رمضان المبارک کے بابرکت ایام میں قادیان اور ربوہ کی رونقیں ۔ قسط دوم
خلافتِ اولیٰ
خلافتِ احمدیہ کی پہلی صدی کا پہلا رمضان
مکرم مولانا دوست محمد شاہد صاحب مؤرخ احمدیت اپنے ایک مضمون ‘‘خلافتِ احمدیہ کی پہلی صدی کے پہلے رمضان کے روح پرور کوائف’’ تحریر کرتےہیں کہ
‘‘مشرق و مغرب کے دانشور اور سکالر کہتے ہیں اور بجا کہتے ہیں کہ تاریخ صدیوں کے انقلابوں اور نیرنگیوں کے باوصف اپنے تئیں دوہراتی ہے۔ عین اس کے مطابق یہ حیرت انگیز توارد ہے کہ خلافت احمدیہ کی دوسری صدی کی طرح پہلی صدی کا پہلا رمضان ستمبر ہی میں خدا کا مقدس مہمان بن کر جلوہ فگن ہو ا اور اس کا آغاز بھی مروجہ جنتریوں کے خلاف ایک روز قبل ہوا ا ور عید الفطر ایک منفرد روحانی اور دینی روایات کے ساتھ اکتوبر میں منائی گئی۔
خلافتِ احمدیہ کے سدا بہار درخت کے پہلے اور مقدس پھل اور قدرتِ ثانیہ کے مظہر اول حضرت مولانا نور الدین صاحبؓ کے عہد مبارک کا رمضان قادیان میں اپنی عظیم الشان برکتوں اور تابانیوں سے ظاہر ہوا۔ اخبار بدر نے اس کے استقبال کے لئے قبل از وقت سحر وا فطار کا نقشہ صفحہ اول پر شائع کیا اور رمضان اور اس کی برکات کے متعلق مفصل اداریہ سپردِ قلم کیا۔
مسجداقصیٰ میں دو بار تراویح میں قرآن عظیم ختم کیا گیا۔ پہلی بار حضرت علامہ روشن علی صاحبؓ اور دوسری بار حافظ جمال احمد صاحبؓ نے یہ سعادت حاصل کی۔ مسجدمبارک میں تراویح کی نماز کا سحری سے قبل پڑھانے کا شرف حضرت ابو سعیدؓ کو حاصل ہوا جو رنگون سے قادیان میں فیض رمضان کے اکتساب کے لئے مقدس امام کے حضور آئے۔ یہ تراویح 20رمضان تک جاری رہی حضرت خلیفة المسیح الاول ؓبنفسِ نفیس دوسرے خدام کے ساتھ اس میں شرکت فرماتے رہے۔
حضرت خلیفة المسیح الاولؓ نے دورانِ رمضان سورة الفتح، ق اور الحجرات کے بے شمار حقائق و معارف اپنے درس مبارک میں بیان فرمائے۔
20رمضان المبارک کی فجر میں حضرت خلیفة المسیح الاولؓ مسجدمبارک میں معتکف ہوئے۔ آپ کے ساتھ خاندانِ مسیح موعود کے موعود اور عالی گہر سیدنا محمود بھی تھے۔
اخبار بدر (22 اکتوبر 1908 صفحہ 8) نے اس ضمن میں یہ ایمان افروز نوٹ زینتِ اشاعت کیا:
‘‘مولانا کی فیض رساں طبیعت اس خلوت میں بھی جلوت کا رنگ دکھا رہی ہے۔ قرآن مجید سنانا شروع کیا ہے۔ صبح سے ظہر کی اذان تک اور پھر بعد از ظہر عصر تک اور عصر سے شام اور پھر عشاء کی نماز کے بعد تک تین پارے ختم کرتے ہیں۔ مشکل مقامات کی تفسیر فرما دیتے ہیں۔ سوالوں کے جواب بھی دیتے جاتے ہیں یہ نہ تھکنے والا دماغ خاص موہبت الٰہی ہے۔’’
اس تاریخی رمضان میں راس التین سے یہ بھاری خوشخبری ملی کہ ڈیڑھ سو پاک نفوس خدا کے مقدس سلسلہ میں داخل ہو گئے۔
(الحکم 17 اکتوبر 1908ء صفحہ 6 کالم 3)’’(بحوالہ الفضل 22؍ستمبر 2008ء صفحہ 3)
قادیان کا رمضان
حضرت مفتی محمد صادق صاحبؓ نے خلافت اولیٰ کے دوران 1912ء کے ماہ رمضان میں اہل قادیان کے قرآن کریم سے عشق و محبت کا نقشہ عجیب انداز سے کھینچا ہے فرماتے ہیں:
‘‘گیارہ مہینے کیسی ہی غفلت میں گذرے ہوں ۔ رمضان کے روزے ضرور اہتمام سے رکھے جاتے ہیں اور اس ماہ میں نمازوں کی پابندی بھی کی جاتی ہے اور صدقہ و خیرات کا دروازہ بھی حسبِ مقدور کھولا جاتا ہے۔ یہ تو عام اسلامی دنیا کا رنگ ہے ہی لیکن قادیان کا رمضان قرآن شریف کے پڑھنے اور سننے کے لحاظ سے ایک خصوصیت رکھتا ہے۔ تہجد کے وقت مسجد مبارک کی چھت پر اللہ اکبر کا نعرہ بلند ہوتا ہے۔ صوفی تصور حسین صاحب خوش الحانی سے قرآن شریف تراویح میں سناتے ہیں۔ حضرت صاحبزادہ میاں محمود احمد صاحب بھی قرآن شریف سننے کے لئے اسی جماعت میں شامل ہوتے ہیں۔ تراویح ختم ہوئیں تو تھوڑی دیر میں الصلوٰۃ خیرمن النوم کی آواز بلند ہوتی ہے۔ زاہدو عابد تو تہجد کی نماز کے بعد اذان فجرکی انتظار میں جاگ ہی رہے ہوتے ہیں۔ دوسرے بھی بیدار ہو کر حضرت صاحبزادہ صاحب کے لحن میں کسی محبوب کی آواز کی خوشبو سے اپنے دماغوں کو معطر کرتے ہوئے فریضہ صلوٰۃ فجر کو ادا کرتے ہیں۔ جس کے بعد مسجد کی چھت قرآن الفجر کے محبین سے گونجنے لگتی ہے۔ مگر چونکہ حضرت خلیفۃ المسیح جلد اپنے مکان کے صحن میں درس دینے والے ہوتے ہیں اس واسطے ہر طرف سے متعلمانِ درس بڑے اور چھوٹے بچے اور بوڑھے، پیارا قرآن بغلوں میں دبائے حضرت کے مکان کی طرف دوڑتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ تھوڑی دیر میں صحن مکان بھر جاتا ہے۔ حضرت کے انتظار میں کوئی اپنی روزانہ منزل پڑھ رہا ہے۔ کوئی کل کے پڑھے ہوئے کو دہرا رہا ہے۔ کیا مبارک فجر ہے مومنوں کی۔ تھوڑی دیر میں حضرت کی آمد اور قرآن خوانی سے ساری مجلس بقعۂ نور نظر آنے لگتی ہے۔ نصف پارہ کے قریب پڑھا جاتا ہے۔ اس کا ترجمہ کیا جاتا ہے۔ تفسیر کی جاتی ہے سائلین کے سوالات کے جواب دیئے جاتے ہیں۔ تقویٰ و عمل کی تاکید بار بار کی جاتی ہے۔ لطیف مثالوں سے مطالب کو عام فہم اور آسان کر دیا ہے۔ اس کے بعد اندرون مکان میں عورتوں کو درس قرآن دیا جاتا ہے۔ پھر ظہر کے بعد سب لوگ مسجد اقصیٰ میں جمع ہوتے ہیں وہاں حضرت خلیفۃ المسیح بھی تشریف لے جاتے ہیں اور صبح کی طرح وہاں پھر درس ہوتا ہے۔ بعد عشاء مسجد اقصیٰ میں حافظ جمال الدین صاحب تراویح میں قرآن شریف سناتے ہیں اور حضرت کے مکان پر حافظ ابواللیث محمد اسمٰعیل صاحب سناتے ہیں۔ غرض اس طرح قرآن شریف کے پڑھنے پڑھانے اور سننے کا ایسا شغل ان ایام میں دن رات رہتا ہے کہ گویا اس مہینہ میں قرآن شریف کا ایک خاص نزول ہوتا ہے۔ حضرت خلیفۃ المسیحؓ اپنے دردمند دل کی دعاؤں کے ساتھ قرآن شریف سناتے ہیں۔ درس کے بعد سامعین کے واسطے دعائیں کرتے ہیں۔’’
(تاریخ احمدیت جلد3صفحہ603)
خلافتِ ثانیہ (قادیان)
درس القرآن
حضرت مصلح موعودؓ کے زمانہ میں بھی درس القرآن اسی روایت کے مطابق جاری رہا اور حضور ؓاپنی صحت کو بالائے طاق رکھ کر دن رات درس کی تیاری فرماتے۔ حضورؓ نے ان جذبات کا اظہار ایک خطبہ جمعہ میں ان الفاظ میں فرمایا:
‘‘عمر اور بیماری کے ساتھ انسان کی کیفیتیں بدلتی چلی جاتی ہیں۔مجھے یاد ہے22ء میں مَیں نے سارے رمضان میں درس دیا تھا۔اگست کا مہینہ تھا اور گرمی بڑی سخت تھی۔ لیکن مجھے یاد ہے کہ میں ساری رات درس کے نوٹ لکھا کرتا تھا۔اور صبح روزہ رکھ کر درس دیتا تھا۔ دوپہر کے بعد جب میں باہر نکلتا۔تو گرمی کی شدت کی وجہ سے حکیم محمد عمر صاحب جو اب بہت بڈھے ہو گئے ہیں۔مسجد کے کنوئیں سے پانی بھر لاتے اور میرے سر پر ڈالتے۔ اس کے بعد میں پھر واپس جا کر درس دینا شروع کر دیتا ظہر آ جاتی عصر آجاتی پھر شام آ جاتی میں درس دیتا چلا جاتا ۔کئی دفعہ ایسا ہوا کہ درس دیتے دیتے روزہ کھل جاتا۔ غرض کوئی بارہ تیرہ گھنٹے ہم درس دیتے تھے۔تفسیرِ کبیر کی جو جلد پہلے چھپی تھی۔ وہ اس درس کے نوٹو ں کی وجہ سے ہے۔لیکن اب بیماری کی وجہ سے جسم میں وہ برداشت نہیں رہی۔ پھر عمر کا تقاضا بھی ہے۔’’
(خطبہ جمعہ 17؍مئی 1957ء مطبوعہ الفضل 31؍مئی 1957ء صفحہ3)
قادیان میں تہجد کی عادت
حضرت خلیفة المسیح الرابع ؒ فرماتے ہیں کہ
‘‘رمضان کے ساتھ تہجد کا بہت ہی گہرا تعلق ہے۔ وہ روزے جو تہجد سے خالی ہیں وہ بالکل ادھورے اور بے معنی سے روزے ہیں۔ اس لئے بچوں کو خصوصیت کے ساتھ روزے کی تلقین کرنی چاہئے۔ جس ماحول کا میں نے ذکر کیا ہے قادیان یا ربوہ میں اس ماحول میں تو عموماً یہ سوچا بھی نہیں جا سکتا تھاخصوصاً قادیان میں کہ کوئی بچہ اٹھ کر آنکھیں ملتا ہوا کھانے کی میز پر آجائے۔ اس کے لئے لازمی تھا کہ وہ ضرورپہلے نفل پڑھے اور لازمی ان معنوں میں کہ سب یہی کرتے تھے اس نے یہی دیکھا تھا اور وہ سوچ بھی نہیں سکتا تھا۔ بعض دفعہ لیٹ آنکھ کھلتی ہے بچے کی یعنی دیر ہو جاتی ہے زیادہ تو کھانا بھی جلدی میں کھاتا ہے لیکن قادیان کے بچے تہجد بھی پھر جلدی میں پڑھتے تھے یہ نہیں کرتے تھے کہ اب وقت نہیں رہا صرف کھانا کھائیں بلکہ اگر کھانے کے لئے تھوڑا وقت ہے تو تہجد کے لئے بھی تھوڑا وقت تقسیم کر لیا کرتے تھے۔
