یادِ رفتگاں

میری امی۔امۃ الشافی صاحبہ

(عطیۃالعلیم۔ ہالینڈ)

ماں کا مضمون ایک ایسا پیارا مضمون ہے کہ جس پہ جتنا بھی لکھا جائے سیری نہیں ہوتی۔ہر ایک کو اپنی والدہ بہت عزیز ہوتی ہے اسی طرح مجھے بھی اپنی والدہ بہت پیاری تھیں۔آج حدیث مبارکہ کہ اُذْکُرُوْامَحَاسِنَ مَوْتَاکُم یعنی تم اپنے وفات یافتگان کی خوبیوں کا تذکرہ کیا کرو،کی تعمیل میں اپنی والدہ کے چند محاسن بیان کروں گی تا اس سے دوسروں میں بھی نیکی کی تحریک پیدا ہو۔
میری امی امۃ الشافی صاحبہ، محمد عبد اللہ شاہ صاحب مرحوم اور فضل نور بیگم صاحبہ کے آٹھ بچوں میں سے آخری اولاد تھیں۔محمد عبد اللہ شاہ صاحب گوجرہ میں ٹیچر تھے۔آمدنی محدود اور عیال داری زیادہ تھی تواس لیے گھر میں مالی کشادگی نہیں تھی۔ بعض اوقات کھانے کے لیے بھی پیسے نہیں ہوتے تھے لیکن جو تھا، جتنا تھا اسی میں گزارا کیا اور کسی کے آگے ہاتھ نہیں پھیلایا۔گھر میں بلا تفریق لڑکا اور لڑکی سب بچوں کو تعلیم دلائی۔اس طرح میری والدہ نےبھی تعلیم حاصل کرکے ٹیچنگ کا ڈپلومہ لیا۔دوران تعلیم امی جان کو ہاسٹل میں رہنا پڑا۔امی جان بیان کرتی تھیں کہ ہاسٹل میں قیام کے دوران انہیں ایک بار شدید بخار ہوگیا۔ساتھی لڑکیوں نے کہا کہ گھرسےوالد صاحب کو بلوا لو تا کہ وہ آ کے لے جائیں۔لیکن آپ نے سب کو سختی سے منع کیا کہ وارڈن کے راؤنڈ کے دوران کوئی ان کی بیماری کے متعلق نہیں بتائے گا مبادا وہ ازخود گھر اطلاع کردے اور والد صاحب پریشان ہو جائیں۔ یہ ایک چھوٹا سا واقعہ ہے۔ اور ہم نے پوری زندگی یہی دیکھا کہ امی جان اپنی تکلیف کا اظہار بہت ہی کم کرتی تھیں۔ہمیشہ یہ خیال رہتا کہ ان کی وجہ سے کسی کو تکلیف نہ ہو۔
آپ کا اپنے بھانجے ،بھانجیوں سے بھی بہت پیار کا تعلق تھا۔ شادی سے قبل جب سکول سے واپس آتیں تو ضرور ان کے لیے کھانے کو کچھ لاتیں اور ان بچوں کو بھی انتظار ہوتا کہ خالہ کچھ لائیں گی۔ ایک بھانجے قریباً آپ کی عمر کے ہی تھے۔ وہ آج تک یاد کرتے ہیں کہ خالہ شافی میری خالہ نہیں بلکہ دوست تھیں۔اسی طرح تمام بھانجیوں سے بہت پیار کیا۔ ان کے مسائل سنتیں۔ ان کو مشورے دیتیں اور وہ سب بھی آپ سے بہت پیار کرتیں۔
میرے والدین کی شادی طے پائی۔ بظاہر دونوں خاندانوں کے رہن سہن میں بہت اختلاف تھا۔ والدہ کا سارا خاندان احمدی،تعلیم یافتہ،شہر میں رہنے والا۔ اور والد صاحب کے خاندان میں سے صرف والد صاحب احمدی، تعلیم یافتہ اور باقی سب خاندان گاؤں میں رہتا تھا۔ لیکن اس کے باوجود سب سے بہت ہی پیار کا تعلق رہا۔ اپنے ساس سسر کی بہت خدمت کی۔ میری دادی جان مبارکہ بیگم صاحبہ جو ایک بڑی دبنگ خاتون تھیں۔ وہ بھی امی سے خوش گئیں۔ یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ میرے ددھیال میں احمدیت میرے والد صاحب کے ذریعے آئی اور جب والد صاحب کی شادی ہوئی تو سب کی نظریں امی پہ تھیں کہ ایک تو احمدی،دوسرا پڑھی لکھی اور تیسری ملازمت کرنے والی، کہ جانے ان کا سلوک اپنے سسرال سے کیسا ہوگا؟ لیکن امی جان نے اپنی نرم، عاجزانہ،پیار و محبت والی طبیعت سے سب کے خدشات دُور کردیے اور سب سے بہت ہی پیار کا تعلق رکھا۔ ہمیشہ عاجزانہ طریق اپنائے رکھا۔ اپنی کسی بھی بڑائی کا احساس نہیں۔ ہمیشہ ان سب کے ساتھ بے تکلفانہ تعلق رکھا۔ گھل مل جاتیں،ان کے مسائل سنتیںاور مشورے دیتیںاور مدد کی ضرورت ہوتی تو مدد کرتیں۔
میری دونوں پھوپھیوںکی شادی امی کی شادی سے بہت عرصہ قبل ہو چکی تھی اور وہ احمدی نہیں تھیں لیکن امی کے حسن سلوک،ان کی عاجزی ،نرم مزاجی کی وجہ سے باوجود اس کے کہ امی ان سے چھوٹی تھیں وہ امی سے بہت پیار کرتی تھیں۔ جب بھی ہماری پھوپھو ملنے آتیں تو بہترین مہمان نوازی کرتیں۔ ان کے مسائل سنتیں۔ ان کو مشورے دیتیں،ان کی مدد کرتیں۔
اسی طرح میرے سب چچا اور ان کے بچے بھی میری امی کو بہت احترام و پیار دیتے تھے۔بڑی بہو ہونے کی وجہ سے خاندان کو جوڑ کر رکھنے کی جو ذمہ داری آپ کی تھی اس کو بہت احسن طریق سے نبھایا۔ کسی کو کبھی بھی آپ کے ساتھ بات کرنے میں کوئی جھجک نہیں تھی۔ سب بلا تکلف آپ سے دل کی بات کہہ سکتے تھے۔ امی کی وفات کے بعد میری چچی جان نے بھی یہی کہا کہ ان کا امی کا کبھی دیورانی جٹھانی والا روایتی تعلق نہیں تھا۔ بلکہ بڑی ،چھوٹی بہن والا تھا۔ میری چچی امی جان کو آپا کہتیں۔ اور امی خود بھی یہ پسند کرتی تھیں کہ ان کے بچے انہیں بڑی امی کہیں۔
میرے والدین تدریس کے شعبہ سے منسلک تھے۔ امی جان کی زندگی اس لحاظ سے بہت سخت اور مشکل تھی کہ گھر داری بھی کرنی اور ملازمت بھی۔ صبح صبح ہمیں بھی تیار کرنا اور خود بھی سب کام نمٹا کر سکول جانا۔ اور اسی طرح واپسی پر بھی سب کام خود ہی آ کر کرنے۔ ہماری زندگیاں بنانے میں ایک بہت اہم کردار ہماری والدہ کا ہے۔ ان کی محنت ساتھ نہ ہوتی تو ہم آج یہاں نہ ہوتے۔ جیسا کہ میں نے بتایا کہ والدہ ٹیچر تھیں اور صبح انہیں خود بھی ڈیوٹی پہ جانا ہوتا اور ہمیں بھی تیار کرنا ہوتا تھا لیکن نماز تہجد کا کبھی ناغہ نہیں کیا۔ نماز تہجد کے لیے خود بھی اٹھتیں اور والد صاحب کو بھی توجہ دلاتیں۔ امی خود تو اڑھائی تین بجے نماز کی تیاری شروع کر دیتیں اور پھر اللہ کے حضور رو رو کے دعائیں کرتیں۔ ان کی نمازوں میں خشوع و خضوع ہمارے لیے نمونہ ہوتا تھا۔ نمازوں کو ادا کرنے کی طرف ہر وقت توجہ رہتی۔ امی ابو کو ہم نے ہمیشہ باجماعت نماز ادا کرتے دیکھا۔ نماز کے وقت سے بہت پہلے ہی کہنا شروع ہو جاتیں کہ نماز کب پڑھنی ہے۔ جب نماز ادا ہو جاتی تو پر سکون ہو جاتیں۔
