب نبھایا۔ تاریخ میں آتا ہے کہ ایک شخص باہر سے مکہ میں آیا جس نے ابو جہل سے اپنا قرض لینا تھا۔ مگر ابو جہل نے انکار کر دیا۔ اس نے مکہ والوں سے شکایت کی کہ ابو جہل میرا قرض ادا نہیں کرتا۔ چند نوجوانوں نے از راہِ شرارت اسے مشورہ دیا کہ فلاں شخص کے گھر جاؤ، وہ ضرور تمہاری مدد کرے گا۔ اور اسے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے گھرکا پتا بتا دیا۔

ان نوجوانوں کا مقصد یہ تھا کہ اگر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اس کے ساتھ ابوجہل کے گھر گئے تو وہ آپؐ کو ذلیل کرکے نکال دے گا۔ اور اگر نہ گئے تو نعوذ باللہ عربوں میں ذلیل ہو جائیں گے۔ وہ شخص حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے گھر پر جا پہنچا اور اپنا مقصد بیان کیا۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم اسی وقت اس کے ساتھ ہو لیے اور ابو جہل کے مکان پر جا کر دستک دی۔ ابوجہل باہر نکلا، آپؐ نے اسے تلقین کی کہ اِس شخص کا حق ادا کرو۔ ابوجہل نے بغیر کسی تامل کے فورا ًحق ادا کر دیا۔ جب مکہ کے رؤساء کو اس کا علم ہوا تو انہوں نے اسے ملامت کی کہ تم تو کہا کرتے تھے کہ موقع ملے تو میں محمدﷺکو ذلیل کردوں گا مگر تم نے تو ان کی بات مان کر انہیں معزز کر دیا ہے۔ اس پر ابوجہل نے کہا: خدا کی قسم میں نے محمد ؐکے دائیں بائیں دو مست اونٹ دیکھے کہ جو اگر میں انکار کرتا تو مجھے ہلاک کر دیتے۔ اگر تم بھی میری جگہ ہوتے تو ایسا ہی کرتے۔ ابوجہل نے تو حلف الفضول کے مطابق مظلوم کی مدد کرنا تھی مگر وہ تو خود ظلم کر رہا تھا۔ لیکن خدا کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے بیس سال کی عمر میں کیا ہوا عہد بڑی شان سے نبھایا۔

آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد،معاہدہ نبھانے کی حیرت انگیز مثالیں تاریخ میں مذکور ہیں۔

شوّال ۶ ھ میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے رؤیا دیکھا کہ آپ اپنے صحابہؓ کے ساتھ امن سے مکہ میں داخل ہوئے ہیں۔اس پرذوالقعدہ ۶ھ میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم ۱۵۰۰؍ صحابہؓ کے ساتھ عمرہ کے لیے چل پڑے۔ مکہ والوں نے روکا۔ اس پر قریش اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے درمیان حدیبیہ کے مقام میں ایک تحریری معاہدہ ہوا جو صلح حدیبیہ کہلاتا ہے۔ اس معاہدہ کی متعدد شقیں تھیں۔ ایک یہ کہ دس سال تک مکہ اور مسلمانوں کے درمیان جنگ نہیں ہو گی۔ ایک شرط یہ تھی کہ اگر کوئی شخص مکہ میں مسلمان ہو کر مدینہ بھاگ جائے گا تو آپؐ اسے واپس مکہ والوں کے سپرد کریں گے۔ اور اگر کوئی مدینہ کا شخص مکہ آ جائے تو مکہ والے اسے واپس نہیں کریں گے۔

ابھی اس معاہدے پر فریقین کے دستخط نہیں ہوئے تھے کہ مکہ کا ایک شخص زنجیروں میں جکڑا ہوا گرتا پڑتا آنحضرت کے سامنے آیا۔ یہ شخص ابو جَندل بن سہیل تھا، اسی سہیل کا بیٹا جو اُس وقت مکہ والوں کی طرف سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے صلح کا معاہدہ کر رہا تھا۔ ابو جندل نے بیان کیا کہ اس کے مسلمان ہو جانے پر اس کے باپ نے اسے زنجیروں میں جکڑ رکھا تھا اورنگرانی کی جاتی تھی۔ اب جبکہ اس کا باپ معاہدہ کے لیے حدیبیہ آیا تو ابو جندل کو بھاگ جانے کا موقع ملا۔ اس نے التجا کی کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم اسے اپنے ساتھ مدینہ لے جائیں۔ سہیل کہنے لگا معاہدے کی رُو سے آپؐ اسے مکہ والوں کے سپرد کرنے کے پابند ہیں۔ اگرچہ ابھی معاہدہ پر دستخط تو نہیں ہوئے تھے، لیکن معاہدہ کی اس شق کو تسلیم کر لیا گیا تھا، اس لیے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ابو جندل کو تسلی دی اور فرمایا کہ اللہ تعالیٰ تمہاری نصرت فرمائے اور اسے مکہ والوں کے سپرد کر دیا۔ بعد میں اللہ تعالیٰ نے نصرت فرمائی جس کا ذکر آگے آئے گا۔

حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت کا یہ کیسا حیرت انگیز پہلو ہے۔کوئی اَور ہوتا تو ایسے حالات میں اس بات کی آڑ میں پروا نہ کرتا کہ ابھی دستخط نہیں ہوئے۔