دونفل جس کو عام طور پر ٹکریں مارنا کہتے ہیں اس طرح کے نفل پڑھے اور اسی طرح کا کھانا کھایا پھردولقمے جلدی جلدی کھا لیالیکن انصاف کا تقاضا یہ تھا کہ روحانی غذا کی طرف بھی توجہ دیں اور جسمانی غذا کی طرف بھی توجہ دیں اور یہ انصاف ان کے اندر پایا جاتا تھا ان کو بچپن سے ماؤں نے دودھ میں پلایا ہوا تھا۔ اس لئے وہ نسلیں جو قادیان میں پل کے بڑی ہوئیں ان میں تہجد اور رمضان کا چولی دامن کا ساتھ سمجھا جاتا تھا۔کوئی وہم بھی نہیں کر سکتا تھا کہ بغیر تہجد پڑھے بھی روزہ ہو سکتا ہے۔ ہاں کچھ ان میں سے ایسے بھی تھے جو تہجد کے وقت اٹھ نہیں سکتے تھے اور کچھ ایسے تھے جو صرف تہجد نہیں پڑھنا چاہتے تھے بلکہ قرآن کریم کی تلاوت بھی سننا چاہتے تھے۔ چنانچہ ایسے احباب کے لئے یا مردو زن کے لئے تراویح کا انتظام ہوا کرتا تھا۔’’
(خطبہ جمعہ22؍اپریل 1988ء مطبوعہ خطبات طاہر جلد7صفحہ267)
قادیان میں بچوں کی تربیت کا طریق
حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
‘‘دوسری بات رمضان میں یہ ہے کہ بچوں کو سحری کے وقت اٹھا کر کھانے سے پہلے نوافل پڑھنے کی عادت ڈالی جائے۔ قادیان میں یہی دستور تھا جو بہت ہی ضروری اور مفید تھا۔ جسے اب بہت سے گھرو ں میں ترک کر دیا گیا ہے۔ قادیان میں یہ بات رائج تھی کہ روزہ شروع ہونے سے پہلے بچوں کو عین اس وقت نہیں اٹھاتے تھے کہ صرف کھانے کاوقت رہ جائے بلکہ لازماً اتنی دیر پہلے اٹھاتے تھے کہ بچہ کم سے کم دو چار نوافل پڑھ لے ۔ چنانچہ مائیں بچوں کو کھانا نہیں دیتی تھیں جب تک پہلے نفل پڑھنے سے فارغ نہ ہو جائیں۔
سب سے پہلے اٹھ کر وضو کرواتی تھیں اور پھر ان کو نوافل پڑھاتی تھیں تا کہ ان کو پتہ لگے کہ روزہ کااصل مقصد روحانیت حاصل کرنا ہے۔ اس امر کا اہتمام کیا جاتا تھاکہ بچے پہلے تہجد پڑھیں ، قرآن کریم کی تلاوت کریں پھرکھانے پہ آئیں۔ اور اکثر اوقات الا ما شاء اللہ تہجد کا وقت کھانے کے وقت سے بہت زیادہ ہوتاتھا۔ کھاناتو آخری دس پندرہ منٹ میں بڑی تیزی سے کھا کرفارغ ہو جاتے تھے جب کہ تہجد کے لئے ان کو آدھ پون گھنٹہ مل جاتا تھا۔ اب جن گھروں میں بچوں کو روزہ رکھنے کی ترغیب بھی دی جاتی ہے ان کو اس سلیقے اور اہتمام کے ساتھ روزہ نہیں رکھوایا جاتا بلکہ آخری منٹوں میں جب کہ کھانے کا وقت ہوتاہے ان کو کہہ دیا جاتا ہے آؤ روزہ رکھ لو اور اسی کو کافی سمجھا جاتا ہے۔
یہ تو درست ہے کہ اسلام توازن کا مذہب ہے، میانہ روی کا مذہب ہے لیکن کم روی کا مذہب تو نہیں۔ اس لئے میانہ روی اختیار کرنی چاہئے۔ جہا ں روزہ رکھنا فرض قرار دیا ہے وہاں فرض سمجھنا چاہئے۔ جہاں روزہ فرض قرار نہیں دیا وہاں اس رخصت سے خدا کی خاطراستفادہ کرنا چاہئے۔ یہ نیکی ہے ۔ اسکا نام میانہ روی ہے۔ اس لئے جماعت کو اپنے روز مرہ کے معیار کی طرف بھی توجہ کرنی چاہئے اورروزہ کھلوانے کی طرف بھی توجہ کرنی چاہئے اور روزہ کا معیار بڑھانے کی طرف بھی توجہ کرنی چاہئے۔’’
(خطبہ جمعہ فرمودہ30؍ مئی1986ءمطبوعہ خطبات طاہر جلد5صفحہ392تا393)
قادیان کی عارضی اور دائمی کشش
حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ تحریر کرتے ہیں کہ
‘‘رمضان کا مبارک مہینہ جو قادیان میں اپنے گوناگوں روحانی مناظر کی وجہ سے گویا ایک جیتی جاگتی مجسّم صورت اختیار کر لیتا تھا۔روزہ نفلی نمازیں۔ تراویح۔درس القرآن۔خاص دعائیں صدقہ وخیرات او ر بالآخر روحانی خوشی کی حامل عید وغیرہ۔ یہ وہ چیزیں تھیں جن سے قادیان کا رمضان ایک مجسم روحانی زندگی بن جاتا تھا اور اس زندگی میں جماعت کا ہر فرد بڑھ چڑھ کر حصہ لیتا تھا۔’’
( الفضل12؍دسمبر1948ء)
قادیان میں رمضان
الفضل نے قادیان کے رمضان کا اجمالی خاکہ کھینچا ہے جس کو اختصار کے ساتھ پیش نہیں کیا جا سکتا۔ اس لئے مکمل یہ نقشہ پیشِ خدمت ہے۔
‘‘جن لوگوں کو قادیان میں رمضان کے مبارک ایام گزارنے کا موقع ملا ہے وہ خوب جانتے ہیں کہ جس طرح یہ مبارک ایام قادیان میں گذارے جاتے ہیں او رکسی جگہ نہیں گذارے جاتے اور یہ قادیان کی ایک خصوصیت ہے جو دنیا میں کسی اور مقامی کو حاصل نہیں یوں تو مسلمان کہلانے والے دنیا کے ہر گوشہ میں رمضان المبارک میں روزے رکھتے ہیں لیکن صرف روزہ رکھ لینے سے وہ مقصد پورا نہیں ہو جاتا جو اللہ تعالیٰ نے اس مہینہ کے مقرر کرنے میں رکھا ہے۔ روزہ رکھ کر روزہ اور رمضان کا حقیقی مقصد حاصل کرنے کا خیال جس قدر یہاں رکھا جاتا ہے وہ اور کسی جگہ کے مسلمان نہیں رکھتے اور پھر احمدی احباب اس کوشش میں بہت حد تک کامیاب بھی ہوتےہیں مثلاً تراویح تو بہت جگہ پڑھی جاتی ہے ۔ مگر سحری کے وقت تراویح ادا کرنا شاید ہی کسی اور جگہ کے رہنے والوں کو نصیب ہوتا ہو۔ عام طور پر یہی ہوتا ہے کہ عشاء کے بعد ہی جوں توں کر کے اس بار سے سبکدوشی حاصل کر لی جاتی ہے لیکن قادیان میں اکثر لوگ تراویح میں شامل ہونے کے باوجود تہجد کی نماز باقاعدہ ادا کرتے ہیں۔ اور تہجد ادا کرنے والوں کی تعداد کے لحاظ سے اللہ تعالیٰ کے فضل سے اور کوئی مقام قادیان کا مقابلہ نہیں کرسکتا۔
