مذاہب کانفرنس لندن میں حضرت مصلح موعودؓ کی شرکت (انتخاب از خطبہ جمعہ حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ۲۸؍فروری۲۰۱۴ء)
یہ بات آج سے 90 سال پہلے کی ہے اور اس شہر لندن سے اس کا تعلق ہے۔ آپ میں سے بہت سے جانتے ہوں گے کہ ستمبر1924ء میں ایک مذاہب کانفرنس منعقد ہوئی تھی جس میں حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ خود بنفسِ نفیس شامل ہوئے تھے۔ آجکل تو ہمارے تعارف بھی ہیں، تعلقات بھی ہیں اور احمدیوں پر دنیامیں مختلف جگہوں پر جو ظلم ہو رہا ہے، اُس کی وجہ سے بہت سی حقوقِ انسانی کی جو تنظیمیں ہیں، اُن کی بھی نظر ہے۔ پھر ان تعلقات کی وجہ سے پارلیمنٹ کے ممبران اور پڑھے لکھے طبقے سے ہمارا یہاں بھی اور دنیا میں بھی تعارف ہے۔ لیکن اُس زمانے میں یہ سب کچھ نہیں تھا۔ مگر اس کے باوجود اللہ تعالیٰ نے جو خاص حالات پیدا فرمائے اور خود کانفرنس کرنے والی انتظامیہ نے مشورے کے بعد آپؓ سے لندن آ کر کانفرنس میں دینِ اسلام کے بارے میں کہنے کے لئے درخواست کی۔ یہ اللہ تعالیٰ کی خاص تائید و نصرت لئے ہوئے تھی۔ اور پھر جب ہم اُن حالات کو دیکھتے ہیں جو مالی لحاظ سے جماعت کے حالات تھے۔ اور اُس وقت آپ اپنے ساتھ گیارہ افراد کا وفد لے کے آئے تھے اور یہ بھی کوئی معمولی بات نہیں تھی بلکہ خود تو حضرت مصلح موعودؓنے اپنا خرچ ذاتی طور پر کیا، باقیوں کے لئے قرض لینا پڑا تھا۔ بہر حال پہلے تو یہاں نہ آنے کا فیصلہ ہوا، پھر دعا اور استخارے اور جماعت سے مشورے کے بعد یہ سفر ہوا اور اس میں اللہ تعالیٰ کی تائیدو نصرت کے نظارے ہمیں ہر جگہ نظر آئے۔ یہ خلیفۃ المسیح کا پہلا دورۂ یورپ تھا اور اس کے ساتھ عرب ممالک بھی شامل تھے۔ شام، مصر، فلسطین وغیرہ عرب ممالک میں تو سوائے حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ کے کسی بھی خلیفہ کا دورہ نہیں ہوا۔ اس کے بعد توحالات بگڑتے چلے گئے اور پابندیاں لگتی چلی گئیں۔ اس وقت مَیں اس کانفرنس کے مختصر حالات اور حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ کے بارے میں انگریزوں کے تاثرات بھی پیش کروں گا۔ یہ تاثرات جہاں آپؓ کی ذات کے علمی ہونے اور اللہ تعالیٰ کی خاص تائید ساتھ ہونے کا اظہار کرتے ہیں وہیں اس میں بعض تاریخی پہلو بھی ہیں جو ہمارے نوجوانوں کو پتہ ہونے چاہئیں۔ اُس زمانے میں سفر تو بحری جہاز کے ذریعہ ہوتے تھے اور سفر میں کئی دن لگتے تھے۔ ایک روز حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ اپنے ساتھیوں کے ساتھ فرسٹ اور سیکنڈ کلاس کے درمیان ڈیک پر نماز باجماعت پڑھا رہے تھے۔ نماز کے بعد فارغ ہو کر بیٹھے تھے۔ ساتھ ساتھی بھی بیٹھے تھے تو جہاز کے ڈاکٹر کا وہاں سے گزر ہوا جو Italian تھا۔ اس نے آپؓ کو بیٹھے دیکھا تو بے اختیار اُس کے منہ سے نکلا کہ Jesus Christ and twelve disciples یعنی یسوع مسیح اور اُس کے بارہ حواری۔ یہ ڈاکٹر حشمت اللہ صاحب کی روایت ہے۔ ڈاکٹر صاحب کہتے ہیں کہ یہ سنا تو میں حیرت زدہ رہ گیا کہ ڈاکٹر جو تھا Italian تھا اور اس لحاظ سے پوپ کی بستی کا رہنے والا تھا اُس نے کیسی صحیح اور عارفانہ بات کی ہے۔ (ماخوذ از تاریخ احمدیت جلد 4 صفحہ 437)
حضور رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے ساتھ جو گیارہ ساتھی تھے ان میں بارہویں چوہدری محمد شریف صاحب وکیل تھے جو اپنے طور پر سفر میں شامل ہوئے تھے۔