تلاوت میں بہت باقاعدہ تھیں۔ ہماری اکثر آنکھ ان کی تلاوت کی خوبصورت آواز سے کھلتی۔ بہت میٹھی ،نرم آواز میں تلاوت کرتیں۔ ساتھ ساتھ ترجمہ بھی پڑھتیں۔ اور ہر بار تلاوت کے اختتام پہ ختم قرآن والی دعا دہراتیں جو ان سے سن سن کے ہمیں بھی یاد ہو گئی۔
خلفائے کرام اور جماعت سے بہت پیار تھا۔ حضور اقدس کے خطاب بہت شوق سے سنتیں۔ الفضل کا مطالعہ بہت شوق سے کرتیں۔ جماعتی خدمت جب تک صحت نے اجازت دی ادا کی اور ہمیشہ اس بابت ہماری بھی حوصلہ افزائی کی۔والد صاحب کی جماعتی مصروفیات میں والد صاحب کا ہر موقع پر دست و بازو بنی رہیں۔ میرے والد صاحب کو اللہ کے فضل سے دینی خدمت کی توفیق ملی اور اس تمام خدمت میں میری والدہ ایک خاموش ہیرو کی طرح ساتھ ساتھ تھیں۔ امی کی مدد اور تعاون سے ہی ان کو خدمت کا بھرپور موقع ملتا رہا۔
مالی قربانی خواہ وہ چندہ جات کی ادائیگی ہو یا ضرورت مندوں کی مدد، باقاعدگی سے کرتیں۔ ہمارے گھر کی مشترکہ دیوار بہت اونچی نہیں تھی اورہمسایوں کی اکثر آوازیں ہماری طرف آتی تھیں۔ان کو معاشی مسائل کا بھی سامنا تھا۔ ایک بار امی کو پتا چلا کہ انہیں پیسوں کی شدید ضرورت ہے۔ امی نے کچھ پیسے کسی پتھر کے گرد لپیٹ کر ان کی طرف پھینک دیے تا انہیں پتا نہ چلے کہ امی نے ان کی مدد کی ہے اور شرمندگی نہ ہو۔ انہوں نے اسے خدائی مدد سمجھ کر اپنی ضرورت پوری کی۔ اور ایسا کئی بار ہوا۔ کبھی سرّا ًاور کبھی اعلانیہ ان کی بھی اور دیگر ضرورت مندوں کی امداد کرتی رہتی تھیں۔
قرض لینا سخت ناپسند تھا۔ ہم پہلے کرائے کے گھر میں رہتے تھے۔ پھر دو کمرے کا گھر بنا کر وہاں شفٹ ہو گئے۔ لیکن وہ گھر صرف چار دیواری اور دو کمروں پر مشتمل تھا۔اس کو آہستہ آہستہ میرے والدین نے مکمل کیا۔ جتنے پیسے جمع ہوگئے کام کروا لیا،لیکن کبھی قرض نہیں لیا۔
سکول کی تعلیم کے ساتھ ساتھ ہماری دینی تعلیم کا بھی خاص خیال رکھتیں۔ جماعتی اجلاسات و پروگراموں پر جانے کے لیے ہمیشہ حوصلہ افزائی کرتیں۔نمازوں کی باقاعدگی کا بڑا خیال تھا۔میرا بھائی ابھی چھوٹا ہی تھا ۱۳، ۱۴؍سال کا تو نمازوں میں لاپروائی کرنے لگا۔ مجھے یاد ہے میری پیاری امی تہجد میں رو رو کر اس کے لیے دعائیں کرتیں کہ وہ نمازوں کو نہ چھوڑے۔اللہ تعالیٰ نے آپ کی دعاؤں کو سنااور میں نے دیکھا کہ بعد میں اس کو تعلیم و ملازمت کے لیے جب گھر سے باہر رہنے کا موقع ملا تو نماز باقاعدگی سے پڑھنا اس کی سب سے بڑی ترجیح تھی۔ اللہ تعالیٰ ان کی ان دعاؤں کو ہمارے بچوں کے حق میں بھی قبول فرمائے اور وہ کبھی بھی نماز نہ چھوڑیں۔
