قرآن کریم کی تحریف معنوی کے الزام کی حقیقت
یاد رہے کہ قرآن کا ایک نقطہ یا شعشہ بھی اوّلین اور آخرین کے فلسفہ کے مجموعی حملہ سے ذرہ سے نقصان کا اندیشہ نہیں رکھتا وہ ایسا پتھر ہے کہ جس پر گرے گا اس کو پاش پاش کرے گا اور جو اس پر گرے گا وہ خود پاش پاش ہوجائے گا
آجکل سوشل میڈیا پر احمدیوں کے خلاف اشتعال انگیز مہم میں الزام تراشیوں کا ایک سلسلہ جاری ہے۔پاکستان میں جماعتی کتب پر پابندی لگانے کی وضاحت انتہائی بودے انداز میں اس طرح کرنے کی کوشش کی گئی ہے کہ ’’جماعت احمدیہ کی کتابیں ہم اس لیے پاکستان میں بین کر رہے ہیں کہ جماعت احمدیہ نے قرآن کریم میں تحریف کی ہے بالخصوص اس کے ترجمہ و تفسیر میں تحریف کی ہے جس سے محمد ﷺ کی توہین ہوتی ہے۔ ‘‘
قارئین! کیونکہ ہمارا مسلک تو حضرت بانیٔ جماعت احمدیہؑ کے مطابق لفظاً و عملاً یہی ہے کہ ’’قرآن مجید خاتم الکتب ہے۔اس میں اب ایک شعشہ یا نقطہ کی کمی بیشی کی گنجائش نہیں ہے۔‘‘(لیکچر لدھیانہ، روحانی خزائن جلد۲۰ صفحہ۲۷۹)
جہاں تک قرآنِ کریم کے معانی کی تبدیلی کے الزام کا تعلق ہے تو یہ الزام بھی فی ذاتہ ویسا ہی غلط ہے،جیسے لفظی تحریف کا الزام تھا۔
حقیقت یہ ہے کہ قرآن کریم کے معانی میں تحریف اس وقت قرار پاتی ہے جب وہ قواعدِ لغت،محاورہ عرب اور دیگر آیاتِ قرآنیہ و صحیح احادیث رسول ﷺ کے مخالف ومعارض ہوں۔ لیکن ان کے مطابق وموافق ایک سے زائد معانی پر معنوی تحریف کا الزام نہیں لگ سکتا۔کیونکہ قرآن کریم کے اسرار ومعارف اور رموز وحقائق ہر زمانے میں الگ الگ ظاہر ہوتے ہیں۔اسی لیے حضورﷺ نے خود فرمایا ہے کہ أُنْزِلَ الْقُرْآنُ عَلَى سَبْعَةِ أَحْرُفٍ لِكُلِّ آيَةٍ مِنْهَا ظَهْرٌ وَبَطْنٌ (مشکوٰۃ کتاب العلم)
باقی کسی قول خدا کے لطیف معانی نہ سمجھ آنے والا الزام بھی کوئی نیا نہیں ہے۔ سورت ہود میں خدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ قَالُوْا يَا شُعَيْبُ مَا نَفْقَهُ كَثِيْرًا مِّمَّا تَقُوْلُ۔ (هود:۹۲) انہوں نے کہا اے شعىب! تُو جو کہتا ہے اس مىں سے بہت سا ہم سمجھ نہىں سکتےنیز ہر مترجم اور مفسّر کے علم، پاکبازی، تقویٰ، تعلق باللہ اور عرفان کے لحاظ سے بھی اس کے معانی ومطالب بڑھ چڑھ کر جلوہ گری کرتے ہیں۔کیونکہ معارف قرآن حاصل کرنے کےلیے اللہ تعالیٰ نے معیار تقویٰ اور طہارت کو قرار دیا ہے،فرمایا: إِنَّهٗ لَقُرْاٰنٌ كَرِيْمٌ ۔ فِيْ كِتَابٍ مَكْنُوْنٍ۔ لَّا يَمَسُّهٗٓ إِلَّا الْمُطَهَّرُوْنَ۔ (الواقعة:۷۸-۸۰) ىقىناً ىہ اىک عزت والا قرآن ہے۔ اىک چُھپى ہوئى کتاب مىں (محفوظ)۔ کوئى اسے چُھو نہىں سکتا سوائے پاک کئے ہوئے لوگوں کے۔
