از مرکزجلسہ سالانہیورپ (رپورٹس)

حضرت اقدس مسیح موعودؑ کے ارشادات کی روشنی میں آپؑ کی بعثت کی ضرورت نیز احمدیت کے حق میں وقوع پذیر ہونے والے بعض تائیدی واقعات کا ایمان افروز تذکرہ (خلاصہ اختتامی خطاب جلسہ سالانہ جرمنی ۲۰۲۴ء)

٭… حضرت اقدس مسيح موعودؑکي تائيد ميں اللہ تعاليٰ زميني اور آسماني ہر دو طرح کے نشانات دکھلا رہا ہے، اللہ تعاليٰ باوجود ہزار مخالفت کے جماعت کو ترقي ديتا چلا جارہا ہے۔

ہر سال لاکھوں سعيد روحيں آپؑ کے سلسلہ بيعت ميں داخل ہوکر آنحضرتﷺ کي حقيقي غلامي کا جؤا اپني گردن ميں ڈال رہي ہيں

٭… آج جماعت احمديہ کے لٹريچر کي بنياد آپؑ کے اس لٹريچر پر ہے جس کو پڑھ کر اور سن کر لاکھوں لوگ ہر سال احمديت ميں شامل ہوتے ہيں

٭… مَيں وہي ہوں جو وقت پر اصلاحِ خلق کے ليے بھيجا گيا تا دين کو تازہ طور پر دلوں ميں قائم کر ديا جائے (حضرت مسیح موعودؑ)

٭…اڑتالیسویں جلسہ سالانہ جرمنی کے موقع پر تقریباً ۴۲؍ہزار افراد کی شمولیت

خلاصہ اختتامی خطاب برموقع جلسہ سالانہ جرمنی۲۴ء سیّدنا امیر المومنین حضرت مرزا مسرور احمدخلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ ۲۵؍اگست۲۰۲۴ء بمقام ایوان مسرور،اسلام آباد،ٹلفورڈ(سرے)، یوکے

(۲۵؍اگست۲۰۲۴ءاسلام آباد، ٹلفورڈ، نمائندگان الفضل انٹرنیشنل) آج جلسہ سالانہ جرمنی کا تیسرا اور آخری روز ہے۔ امیر المومنین حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے اس جلسے کے اختتامی اجلاس سے خطاب فرمایا۔عشاق خلافت کی ایک بڑی تعداد خطاب سے پہلے اپنے پیارے امام کی اقتدا میں نمازیں ادا کرنے کے لیے اسلام آباد پہنچ چکی تھی۔ چنانچہ دو بجے کے قریب جب حضور انور مسجد مبارک میں تشریف لائے اور نماز ظہر و عصر جمع کر کے پڑھائیں تو اس وقت مسجد کے علاوہ باہر نصب کی گئی مارکی بھی کافی حد تک پُر ہو چکی تھی۔نمازوں کے بعد ایوان مسرور میں منظم طریق پر احباب جماعت کو بٹھایا گیا۔ اس کے لیے پہلے سے ہی انتظامیہ کی طرف سے ’پہلے آؤ پہلے پاؤ ‘کے اصول کے تحت ٹکٹس جاری کی گئی تھیں۔

تشریف آوری حضورِ انور ایدہ اللہ تعالیٰ

تین بج کر ۳۲ منٹ پر جرمنی سے لگائے جانے والے ولولہ انگیز نعروں کی گونج میں حضور انور ایوان مسرور میں تشریف لائے۔حضور انور کرسیٔ صدارت پر تشریف فرما ہوئے اور تمام حاضرین کو ’السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ‘ کا تحفہ عنایت فرمایا۔ کارروائی کا باقاعدہ آغاز تلاوت قرآن کریم سے ہوا۔ محمد عمران بشارت صاحب نے سورۃ آل عمران کی آیات۱۰۳تا۱۰۸کی تلاوت کی۔ متلو آیات کا اردو ترجمہ از حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ لئیق احمد منیر صاحب(مربی سلسلہ) کو پیش کرنے کی سعادت ملی جبکہ جرمن ترجمہ سلمانSimonPeterGeelhaarصاحب نے پیش کیا۔بعد ازاں مرتضیٰ منان صاحب (مربی سلسلہ) نے حضرت اقدس مسیح موعودؑ کا پُر معارف منظوم کلام بعنوان’’محاسنِ قرآن کریم‘‘ میں سے بعض اشعار خوش الحانی سے پیش کیے۔ان اشعار کا آغاز درج ذیل شعر سے ہوا:

ہے شکرِ رب عزّ و جلّ خارج از بیاں

جس کے کلام سے ہمیں اس کا مِلا نشاں

اس کے بعد مکرم سیکرٹری صاحب تعلیم جماعت احمدیہ جرمنی نے تعلیمی اعزازات پانے والے طلبہ کے اسماء پڑھ کر سنائے۔

فہرست طلبہ

میڈیکل میں: ڈاکٹر عاصم احمد(Erzhausen)، ڈاکٹر نبیل احمد(Erzhausen)، ڈاکٹروجاہت احمد وڑائچ (Erzhausen)، ڈاکٹر ملک ولید احمد(Osnabruck)