میری امی بہت ہی نرم طبیعت کی مالک تھیں،نرم اور پاک زبان کا استعمال کرتی تھیں۔ میری کالج کی دوستیں کہا کرتی تھیں کہ تم آنٹی کی بیٹی نہیں لگتی جو باوجود ٹیچر ہونے کے اس قدر soft spoken ہیں۔یہ واقعی میری والدہ کے لیےایک بہت بڑا complement تھا ۔
سکول میں ملازمت کے دوران کبھی بھی احمدیت کے ساتھ اپنے تعلق کو نہیں چھپایا بلکہ اسے قابل فخر سمجھا۔امی کے بااخلاق ہونے کی وجہ سے باقی ساتھی ٹیچرز بھی آپ کا بہت احترام کرتی تھیں اور باہم دوستی تھی۔ ہمیشہ سادہ زندگی گزاری، کپڑوں اور رہن سہن میں،کوئی بناوٹ نہیں۔ کوئی دکھاوا نہیںتھا۔ عورتوں کو کپڑوں، میک اپ کا شوق ہوتا ہے ان کا شوق نمازیں ، تلاوت قرآن و دعائیں کرنا تھا۔کوئی لغو مشغلہ نہیں پالا۔گھر کی صفائی ،پودوں کا شوق تھا۔ ایک بار طوطا بھی پالا۔ میری شادی کے بعد کا واقعہ ہے کہ اسے کہتیں میاں مٹھو دعا کرو آپی آ جائے۔ مجھے چھوٹے بہن بھائی آپی کہتے تھے تو اس لیے خود بھی یہی کہنا شروع کر دیا۔
زندگی کا سفر یوں ہی چلتا رہا۔ہماری تعلیمی ذمہ داریوں کے بعد،ہماری عائلی ذمہ داریوں سے بھی بطریق احسن سبکدوش ہوئیں۔ اب ہمارے بچے ان کی توجہ و دعاؤں کا محور تھے۔
ہم بہنیں شادی کے بعد جب گھر جاتیں تو امی جان نے گھر سیٹ رکھا ہوتا اور والدین کے گھر آنے کی ہماری وجہ سے طبیعت میں سستی کی وجہ سے ہمارا سامان بکھرا دیکھتیں تو پیار بھری ڈانٹ بھی پڑتی۔ تو ہم مذاق میں کہتیں کہ امی کو اپنے گھر کی صفائی کا ہمارے آرام سے زیادہ خیال ہے۔
میری امی کا ایک اہم وصف بلا شکوہ و شکایت کے زندگی بسر کرنا تھا۔کبھی کسی کا کوئی شکوہ اپنے بچوں سے بھی نہیں کیا۔ نااپنے بہن بھائیوں سے اپنی ذاتی تکلیفیں بیان کیں۔میرے بڑے ماموں امی سے بہت پیار کرتے تھے وہ کبھی کبھی کہتے کہ شافی میرے سے بھی دل کی بات نہیں کرتی مطلب یہی کہ کبھی کسی کی کوئی شکایت یا اگر کسی نے کوئی تکلیف دی اس کا اظہار بطور شکوہ کے نہیں کیا۔اگر کسی نے اچھا سلوک نہیں کیا تو خاموش رہیں۔ہم بچوں نے کبھی ایک لفظ بھی نہیں سنا۔ ہم بچوں سے بھی کبھی کوئی توقع نہیں کی۔کسی خواہش کا اظہار نہیں کیا۔ ہمیں بہت زیادہ یاد تو کرتی تھیں لیکن اس وجہ سے کہ وہ اداس ہیں ہمیں تکلیف ہوگی یہ بھی نہیں بتایا۔
