صبرِ جمیل ہزار نعمت ہے
حضورِ انور ايدہ اللہ تعاليٰ بنصرہ العزيز نے خطبہ جمعہ فرمودہ 26؍اپريل 2019ء ميں مکرم ملک محمد اکرم صاحب مبلغِ سلسلہ کا ذکرِ خير فرمايا اور بعد ازاں نمازِ جنازہ حاضر پڑھانے کا اعلان فرمايا۔ اس طرح مکرم ملک محمد اکرم صاحب کي وفات کي خبر ملي،اوريادوں کا ايک دھارا بہ نکلا۔
2؍ دسمبر 1978ءکو خاکسار کے والد محترم مقصود احمد خان صاحب دہلوي واقفِ زندگي، سابق امير جماعت احمديہ کنري کي کراچي ميں وفات ہوئي ۔اُس وقت ملک محمد اکرم صاحب ہمارے حلقہ دستگير سوسائٹي ميں بطور مربي سلسلہ تعينات تھے۔ ہم والد صاحب کي بہشتي مقبرہ ربوہ ميں تدفين کے بعد جب واپس کراچي پہنچے تو مکرم مربي صاحب بھي ديگر احباب کي طرح بغرض تعزيت و دل جوئي ہمارے گھرتشريف لائے۔ مربي صاحب مرحوم نے فرمايا کہ ميں تو خصوصي طور پر آيا ہوں اور آپ لوگوں سے ، احبابِ جماعت کے ساتھ اللہ تعاليٰ کے خاص فضل کاذکر کرنا چاہتا ہوں اور وہ يہ کہ ميں تو چونکہ بيعت کرکے احمدي ہوا ہوں سوہمارے ماحول ميں کسي بھي فوتگي وغيرہ کے موقعے پر بڑے دل خراش مناظر ہوتے ہيں۔ باقاعدہ بَين ڈالے جاتے ہيں، ميّت کے آخري ديدار کے وقت تو سب ہي صبر کا دامن چھوڑ جاتے ہيں۔ ميرے ذہن ميں اپنے سابقہ ماحول کا ہر وفات کے موقعے پر خيال رہتا ہے۔ جس سے اب بھي مجھے واسطہ پڑتا رہتا ہے۔ ليکن جب ميں آپ کے گھر آيا اور آپ سب بھائيوں کو صابر ومطمئن ديکھا بلکہ اندرونِ خانہ سے بھي کوئي ايسي آوازيں نہ آئيں تو خداتعاليٰ کي اس عطا کردہ صبرکي نعمت پر دل باغ باغ ہوگيااور سوچنے لگا کہ خداتعاليٰ حضرت مسيح موعودؑ کي برکت اور تربيت کے طفيل کس طرح احمدي احباب کي ڈھارس بندھاتا ہےاور خود ان کا سہارا بن جاتا ہے۔ اللہ تعاليٰ مربي صاحب مرحوم کواپنے قُربِ خاص ميں اعليٰ ترين مقام عطافرمائے۔ آپ کے پسماندگان کو بھي صبرِ جميل کي عظيم نعمت سے متمتع فرمائے۔ايمان و ايقان ميں بڑھاتا چلاجائے۔ آمين۔
آج اس بات کو چاليس سال سے زائدعرصہ گذر چکا ہےمگر ہر وفات کے موقعے پر مربي صاحب مرحوم کا يہ تجزيہ خاکسار کے پيشِ نظر رہتا ہے اور حقيقتاً ہميشہ ہي افرادِ جماعت پر خداتعاليٰ کي اس عظيم نعمت کوسايہ فگن ديکھاہے۔ اتنے طويل عرصے ميں بے شمار واقعات ہوئے۔ اپنے احمدي اور غير احمدي عزيزوں کا موازنہ کرنے کا بارہا موقع ملا۔ ہميشہ ہي احبابِ جماعت کو خداکے فضل سے اُس کي رضا پر راضي پايا۔ کبھي کسي کو شکوہ کرتے يا بےقراري کا شکار ہوتے نہيں ديکھا۔ذہن ميں اِس وقت بھي لاتعداد واقعات گردش کررہے ہيں۔ ليکن يہاں مَيں صرف دو واقعات پر اکتفا کروں گا۔
