روزہ دار کے لیے خوشیاں ہی خوشیاں
اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ وَأَنَا أَجْزِي بِه روزہ دار کامیں خود اجر بن جاتا ہوں(حدیث نبویﷺ)
اللہ تعالیٰ نے نبی کریمﷺ کو لوگوں کے لیے بشارتیں دینے والےاورخوشخبری سنانے والے وجود کے طور پر پیش فرمایا ہے۔ جیسا کہ فرمایا : اِنَّاۤ اَرۡسَلۡنٰکَ بِالۡحَقِّ بَشِیۡرًا۔(البقرۃ:۱۲۰) یقیناً ہم نے تجھے حق کے ساتھ بشیر کے طور پر بھیجا ہے۔ آپؐ کی رحمتیں اور شفقتیں انسان و حیوان،چرند وپرند،نباتات وجمادات پر نظر آتی ہے۔ غرض دُنیا کی کوئی چیزایسی نہیں جو آپؐ کی رحمت وشفقت سے محروم ہو۔
ایک روزہ دار بھی آنحضرتﷺ کی عنایات ومہربانیوں کے زیر سایہ خوشیاں سمیٹتے ہوئے نظر آتا ہے اور یہ خوشیاں روزہ دار کے ہر ایک عمل کے ساتھ جڑی ہوئی ہیں۔ سب سے بڑی اور لازوال وتا حیات خوشخبری خداتعالیٰ سے خبر پا کر نبی کریمﷺ نے ایک روزہ دار کو یہ دی کہ وَأَنَا أَجْزِي بِهِاللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ روزہ دار کامیں خود اجر بن جاتا ہوں۔ یعنی اللہ تعالیٰ ہی اُس کو مل جاتا ہے،جو کہ ایک بہت بڑا انعام اور بشارت ہے۔اس سے بڑھ کرانعام اور خوشی ایک روزہ دار کے لیے اور کیا ہو سکتی ہے کہ اللہ تعالیٰ ہی اس کا ہو جائے؟ اسی طرح ایک روزہ دارجب اللہ تعالیٰ کی خاطرد ن کے اوقات میں کھانے پینے سے اپنا ہاتھ کھینچ لیتا ہے، تو کئی دفعہ دیکھنے میں یہ بات آتی ہے کہ اس کے منہ سے ایک خاص قسم کی بُو آنے لگ جاتی ہے ، لیکن رحمۃللعالمینﷺ نے اُس بُو کےلیے’’بدبو‘‘ کا لفظ استعمال نہیں کیا، بلکہ ایسی مُشک کے ساتھ تشبیہ دی ہے، جس کی خوشبوسب سے اعلیٰ اور افضل ہے۔جیسا کہ فرمایاوَالَّذِي نَفْسُ مُحَمَّدٍ بِيَدِهِ لَخُلُوْفُ فَمِ الصَّائِمِ أَطْيَبُ عِنْدَ اللّٰهِ يَوْمَ الْقِيَامَةِ مِنْ رِيحِ الْمِسْكِ(سنن النسائی: ۲۲۱۶) یعنی اُس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں محمدﷺکی جان ہے (روزہ دار) کے منہ کی خوشبو قیامت کے دن اللہ تعالیٰ کو مُشک کی خوشبو سے بھی زیادہ طیب و پاک ہے۔پھر ایک خوشخبری آنحضرت ﷺ نے روزہ دار کواس کے روزے کو جہنم سے ڈھا ل کے طور پر پیش کر کے عطا فرمائی۔ جیسا کہ فرمایا: الصِّيَامُ جُنَّةٌ مِنَ النَّار، كَجُنَّةِ أَحَدِكُمْ مِنَ الْقِتَالِ(سنن ابن ماجہ باب مَا جَاءَ فِي فَضْلِ الصِّيَام، حدیث۱۶۳۹)یعنی جس طرح جنگ میں لڑنے والااپنے بچاؤ کے لیے ڈھال کو استعمال کر کے محفوظ ہو جاتا ہے۔ اسی طرح ایک روزہ دار اپنے روزہ کوجہنم کی آگ کے آگے ڈھال بنا کراپنے آپ کو جہنم کی آگ سے محفوظ کرلیتا ہے۔