اگر اس اعتراض کو سچا سمجھ لیا جائےکہ جو اکثریت کے عقیدہ کے مخالف معانی ہیں وہ نعوذباللہ تحریف قرآن ہے، تو امّت میں نہ کوئی مفسّرِ قرآن اس کی زد سے بچ سکتا ہے نہ ہی کوئی تفسیرِ قرآن۔حضرت امام رازی رحمۃ اللہ علیہ کی تفسیر کا رنگ اَور ہے اور حضرت محی الدین ابن عربی رحمۃاللہ علیہ کی تفسیر کا اَور۔ علیٰ ھٰذا القیاس ہر تفسیر میں معانی ومطالب الگ الگ جلوہ گر ہیں۔
یہ بھی یاد رکھنا چاہیے کہ جتنے بھی مسلمان فرقے بنے ہیں اسی وجہ سےبنے ہیں کہ وہ ایک دوسرے کی قرآن و حدیث کی تفسیر و تشریح کو قبول نہیں کرتے،اور یہ سارے ایک دوسرے کو کافر تک قرار دیتے ہیں اور تحریف قرآن کا الزام لگاتے ہیں۔مثلاً دیوبندی حضرات کے نزدیک قرآن و حدیث کی بعض تشریحات درست نہیں جو بریلوی اور اہل حدیث حضرات کے نزدیک ہیں۔پھر اہل سنت احباب کچھ تشریحات کو نہیں مانتے جو اہل تشیع احباب کرتے ہیں،حتی کہ شیعہ سنی کتب احادیث بھی الگ الگ ہیں۔
مثلاً بریلوی فرقہ کے بانیٔ جناب احمد رضاخان صاحب کا ترجمہ ’’کنز الایمان‘‘ کے نام سے شائع شدہ ہے۔ یہ وہ ترجمۂ قرآن ہے جو ہندوستان و پاکستان وغیرہ میں غیر احمدیوں میں سب سے زیادہ معروف اور متداول ہے۔ اس کی مقبولیت کو دیکھتے ہوئے خیال آیا کہ اس ترجمہ کی صحت پر علماء کا طبقہ ضرور متفق ہو گا۔ تاہم دارالعلوم دیوبند ہندوستان کے دارالافتاء کا جاری کردہ فتویٰ ان کی آفیشل ویب سائٹ پر ہمارا منہ چڑا رہا تھا کہ ’’عامۃالمسلمین کا اس ترجمہ کو پڑھنا اعتقادی اور عملی گمراہی و غلطی کا موجب بن سکتا ہے۔‘‘
کچھ مزید تحقیق کرنے پر معلوم ہوا کہ اسّی(۸۰) کی دہائی میں سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کے سلفی مفتیوں نے ترجمہ ’’کنز الایمان ‘‘کو گمراہ کن، محرَّف اور شرک کی تعلیم دینے والا قرار دے کر اس پر پابندی کے اعلانات شائع کروائے تھے۔ اور یہ فتاویٰ رابطہ عالم اسلامی کے مجلات میں شائع کر کے تمام دنیا میں پھیلائے گئے۔ اس کے علاوہ بیسیوں دیوبندی اور اہل حدیث علماء کی تحقیقاتی کتب بھی ہمارے سامنےآئیں جو احمد رضا خان صاحب کے ترجمۂ قرآن پر کئی سنگین اعتراضات قائم کر کے اس کی ضبطی کا مطالبہ بھی کر رہےتھے۔ ان اعتراضات کی سنگینی کا اندازہ اس بات سے ہو سکتا ہے کہ ان علماء نے اس ترجمہ کو غلط، نامناسب، محرف، ضعیف، عقلاً مخدوش، وحیٔ الٰہی کے خلاف، فہمِ رسولﷺ کے خلاف، فہمِ صحابہؓ کے خلاف، حضورﷺ کی توہین پر مشتمل اورازواجِ مطہرات کی توہین پر مشتمل قرار دیا ہے۔