پھر تلاوت قرآن کریم جسے رمضان کے ساتھ خاص مناسبت ہے جس کثرت سے یہاں ہوتی ہے اور کسی جگہ نہیں ہوتی۔ ممکن ہے انفرادی طور پر بعض اور جگہ بھی لوگ قرآن کریم کی تلاوت کرتے ہوں مگر اجتماعی طور پر قرآنِ کریم کا درس دیا جانا اور ایک ہی مہینہ میں کلام الٰہی کے مطالب و معانی سے آگاہی کے دائرہ کو وسیع کرنے کا کام جس باقاعدگی، پابندی اور التزام کے ساتھ قادیان میں ہوتا ہے اس کی نظیر غیر احمدی دنیا میں کہیں نہیں مل سکتی۔ ہاں یہ صحیح ہے کہ بعض بیرونی احمدیہ جماعتیں بھی اس عادت سے بہرہ ور ہوتی ہیں اور اپنے اپنے ہاں قرآن کریم کے درس کا التزام کرتی ہیں ۔
اس کے علاوہ فطرانہ کی رمضان کے مہینہ میں ہی باقاعدہ با شرح ہر ایک سے وصولی اور پھر عید سے قبل تمام مستحقین میں اس کی تقسیم کا جو انتظام قادیان میں ہے اور کسی جگہ ہر گز نہیں پایا جاتا۔ اور ہو بھی نہیں سکتا ۔ کیونکہ یہ باقاعدگی ایک نظام کو چاہتی ہے اور مسلمان اس نعمت سے کلی طور پر محروم ہیں۔
پھر قادیان کے رمضان کی ایک اور خصوصیت جس میں یہ بستی منفرد ہے وہ رمضان المبارک کا آخری دن ہے جب دنیا میں مسلمان اپنے اپنے ہاں عید کے چاند کو دیکھنے کے انتظار میں گھڑیاں گن رہے ہوتے ہیں او رآنے والی عید کی تیاریوں میں لگے ہوتےہیں۔یہ وقت عام طور پر عید کی خوشی کو زیادہ کرنے کے پروگرام بنانے میں صرف ہوتا ہے۔ یہ دن بچوں کے لئے کپڑے ، جوتے۔ ٹوپیاں اور بیوی کے لئے تحائف وغیرہ خریدنے پر خرچ کیا جاتا ہے۔ اسی طرح عید میں کام آنے والی اشیاء کی خرید و فروخت بھی اکثر اسی دن ہوتی ہے لیکن یہ وقت جسے مسلمان اس طرح کی مصروفیتوں میں گذارتےہیں ۔ قادیان میں جس طرح گذرتا ہے وہ ایک ایسا ایمان افروز نظارہ ہے کہ بڑے سے بڑا مخالف بھی اس سے متأثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکتا۔ بشرطیکہ اس کے دل میں خوفِ خدا اور مادہ انصاف موجود ہو۔ اس موقعہ پر قادیان میں احمدی احباب خانۂ خدا میں جمع ہوتے ہیں تااپنے مقدس امام کے ساتھ مل کر اس مبارک مہینہ کی آخری ساعات سے زیادہ سے زیادہ فائدہ اٹھا سکیں ۔ جس وقت دنیا کے دوسرے شہروں میں مسلمان بلند مقامات پر کھڑے چاند دیکھنے کی کوشش میں لگے ہوتے ہیں ۔ قادیان کی مسجد اقصیٰ احمدیوں کی تضرع اور زاری سے گونج رہی ہوتی ہے۔جو وہاں جمع ہو کر اپنے امام کی اقتداء میں اللہ تعالیٰ کے حضور دستِ دعا ہوتےہیں کہ وہ اسلام کو دوبارہ دنیا میں قائم کرے۔ اسے پھر وہی غلبہ عطا کرے جو پہلے بھی حاصل ہو چکا ہے ۔ دنیا میں اسلام کا بول بالا کرے۔ دنیا کے مصائب و مشکلات کو دور کرے۔ اہل دنیا کو گناہ اور فسق و فجور کی ظلمت سے نکال کر ایمان اور اپنی معرفت کی پر سکون فضا میں سانس لینے کی توفیق عطا فرمائے ۔ بے شک وہ اپنے اپنے عزیز و اقارب اور احباء کے لئے بھی اس وقت دعائیں کرتے ہیں لیکن ان کی دعاؤں کا زیادہ حصہ اسلام کی شوکت اور رسول اللہ ﷺ کے فضائل و کاملات کے اظہار پر مشتمل ہوتا ہے۔ اور قادیان میں رمضان المبارک کی یہ گھڑیاں اپنے اندر ایسی خصوصیت رکھتی ہیں کہ جس کی کوئی ایک مثال بھی دنیا کے کسی اور مقام پر پائی نہیں جا سکتی۔
ایک اور خصوصیت قادیان کی یہاں کی مساجد میں رمضان کے آخری عشرہ میں نظر آتی ہے اور وہ معتکفین کی کثرت ہے۔ جس کثرت سے یہاں لوگ اعتکاف بیٹھتے ہیں ۔ امید نہیں کسی اور جگہ بیٹھتے ہوں۔ معتکفین میں ہر طبقہ اور ہر عمر کے لوگ ہوتےہیں۔ بڑے بڑے معزز اور سرکاری عہدیدار ، تاجر، صناع، بوڑھے جوان سب قسم کے لوگ معتکفین کے زمرہ میں شامل ہوتے ہیں اور پھر مستورات کے لئے بھی اعتکاف بیٹھنے کے انتظامات کئے جاتے ہیں۔