پی ایچ ڈی: ڈاکٹر نوید احمد خان(Berlin)، ڈاکٹر کلیم احمد شیخ،(Lörrach)، ڈاکٹرعرفان احمد بھٹی(Grünberg)

اسٹیٹ کا امتحان: نیر احمد شیخ(Düsseldorf)، جمال احمد شیخ(Düsseldorf)، طلال بن خلیل (Babenhausen)

ماسٹرز: محمد دانیال احمد(Wetter)، روحان خان(Nied)، رضی ساجد بشارت(Bad Marienberg)، اوصاف احمد(Baitus sabuh Nord)، منیب احمد(Frankenberg)، تیمور احمد بھٹی(Flörsheim)، ظاہر علی انور(Böblingen)، رازق احمد طارق(Friedberg)، نوید بھٹی(Freinsheim)، توثیق احمد(Kiel)، مدثر مقبول(Babenhausen)، رحمت بشیر جنجوعہ(Düsseldorf)، مدبر احمد خواجہ(Bad Marienberg)، عطاءالمومن احمد(Düsseldorf)، رضوان محمود(Rüsselsheim Süd)، ماہر حماد ڈوگر(Frankfurt-Berg)، اطہر قدوس بسراء(Heppenheim)، دانیال احمد(Mainz Nord)، عرفان جاوید(Bocholt)، رافع طاہر(Eich Worms)، انس احمد(Trier)، سلیم مقبول(Harburg)، صفوان خالد(Reutlingen)۔

بیچلر: باسل احمد خان(Aalen)، سدید حمید(Wiesbaden Ost)، باسل دانش جان(Hausen)، طاہر شیخ(Ludwigshafen)، جاذب احمد (Wiesbaden West)، ارباب احمد(Leverkusen)، قاصد بھٹی(Wiesbaden- Süd)، دانیال شکور(Lampertheim)، عمر خان(Dornheim)، آرون شیویرک (Gießen)۔

اے لیول: زوہیب رحمان(Nasir Bagh)، حارث احمد(Homburg Saar)۔

جرمنی سے باہر اپنی تعلیم مکمل کرکے یہاں ڈپلومہ/رجسٹریشن کروانے والے: ڈاکٹر منیب احمد(Eppelheim)، ڈاکٹر عثمان احمد قمر(Idar Oberstein)، ڈاکٹر عامر مرزا(Bruchköbel)، ڈاکٹر عمار سندھو(Ahaus Westalen)۔

ماسٹرز: ڈاکٹر اسامہ داؤد (پاکستان سےایم اےعربی)

ٹھیک چار بجے حضور انور نے منبر پر تشریف لاکر تمام حاضرین کو ’السلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکاتہ‘ کا تحفہ عنایت فرمایا اور اختتامی خطاب کا آغاز فرمایا۔

خلاصہ خطاب حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ

تشہدتعوذ اور سورۃ الفاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ

جب سے کہ حضرت مسیح موعودؑ نے اپنے مسیح و مہدی ہونے کا دعویٰ کیااور خاتم الخلفاء ہونےکا اعلان فرمایا، اُسی وقت سے اُن علماء کی اکثریت جو آپؑ کو اسلام کا سب سے بڑا پہلوان اور اسلام کا دفاع کرنے میں اوّل نمبر پر سمجھتے تھے اُن کی اکثریت آپؑ کی مخالف ہوگئی۔ آپؑ نے ان کو لاکھ سمجھایا اور واضح فرمایا کہ میرا آنا زمانے کی ضرورت اور آنحضرتﷺ کی پیش گوئیوں کے عین مطابق اسلام کی نشأة ثانیہ کے لیے آنا ہے۔ آنحضرتﷺ نے آنے والے کے زمانے کی جو نشانیاں بیان فرمائی ہیں وہ سب پوری ہورہی ہیں اور زمانہ پکار پکار کر کہہ رہا ہے کہ یہی وہ زمانہ ہے کہ جب مسیح و مہدی نے آنا تھا، مگر مخالفین کی آنکھوں پر پردے پڑے ہوئے ہیں باوجود زمانے کی ضرورت کااقرار کرنے کے، یہ حضرت مرزا غلام احمد قادیانی علیہ السلام کو مسیح موعودماننے کے لیے تیار نہیں۔ یہ بنی اسرائیل کے نبی کو تو مسیح موعود ماننے کو تیار ہیں مگر آنحضرتﷺ کی پیش گوئی اور اللہ تعالیٰ کےوعدے کے مطابق آنے والے اور تجدیدِ دین کرنے والے کو ماننے کے لیے تیار نہیں۔

حضرت اقدس مسیح موعودؑکی تائید میں اللہ تعالیٰ زمینی اور آسمانی ہر دو طرح کے نشانات دکھلا رہا ہے، اللہ تعالیٰ باوجود ہزار مخالفت کے جماعت کو ترقی دیتا چلا جارہا ہے۔ ہر سال لاکھوں سعید روحیں آپؑ کے سلسلہ بیعت میں داخل ہوکر آنحضرتﷺ کی حقیقی غلامی کا جؤا اپنی گردن میں ڈال رہی ہیں۔