(تنقید متین بر تفسیر نعیم الدین از مولوی محمد سرفراز خان صفدر)(مطالعہ بریلویت از ڈاکٹر علامہ خالد محمود)،(کنز الایمان کا تحقیقی جائزہ از مولوی محمد الیاس گھمن)(تلبیسات کنز الایمان مطبوعہ جمعیت اہل سنت والجماعت راولپنڈی)،(رضا خانی ترجمہ اور تفسیر پر ایک نظر از مفتی جمیل احمد نذیری مبارکپوری)، (حضرت شیخ الہند اور فاضل بریلوی کے ترجمہ قرآن کا تقابلی جائزہ ازمولوی قاری عبد الرشید)،(نرالا مجدد (یعنی احمد رضا خان بریلوی تحریف قرآن کے آئینے میں ) از مولوی محمد اسرائیل قاسمی)
یہ بڑی تکلیف دہ صورت حال تھی کیونکہ یہ ترجمہ تو سب سے زیادہ متداول ترجمہ قرآن سمجھا جاتا تھا۔ اگرچہ اس مثال سے باقی تراجم کے متعلق قیاس کرنا کچھ مشکل نہیں تھا۔
قیاس کن زگلستانِ من بہار مرا
پھر بھی سوچا کہ شاید بریلوی علماء نے وسیع الظرفی کا مظاہرہ کرتے ہوئے اپنے مخالف فرقہ کے کسی ترجمہ قرآن پر اتفاق کر لیا ہواور یوں ان تمام فرقوں کا ایک نمائندہ ترجمہ قرآن ہماری راہنمائی کے لیے سامنے آجائے۔ لیکن یہ بھی ہماری خوش فہمی تھی۔ احمد رضا خان بریلوی صاحب کے کئی ایک فتاویٰ اس موضوع پر موجود ہیں کہ شیعہ، دیوبندی اوروہابی یعنی اہلِ حدیث حضرات دنیا کے بد ترین کافر ہیں اور ان کی کتب کا مطالعہ حرام ہے۔ بلکہ وہ تو اپنے ان فتاویٰ میں اس قدر متشدّد ہیں کہ انہوں نے دیوبندی اور اہلِ حدیث علماء کی بعض کتب کو ’’بول و براز اور پیشاب سے بھی زیادہ نجس‘‘ قرار دیا اور ان کے مطالعہ کے بارے میں لکھا کہ ان کا پڑھنا ’’زنا اور شراب خوری سے بدتر حرام ہے۔ ‘‘(فتاویٰ رضویہ (مجموعہ فتاویٰ احمد رضا خان بریلوی)جلد نمبر۱۵)
پس یہاں تو ہر فرقہ اپنے اپنے علماء کے تراجم کو درست اور دیگر فرقوں کے شائع کردہ تراجم پر اعتراضات کی بوچھاڑ کرتا نظر آیا کیونکہ ہر فرقہ کے علماء نے اپنے اپنے عقائد کو درست ثابت کرنے کے لیے انہی تراجم کا سہارا لیا ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ سارے فرقے ایک دوسرے کے خلاف وہی الزامات لگاتےہیں جو یہ جماعت احمدیہ پر لگاتے ہیں، گویا بقولِ قرآن :تَحْسَبُهُمْ جَمِيْعًا وَقُلُوْبُهُمْ شَتّٰى۔(الحشر:۱۵)تم انہىں اکٹھا سمجھتے ہو، جبکہ ان کے دل پھٹے ہوئے ہىں۔
پس کسی ایک فرقہ کا اپنی اکثریت یا حکومت کے بل بوتے پر ا پنے زعم میں بقول شخصے
’’وہی قاتل،وہی شاہد، وہی منصف ٹھہرے‘‘