اس کےعلاوہ ایک اور چیز جو یقیناً دنیا میں کسی اور جگہ نظر نہ آئے گی وہ بچوں کا اعتکاف ہے۔ چنانچہ اس سال 16-15 سال کے بعض بچے معتکفین میں تھے۔ غور فرمائیے کھیل کود کے اس زمانہ میں دین سے اتنا شغف اور اتنا شوق قادیان میں رمضان ایسے رنگ میں گذرتا ہے کہ آج اس کی مثال دنیا میں اور کہیں نہیں مل سکتی اور اس سے ایسے فوائد حاصل کرنے کی کوشش کی جاتی ہے کہ جو اللہ تعالیٰ کا منشاء ہے کہ مسلمان اس سے حاصل کریں اور جن کے حصول سے اس زمانہ کے مسلمان بالکل بے پرواہ ہیں افسوس ہے کہ آج مسلمان روزہ کے اصل مقصد کی نسبت سحری، افطاری اور عید کی تیاری پر زیادہ توجہ دیتے ہیں۔’’
(الفضل 5؍ اکتوبر 1943ء)
رمضان میں اجتماعی دعاؤں کی تحریک
حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ ہمیشہ جماعت احمدیہ کو دعائیں کرنے کی تحریک فرماتے رہتے تھے۔ 11؍ دسمبر 1936ء کو جمعہ کا مبارک دن اور رمضان کا پچیسواں روزہ تھا۔ اس روز حضورؓ کے دل میں یہ تحریک پیدا ہوئی کہ رمضان کے مبارک ایام اب قریب الاختتام ہیں۔ ہمیں ان سے زیادہ سے زیادہ فائدہ اٹھانے کی صورت یہ اختیار کرنی چاہئے کہ آج اور کل کی دو راتوں میں ایسی دعائیں کی جائیں جو مشترکہ ہوں۔ چنانچہ حضورؓ نے خطبہ جمعہ میں جماعت کو اس امر کی طرف زوردار طریق پر توجہ دلائی اور دو راتوں کے لئے مندرجہ ذیل دو مشترکہ دعائیں تجویز فرمائیں۔
پہلی دعا۔‘‘ الٰہی تیرا عفو تام اور توبہ نصوح ہمیں میسر ہو۔ اور نہ صرف ہمیں میسر ہو بلکہ ہمارے خاندان کو ہمارے ہمسایوں کو، ہمارے دوستوں کو، ہمارے عزیزوں کو اور رشتہ داروں کو اور ہماری تمام جماعت کو، یہ نعمت میسر آجائے۔ خدایا ہم تیرے عاجز و خطاکار اور گنہگار بندے ہیں۔ ہم سخت کمزور اور ناتواں ہیں۔ جالوں اور پھندوں میں ہم نے اپنے آپ کو پھنسا رکھا ہے۔ ان میں سے نکلنے کی کوئی راہ نہیں اور ہماری نجات کی کوئی صورت نہیں سوائے اس کے کہ تیرا عفو تام ہم پر چھا جائے۔ اور آئندہ کے لئے وہ توبہ نصوح ہمیں حاصل ہو جائے جس کے بعد کوئی ذلت اور کوئی تنزل نہیں ہے۔’’
دوسری دعا۔ ‘‘اے خدا تو کامل ہے۔ ہر تعریف سے مستغنی ہے۔ ہر عزت سے مستغنی ہے۔ ہر شہرت سے مستغنی ہے۔ تجھے اس بات کی کوئی حاجت نہیں کہ تیرے بندے تجھ پر ایمان لاتے ہیں یا نہیں۔ ان کے مان لینے سے تیری شان میں کوئی ترقی نہیں ہوسکتی۔ اور ان کے نہ ماننے سے تیری شان میں کوئی کمی نہیں آسکتی۔ مگر ہمارے رب! گو تو محتاج نہیں لیکن دنیا تیرے نور کی محتاج ہے۔ اور ہم تجھ سے درخواست کرتے ہیں کہ تیری صفات دنیا پر جلوہ گر ہوں۔ اور تیرا نور عالم پر پھیلے اور تمام بنی نوع انسان تجھ پر ایمان لائیں اور تیری بادشاہت دنیا میں قائم ہو۔ اے خدا اپنے لئے نہیں بلکہ اپنے غریب بندوں کی خاطر دنیا پر رحم فرما۔ اپنی خالقیت کے اظہار کے لئے نہیں بلکہ مخلوق پر ترحم اور شفقت کرنے کے لئے انہیں وہ راستہ دکھا جو انہیں تیرے قرب تک پہنچانے والا ہو۔ اور جس کے نتیجہ میں تیری بادشاہت دنیا پر قائم ہو جائے۔ تا بنی نوع انسان تیرے نور سے منور ہو جائیں۔ ان کے دل روشن ہو جائیں ان کی آنکھیں چمک اٹھیں اور ان کے ذہن تیز ہو جائیں۔’’
حضور نے مذکورہ بالا دعاؤں کا تذکرہ کرتے ہوئے احباب جماعت کو یہ بھی تلقین فرمائی کہ
‘‘سال میں سے کم از کم ایک دن تم خداتعالیٰ کے سامنے اپنے گناہوں پر روؤ اور خوشی کی چیز اس سے کوئی نہ مانگو۔ اس سے روپیہ نہ مانگو۔ اس سے پیسہ نہ مانگو۔ اس سے دولت نہ مانگو۔ اس سے صحت نہ مانگو۔ اس سے قرضوں کا دور ہونا نہ مانگو۔ اس سے اعزاز نہ مانگو۔ اس سے اکرام نہ مانگو۔ پھر یہی مانگو کہ خدایا تیرا عفو تام ہمیں حاصل ہو۔ اور توبہ نصوح ہمارے لئے میسر ہو جائے۔ اس دعا کو مختلف رنگوں میں مانگو۔ مختلف طریقوں سے مانگو۔ مختلف الفاظ میں مانگو۔ اپنے لئے مانگو۔ اپنی بیویوں کے لئے مانگو۔ اپنے بچوں کے لئے مانگو۔ اپنے دوستوں کے لئے مانگو۔ اپنے ہمسایوں کے لئے مانگو۔ اپنے شہر والوں کے لئے مانگو۔ اور پھر ساری جماعت کے لئے مانگو۔ مگر چیز ایک ہو۔ بات ایک ہو۔ رنگ ایک ہو۔سُر ایک ہو۔ تال ایک ہو۔ اور جو کہو اس کا خلاصہ یہ ہو۔ ہم تیرا عفو تجھ سے ہی چاہتے ہیں۔ پس اس عفو سے مانگو۔ اس غفّار سے مانگو۔ اس ستّار سے مانگو۔ اس توّاب سے مانگو۔ اور اگر تم اس سے رحمانیت مانگو۔ تو اسی لئے کہ وہ تمہیں اپنا عفو تام اور توبہ نصوح دے اور اگر رحیمیت مانگو تو بھی اسی لئے کہ وہ تمہیں اپنا عفو تام اور توبہ نصوح دے۔’’