اس وقت مَیں حضرت مسیح موعودؑ کے الفاظ میں ہی ضرورتِ زمانہ کے حوالے سے کچھ اقتباسات اور واقعات پیش کروں گا۔ کاش! مسلمان اسے سنیں اور اس پر غور کریں۔

حضرت مسیح موعودؑ فرماتے ہیں: اے حق کےطالبو اور اسلام کے سچّے محبّو! آپ لوگوں پر واضح ہے کہ یہ زمانہ جس میں ہم لوگ زندگی بسر کر رہے ہیں یہ ایسا تاریک زمانہ ہے کہ کیا ایمانی اور کیا عملی سب میں فساد واقع ہوگیا ہے اور ایک تیز آندھی ضلالت اور گمراہی کی ہر طرف سے چل رہی ہے۔ وہ چیز جس کو ایمان کہتے ہیں اُس کی جگہ چند لفظوں نے لے لی ہے جن کا محض زبان سے اقرار کیا جاتا ہے… اس زمانے کا فلسفہ اور طبعی بھی روحانی صلاحیت کا سخت مخالف پڑا ہےاُس کے جذبات اُس کے جاننے والوں پر نہایت بد اثر کرنے والے اور ظلمت کی طرف کھینچنے والے ہوتے ہیں۔

فرمایا :جو لوگ کالجوں میں پڑھتے ہیں اکثر ایسا ہوتا ہے کہ ہنوز وہ اپنے عُلومِ ضروریہ کی تحصیل سے فارغ نہیں ہوتے کہ دین اور دین کی ہمدردی سے پہلے ہی فارغ ہوچکتے ہیں۔ یہ مَیں نے صرف ایک شاخ کا ذکر کیا ہے جو حال کے زمانے میں ضلالت کے پھلوں سے لدی ہوئی ہے۔ مگر اس کے سوا صدہا اور شاخیں بھی ہیں جو اس سے کم نہیں۔

فرمایا: اسلام کے مٹانے کے لیے جھوٹ اور بناوٹ کی تمام باریک باتوں کو نہایت درجہ جانکاہی سے پیدا کرکے ہر ایک راہزنی کے موقع اور محل پر کام میں لارہے ہیں۔حضورِانور نے فرمایا: آج کل سوشل میڈیا پر یہ چیزیں بھری پڑی ہیں۔

حضورؑ نےفرمایا :بہکانےکے نئے نئے نسخے اور گمراہ کرنے کی جدید صورتیں تلاشی جارہی ہیں اور اُس انسانِ کامل کی سخت توہین کر رہے ہیں جو تمام مقدسوں کا فخر اور تمام مقربوں کا سرتاج اور تمام بزرگ رسولوں کا سردار تھا۔ یہاں تک کہ ناٹک کے تماشوں میں نہایت شیطنت کے ساتھ اسلام اور ہادی پاک اسلام کی برے برے پیرایوں میں تصویریں دکھائی جاتی ہیں۔

حضورِانور نے فرمایا کہ آج تو انتہا ہوچکی ہے گوکہ عیسائی چرچ اب اتنا فعال نہیں ہے لیکن اسلام مخالف قوّتیں اپنے بھرپور ایجنڈے کے ساتھ یہ کام کر رہی ہیں۔

حضورؑ فرماتے ہیں کہ اب اے مسلمانو! سنو! اور غور سے سنو! کہ اسلام کی پاک تاثیروں کے روکنے کے لیے جس قدر پیچیدہ افترا اس قوم میں استعمال کیے گئے …یہ وہ ساحرانہ کارروائیاں ہیں کہ جب تک کہ ان کو اِ س سحر کے مقابلے میں خدا تعالیٰ وہ پُرزور ہاتھ نہ دکھاوے جو معجزے کی قوّت اپنے اندر رکھتا ہو اور اس معجزے سے اس طلسمِ سحر کو پاش پاش نہ کرے تب تک اس جادوِ فرنگ سے سادہ لوح دلوں کو مخلصی حاصل ہونا بالکل قیاس اور گمان سے باہر ہے۔

سوخدا تعالیٰ نے اس جادو کے باطل کرنے کے لیے اس زمانے کے سچّے مسلمانوں کو یہ معجزہ دیا کہ اپنے اِس بندے کو اپنے الہام اور کلام اور اپنی برکاتِ خاصہ سے مشرف کرکے اور اپنی راہ کے باریک عُلوم سے بہرہ کامل بخش کر مخالفین کے مقابل پر بھیجا۔

حضورِانور نے فرمایا کہ حضرت مسیح موعودؑ پر انگریز کا خود کاشتہ پودا ہونے کا الزام لگایا جاتا ہے۔ آپؑ نے اُس زمانے میں جب ہندوستان پر فرنگی حکومت تھی کُھل کر ان کے مکر کے خلاف آواز بلند کی اور بتایا کہ یہی وقت ہے جب اسلام کی حفاظت کے لیے کسی مصلح کا آنا ضروری تھا اور مَیں آگیا ہوں۔ آپؑ نے اپنے ایک شعری کلام میں فرمایا:؎