کیا ہی بابرکت ہے یہ مہینہ جس میں انسان کا کھانا پینا بھی اس کے لیے بابرکت ہے۔ جب وہ صبح روزہ رکھنے کے لیے کچھ کھاتا ہے۔ جسے سحری کانام دیا جاتاہے، اُس کھانے کے وقت کو بھی اللہ تعالیٰ برکت والا بنا دیتا ہے۔فرمایا: تَسَحَّرُوْا فَإِنَّ فِي السَّحُوْرِ بَرَكَةً۔تم سحری کیا کرو کیونکہ سحری میں برکت ہے۔(ابن ماجہ کتاب الصیام) مزید برآں رو زے کے افطار کے وقت کوبھی حضرت رسول کریم ﷺ نے دو خوشیو ں کے اوقا ت کے ساتھ تشبیہ دیتے ہوئے ان الفاظ میں نوید سنائی لِلصَّائِمِ فَرْحَتَانِ يَفْرَحُهُمَا۔ إِذَا أَفْطَرَ، فَرِحَ بِفِطْرِهِ، وَإِذَا لَقِيَ رَبَّهُ عَزَّ وَجَلَّ فَرِحَ بِصَوْمِهِ۔ (سنن النسائی: ۲۲۱۶) یعنی روزہ دار کو روزہ کھولتے وقت دو خوشیاں ملتی ہیں جس سے وہ خوش ہوتا ہے۔ایک تو اُس وقت جب وہ روزہ کو افطار کرتا ہےاور دوسری اُ س وقت جب وہ اپنے ربِ کریم سے ملاقات کرے گااورروزہ کے اجر کو دیکھ کر خوش ہوگا۔پھر یہ بھی دیکھنےمیں آتاہے،کہ لوگوں کی خواہش ہوتی ہے کہ رو زے دار کا رو زہ افطار کروائیں تاکہ وہ بھی کسی قدر ثواب میں شامل ہوجائیں۔ لیکن یہاں پر خدشہ پیدا ہو سکتا تھا کہ کہیں ایسا تو نہیں کہ روزہ افطار کروانےوالا ہی روزہ دار کےاجر و ثواب میں شامل ہوجائے، یا اُس کو کم کر دے۔ لیکن ایسا کہیں بھی نظر نہیں آتا بلکہ معاملہ اس کے بالکل بر عکس ہے۔ یہاں بھی رسول خداؐ نے روزہ افطار کروانےوالےاور روزہ رکھنے والے کوان الفاظ میں نوید سنائی فرمایا: مَنْ فَطَّرَ صَائِمًا كَانَ لَهُ مِثْلُ أَجْرِهِ غَيْرَ أَنَّهُ لَا يَنْقُصُ مِنْ أَجْرِ الصَّائِمِ شَيْئًا۔(سنن ترمذي، کتاب الصوم عن رسول اللہ ؐباب مَا جَاءَ فِي فَضْلِ مَنْ فَطَّرَ صَائِمًا) یعنی جو کوئی بھی کسی رو زے دار کا روزہ افطار کر واتا ہے تو وہ روزہ رکھنے والے کے برابر ثواب کا مستحق ہو جاتا ہے،لیکن اِس عمل سے روزہ دار کے ثواب میں کسی بھی قسم کی کمی نہیں کی جا ئے گی۔
آنحضرتﷺ کس قدر مشفق ناصح تھے کہ جس کی مثال اس دُ نیا میں ملنی مشکل ہے۔ آپؐ کا مشفقانہ اندا ز بھی نہایت خوبصورت اور نرالا تھا۔ جس کی ایک مثال ایک روزہ دار کے روزہ توڑنے اور پھر آپؐ کی اُس پر شفقت کرنے سے عیاں نظر آتی ہے۔ حضرت ا بوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتےہیں کہ ایک شخص نے رمضان کے مہینے میں اپنا روزہ توڑ دیا۔ تورسول خداؐ نے اُسے ایک غلام آزاد کرنے یا دوماہ کے متواتر روزے رکھنے یا ساٹھ مسکینوں کو کھانا کھلانے کا ارشاد فرمایا اُس شخص نے کہا میں اس کی طاقت نہیں رکھتا۔بایں ہمہ آپؐ نے اُس کو بیٹھنے کا ارشاد فرمایا۔ اس عرصہ میں آپؐ کے پاس کھجوروں کا ایک تھیلا لایا گیا۔ آپؐ نے اُس شخص سے فرمایا اس تھیلے کولے جاؤ اوراس کا صدقہ کر دو؟اُس شخص نے عرض کی یا رسول اللہؐ! مجھ سے زیادہ حاجت مند اور کوئی نہیں۔اُ س کا جواب سُن کر آنحضرتﷺ ہنسے، یہاں تک کہ آپؐ کے دانت مبارک دکھائی دینے لگے۔اورپھر آپؐ نے اس کو فرمایا:(اس تھیلے کو لے جاؤ )اوراسے کھاؤ۔ (سنن ابي داؤد، كتاب الصيام،باب كَفَّارَةِ مَنْ أَتَى أَهْلَهُ فِي رَمَضَانَ)
قبولیت دُعا میں بھی روزہ دار کو ایک خاص مقام حاصل ہے۔جس ارشاد پاک میں حضرت محمدﷺنے تین اشخاص کی دعا کے بارے میں فرمایا کہ ان کی دعائیں رد نہیں کی جاتیں اور اللہ تعالیٰ ان کی دعاؤں کو قیامت کے دن آسمان کی بلندیوں تک لے جائے گا اور ان کے لیے آسمان کے دروازے کھولے جا ئیں گے۔ اُن دعاؤں میں ایک روزے دار کی دعا بھی شامل ہے۔ جیسا کہ فرمایا: ثَلاَثَةٌ لاَ تُرَدُّ دَعْوَتُهُمُ…وَالصَّائِمُ حَتَّى يُفْطِرَ… يَرْفَعُهَا اللّٰهُ دُونَ الْغَمَامِ يَوْمَ الْقِيَامَةِ وَتُفْتَحُ لَهَا أَبْوَابُ السَّمَاءِ(سنن ابن ماجه، كتاب الصيام، الصَّائِمُ لاَ تُرَدُّ دَعَوْتُهُ)
ایک روزہ دار جب سارا دن اللہ تعالیٰ کی رضا کی خاطر نہ کھاتا ہے اور نہ ہی پیتا ہے،تو اللہ تعالیٰ اُس کے اس عمل سے بہت خوش ہوتا ہے اور جب اُس کے کھانے کا وقت آ جاتا ہے اوروہ روزہ افطار کرتا ہے۔ تو اللہ تعالیٰ اِس وقت کو بڑی قدر کی نگاہ سے دیکھتا ہے اور اس وقت کی پکار و دُعا کو ضرور قبول فرماتا ہے۔ جیسا کہ نبی کریمؐ نے خوشخبری دیتے ہوئے فرمایا: إِنَّ لِلصَّائِمِ عِنْدَ فِطْرِهِ لَدَعْوَةً مَا تُرَدُّ یعنی روزہ افطار کرتے وقت جب روزہ دار دُعا کرتا ہے تو اس کو ردّ نہیں کیا جاتا۔
کہا جاتا ہے کہ غلطی کرنا انسان کی خصلت وعادت میں شامل ہے، کوئی کتنا ہی نیک و پاک سیرت ہو،پھر بھی وہ فرشتہ خصلت نہیں بن سکتا۔ اس لیے قوی اِمکان رہتا ہے کہ ایک انسان غلطی کرلے،چونکہ روزہ دار بھی انسان ہے، اس لیے ہوسکتا ہے کہ وہ روزہ تو رکھے لیکن غلطی سے کچھ کھا پی لے، اگر ایسی حالت ایک روزےدار پر آ جائے تو اُس کو پریشان ہونے کی بالکل کوئی ضرورت نہیں۔ کیو نکہ ہمارے نبیٔ کاملﷺ نے اس موقع پر بھی روزہ دار کو پریشانی سے بچانے کے لیے،صفتِ بشیر کے تحت خوشخبری دیتے ہوئے فرمایا:مَنْ نَسِيَ وَهُوَ صَائِمٌ فَأَكَلَ أَوْ شَرِبَ، فَلْيُتِمَّ صَوْمَهُ، فَإِنَّمَا أَطْعَمَهُ اللّٰهُ وَسَقَاهُ(صحيح مسلم، كِتَاب الصِّيَامِ،أَكْلُ النَّاسِي وَشُرْبُهُ وَجِمَاعُهُ لَا يُفْطِرُ) یعنی جس شخص نے بھول کر کچھ کھا یا پی لیا ہواور وہ روزہ سے ہو، تو اُسے چاہیے کہ وہ اپنا روزہ مکمل کرے۔(یعنی اُس کا روزہ نہیں ٹوٹا) کیونکہ اُس کو اللہ تعالیٰ نے کھلایا اور پلایا ہے۔