(خطبہ جمعہ 11؍ دسمبر 1936ء مطبوعہ الفضل 13؍دسمبر 1936ء)
درویشانِ قادیان کا پہلا رمضان
تقسیم ہندوستان کے وقت قادیان ایک غیر مسلم ملک میں شمار ہوا تھا ۔ حضرت خلیفة المسیح الثانی ؓ کے دورِ خلافت کے اس زمانہ میں الٰہی نوشتوں کے مطابق ‘‘داغ ہجرت’’ سمیت کئی الہامات پورے ہوئے۔ چونکہ یہ تقسیم مذہبی بنیاد پر تھی اس لیے باوجود اپنے ہی وطن میں ہونے کے زمین تنگ کر دی گئی تھی۔ دنیا میں اور خصوصا ًقادیان میں جدید زمانے کی بیشتر سہولیات موجود تھیں لیکن دو وقت کی روٹی میسر آنا ایک بنیادی انسانی ضرورت تھی۔ اگر وہ بھی میسر نہ آئے تو انسان کا یہ ظاہری جسم بھی ختم ہوتا جاتا ہے۔ لیکن درویشانِ قادیان جن کے لیے حضرت مصلح موعودؓ نے فرمایا تھا کہ قادیان کو اس وقت 313 زندہ لاشوں کی ضرورت ہے ۔ بے سرو سامانی سمیت مقدس مقامات کی آبادی اور خدمت کا جذبہ دلوں میں لیے درِ حبیب پر اپنے وطنوں کی یاد کو دلوں سے نکال کر ہر بات سے بے پروا دھونی رما کر بیٹھ گئے۔ پھر ابتلاء و آزمائش کا ایک لامتناہی دَور شروع ہوا جس میں درویشانِ قادیان سرخرور ہوئے۔
مکرم خورشید احمد صاحب پربھاکر درویش۔ دورِ درویشی میں قادیان کے پہلے رمضان کو یاد کرتےہوئے فرماتے ہیں کہ
‘‘زمانہ درویشی کے آغاز سے ہی حضرت خلیفة المسیح الثانیؓ کی ہدایت کے مطابق تمام درویش سوموار اور جمعرات کے دن نفلی روزے رکھا کرتے تھے اور بہت مخلص ہر روز روزہ رکھا کرتے تھے۔
آزادی ہند کے بعد پہلا رمضان شریف جولائی 1948ء میں آیا۔ روزہ عموما ًپندرہ گھنٹے کا ہوا کرتا تھا جولائی کے ایام میں دن لمبے اور سخت گرم ہوتے ہیں درویش لنگر سے ملنے والے نانِ درویش سے سحری کا کھانا کھاتے اور پانی پی کر سارا دن گذارتے تھے چونکہ ان کو روزہ رکھنے کی عادت تھی لہذا روزہ کی سختی برداشت کر لیتے تھے۔
ماہِ رمضان جولائی 1948ء میں آیا درویشوں میں سے اَسّی (80) درویش اعتکاف میں بیٹھے۔ دوسرے درویش ان معتکفین کےلئے سحری کا کھانا لاتے اور دن رات پہرے دیا کرتے تھے۔ مولانا محمد ابراہیم صاحب فاضل ہیڈ ماسٹر جامعة المبشرین امیر معتکفین اور خاکسار سیکرٹری تھے۔ سحری کا کھانا کھانے سے پہلےآدھا گھنٹہ اجتماعی دعا کیا کرتے تھے ۔ دعا میں خشوع خضوع اور گریہ وزاری کا یہ عالم ہوا کرتا تھا کہ ساری مسجد اقصیٰ دھدکتی ہوئی آہوں کے باعث گونج اٹھتی تھی۔ مسجد کے قریب اردگرد کے غیر مسلم لوگ خوف کی حالت میں اپنے اپنے گھروں کی چھتوں پر چڑھ جاتے تھے ۔ ان کا گمان تھا کہ پاکستان کی طرف سے حملہ ہو گیا ہے اور فوجی ٹرین کا انجن دھک دھک کرتا ہوا قادیان کی طرف بڑھتا ہوا آرہا ہے۔ اس ماجرے سے مجھے میرے بعدکے پڑوسی جناب پرتاپ سنگھ کی اہلیہ نے آگاہ کیا تھا۔
معتکفین حضرات ہلال عید دیکھنے کے باوجود حضرت امیر صاحب کی اجازت کے بعد مسجد سے باہر نکلا کرتے تھے اور سیدھے بہشتی مقبرہ جا کر مزار مبارک حضرت مسیح موعود علیہ السلام پر دعا کرتے اور پھر اپنی قیام گاہ آیا کرتے تھے۔’’
(درویشانِ قادیان نمبر صفحہ 42۔ بدر قادیان 15؍ دسمبر 2011ء)
ذکر وفکر کے روح پرور نظارے
حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ نے قادیان میں درویشان کے ماہ رمضان کی مصروفیات سے متعلق محترم بھائی عبدالرحمٰن صاحب قادیانی ؓکا ایک مکتوب الفضل میں شائع فرمایا ۔ وہ لکھتے ہیں کہ
‘‘قادیان میں خدا تعالیٰ کے فضل سے معذور درویشوں کے سوا تمام درویش شوق اور اخلاص سے روزے رکھ رہے ہیں اور ریاضت وتلاوت وذکر الٰہی وتسبیح وتمحید نیز دعاودرود میں مصروف ہیں۔ اکثر نے آپ کی تحریک کی تعمیل میں قرآن شریف کے دو دور ختم کرنے کا عزم کرلیا ہے بلکہ ایک دور ختم کرکے دوسرا دور شروع بھی کردیا ہے۔ قرآن کریم کا درس سورۃ انبیاء تک مکمل ہوچکا ہے اور رات کے پچھلے حصہ کی تراویح میں آج مورخہ 14جولائی1949ء سورۃ روم ختم ہوئی ہے۔ اعتکاف بیٹھنے والے اجازت کے لئے درخواستیں دے چکے ہیں۔ اللہ تعالیٰ کے فضل سے قادیان کا رمضان یقیناً اپنی مثال آپ ہے۔ بلحاظ ذکر وفکراور عبادت اور ریاضت کے شاید اس کی نظیر دنیا بھر میں نہیں ہوگی۔ مقاماتِ مقدسہ ذاکرین کے ہجوم سے اَٹے رہتے ہیں۔ تلاوت کی گونج فضا کو معطر رکھتی ہے۔ فالحمدﷲ۔ ثم الحمدﷲ۔ ثم الحمد ﷲ۔’’