وقت تھا وقتِ مسیحا نہ کسی اور کا وقت

مَیں نہ آتا تو کوئی اور ہی آیا ہوتا

حضرت مسیح موعودؑ نے شیعہ اور سنّی معتبر کتب کے حوالوں سے آنے والے مسیح و مہدی کی علامات کا مفصل تذکرہ فرمایا ہے کہ آنے والے مہدی کے دَور میں طاعون پڑے گی اور سورج اور چاند کو گرہن لگے گا۔

آپؑ فرماتے ہیں :بِلا شبہ یہ امر تواتر کے درجے پر پہنچ چکا ہے کہ مسیح موعود کے نشانوں میں سے ایک یہ بھی ہے کہ اس کے وقت میں اور اس کی دعا اور توجہ سے ملک میں طاعون پھیلے گی اور آسمان اس کے لیے چاند اور سورج تاریک کرے گا۔

حضورِانور نے فرمایا کہ ۱۸۹۴ء اور ۱۸۹۵ء میں چاند اور سورج آپؑ کی صداقت پر یہ مہرِ تصدیق لگا چکے ہیں۔ آج بھی جب سعید فطرت لوگ روایات میں ان علامات کو پڑھتے ہیں اور پھر تاریخ میں حضورؑ کے لیے ان نشانیوں کے پورا ہونے کا ذکر دیکھتے ہیں تو حق کو قبول کرنے میں دیر نہیں لگاتے۔چنانچہ ہر سال ہزاروں لوگ ان نشانوں کو سن کر آپؑ کی بیعت میں شامل ہوتے ہیں۔

حضرت مسیح موعودؑ فرماتے ہیں کہ یہ سوال کرنا ان کا حق ہے کہ ہم کیونکر یہ دعویٰ مسیح موعود ہونے کا دیکھ کر قبول کریں اور اس پر دلیل کیا ہے؟ اس کا جواب یہی ہے کہ جس زمانے اور جس ملک اور جس قصبے میں مسیح موعود کا ظاہر ہونا قرآن کریم اور احادیث سے ثابت ہوتا ہے اور جن افعالِ خاصّہ کو مسیح موعود کے وجود کی علّتِ غائی ٹھہرایا گیا ہے اور جن حوادثِ ارضی و سماوی کو مسیح موعود کے ظاہر ہونے کی علامات بیان فرمایا گیا ہے اور جن علوم و معارف کو مسیح موعود کا خاصّہ ٹھہرایا گیا ہے وہ سب باتیں اللہ تعالیٰ نے مجھ میں اور میرے زمانے میں اور میرے ملک میں جمع کردی ہیں۔

حضور انور نے فرمایا کہ

خود ہی لوگ پکار پکار کر کہہ رہے ہیں کہ اس وقت امت مسلمہ کو کسی مصلح کی ضرورت ہے لیکن جو اللہ تعالیٰ کی طرف سے بھیجا گیا ہے اُسے مانتے نہیں بلکہ مخالفت میں انتہا پر بڑھے ہوئے ہیں۔