بایں ہمہ نبی کریمﷺ نے رو زہ دار کو جنّت کی بشارت دیتے ہوئے، اُس دروازے کا نام تک بتا دیا،جس میں سے گذرکر ایک روزہ دار جنّت میں داخل ہوگا۔ جیسا کے آپﷺ نے فرمایا:إِنَّ فِي الْجَنَّةِ بَابًا، يُقَالُ لَهُ: الرَّيَّانُ، يَدْخُلُ مِنْهُ الصَّائِمُونَ يَوْمَ الْقِيَامَةِ، لَا يَدْخُلُ مِنْهُ أَحَدٌ غَيْرُهُمْ، يُقَالُ: أَيْنَ الصَّائِمُونَ؟ فَيَقُومُوْنَ۔ فَإِذَا دَخَلُوا أُغْلِقَ، فَلَمْ يَدْخُلْ مِنْهُ أَحَدٌ(صحيح البخاريِ، كِتَاب الصَّوْمِ، بَابُ الرَّيَّانُ لِلصَّائِمِينَ) یعنی جنّت میں ایک دروازہ ہے جس کو ’’ریان‘‘ کے نام سے پکارا جاتا ہے۔ اُس کو صرف روزےدار قیامت کے دن جنّت میں داخل ہو نے کے لیے استعمال کریں گے، اس کے علاوہ کسی اورکو اس دروازے سے داخل ہونے کی اجازت نہ ہو گی۔پھر آپﷺ نے اپنی بات کو جاری رکھتے ہوئےفرمایا: جب روزےداروں کو پکارا جائے گا کہ وہ کہاں ہیں؟ تو وہ کھڑے ہو جائیں گے۔لیکن جب وہ داخل ہوجائیں گے تو دروازہ بند کر دیا جائے گا اور کسی اور کواس سے داخل ہونے کی اجازت نہ ہو گی۔
ایک خوشخبری آپؐ نے روزہ دار کو یہ بھی دی کہ اُس کے اِس عمل سے اُ س کے پچھلے گنا ہ بھی معاف ہو جاتے ہیں۔ جیسا کہ آپﷺ نے فرمایا:مَنْ صَامَ رَمَضَانَ إِيمَانًا وَاحْتِسَابًا غُفِرَ لَهُ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِهِ(مشکوۃ المصابیح :۱۹۵۸) یعنی جس نے رمضان کے روزے ایمان اور احتساب کی حالت میں رکھے،تو اُس کے پچھلے کیے ہوئےگنا ہ معاف کر دیے جاتے ہیں۔
نبی کریمﷺنے ایک روزے کو بھی جو خدا تعالیٰ کی خاطررکھا گیا ہو، بڑا مقام دیا ہے، جیسا کہ فرمایا: مَنْ صَامَ يَوْمًا فِي سَبِيلِ اللّٰهِ جَعَلَ اللّٰهُ بَيْنَهُ وَبَيْنَ النَّارِ خَنْدَقًا كَمَا بَيْنَ السَّمَاءِ وَالْأَرْضِ(مشکوٰۃ المصابیح :۲۰۶۴)یعنی جس شخص نے اللہ تعالیٰ کی خاطرایک دن کا روزہ ہی رکھا (اس کے بدلے میں) اللہ تعالیٰ اُس کے اور جہنم کی آگ کے درمیان ایک خندق بنا دے گا،جس کا درمیانی فاصلہ آسمان اور زمین کے درمیانی فاصلہ کے برابر ہو گا۔ایک اور جگہ آپؐ نے یوں فرمایا مَنْ صَامَ يَوْمًا فِي سَبِيلِ اللّٰهِ عَزَّ وَجَلَّ بَاعَدَ اللّٰهُ مِنْهُ جَهَنَّمَ مَسِيرَةَ مِائَةِ عَامٍ(سنن النسائی: ۲۲۵۴)یعنی جو شخص اللہ تعالیٰ کی خوشنودی کے لیےخواہ ایک دن کا روزہ ہی رکھے،اللہ تعالیٰ اُس سے جہنم کو سو سال کی مسافت کے برابر دُور کر دیتا ہے۔