(الفضل 20؍جولائی 1949ء)
درویشان کا بے تکلفانہ سحر وافطار
مکرم عبد الرحمٰن فیاض صاحب اپنے مضمون بعنوان ‘‘درویشانِ قادیان کے متعلق میری یادیں ’’ میں تحریر کرتے ہیں کہ
‘‘رمضان کا مقدس مہینہ ہر درویش اپنی کم مائیگی کے باوجود پورے جذبہ اور نمازوں کے علاوہ نوافل، تراویح میں پورے ذوق شوق سے بھر پور حصہ لیتے رہتے تھے۔ درس قرآن شریف جو مسجد اقصیٰ میں ظہر کی نماز کے بعد عصر کی نماز تک قائم رہتا تھا اکثر مردو زن شامل رہتے جو صبر تحمل کے ساتھ پورے وقت میں شامل ہوتے تھے۔ اس زمانہ میں پنکھوں کا کوئی انتظام نہ تھا اکثر خدام ہاتھ کے بڑے بڑے کپڑوں کے پنکھوں سے ہوا دیتے تھے۔
افطاری کے لئے مسجد اقصیٰ کے کنویں کا ٹھنڈا پانی شکر کی ملاوٹ سے شربت اس زمانہ کے مشروبات کا کام دیتے تھے۔ پانی کو ٹھنڈا کرنے کے لئے برف یا فریج کا یہاں کوئی وجود نہ تھا۔ معتکف افطاری اور کھانا ایک ساتھ مل کر کھاتے تھے ۔ کھانے میں اکثر ظاہری تکلفات سے احتراز کرتے تھے۔ مغرب کی اذان خادم مسجد منارة المسیح پر چڑھ کر دیتے تھے۔ اکثر میں نے دیکھا ہے اذان کے لئے لاؤڈ سپیکر استعمال نہیں ہوتا تھا۔ خاکسار کو مسجد اقصیٰ میں درویشان کےساتھ اعتکاف بیٹھنے کی توفیق ملتی رہی۔
سال 1970ء میں بھی خاکسار مسجد اقصیٰ میں اعتکاف بیٹھا تھا۔ سحری اور رات کا کھانا خاکسار کے لئے حضرت صاحبزادہ مرزا وسیم احمد صاحب کے گھر سے آتا تھا۔ رمضان کے آخری عشرہ میں 28 اور 29 رمضان کو عید کا چاند دیکھنے کے لئے مسجد اقصیٰ میں جمع ہو جاتے تھے۔ میرا قیام لنگر خانہ میں تھا۔ عید کے روز حضرت میاں صاحب نے دوپہر کا کھانا میرے لئے لنگر خانہ میں بھجوا دیا جو چار کس کے لئے کافی تھا۔ اس کے بعد بھی کئی سالوں میں قادیان میں اعتکاف بیٹھنے کا موقع ملتا رہا ۔’’
(درویشانِ قادیان نمبر صفحہ 73۔ بدر قادیان 15؍ دسمبر 2011ء)
قادیان کی یادیں
مکرم عبد الباسط شاہد صاحب مربی سلسلہ نے قادیان میں گزارے ہوئے رمضان کی یادوں کا دلکش انداز میں تذکرہ کرتے ہوئے تحریر کیا ہے کہ
‘‘قادیان کے رمضان کی نمایاں بات جو ذہن میں سب سے پہلے آتی ہے وہ مسجد اقصیٰ میں حضرت میر محمد اسحاق صاحب کا درس حدیث تھا۔ اللہ تعا لیٰ جزائے خیر عطا فرمائے والد صاحب مرحوم کو انہیں ان باتوں کا بہت چسکا تھااور وہ ضروری سمجھتے کہ ان کے بچے بھی اس سے محروم نہ رہیں لہذا سحری ختم کرتے ہی مسجد اقصی کیلئے روانگی ہوتی…۔
حضرت میر صاحب جس عقیدت،محبت،پیار اور اخلاص سے حدیث سناتے تھے اس کو سمجھنے کیلئے میرا بچپن روک نہیں بنتا تھا۔وہ علمی نکات جو آپ بیان فرماتے تھے وہ یقینا ًمیری رسائی سے باہر ہوتے ہوں گے، مگر عقیدت و پیار تو اس طرح چھلک رہا ہوتا تھاکہ میرا ناپختہ اور خام ذہن اس کا گہرا نقش حاصل کرتا…۔
خاکسار کو درس حدیث دینے کی سعادت مسجد اقصیٰ قادیان اور مسجد مبارک ربوہ میں بھی ملتی رہی اور خاکسار نے حضرت میر صاحب کے ذکر خیر اور دعا کی درخواست میں کبھی کوتاہی نہیں کی۔مسجد اقصیٰ قادیان میں درس قرآن مجید وہاں کے رمضان کی ایک اور بہت ہی نمایاں، بہت ہی مفید اور بہت ہی پیاری یاد ہے۔
حضرت خلیفۃ المسیح الاول ؓکا قرآن مجید سے بے مثال تعلق اور عشق احمدیہ لٹریچر میں پڑھا ہے وہ روزانہ کئی درس دیتے تھے۔ حضرت حافظ روشن علی صاحبؓ کا درس سننے کی سعادت تو حاصل نہیں ہوئی کیونکہ حضرت حافظ صاحب کا سن وفات میرا سن پیدائش ہے۔تا ہم ان کے درس کا ذکر اس کثرت اور محبت سے ان کے شاگردوں اور خاص طور پر اپنے استاد محترم حضرت مولانا ابو العطاء صاحب سے سنا کہ یوں لگتا ہے کہ ان کا درس بھی سنا ہوا ہی ہے۔