پھر اپنے ایک علمی معجزہ اور اللہ تعالیٰ کی تائید اور نصرت کے ایک نشان کا ذکر کرتے ہوئے ایک جگہ آپؑ فرماتے ہیں کہ ایک دفعہ قادیان میں میرے پاس ایک صاحب آئے جن کا نام سوامی شوگن چندر تھا اور کہا کہ میں ایک مذہبی جلسہ جس کا نام جلسہ مذاہب مشہور کیا گیا،کرنا چاہتا ہوں اور بہت اصرار کیا کہ آپؑ بھی اپنی مذہبی خوبیوں کے متعلق کچھ لکھیں تا اس جلسے میں پڑھا جائے۔چونکہ میں جانتا ہوں کہ میں اپنی ذاتی طاقت سے کچھ بھی نہیں کر سکتا بغیر خدا کے بلائے بول نہیں سکتا اور بغیر اُس کے دکھانے کے کچھ دیکھ نہیں سکتا اس لیے میں نے جناب الٰہی میں دعا کی کہ وہ مجھے ایسے مضمون کا القاء کرے جو اس مجمع کی تمام تقریروں پر غالب رہے۔میں نے دعا کے بعد دیکھا کہ ایک قوت میرے اندر پھونک دی گئی ہے۔میں نے اس آسمانی قوت کی ایک حرکت اپنے اندر محسوس کی اور میرے دوست جو اُس وقت حاضر تھے جانتے ہیں کہ میں نے اس مضمون کا کوئی مسودہ نہیں لکھا۔ جو کچھ لکھا فوری طور پر لکھتا گیا اور ایسی تیزی اور جلدی سے میں لکھتا جاتا تھا کہ نقل کرنے والے کےلیے مشکل ہوگیا کہ اس قدر جلدی اس کی نقل لکھے۔ جب میں مضمون ختم کر چکا تو خدا تعالیٰ کی طرف سے الہام ہوا کہ مضمون بالا رہا۔ خلاصہ کلام یہ کہ جب وہ مضمون اس مجمع میں پڑھا گیا تو اس کے پڑھنے کے وقت سامعین کے لیے ایک عالم وجد تھا اور ہر ایک طرف سے تحسین کی آواز تھی۔ یہاں تک کہ اس مجمع کے صدر نشین ایک ہندو صاحب کے منہ سے بے اختیار نکل گیا کہ مضمون تمام مضامین سے بالا رہا۔سول اینڈ ملٹری گزٹ جو لاہور سے انگریزی اخبار نکلتا ہے اس میں بھی شہادت کے طور پر شائع ہواکہ یہ مضمون بالا رہا اورشایدبیس کے قریب ایسے اردو اخبار ہوں گے جنہوں نے یہی شہادت دی۔ اس مجمع میں موجود بعض متعصب لوگوں کی تمام زبانوں پر یہی تھا کہ یہی مضمون فتحیاب ہوا اورآج تک صدہاآدمی ایسے موجود ہیں جو یہی گواہی دے رہے ہیں۔ غرض ہر ایک فرقے کی شہادت اور نیز انگریزی اخباروں کی شہادت سے میری پیشگوئی پوری ہو گئی کہ مضمون بالا رہا۔ یہ مقابلہ اس مقابلے کی مانند تھا جو موسیٰ نبی کو ساحروں کے ساتھ کرنا پڑا تھا۔ کیونکہ اس مجمع میں بھی مختلف خیالات اور مختلف مذاہب عیسائی، سناتن دھرم،آریہ سماج کے ہندو، بعض سکھ اور بعض مخالف مسلمان سب نے اپنی اپنی لاٹھیوں کے خیالی سانپ بنائے تھے لیکن جب خدا نے میرے ہاتھ سے اسلامی راستی کا عصا ایک پاک اور پُر معارف تقریر کے پیرایہ میں ان کے مقابل پر چھوڑا تو وہ اژدہا بن کر سب کو نگل گیا اورآج تک میری اس تقریر کا تعریف کے ساتھ چرچا ہے جو میرے منہ سے نکلی تھی۔ فالحمدللہ علیٰ ذالک

حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا یہ لیکچرجو ’’اسلامی اصول کی فلاسفی ‘‘کے نام سے چھپا ہوا ہے اس کے حوالہ سے ایک دو واقعات بیان کرتا ہوں۔

مالی شہرکے فیسٹیول میں ایک دوست ہمارے بک سٹال پر آئے اور ہمارے معلم کو دیکھتے ہی گلے لگایا۔اُن کی آنکھوں میں خوشی کے آنسوآگئے۔انہوں نے بتایا کہ سال۲۰۲۲ء میں انہوں نے ہمارے بک سٹال سے ایک کتاب ’’اسلامی اصول کی فلاسفی‘‘ خریدی تھی جس کے مطالعہ کے بعد انہوں نے اپنے آپ سے کہا کہ

جس شخص نے یہ کتاب لکھی ہے وہ لازماً ایک عظیم شخص ہے

اور ساتھ ہی انہوں نے دعا کرنی شروع کر دی کہ اللہ تعالیٰ انہیں صحیح راستہ دکھائے۔ وہ کہتے ہیں کہ اسی دوران انہوں نے خواب دیکھا کہ کوئی انہیں کہہ رہا ہے کہ اس کتاب کا مصنف ہی آج کے دور میں اسلام کا صحیح راہنما ہے۔ اُن کے پاس جماعت کا کوئی رابطہ نہیں تھا اس لیے مزید تحقیق نہ کر سکے لیکن اس سال میلے پر انہوں نے جماعتی سٹال دیکھا تو ان کی خوشی کی انتہا نہ رہی اور اس لیے آتے ہی انہوں نے ہمارے معلم صاحب کو خوشی سے گلے لگا لیا،جماعت کا ایڈریس لیا اور بیعت کا ارادہ بھی ظاہر کیا۔

ڈوری کے مبلغ لکھتے ہیں کہ سیکیورٹی کے مخدوش حالات کی وجہ سے گاؤں میں جا کر تبلیغ کرنا نا ممکن تھا اس لیے شہر میں تبلیغ کی کوشش کی گئی جس کے نتیجہ میں الحمدللہ اس سال ۳۷؍نیک فطرت لوگ بیعت کر کے احمدیت میں داخل ہوئے۔

ڈوری شہر کے ایک تاجر کو اسلامی اصول کی فلاسفی کتاب پڑھنے کے لیے دی تو کتاب پڑھ کر اس نے کہا کہ اگر مجھے ایک لاکھ سیفا میں بھی یہ کتاب خریدنی پڑے تو میں ضرور خرید لوں گا۔

اسی طرح حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا دوسرا علمی لٹریچر جب سعید فطرت لوگوں کو دیا جاتا ہے تو متاثر ہوئے بغیر نہیں رہتے۔