بہر حال پھر معاہدے پر فریقین کے دستخط ہوئے اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ واپس لوٹے۔ کچھ عرصہ بعد مکہ کا ایک شخص ابو بصیر مسلمان ہوکر بھاگ کر مدینہ آ گیا۔ مکہ والوں نے دو آدمی ابو بصیر کو صلح حدیبیہ کی رُو سے واپس لانے کے لیے مدینہ روانہ کیے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے معاہدے کی پاسداری کرتے ہوئے ابو بصیر کو ان دو آدمیوں کے سپرد کر دیا۔ وہ ابو بصیر کو لے کر مکہ روانہ ہوئے۔ رستے میں ذوالحلیفہ مقام پر ابو بصیر نے موقع پا کر ان میں سے ایک آدمی کو قتل کردیا، اور دوسرا بھاگ کر مدینہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آپہنچا اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے شکایت کی۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا میں نے معاہدے کے مطابق ابو بصیر کو آپ لوگوں کے سپرد کر دیا تھا اور یہ واقعہ مدینہ کی حکومت سے باہر ذوالحلیفہ مقام پر ہوا ہے۔لہٰذا میرا اس معاملہ سے کوئی تعلق نہیں۔ ادھر ابو بصیر نے سوچا کہ میں واپس مدینہ گیا تو پھر مکہ والوں کے سپرد کر دیا جاؤں گا۔ اس لیے مدینہ جانے کی بجائے وہ مدینہ کی مملکت سے باہر مقام عَیص چلا گیا۔ یہ خبر پھیلنے پر مکہ سے کئی اور لوگ جو دل ہی دل میں مسلمان ہو چکے تھے وہ بھی بھاگ کر عَیص پہنچ گئے، اللہ تعالیٰ نے ابو جندل کے لیے بھی یہ راہ پیدا کر دی۔ اور اس طرح عَیص مقام پر ایک دوسری اسلامی مملکت قائم ہو گئی۔

ایک خاتون بھی مسلمان ہو کر مدینہ آ گئی تھی۔ جب اس کے رشتہ دار مکہ سے لینے آئے تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ معاہدہ میں واضح طور پر مردوں کا ذکر ہے، خواتین سے یہ معاہدہ تعلق نہیں رکھتا۔ قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے اس فیصلے کی تائید فرمائی۔ چنانچہ یہ آیت نازل ہوئی:يٰۤاَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْۤا اِذَا جَآءَكُمُ الْمُؤْمِنٰتُ مُهٰجِرٰتٍ فَامْتَحِنُوْهُنَّ ؕ اَللّٰهُ اَعْلَمُ بِاِيْمَانِهِنَّ ۚ فَاِنْ عَلِمْتُمُوْهُنَّ مُؤْمِنٰتٍ فَلَا تَرْجِعُوْهُنَّ اِلَى الْكُفَّارِ (الممتحنۃ:۱۱)یعنی اے وہ لوگو جو ایمان لائے ہو! جب تمہارے پاس مومن عورتیں مہاجر ہونے کی حالت میں آئیں تو اُن کا امتحان لے لیا کرو۔ اللہ ان کے ایمان کو سب سے زیادہ جانتا ہے۔ پس اگر تم اچھی طرح معلوم کرلو کہ وہ مومنات ہیں تو کفار کی طرف انہیں واپس نہ بھیجو۔

قانونی زبان میں معاہدہ لکھتے وقت آج بھی اس کا خیال رکھا جاتا ہے۔ اس میں خصوصیت کے ساتھ he/she لکھا جاتا ہے اور عربی زبان میں تو مذکر اور مؤنث کے صیغے واضح طور پر مختلف ہوتے ہیں۔ مکہ والوں کو یہ بات سمجھ آ گئی، اور پھر کبھی اس سوال کو نہ اٹھایا۔ اس کےبعد کئی اور خواتین ہجرت کر کے مدینہ آئیں۔

آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت میں سے یہ چند باتیں اختصار کے ساتھ پیش کی گئی ہیں۔ یہ تو محض مشتے از خِروارے ہے۔ ڈاکٹر پرویز پروازی صاحب کی آزاد شاعری جسے سواحیلی میں guniکہتے ہیں تھوڑی سی تبدیلی کے ساتھ ایک بند کیا ہی درست ہے کہ

رسول اکرمؐ

ایک کتاب

پڑھتے جاؤ

ختم نہ ہو گی

لاکھوں اس کے باب

اللّٰھّمَّ صَلِّ عَلٰی مَحَمَّدٍ وَّ عَلٰی آلِ مُحَمَّدٍ کَمَا صَلَّیْتَ عَلٰی اِبْرَاھِیْمَ وَ عَلٰی آلِ اِبْرَاھِیْمَ اِنَّکَ حَمِیْدٌ مَّجِیْدٌ۔

اللّٰھُمَّ بَارِکْ عَلٰی مُحَمَّدٍ وَّ عَلٰی آلِ مُحَمَّدٍ کَمَا بَارَکْتَ عَلٰی اِبْرَاھِیْمَ وَ عَلٰی آلِ اِبْرَاھِیْمَ اِنَّکَ حَمِیْدٌ مَّجِیْدٌ۔

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button