حضرت مولوی سید سرور شاہ صاحبؓ کے درس قرآن کا ذکر بھی قادیان کے خوش قسمت باسی بڑی محبت اور عقیدت سے کیا کرتے تھے۔میں نے اپنی ہوش میں جن بزرگوں کو قادیان میں درس دیتے ہوئے دیکھا ان میں استاذی المکرم حضرت مولانا ابوالعطاء صاحب مرحوم کی شخصیت بڑی نمایاں تھی۔ اسی زمانہ میں حضرت مولوی ظہور حسین صاحب، حضرت مولانا جلال الدین صاحب شمسؓ،حضرت مولوی عبدالغفور صاحب، حضرت مولانا غلام احمد صاحب آف بدوملہی، حضرت مولانا قریشی نذیر احمد صاحب اور حضرت مولانا قاضی محمد نذیر صاحب بھی درس دیا کرتے تھے۔(حضرت مولانا راجیکی صاحبؓ بالعموم قادیان سے باہر درس دیتے تھے۔اس لئے اس سلسلہ میں ان کا ذکر نہیں ہے)یہ درس بالعموم نماز ظہر کے بعدشروع ہو کر نماز عصر تک جاری رہتا۔ہر بزرگ کے درس میں وہ علم و عر فان نمایاں ہوتا جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی برکت سے حاصل ہوا ہے۔تا ہم ہر بزرگ کا اپنا رنگ ہوتا۔اور یہ رنگارنگ گلدستہ رمضان کے مہینہ میں دس دس دن درس دیکر قرآن مجید کا دور مکمل کرتا۔ان میں سے کوئی بزرگ قرآن مجید کے معارف کو بیان کرنے کیلئے عربی زبان کے پرانے اشعار اور امثلہ بیان کرتا،کوئی بزرگ تبلیغی و تربیتی تجربات سے مزین کرتا،کوئی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے اشعار اور ملفوظات سے اپنی بات کو زیادہ موثر بناتا۔اس طرح تھو ڑے وقت میں زیادہ سے زیادہ فوائد حاصل کرنے کانہایت عمدہ موقع میسرآتا۔
نماز تراویح کا بھی بہت اہتمام ہوتاتھا بلکہ یہ عجیب بات ہے کہ وہ بچے بھی جنہیں عام دنوں میں نماز کی رغبت دلانے کیلئے ان کے والدین کو خاص جتن کرنے پڑتے تھے وہ بھی بڑے ذوق شوق سے اس عبادت میں شامل ہوتے اور اس سے استفادہ کرنے کی کوشش کرتے۔قادیان میں اس زمانہ میں متعدد حفاظ اور قراء حضرات موجود تھے۔ اور اس وجہ سے اس بابرکت پروگرام میں بڑی رونق رہتی …۔
قادیان کے زمانہ میں ‘‘رؤیت ہلال کمیٹیوں’’کی قسم کی کوئی چیز نہیں ہوتی تھی۔ چھوٹے بڑے سب رمضان کا چاند بڑے شوق سے دیکھتے۔ اس کیفیت کو پوری طرح بیان نہیں کیا جاسکتا۔بچے مجسم شوق بنے ہوتے ایک دوسرے سے پہلے چاند دیکھنے کی کوشش کرتے اور جو پہلے دیکھ لیتا وہ قدرے فخر و مسرت سے دوسروں کو چاند دکھانے کی کوشش کرتا۔بچپن کی یہ یاد بھی بہت بھلی لگتی ہے۔
قادیان میں صبح کی نماز کے بعد تلاوت کلام پاک کا بہت اہتمام ہوتا تھا۔یہاں تک کہ کئی دوکاندار اکثر قرآن مجید پڑھتے ہوئے نظر آتے بلکہ جس اخلاص اور توجہ سے وہ تلاوت کرتے تھے اس سے یہی معلوم ہوتا تھا کہ دکانداری ان کی مجبوری ہے اصل کام تلاوت و عبادت ہے۔ رمضان میں یہ اہتمام عام دنوں سے بہت زیادہ ہوتا قریبا ًہر گلی اور ہر گھر سے قرآن مجید کی آوازوں کا بلند ہونا ایک ایسا روح پرور نظارہ تھا کہ اسے الفاظ میں بیان نہیں کیا جاسکتا۔سحری کیلئے جگانے کا بھی اہتمام ہوتا تھا اس میں وہ رسمی طریق بھی شامل تھا کہ ڈھول بجا کر یا خالی ‘‘پیپے’’کو کھڑکاکر لوگوں کو جگایا جاتا۔ ایسا کرنے والے قادیان کے بعض غیر مسلم بھی تھے جو عید کے موقع پرانعام پانے کیلئے اس کام کو کرتے تھے۔قادیان کی خاص بات یہ تھی کہ وہاں جگانے والوں میں بعض ایسے عشاق بھی شامل ہوتے تھے جو اس کام کو بھی ایک عبادت کا رنگ دے دیا کرتے تھے۔
کوئی بآواز بلند تلا وت کرتا ہوا نکل جاتا، کوئی درود شریف پڑھتے ہوئے اور کوئی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا پاکیزہ منظوم کلام پڑھتے ہوئے۔
29رمضان کو درس قرآن مجید کا دور مکمل ہونے پر اجتماعی دعا کا بھی خاص رنگ ہوتا تھا۔قادیان کے رہنے والے بہت اہتمام سے دعاؤں کی اس خصوصی تقریب سے بہت اخلاص سے استفادہ کرنے کی کوشش کرتے تھے۔ اس دعا سے قبل یا آخری افطاری سے قبل حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ کا خاص درس ہوتا تھا۔علم و عرفان اور روحانی مائدہ کی اپنی خاص ایک شان ہوتی تھی دعا میں رقت اور سوز وگداز کا بھی اپناہی انداز ہوتا تھا۔اس طرح ہمارا رمضان مکمل ہوتا کہ اگلے سال کے رمضان کا انتظار بھی ساتھ ہی شروع ہو جاتا۔’’
(الفضل انٹر نیشنل 31؍ دسمبر 1999ء)
(جاری ہے)
ماشاء اللہ بہت اچھا مضمون ہے ۔ بہت اچھی تحقیق کی ہے ۔ اللہ تعالیٰ برکت ڈالے ۔