آج جماعت احمدیہ کے لٹریچر کی بنیاد آپؑ کے اس لٹریچر پر ہے جس کو پڑھ کر اور سن کر لاکھوں لوگ ہر سال احمدیت میں شامل ہوتے ہیں۔

تنزانیہ کے امیر جماعت کہتے ہیں کہ ایک ممبر آف پارلیمنٹ سیف سالم سیف صاحب تنزانیہ کی پارلیمنٹ کے اجلاس میں شرکت کے بعدنماز ظہر کی ادائیگی کےلیے ہماری مسجد میں آئے۔اُن سے جماعت کے بارے میں، وفات مسیح اور ختم نبوت کے بارے میں تفصیلی گفتگو ہوئی اور اُن کے شبہات دُور کیے۔اُنہیں ’’کشتی نوح ‘‘کا سواحیلی ترجمہ دیا اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی چند کتب پڑھنے کے لیے دیں۔وہ تقریباًدو ماہ تک وقتاً فوقتاً ہمارے پاس آتے رہے اور اپنی اہلیہ کو بھی ساتھ لائے۔قرآن کریم کا سواحیلی ترجمہ بھی خرید کر لے گئے۔اُن کے لیے دعا بھی کی اور بعد ازاں دونوں نے جماعت میں شمولیت اختیار کرلی اور کہا کہ آپؑ یقیناً اللہ تعالیٰ کے فرستادوں میں سے ہیں۔

آسام انڈیا کے ایک مسلمان ممبر آف پارلیمنٹ اپنے کچھ ساتھی افسران کے ساتھ ہمارے سٹال پرآئے۔ مبلغ صاحب نے قرآن مجید کی رُو سے وفات مسیح کے دلائل اور آیات پیش کیں۔موصوف نے کہا کہ ہمارے مولوی صرف قرآن کو یاد کرتے ہیں اور اس کے معنی اور تفسیر سے واقف نہیں ہیں جس کی وجہ سے آج مسلمانوں کا یہ حال ہے۔

احمدی لوگ دراصل ایک امام کے حکم پر چلنے کی وجہ سے قرآن کے صحیح معنی بھی کرتے ہیں اور جماعت ترقی بھی کر رہی ہے۔ہم سب مسلمانوں کو چاہیے کہ احمدیوں سے حسد کرنے کی بجائے کچھ سیکھیں اور اسلام کی اصل تعلیم کا جس طرح سے یہ لوگ پرچار کر رہے ہیں اس میں ہم بھی مدد کریں۔

موصوف نے کھل کر یہ بات بھی کہہ دی کہ میں سچائی کوجانتا ہوں کہ یہی سچائی ہے لیکن میں آپ لوگوں کا پرچار نہیں کر سکتا اور نہ مان سکتا ہوں کیونکہ میرےاسی فیصد ووٹ مسلمانوں کے ہیں۔ سیاست نے مجھے مجبور کر دیا ہے کہ میں حق کو جاننے کے باوجود بھی قبول نہ کروں۔ البتہ آج مجھے یقین ہو گیا ہے کہ جماعت احمدیہ سچائی پر ہے اور ایک دن ان کے ساتھ ہی ہم سب کوآنا ہوگا۔ اللہ کرے کہ ان کا دل اس سلسلے میں کھل جائے۔

حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں کہ

اللہ تعالیٰ نےہم کو ہزاروں ایسے نشانات عطا کیے ہیں جن سے اللہ تعالیٰ کی ہستی پر مزید ایمان پیدا ہوتا ہے اور ہماری جماعت کے جس قدر لوگ اس جگہ موجود ہیں ان میں سے کوئی ایسا نہیں جس نے کم از کم دو چار نشان نہیں دیکھے۔

اگر ان سے سوال کیا جائے تو ہر ایک اپنے آپ کو گواہ قرار دے گا۔ کیا ممکن ہے کہ ایسے طبقے کے انسان جن میں عاقل، فاضل،طبیب، ڈاکٹر،سوداگر، مشائخ، سجادہ نشین، وکیل اور معزز عہدے دار ہیں بغیر کوئی تسلی پانے کے یہ اقرار کر سکتے ہیں کہ ہم نے جس قدر آسمانی نشان بچشم خود دیکھے۔اگر انہوں نے پورے طور پر میرے دعوے پر یقین حاصل نہیں کیا اور پوری تسلی نہیں پائی تو کیوں وہ اپنے گھروں کو چھوڑ کر اور عزیزوں سے علیحدہ ہوکرغربت اور مسافری میں اس جگہ میرے پاس آتے ہیں اور اپنی اپنی استعدادکے موافق مالی امداد میں میرے سلسلے کے لیے فدا اور دلدادہ ہیں۔ ہر ایک بات کا وقت ہے اور کوئی نہیں جو خدا کے ارادے ٹال دے۔