بہت ہی مہمان نواز بھی تھیں۔ مہمانوں کو اللہ کی رحمت سمجھتی تھیں۔جو بھی گھر میں موجود ہوتا سب پیش کردیتیں۔ طبیعت میں تنگ دلی بالکل نہیں تھی،بہت خوش مزاج تھیں۔اپنی سادہ طبیعت ،نرم کلا می سے لوگوں کے دل میں جگہ بنا لیتیں۔
ہم دو بہنیں اور ایک بھائی ہیں۔ہم بہنوں سے تربیت کی خاطر کبھی سختی کرتیں تو والد صاحب ہماری طرفداری کرتے۔ اور بھائی کی طرفداری امی لیتیں۔ عجیب پیار بھری جنت تھی ہماری۔ گھر کا غریبانہ سا رہن سہن لیکن آپس میں احترام، پیار ،دوستی، نوک جھونک سے گھر کا ماحول ہمیشہ خوش گوار رہا۔ ہمیں امی کی تربیت کی وجہ سے کبھی بھی کسی معاملے میں احساس محرومی نہیں ہواکہ ہمارے پاس فلاں چیز نہیں،فلاں چیز نہیں۔ جتنا بھی تھا ہمارے لیے وہی کافی تھا۔ کبھی ہمیں کسی سے احساس کمتری بھی نہیں ہوا۔ ہر نعمت کا شکر کرنا امی سے ہم نے سیکھا۔ آخری وقت پہ جب کہ سب بھول چکی تھیں کوئی حال پوچھتا تو شکر الحمد للہ کہتیں۔ قناعت کا سبق ہمیں اپنے عملی نمونہ سے سکھا گئیں۔
اللہ تعالیٰ نے میری والدہ کو جیسا کہ ان کی دعا تھی بلامحتاجی زندگی عطا فرمائی۔آخری سالوں میں جب بھولنے کے مرض کی وجہ سے کام نہیں کر سکتی تھیں تو میرے والد صاحب نے ہر طرح ان کا خیال رکھا۔ سب کچھ بھول چکی تھیں لیکن صرف اپنا ساتھی یاد تھا ۔والد صاحب آنکھوں کے سامنے سے اوجھل ہو جاتے تو بہت پریشان ہوتیں۔وہ سامنے رہتے تو تسلی میں ہوتیں۔والد صاحب نے بھی ایک باوفا ساتھی ہونے کا حق ادا کیا۔امی کے ہرکام کو بہت پیار سے کرتے۔ کبھی اظہار نہیں کیا کہ اپنی اہلیہ کی خدمت کرنا میرے لیے مشکل ہے۔ بلکہ اکثر اگر کوئی پریشانی ہوتی تو ذکر بھی نہ کرتے۔ امی کے کھانے پینے کا، واک کا، دوائیوں کا خیال رکھتے۔ اللہ تعالیٰ انہیں بہترین جزائے خیر عطا فرمائے۔ان کا سایہ ہمارے سروں پہ سلامت رکھے۔آمین
بہن بھائی نے بہت کوششیں کیں کہ ان کو اپنے پاس بلوا سکیں لیکن شاید اللہ تعالیٰ کو منظور نہیں تھا۔ میرے بھائی اور بہن کو امی کی آخری خدمت کا موقع ملا۔یہ ان کی خوش نصیبی ہے۔آخر یکم نومبر۲۰۲۴ء کو پیاری والدہ اپنے خالق حقیقی سے جا ملیں۔انا للہ و انا الیہ راجعون۔

گلی اندھیری ہے، بس یہ گلی گزار آؤ
یہ رونے دھونے کو چھوڑو، مجھے اتار آؤ
کبھی ملے تو دوبارہ نہ اُس کو کھو دینا
تم اپنی ماں کے گلے لگ کے خوب رو لینا

امی جان اللہ تعالیٰ کے فضل سے موصیہ تھیں۔جمعہ کے دن وفات ہوئی، مسجد مبارک ربوہ میں نماز جنازہ ہوئی اور بہشتی مقبرہ دار الفضل میں تدفین کے بعد دعا ہوئی۔اللّٰھم نَوِّرْ مَرْقَدَھَا وَ اغْفِرْلَھَا وَ ارْحَمْھَا وَارْفَعَ دَرَجٰتَھا یَا اَرْحَمَ الرَّاحِمِیْن۔

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button