کا کردار اگر مان لیا جائے تو اندھیرنگری پھیل جائے،ورنہ تو حضرت موسیٰ کے خلاف حکومت فرعون کا کفر کا فتویٰ وَأَنْتَ مِنَ الْكَافِرِيْنَ(الشعراء:۲۰)بھی تسلیم کرنا پڑتا ہے۔نیزاگر اس دلیل پر اصرار کیا جائے کہ چونکہ ملک میں ایک ظالمانہ قانون موجود ہے اس لیے جو اس کی مخالفت کرے گا وہ مجرم ہوگا تو دنیا میں انسانی حقوق کے لیے جدوجہد کرنے والے تمام بڑے نام مجرم قرار پائیں۔اگر مذہبی دنیا سے مثال پیش کی جائے تو حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو صلیب دینے کا فیصلہ مذہبی اور ملکی دونوں عدالتوں نے سنایا تھا۔ اور پیلاطوس نے اس کا حکم سنانے سے قبل عوام کی رائے بھی معلوم کی تھی اور سب نے یک زبان ہو کر یہی رائے دی تھی کہ آپؑ کو صلیب دی جائے۔لیکن کوئی ذی ہوش یہ دلیل نہیں پیش کر سکتا کہ چونکہ اس وقت ملک کے قانون نے آپؑ کے خلاف فیصلہ سنایا تھا اس لیے یہ فیصلہ درست تھا۔ اور اس کے خلاف کچھ کہنا مناسب نہیں۔جو درست نہیں۔اور حضرت امام حسینؓ کے خلاف حکومت یزید کےقاضی شریح کا فتویٰ کفربھی صحیح ماننا پڑے گا۔پس اصل بات یہ ہے کہ عقیدہ کا تعلق دل سے ہوتاہے اور کوئی دوسرا انسان یا حکومت اس کے فیصلہ کی مجاز ہی نہیں اور خصوصاً جب کوئی فیصلہ خلاف قرآن ہوجہاں تک امّت میں آنے والے مسیح ومہدی کے زمانے کے علماء کا تعلق ہے تو اس کے متعلق رسول اللہﷺ کی پیشگوئی ہے کہ ایک وقت میری امت پر ایسا آئیگا کہ قرآن اٹھ جائے گا اور قرآن صرف نام کا باقی رہ جائے گا۔(یعنی اس کے معنوں میں تحریف کردی جائے گی، اس کے معارف سے بے بہرہ ہوں گے۔) لوگ قرآن پڑھیں گے مگر ان کے حلق سے نیچے نہیں اترے گا (یعنی اس پر عمل نہیں کریں گے)۔نیز یہاں تک فرمایا: يُوشِكُ أَنْ يَأْتِيَ عَلَى النَّاسِ زَمَانٌ لَا يَبْقَى مِنَ الْإِسْلَامِ إِلَّا اسْمُهُ۔ وَلَا يَبْقَى مِنَ الْقُرْآنِ إِلَّا رَسْمُهُ،(مشکوٰۃکتاب العلم صفحہ ۳۱۶ مکتبہ امدادیہ ملتان طبع اول) اسی پیشگوئی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے نواب صدیق حسن خان صاحب نے تحریر کیا کہ ’’قرآن کریم بظاہر خوبصورت غلافوں میں سجا کے رکھا جائے گا …لیکن عمل نہ ہو گا‘‘(حجج الکرامہ صفحہ ۲۹۷)
معروف اہل حدیث عالم نواب نور الحسن خاں صاحب نے اپنی کتاب’’ اقتراب الساعة‘‘میں اس پیشگوئی کے پورا ہونے کاذکر اس طرح کیا ہے:’’اب اسلام کا صرف نام،قرآن کا فقط نقش باقی رہ گیا ہے…‘‘(اقتراب الساعۃ۔صفحہ ۱۲)
پس جہاں تک امام مہدی اور مسیح موعود علیہ السلام کے عرفان قرآن کا تعلّق ہے اس کے بارہ میں علماء سلف قبل ازیں پیشگوئی کرچکے ہیں کہ ۱۔ حضرت امام محی الدین ابن عربیؒ فرماتے ہیں:و اذا خرج ھذاالامام المھدی فلیس لہ عدو مبین الاالفقہاء خاصۃ فانہ لا یبقی لھم ریاسۃ ولا تمیز عن العامۃ۔ یعنی جب امام مہدی ظاہر ہوں گے تو اس کے سب سے زیادہ شدید دشمن اس زمانہ کے علماء اور فقہاء ہوں گے۔کیونکہ اگر وہ مہدی کو مان لیں تو انہیں عوام کی سرداری اور امتیاز باقی نہ رہے گا۔(فتوحات مکیہ جلد ۳صفحہ۳۷۴)