آج عیسائیوں اور دوسرے مذاہب کے ماننے والوں کو اسلام کی حقیقی تصویر کون دکھا رہا ہے۔ احمدی ہیں جو یہ کام کر رہے ہیں اور عیسائیوں کو بھی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے جھنڈے تلے لےکر آ رہے ہیں اور جو ہمارے مخالف ہیں ان کا کام صرف آپس میں لڑنا اور ذاتی مفادات حاصل کرنا ہے۔

برازیل میں بھی ایک پادری صاحب اپنے ہی ایمان کے مطابق حضرت عیسیٰؑ کے بارے میں چند سوالات کے جوابات نہ دے سکے اور جب اسلامی تعلیم کے حوالے سے اُسے بتایا گیا تو اس کے ساتھ آئے ہوئے چھ افراد نے یہ کہتے ہوئے جماعت میں شمولیت اختیار کر لی کہ اسلامی تعلیم یسوع کے بارے میں زیادہ واضح،صحیح اور عقل کے مطابق ہے جبکہ عیسائیت کی تعلیم ناقابل قبول ہے۔پادری نے کہا کہ اس میں کوئی شک نہیں کہ اسلام کی تعلیم زیادہ کامل ہے لیکن میں چرچ کو نہیں چھوڑ سکتا۔اگر میں نے چرچ کو چھوڑ دیا تو گاؤں سے یسوع کا نام لینے والا کوئی نہیں ہوگا۔اب تک خدا تعالیٰ کے فضل سے اس گاؤں میں ستر افراد کی بیعت ہوچکی ہے اور ایک مضبوط جماعت بھی قائم ہو گئی ہے۔ جتنے زیادہ کفر کے فتوے لگتے ہیں اتنے زیادہ اللہ تعالیٰ راستے کھولتا ہے۔

حضور انور نے بوسنیا اور فرانس کے واقعات بیان کرتے ہوئے فرمایا کہ ایک غیر احمدی کہتے ہیں کہ وفات مسیح کے متعلق جو جواب احمدیوں سے ملتا ہے وہ دل کو تسکین دینے والا ہوتاہے جبکہ دوسرے فرقے مزید الجھا دینے والے جواب دیتے ہیں۔اور جو جواب حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی تفسیر کبیر سے ملتے ہیں وہ کہیں اور نہیں ملتے۔اس لیے میں جماعت کے بہت قریب آگیا ہوں۔

گنی کناکری کے ایک علاقہ میں جب تبلیغ کی گئی تو ایک گاؤں کے امام صاحب سب کے سامنے کہتے ہیں کہ میں صدقِ دل اور تمام سچائی کے ساتھ ایک بات بتاتا ہوں کہ کچھ عرصہ قبل میں نے خواب میں دیکھا تھا کہ کچھ اجنبی لوگ ہمارے گاؤں میں آئے ہیں اور ہم جو مسلمان ہیں ہمیں اسلام کا ہی پیغام دے رہے ہیں اور ان کے پیغام میں اتنی پاکیزگی اور سچائی ہے کہ ہمارا گاؤں تیز روشنی سے منور ہو گیا ہے اور تمام اندھیرے دور ہو گئے ہیں۔ اس پر میری آنکھ کھل گئی اور میں سوچنے لگا کہ شاید اللہ تعالیٰ ہمیں سیدھے راستے کی طرف لانا چاہتا ہے۔ آج جب میں ان کی باتیں سن رہا ہوں میرا دل اس نُور سے جو میں نے خواب میں دیکھا تھا حقیقتاً منور ہوتا جا رہا ہے اور کہنے لگے کہ بغیر کسی شک کے میں بیعت کر کے اس حقیقی اسلام میں شامل ہو رہا ہوں۔

حضرت مسیح موعودؑ فرماتے ہیں کہ

مَیں وہی ہوں جو وقت پر اصلاح خلق کے لیے بھیجا گیا تا دین کو تازہ طور پر دلوں میں قائم کر دیا جائے۔

میں اس طرح بھیجا گیا ہوں جس طرح سے وہ شخص بعد کلیم اﷲ مردخدا کے بھیجا گیا تھا جس کی روح ہیرو ڈیس کے عہد حکومت میں بہت تکلیفوں کے بعد آسمان کی طرف اٹھائی گئی۔ سوجب دوسرا کلیم اﷲ جو حقیقت میں سب سے پہلا اور سیّدالانبیاءہے دوسرے فرعونوں کی سرکوبی کے لیے آیا جس کے حق میں ہے:اِنَّاۤ اَرۡسَلۡنَاۤ اِلَیۡکُمۡ رَسُوۡلًا ۬ۙ شَاہِدًا عَلَیۡکُمۡ کَمَاۤ اَرۡسَلۡنَاۤ اِلٰی فِرۡعَوۡنَ رَسُوۡلًا۔اے لوگو! ہم نے تمہاری طرف ایک ایسا رسول بھیجا ہے جو تم پر نگران ہے اسی طرح جس طرح فرعون کی طرف رسول بھیجا تھا۔