مزید برآں اگر کوئی شخص رمضان کے علاوہ صرف تین روزے ہی ہر ماہ رکھتا ہے، تو اس کے اس فعل کو اللہ تعالیٰ اس قدر بڑھا دیتا ہے، کہ اُس کے تین ماہ کے روزوں کو سارے سال کے روزوں کے برابر شمار کر لیتا ہے۔جیسا کہ نبی کریم ﷺ کے ایک صحابی حضرت عبداللہ رضی اللہ عنہ کے بارے میں آتا ہےکہ وہ رمضان کے علاوہ بھی روزانہ روزہ رکھتے تھے۔ تو آپؐ نے اُنہیں اس عمل سے منع کیا ۔ لیکن ساتھ ہی خوش کُن خوشخبری دیتے ہوئے فرمایا : أَنْ تَصُومَ كُلَّ شَهْرٍ ثَلَاثَةَ أَيَّامٍ، فَإِنَّ لَكَ بِكُلِّ حَسَنَةٍ عَشْرَ أَمْثَالِهَا، فَإِنَّ ذَالِكَ صِيَامُ الدَّهْرِ كُلِّهِ۔ (صحیح بخاری، کتاب الصوم، باب حق الجسم فی الصوم) (یعنی اے عبداللہ) تم ہر ماہ تین دن کے روزے رکھ لیا کرو۔ کیونکہ ہر اچھے عمل کا بدلہ اللہ تعالیٰ دس گنا تک بڑھا کر دیتا ہے،اور اس طرح تمہارے روزے ساری عمر کے روزے ہو جائیں گے۔
اسی طرح جب کوئی روزے دار رمضان کے مہینے میں عبادت کے لیے کھڑا ہوتا ہے تو اُ س کو بھی رسول خداﷺنے گناہ کی معافی کی خوشخبری سنائی، جیسا کہ آپﷺ نے فرمایا:مَنْ قَامَ رَمَضَانَ إِيْمَانًا وَاحْتِسَابًا غُفِرَ لَهُ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِهٖیعنی جورمضان کے مہینےمیں ایمان اور احتساب کی حالت میں عبادت کے لیے کھڑا ہوتاہے۔ اُس کے پچھلے گناہ معاف ہوجاتے ہیں۔روزےدار کو اللہ تعالیٰ کے رسولﷺ نے ایک اور بشارت یوں بھی دی، فرمایا:إِذَا دَخَلَ شَهْرُ رَمَضَانَ فُتِّحَتْ أَبْوَابُ السَّمَاءِ، وَغُلِّقَتْ أَبْوَابُ جَهَنَّمَ، کہ جب رمضان کا مہینہ شروع ہوتا ہے تو جنت کے دروازے کھول دیے جاتے ہیں اور جہنم کے دروازوں کو بند کر دیا جاتاہے۔(سنن نسائي، كتاب الصیام)
ایک حدیث مبارکہ میں آنحضرت ﷺ نےروزہ دار کو ماہ رمضان میں رحمت،مغفرت اور جہنم سے بچاؤ کی بشارت دی۔جیسا کہ آپؐ نے فرمایا: ھُوَ شَہْرٌ اَوَّلُہٗ رَحْمَۃٌ وَاَوْسَطُہٗ مَغْفِرَۃٌ وَآخِرُہٗ عِتْقٌ مِّنَ النَّارِ۔یعنی یہ ایک ایسا مہینہ ہے جس کا پہلا عشرہ رحمت بن کر آتا ہے، درمیانی عشرہ مغفرت سے بھرپُور ہوتا ہے اور آخری عشرہ جہنم سے نجات دلانے والاہوتا ہے۔(مشکوٰۃالمصابیح کتا ب الصوم) کیا ہی بابرکت ہے یہ مہینہ! اور کیا خوب خوشی کا اظہار کرتا ہے اللہ تعالیٰ ایک روزےدار کے ساتھ۔ یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ نے اس بابرکت مہینے میں ایک خوشی والی خبر یہ بھی سنائی کہ اس مہینے میں ایک رات ایسی بھی آتی ہے۔ جو ہزار راتوں سے افضل اوربرتر ہے۔اور جس میں فرشتے اور روح القدس بکثرت اپنے ربّ کے حکم سے نازل ہوتے ہیں۔ اور یہ رات صبح تک سلامتی کے نزول کا موجب بنی رہتی ہے۔ جیسا کہ فرمایا: لَیۡلَۃُ الۡقَدۡرِ ۬ۙ خَیۡرٌ مِّنۡ اَلۡفِ شَہۡرٍ۔ تَنَزَّلُ الۡمَلٰٓئِکَۃُ وَالرُّوۡحُ فِیۡہَا بِاِذۡنِ رَبِّہِمۡۚ مِنۡ کُلِّ اَمۡرٍ۔ سَلٰمٌ ۟ۛ ہِیَ حَتّٰی مَطۡلَعِ الۡفَجۡرِ۔(القدر: ۴۔۶)
حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہُ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز اپنے ایک خطبہ جمعہ میں اس مضمون کو بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں ’’ایک روایت میں آتا ہے حضرت ابو مسعود غفاریؓ بیان کرتے ہیں کہ میں نے رمضان شروع ہونے کے بعد ایک روز آنحضور ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ اگر لوگوں کو رمضان کی فضلیت کا علم ہوتا تو میری اُمّت اس بات کی خواہش کرتی کہ سارا سال ہی رمضان ہو۔ اس پر بنو خزاعہ کے ایک آدمی نے کہا کہ اے اللہ کے نبیﷺ ہمیں رمضان کے فضائل سے آگاہ کریں۔ چنانچہ آپؐ نے فرمایا: یقیناً جنت کو رمضان کے لئے سال کے آغاز سے آخر تک مزیّن کیا جاتا ہے۔ پس جب رمضان کا پہلا دن ہوتا ہے تو عرش الٰہی کے نیچے ہوائیں چلتی ہیں۔ (الترغیب والترھیب۔ کتاب الصوم۔ الترغیب فی صیام رمضان احتساباً … حدیث نمبر 1498)پس یہ ہوائیں بھی اللہ تعالیٰ کے پاک بندوں کوجنہوں نے یہ عہد کیا ہو کہ اپنے اندر رمضان میں پاک تبدیلیاں پیدا کرنی ہیں اور تقویٰ اختیار کرنا ہے اونچا اڑاکر لے جانے والی ثابت ہوتی ہیں۔ اللہ تعالیٰ کا قرب دلانے والی بنتی ہیں۔ یہ جو فرمایا کہ سارا سال جنت کی تزئین و آرائش ہو رہی ہے۔ اس کا فیض یونہی نہیں مل جاتا۔ یقیناً روزوں کے ساتھ عمل بھی چاہئیں۔ پس جب اللہ تعالیٰ اتنا اہتمام فرما رہا ہو۔کہ سارا سال جنت کی تیاری ہو رہی ہے۔ کہ رمضان آ رہا ہے میرے بندے اس میں روزے رکھیں گے، تقویٰ پر چلیں گے، نیک اعمال کریں گے اور میں ان کو بخشوں گااور میں قرب دوں گا۔ تو ہمیں بھی تو اپنے دلوں کو بدلنا چاہئے۔ ہمیں بھی تو اس لحاظ سے تیاری کرنی چاہئے اور جو اللہ تعالیٰ نے موقع میسر کیا ہے اس سے فیض اٹھانا چاہئے۔‘‘ (خطبہ جمعہ فرمودہ ۷؍ اکتوبر ۲۰۰۵ء، الفضل انٹرنیشنل ۲۸؍اکتوبر۲۰۰۵ء)
اللہ تعالیٰ ہمیں رمضان کی بے شمار برکات سے مستفید ہونے کی توفیق عطا فرمائے، اور اس مبارک مہینے کی عبادات کے ذریعے اپنی رضا اور دائمی خوشیوں کا حصول نصیب فرمائے۔ پھر ان نیکیوں پر استقامت اور دوام عطا فرمائے تاکہ ہم زندگی بھر ان کی روشنی سے مستفید ہو سکیں۔ آمین
مزید پڑھیں: ’اسلامی اصول کی فلاسفی‘ کے حیرت انگیز اثرات