۲۔نواب صدیق حسن خان صاحب فرماتے ہیں: ’’چوں مہدی علیہ السلام مقاتلہ بر احیائے سنت و اماتت بدعت فرمائد علماء وقت کہ خوگر تقلید فقہاء و اقتدائے مشائخ و آباء خود باشند گویند ایں مرد خانہ بر انداز دین و ملت ما است و بمخالفت بر خیزند و حسب عادت خود حکم بتکفیر و تضلیل دہ کنند‘‘یعنی جب امام مہدی علیہ السلام سنت کو زندہ کرنے کے لئے اور بدعت کو مٹانے کے لئے جدوجہدکریں گے تو علماء وقت جو فقہاء اور مشائخ اور آباء کی تقلید کے عادی ہوں گے کہیں گے کہ یہ شخص ہمارے دین و مذہب کو برباد کرنے والا ہے۔اور مخالفت میں اٹھ کھڑے ہوں گے۔اور اپنی عادت کے مطابق اسے گمراہ اور کافر ٹھہرائیں گے۔(حجج الکرامہ:۳۶۳)
۳۔ بلکہ اس سے بڑھ کر نواب نور الحسن خان صاحب کے بقول:’’یہی حال امام مہدی کا ہو گا کہ اگر وہ آگئے سارے مقلد بھائی انکے دشمن جانی بن جاوینگے اوران کے قتل کی فکر میں ہوں گے کہیں گے یہ شخص تو ہمارے دین کو بگاڑتا ہے‘‘(اقتراب الساعۃ : ۲۲۴)
۴:۔حضرت مجدّد الف ثانی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ ’’علمائے ظواہر مجتہداتِ اُو رَا علی نبیّنا وعلیہ الصّلوۃ والسّلام از کمالِ دقّت وغموضِ ماخذ انکار نمائند ومخالفِ کتاب وسنّت دانند۔‘‘ (مکتوبات۔ امام ربانی حضرت مجدّد الف ثانی۔ دفتر دوم۔ حصہ ہفتم صفحہ ۱۴ مکتوب نمبر ۵۵)یعنی علمائے ظواہر امام مہدی علیہ السلام کے اجتہادات کا انکار کریں گے اور ان کو قرآن مجید اور سنت نبوی کے خلاف قرار دیں گے کیونکہ وہ بباعث کمال دقیق ہونے اور ان کے ماخذ کے مخفی ہونے کے علماء کی سمجھ سے بالا ہوں گے۔
پس حضرت مجدّد الف ثانی رحمۃ اللہ علیہ کے اس قول کے آئینہ میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے بیان فرمودہ معانی ومعارف کا انتہائی درجہ دقیق،گہرا اور بلند پایہ ہونا اوربالمقابل معترضین کا ظاہر پرست اور پست خیال ہونا واضح طور پر ثابت ہوتا ہے۔
آج سے سوا صدی قبل جب بانیٔ سلسلہ احمدیہ نے مسیح و مہدی ہونے کا دعویٰ فرمایا،قرآن میں تحریف کا یہ عالم تھا کہ اس کی سینکڑوں آیات قابل منسوخ قرار دی جاچکی تھیں کہ اب ان پر عمل کی ضرورت نہیں رہی۔چنانچہ حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی نے لکھا کہ’’مفسرین نے پانچ سو سے زائد آیات تک منسوخ قرار دی ہیں لیکن میرے نزدیک پانچ آیات منسوخ ہیں۔‘‘(الفوز الکبیر اردو ترجمہ،مصنفہ شاہ ولی اللہ محدث دہلویؒ۔صفحہ نمبر ۵۷، ۷۳)