تو اس کو بھی جو اپنی کارروائیوں میں کلیم اوّل کا مثیل مگر رتبہ میں اس سے بزرگ تر تھا ایک مثیل مسیح کا وعدہ دیا گیا اور وہ مثیل مسیح قوت اور طبع اور خاصیت مسیح ابن مریم کی پا کر اسی زمانہ کی مانند اور اسی مدت کے قریب قریب جو کلیم اول کے زمانہ سے مسیح ابن مریم کے زمانہ تک تھی یعنی چودھویں صدی میں آسمان سے اُترا اور وہ اُترنا روحانی طور پر تھا جیسا کہ مکمل لوگوں کا صعود کے بعد خلق اﷲکی اصلاح کے لیے نزول ہوتا ہے اورسب باتوں میں اُسی زمانہ کے ہم شکل زمانہ میں اُترا جو مسیح ابن مریم کے اُترنے کا زمانہ تھا تا سمجھنے والوں کے لیے نشان ہو۔

اللہ تعالیٰ مسلمانوں کو اس پیغام کو سمجھنے کی توفیق عطا فرمائے۔

حضرت مسیح موعود ؑفرماتے ہیں کہ باز آ جاؤ اور اُس کے قہر سے ڈرو اور یقیناًسمجھو کہ تم اپنی مفسدانہ حرکات پر مُہر لگا چکے۔ اگر خدا تمہارے ساتھ ہوتا تو اس قدر فریبوں کی تمہیں کچھ بھی حاجت نہ ہوتی۔ تم میں سے صرف ایک شخص کی دُعا ہی مجھے نابود کر دیتی۔… مگرتم میں سے کسی کی دُعا بھی آسمان پر نہ چڑھ سکی۔ بلکہ دُعاؤں کا اثریہ ہوا کہ دن بدن تمہارا ہی خاتمہ ہوتا جاتا ہے۔

کیا تم دیکھتے نہیں کہ تم گھٹتے جاتے اور ہم بڑھتے جاتے ہیں۔ اگر تمہارا قدم کسی سچائی پر ہوتا تو کیا اس مقابلہ میں تمہارا ا نجام ایسا ہی ہونا چاہیے تھا۔

پس حضرت مسیح موعودؑ کے ساتھ اللہ تعالیٰ کی تائیدات کا ہونا اور لوگوں کے دل آپؑ کی تائید کے لیے کھولنا اور دشمن کو خائب و خاسر کرنا اور ہمیں اس پاک جماعت میں شامل ہونے کی توفیق دینا ہم پر بہت بڑی ذمہ داری ڈالتا ہے کہ ہم اپنی حالتوںکو ایسا رکھیں کہ جو حضرت مسیح موعودؑ کی بیعت میں آنے کا حق ادا کرنے والی ہوں۔ ہمارے عملی نمونے بھی ایک خاموش تبلیغ ہیں۔ جلسے پر آنے والے بھی اس کااظہار کرتے ہیں۔ ہر احمدی اسلام کی اعلیٰ تعلیم کا نمونہ ہو۔

حاضری کے حوالے سے حضور انور نے فرمایا کہ آپ تقریباً ۴۲؍ہزار کی تعداد میں یہاں جمع ہیں۔ اللہ تعالیٰ خیریت سے لوگوں کو گھروں میں لے جائے۔ تکلیفوں سے بچائے۔

احمدیوں کے لیے دعا کریں جو پابندیوں میں جکڑے ہوئے ہیں، اللہ تعالیٰ انہیں بھی آزادی دے۔

ان دنوں میں پاکستان کی ایک عدالت نے جو فیصلہ کیا۔ اس پر بعض لوگ سخت تبصرے کر دیتے ہیں۔

ہمیں کسی تبصرے کی ضرورت نہیں اگر ہمارا خدا سے پختہ تعلق ہے تو ہمیں ان دنیاوی لوگوں کو خدا بنانے کی ضرورت نہیں۔ ہمیں اس واحد ویگانہ خدا کے آگے جھکنا چاہیے اور پہلے سے بڑھ کو جھکنا چاہیے۔ اس لیے کسی کو برا بھلا کہنے کی بجائے اپنے آپ کو زیادہ سے زیادہ دعاؤں میں مصروف کریں۔ اللہ تعالیٰ اس کی توفیق دے۔

دنیا کی عمومی حالت کی طرف توجہ کریں۔دنیا ایک تباہی کے دہانہ پر کھڑی ہے۔ اپنے پیدا کرنے والے کو نہیں پہچانتی۔ اللہ تعالیٰ ان کو بھی عقل دے۔ اللہ تعالیٰ ہر احمدی کو جنگ کی اور دوسری تباہ کاریوں سے محفوظ رکھے۔

حضور انور کا خطاب پونے پانچ بجے تک جاری رہا۔ اس کے بعدحضور انور نے دعا کروائی۔ دعا کے بعد مختلف گروپس نے عربی، اردو، ٹرکش اور جرمن میں ترانے پیش کیے۔تقریباً پانچ بجے حضور انور ہاتھ بلند کرتے ہوئے تمام حاضرین کو السلام علیکم ورحمۃ اللہ کا تحفہ عنایت فرماکر ایوان مسرور سے تشریف لے گئے۔

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button