اب اس کانفرنس جو ویمبلےکانفرنس کہلاتی ہے، اس کا تاریخی پسِ منظر اور اغراض و مقاصد بھی پیش کرتا ہوں۔ شروع 1924ء میں انگلستان کی مشہور ویمبلے نمائش کے سلسلہ میں سوشلسٹ لیڈرولیم لافٹس ہیئر (William Loftus Hare) نے یہ تجویز کی کہ اس عالمی نمائش کے ساتھ ایک مذہبی کانفرنس بھی منعقد کی جائے۔ جس میں برطانوی مملکت کے، (اُس زمانے میں برطانیہ کی حکومت کی کالونیز تھیں، بہت جگہ پھیلی ہوئی تھی۔) مختلف مذاہب کے نمائندوں کو بھی دعوت دی جائے تاکہ وہ اس کانفرنس میں شریک ہوں اور اپنے اپنے مذہب کے اصولوں پر روشنی ڈالیں۔ نمائش کے منتظمین نے جن میں مستشرقین بھی شامل تھے اس خیال سے اتفاق کیا اور لندن یونیورسٹی کا علومِ شرقیہ کا سکول یعنی School of oriental studies جو ہے اُس کے زیرِ انتظام کانفرنس کے وسیع پیمانے پر انعقاد کے لئے ایک کمیٹی قائم کر دی گئی اور کانفرنس کا مقام اِمپیریل انسٹیٹیوٹ لندن مقرر کیا گیا اور 22؍ستمبر 1924ء سے 3؍اکتوبر1924ء تک کی تاریخیں رکھی گئیں اور کمیٹی نے ان مذاہب کے مقررین کو منتخب کیا اور اُن کو دعوت دی۔ ہندو مت، اسلام، بدھ ازم، پارسی مذہب، جینی مذہب، سکھ ازم، تصوف، برہمو سماج، آریہ سماج، کنفیوشس ازم وغیرہ۔ (ماخوذ از تاریخ احمدیت جلد 4صفحہ 422مطبوعہ ربوہ)
اُس زمانے میں حضرت مولوی عبدالرحیم صاحب نیّر رضی اللہ تعالیٰ عنہ جو 1923ء کے آغاز میں ہی لنڈن میں آئے تھے۔ وہ لندن میں تھے لیکن آپؓ کو اس کانفرنس کا علم نہیں ہوسکا تھا۔ جب کمیٹی کی تشکیل کے علاوہ مقررین بھی تجویز ہوچکے۔ (یہ سارا کام ہو چکا تھا اُس وقت) اور 1924ء کا کچھ حصہ بھی گزر گیا تو کسی نے ایک جگہ بیٹھ کر یونہی بر سبیلِ تذکرہ حضرت مولانا عبدالرحیم صاحب نیرؓ کے سامنے ذکر کیا جس پر آپ گئے اور کمیٹی کے جوائنٹ سیکرٹری ایم ایم شارپلز سے ملے۔ انہوں نے جب آپ کی باتیں سنیں تو محسوس کیا کہ اسلام کے متعلق احمدی جماعت کا نقطۂ نگاہ ضرور پیش ہونا چاہئے۔ تو کمیٹی میں اس کا ذکر ہوا۔ کمیٹی کے نائب صدر ڈاکٹر سر تھامس ڈبلیوآرنلڈ (Dr. Sir Thomas Walker Arnold) اُن کی شخصیت سے اور اُن کے علم سے وہ اتنے متاثر ہوئے کہ انہوں نے اس طرف توجہ دلائی کہ مقررین کے بارے میں بھی نیّر صاحب سے ضرور مشورہ کر لیا جائے۔ آجکل بعض دفعہ ہم لوگ ہمت ہار بیٹھتے ہیں کہ جی اب وقت گزر گیا، کچھ نہیں ہوسکتا۔ اُس وقت انہوں نے سب کچھ ہونے کے باوجود بھی ہمت کی، گئے اور ساری انتظامیہ کو قائل کر لیا۔ چنانچہ نیرّ صاحب کے ساتھ پھر اس پروگرام پر نظرِ ثانی ہوئی، اور ہندومت اور بدھ کے نمائندوں کے نام بھی اور اس کے علاوہ تصوف کی نمائندگی کے لئے بھی نیرّ صاحب سے مشورہ ہوا اور تصوّف کے لئے حضرت صوفی حافظ روشن علی صاحب رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا نام لکھا گیا۔ مگر ساتھ ہی انہوں نے یہ بھی بتایا کہ یہ حافظ روشن علی صاحب نہیں آ سکتے جب تک حضرت خلیفۃ المسیح الثانی جو امام جماعت احمدیہ ہیں، کی اجازت حاصل نہ کی جائے۔ تو کمیٹی میں جونہی یہ نام پیش ہوئے تو ڈاکٹر آرنلڈ اور پروفیسر مارگولیتھ (David Samuel Margoliouth) نے اور کمیٹی کے دوسرے ممبران نے نہایت خلوص اور محبت سے یہ فیصلہ کیا کہ حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ کی خدمت میں کانفرنس میں شمولیت کی درخواست کی جائے اور صوفی صاحب کو بھی ساتھ لانے کی گزارش کی جائے۔ اس طرح حضرت خلیفۃالمسیح الثانی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی خدمت میں انگلستان کے جو بڑے بڑے مستشرقین تھے، اُن کا دعوت نامہ پہنچا۔ (ماخوذ ازتاریخ احمدیت جلد 4صفحہ 423-422)
بہر حال جیسا کہ میں نے کہا، بڑے سوچ و بچار کے بعد یہ دعوت قبول کی گئی تھی۔ حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ نے کانفرنس کے لئے مضمون لکھنا شروع کیا اور اس کا ترجمہ اور اصلاح وغیرہ چوہدری ظفر اللہ خان صاحبؓ، مولوی شیر علی صاحبؓ اور حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ نے کی۔ لیکن جو مضمون لکھا گیا تھا تو وہ بہت لمبا بن گیا۔ اس کا کوئی حصّہ پڑھ کر سنانا مناسب نہیں تھا۔ اتنا وقت ہی نہیں تھا۔ کیونکہ سارا پڑھا نہیں جا سکتا تھا اور خلاصہ بیان کرنا مناسب نہیں تھا۔ اس لئے یہ فیصلہ ہوا کہ نیا مضمون لکھا جائے۔ چنانچہ پھر نیا مضمون لکھا گیا اور حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ نے لکھا اور اُس کا پھر ترجمہ ہوا۔ (ماخوذ از انوارالعلوم جلد8 صفحہ 423-422)