ايک واقعہ تو ہمارے اپنے خاندان کا ہے۔ ہمارے والد صاحب کے ايک غيراحمدي خالہ زاد بھائي عبدالغفور قريشي صاحب تھے۔ يہ ہمارے اُن چند گنے چنے غير احمدي عزيزوں ميں سے تھےجنہوں نے ہميشہ ہم سے ميل جول برقرار رکھا۔ بڑي محبت سے ملتے رہے۔ حضرت خليفة المسيح الرابعؒ کي وفات پر فوري طور پر فون کيا، پھر گھر آکر بھي تعزيت کي۔ يہ ليور برادرز سے بطورپرچيزمينيجر ريٹائر ہوئے۔ ان کي اہليہ روشن آراء روحي صاحبہ ايم ايس سي تھيں۔ کراچي ميں پي۔سي۔ايس۔آئي۔آر سے گريڈ اُنيس کي افسر ريٹائر ہوئيں۔ نہايت سلجھي ہوئي،نفيس خاتون تھيں۔ اُن کي وفات پر ہم سب کوہي صدمہ تھا۔مگر ہمارے چچا غفور صاحب کي تو يہ شريکِ حيات تھيں، انہيں فطري طور پر شديد صدمہ تھا۔ جماعتِ احمديہ کےتربيت يافتہ ،خداکے فضلوں تلے پلنے والے يہي سمجھتے رہے کہ يہ عارضي صورتِ حال ہے۔ جلد ہي سنبھل جائيں گے۔ليکن غفور صاحب اپني اہليہ کي وفات کےبعد دو اڑھائي برس حيات رہے۔ اس تمام عرصے ميں انہيں ايک لحظہ بھي پُرسکون و مطمئن نہ پايا۔ مَيں اُن سے عمر ميں بہت چھوٹا تھا۔ يہ اُن کي شفقت تھي کہ اکثر ميرے گھر آتے،گھنٹوں بيٹھتے۔ اہليہ کي وفات کے بعد ہفتے ميں دودو،تين تين بار آتے، ہچکيوں سے روتے اور کہتے کسي طور قرار نہيں آتا۔ بےچيني ،بےقراري بڑھتي ہي جاتي ہے۔ بس مياں ميرے ليے دعاکيا کرو۔
چچي روشن آراء کي وفات کے صرف ايک يا دو دن کے فرق سےہماري تائي ،اہليہ مسعود احمد خان صاحب دہلوي ،جنہيں ہم بڑي امّاں کہتےہيں، کي ربوہ ميں وفات ہوئي۔ خاکسار بھي ربوہ حاضر ہوا اور تجہيز وتدفين ميں شامل ہوا۔يہاں اپنے بڑے ابّا کو ديکھا، اللہ کي رضا پر راضي،کوہِ وقار، صبرو استقامت کي چٹان ۔ جمعہ کا دن تھا، جنازہ مسجد اقصيٰ لےجانے کےليے تيارتھا۔ اِن کے بيٹے جرمني سے پہنچنے والے تھے۔ بس وہ آئيں، والدہ کا آخري ديدار کريں، اور جنازہ روانہ ہو۔ گاڑي پہنچي، بيٹے اترے، خاکسار اِن سے ملنےکےليے آگے بڑھا۔ پيچھے سے بڑے ابّا کي محبت بھري آواز آئي مياں يہ ملنا ملانا بعد ميں رکھو۔ ابھي دير ہورہي ہے، بس يہ چہرہ ديکھ ليں اور چليں۔ اللہ اللہ کيا صبرِجميل عطاکيا ہے ہمارے موليٰ نے۔ پھر يہ کوئي وقتي ياعارضي صبر نہيں تھا۔ بڑے ابّا، ہماري بڑي امّاں کے بعدکم و بيش چھے سات سال حيات رہے۔ کبھي اِن کي زبان سے يا انداز سے کسي قسم کي بےقراري محسوس نہيں ہوئي۔ محبت سے ان کا ذکرکرتے۔ کوئي واقعہ يا بات برمحل سناتےاور دعائيہ کلمات کہتے۔
اب ديکھنے اور سمجھنے کي بات يہ ہے کہ يہ دونوں خالہ زاد بھائي ہيں۔ دو بہنوں کي اولاد ہيں،ايک ہي تمدّن ہے۔پھر يہ تضاد کيوں؟
دوسرا واقعہ ہمارے محلّہ، حلقہ دستگير سوسائٹي کراچي کا ہے۔ ہمارے پڑوس ميں عبدالحفيظ صاحب جوکہ کے۔ڈي۔اے ميں اکاؤنٹس آفيسر تھے،رہتے تھے۔ عقيدےکے اعتبار سے اہلِ سنّت تھے۔ اِن کے ساتھ 1976ء سے ہمارے بڑے قريبي تعلقات تھے۔ ان کي اہليہ بھي ،جنہيں ہم باجي کہتے تھے۔ ہماري والدہ اور بہنوں کے ساتھ بڑي محبت کا تعلق رکھتي تھيں۔ گو 1984ء کے آرڈيننس کےبعد جس طرح عوام الناس سب احمديوں سے بدگمان ہوئے۔ يہ خاندان بھي ہم سے کھچاؤ کا شکار ہوگيااور تعلقات ميں پہلي سي اپنائيت اور گرم جوشي نہ رہي۔ بہرحال محلّے کے لوگوں کي نظروں سے بچتے ہوئے کبھي کبھي بات چيت کرليا کرتے۔ اِن کي اہليہ اچانک فوت ہوگئيں اورعزيز و اقارب جمع ہونا شروع ہوگئے۔عجيب کہرام مچا، عورتوں کي چيخ و پکار، جنازے کي روانگي کے وقت کے مناظر بالکل مکرم محمد اکرم صاحب مربي سلسلہ نے جيسا بتايا تھا،وہي صورتِ حال تھي۔ حفيظ صاحب بھي بہت غم زدہ تھے۔ لمبے عرصے تک اِن کا رونا بند ہي نہيں ہوتا تھا۔ کہتے تھے بس خدا کسي طور مجھے صبر دےدے۔ يہ بےچيني دُور ہوجائے۔ اِن کي بےبسي اور بےتابي ديکھ کر بہت تکليف ہوتي۔ دل سے دعا نکلتي کہ خدا اِن کو صبرعطاکردے۔
باجي کي وفات کے دوسرے تيسرے دن ہمارے حلقے کےايک احمدي بزرگ مجيد احمد طاہر صاحب کي اہليہ بھي اچانک فوت ہو گئيں۔صبح فجر کي نماز کي ادائيگي کے دوران، سجدے کي حالت ميں ان کي وفات ہوئي۔مجيد طاہر صاحب ہمارے گھر سےايک گلي پہلے رہتے تھے۔
ديکھيے!صرف ايک گلي کا فرق، ليکن مناظر ميں زمين آسمان کا فرق۔ وہي باوقار ماحول، خدا کي رضاپر راضي۔ نہ کوئي کہرام ، نہ دل خراش چيخيں۔مجيد طاہر صاحب، اِن کے بيٹے،نواسے، پوتے، سب نمازوں پر آرہے ہيں۔ معمول کي زندگي کي طرح سب سے مل رہے ہيں۔ کوئي باربار غم کا اظہار نہيں،صابرومطمئن۔ حالانکہ يہاں بھي يہي صورتِ حال ہے کہ وہي محلّہ ہے، وہي گلي کُوچے ہيں ۔بظاہر وہي ماحول ہے۔ پھر اِن اچانک اور فوري صدمات پر ردِّعمل اور رويوں ميں اس قدر فرق کيوں؟
اس فرق اور تضاد کي صرف اور صرف ايک ہي وجہ ہے يعني مامورِ زمانہ حضرت اقدس مسيح موعودؑ کو قبول کرنا ،آپؑ کے دامن کو تھام لينا۔ اس کے سوا کوئي وجہ نہيں۔ حضرت اقدس مسيح موعودؑ فرماتے ہيں:
‘‘دنيا کے مشکلات اور تلخياں بہت ہيں۔يہ ايک دشتِ پُرخار ہے۔اس ميں سےگزرنا ہر شخص کا کام نہيں ہے۔ گزرنا تو سب کو پڑتا ہے ،ليکن راحت اور اطمينان کے ساتھ گزرجانايہ ہرايک شخص کو ميسر نہيں آسکتا۔ يہ صرف ان لوگوں کا حصہ ہے جو اپني زندگي کو ايک فاني اور لاشئي سمجھ کر اللہ تعاليٰ کي عظمت و جلال کے ليےاسے وقف کرديتے ہيں اور اس سے سچا تعلق پيدا کرليتے ہيں؛ ورنہ انسان کےتعلقات ہي اس قسم کے ہوتے ہيں کہ کوئي نہ کوئي تلخي اس کو ديکھني پڑتي ہے۔بيوي اور بچّے ہوں تو کبھي کوئي بچّہ مرجاتا ہے تو صدمہ برداشت کرتا ہے۔ليکن اگر خدا تعاليٰ سے سچّا تعلق ہو توايسے ايسے صدمات پر ايک خاص صبر عطا ہوتا ہے۔ جس سے وہ گھبراہٹ اور سوزش پيدا نہيں ہوتي جو اُن لوگوں کو ہوتي ہے جن کا خداتعاليٰ سے کوئي تعلق نہيں ہوتا۔ پس جو لوگ اللہ تعاليٰ کے منشاء کو سمجھ کر اس کي رضا کےليےاپني زندگي وقف کرتے ہيں وہ بےشک آرام پاتے ہيں؛ ورنہ ناکامياں اور نامرادياں زندگي تلخ کرديتي ہيں۔’’
(ملفوظات جلد 4،صفحہ 16۔ايڈيشن1988ء)
٭…٭…٭