ایسےوقت میں حضرت بانیٔ جماعت احمدیہؑ نے قرآن کی معنوی حفاظت کا بیڑا اٹھا کر اس کی عزت و عظمت قائم کی اور اعلان فرمایا کہ’’یاد رہے کہ قرآن کا ایک نقطہ یا شعشہ بھی اوّلین اور آخرین کے فلسفہ کے مجموعی حملہ سے ذرہ سے نقصان کا اندیشہ نہیں رکھتا وہ ایسا پتھر ہے کہ جس پر گرے گا اس کو پاش پاش کرے گا اور جو اس پر گرے گا وہ خود پاش پاش ہوجائے گا‘‘ (آئینہ کمالات اسلام۔ روحانی خزائن جلد ۵صفحہ۲۵۷حاشیہ)
خلاصہ کلام یہ کہ بجائے جماعت احمدیہ کی طرف سے پیش کیے جانے والے روشن اور قطعی دلائل کا جواب دینے کےاپنی علمی کمزوری چھپانے کے لیے ہماری کتب اور نشر واشاعت کےد یگر ذرائع پر پابندی لگا دی جاتی ہے،حالانکہ قرآن کریم تو ہمیں علمی گفتگو کا یہ آفاقی اصول بتاتا ہے:قُلْ هَاتُوْا بُرْهَانَكُمْ إِنْ كُنْتُمْ صَادِقِين۔ (البقرة:۱۱۲) تُو کہہ کہ اپنى کوئی مضبوط دلىل تو لاؤ اگر تم سچے ہو۔
قرآن تو ہمیں حقیقی زندگی اور موت دلائل سے بیان کرتا ہے، چنانچہ غزوۂ بدر جو کہ ظاہری جنگ تھی،اس کے حالات کے بیان میں بھی یہی فرمایا ہے کہ لِیَہۡلِکَ مَنۡ ہَلَکَ عَنۡۢ بَیِّنَۃٍ وَّیَحۡیٰی مَنۡ حَیَّ عَنۡۢ بَیِّنَۃٍؕ۔ (الانْفال:۴۳) کھلى کھلى حجت کى رُو سے جس کى ہلاکت کا جواز ہو وہى ہلاک ہو اور کھلى کھلى حجت کى رُو سے جسے زندہ رہنا چاہئے وہى زندہ رہے
حضرت مرزا صاحبؑ نے اپنی جماعت میں قرآن سے سچی محبت پیدا کردی اور نصیحت فرمائی کہ’’تمہارے لئے ایک ضروری تعلیم یہ ہے کہ قرآن شریف کو مہجور کی طرح نہ چھوڑ دو کہ تمہاری اسی میں زندگی ہے جو لوگ قرآن کو عزت دیں گے وہ آسمان پر عزت پائیں گے… نوعِ انسان کے لئے روئے زمین پر اب کوئی کتاب نہیں مگر قرآن۔‘‘
پھر فرمایا:’’میں تمہیں سچ سچ کہتا ہوں کہ جو شخص قرآن کے سات سو حکم میں سے ایک چھوٹے سے حکم کو بھی ٹالتا ہے وہ نجات کا دروازہ اپنے ہاتھ سے اپنے پر بند کرتا ہے…سو تم قرآن کو تدبرّسے پڑھو اور اس سے بہت ہی پیار کرو۔ایسا پیار کہ تم نے کسی سے نہ کیا ہو۔‘‘ (کشتی نوح،روحانی خزائن جلد۱۹ صفحہ۱۳، ۲۶، ۲۷)
امت میں نعتِ رسولؐ لکھنے والے تو بہت ہوئے مگر مرزا صاحب وہ منفرد ہستی ہیں جنہوں نے قرآن کی شان میں ایسی اعلیٰ درجہ کی نعتیں لکھیں کہ چودہ سو سال میں اس کی نظیر نہیں ملتی۔
جمال و حسنِ قرآں نورِ جان ہر مسلماں ہے
قمر ہے چاند اوروں کا ہمارا چاند قرآں ہے
(براہین احمدیہ حصہ سوم صفحہ۱۸۳مطبوعہ ۱۸۸۲ء)
قرآن کے لعل تاباں پر فریفتہ ہوکر کیا خوب فرمایا:
دل میں یہی ہے ہر دم تیرا صحیفہ چوموں
قرآں کے گرد گھوموں کعبہ مرا یہی ہے
(قادیان کے آریہ اور ہم، روحانی خزائن جلد۲۰ صفحہ۴۵۷)
٭…٭…٭