رمضان کا مہینہ ہم سے کیا چاہتا ہے؟
حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ ا لعزیز کے ارشادات کی روشنی میں ایک احمدی سے توقعات
سال میں ایک دفعہ ایک مہینہ ایسا بھی آتا ہے جو کہ ہم سے کچھ مطالبات کرتاہے۔ یہ مہینہ کون سا ہے؟ یہ رمضان کا مہینہ کہلاتاہے۔
یہ چاہتا ہےکہ ہم اِس میں خداتعا لیٰ کی رضا کی خاطراور اُسی کے بتائے ہوئے طریق پر چلتے ہوئے کچھ کرکے دکھائیں۔کیا کچھ کرنا ہے،کب کرنا ہے، کیوں کرنا ہےاور کس کے لیے کرنا ہے؟ ان سوالات کے جوابات خداتعالیٰ نےاپنے کلام ِپاک اورحضرت رسول کریمﷺ نے اپنے ارشادات میں دیے ہیں۔
حضور پاکﷺ کی پیش گوئی کے مطابق جب اِس زمانے کا امامؑ آ یاجو کہ حضرت امام مہدیؑ و حضرت مسیح موعودؑ کہلایا۔آپؑ نے بھی اس مبارک مہینے کی افادیت واہمیت کو اُجاگر کیااور مخلوق خدا کو بتلایا کہ رمضان کا مہینہ ہم سے کیا چاہتا ہے؟ کیا کچھ ہم نے اِس ماہ میں کرناہے؟اور کن کن باتوں سے ہم نے دور رہناہے۔آپ ؑکے اسوہ پرچلتے ہوئے آپ کے جانشین اور جماعت کے خلفائےکرام بھی آپؑ کے ماننے والوں کو اِس ماہ کے فیوض وبرکات سے آگاہی کرواتےہوئے یہ بتاتے رہے کہ یہ مبارک اور پاک مہینہ ہم سے کیا چاہتا ہے؟ آج بھی یہ عمل جاری و ساری ہے۔ ہمارےپیارے امام ہرسال ہمیں رمضان کے دنوں میں یا رمضان کے قریب ترین دنوں میں اپنے خطبات و خطابات میں اِس طرف رہ نمائی فرماتے اور ہمیں بتاتے ہیں کہ ہم نے اِس ماہ میں کیا کرنا ہےاور یہ برکتوں والا مہینہ ہم سے کیا چاہتا ہے؟ آئیے ہم دیکھتے ہیں کہ حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ ہم سے کیا توقعات رکھتے ہیں؟
روزہ دنیا کی تمام قسم کی ملونیوں سے پاک ہو کر رکھا جائے
’’پس یہ وہ تقویٰ کا معیار ہے جو ایک حقیقی روزے دار کو حاصل کرنا چاہیے اور حقیقی روزے دار پھر حاصل کرتا ہے کہ روزہ دنیا کی تمام قسم کی ملونیوں سے پاک ہو کر رکھا جائے اور ہر قسم کی روحانی اور اخلاقی کمزوریوں سے بچتے ہوئے روزے دار اپنا دن گزارے۔ اس بات پر خوش نہ ہو جائے کہ میں نے روزہ رکھا ہے۔ دنیا میں کتنے ہی روزے دار ہیں جو بظاہر روزہ رکھتے ہیں لیکن نہ ہی ان کی نمازوں کے وہ معیار ہیں جو ہونے چاہئیں، نہ ہی ان کے اخلاق کے وہ معیار ہیں جو ہونے چاہئیں۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے جو یہ فرمایا ہے کہ شیطان اس مہینے میں جکڑا جاتا ہے، اسے باندھ دیا جاتا ہے تو پھر دنیا میں رمضان کے مہینے میں بھی برائیاں کیوں جاری رہتی ہیں؟ روزہ ڈھال ان کے لیے بنتا ہے، شیطان کے حملوں سے انہیں بچایا جاتا ہے جو روزے کی حقیقت کو سمجھتے ہوئے تقویٰ اختیار کرتے ہیں۔ پس یہ وہ اصل مقصد ہے جو ہمیں ہر وقت اپنے سامنے رکھنا چاہیے ورنہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بھی فرمایا ہے کہ بے شک رمضان میں جنت کے دروازے کھول دیےجاتے ہیں اور جہنم کے دروازوں کو تالے لگا دیے جاتے ہیں اور شیطانوں کو زنجیروں میں باندھ دیا جاتا ہے۔(صحیح مسلم کتاب الصیام باب فضل شھر رمضان حدیث 1079)لیکن اس کے باوجود آپؐ نے یہ بھی انذار فرما دیا، اس بات کی طرف بھی توجہ دلائی کہ اگر پھر بھی کوئی رمضان کو پائے اور بخشا نہ جائے تو پھر کب بخشا جائے گا۔ (سنن الترمذی ابواب الدعوات باب رغم انف رجل ذکرت عندہ … الخ حدیث 3545) پس یہ بات آپؐ ہمیں فرما رہے ہیں۔ مسلمان کہلانے والوں کو فرما رہے ہیں، ان لوگوں کو فرما رہے ہیں جن کو اللہ تعالیٰ نے یہ فرمایا کہ روزہ تمہارے پر فرض کیا گیا ہے تا کہ تم ان دنوں میں صرف اور صرف خدا تعالیٰ کی عبادت اور اخلاقی معیاروں کی بلندیوں کو حاصل کرنے کی کوشش کرو ۔‘‘
(خطبہ جمعہ بیان فرمودہ10؍ مئی 2019ء مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل 31؍مئی 2019ءصفحہ 6تا 8)
ہر ایک کو اللہ تعالیٰ کا عبد بننے کی کوشش کرنی چاہئے
’’پس اس مہینے کی برکات سے فیض اٹھانے کے لئے ہم میں سے ہر ایک کو اللہ تعالیٰ کا عبد بننے کی کوشش کرنی چاہئے۔ اگر ہماری نااہلیوں کی وجہ سے اللہ تعالیٰ ہماری دعاؤں کو کچھ دیر کے لئے ٹالتا بھی ہے تو اس مہربان ماں کی طرح جو بچے سے اس کی اصلاح کی خاطر تھوڑی دیر کے لئے روٹھ جاتی ہے اور اس میں پھر سخت غصہ نہیں ہوتا۔ لیکن جب بچہ ماں کی محبت کی وجہ سے اس کی طرف جاتا ہے تو ماں گلے بھی لگا لیتی ہے بلکہ اس سے پہلے کئی دفعہ کنکھیوں سے دیکھتی بھی رہتی ہے کہ بچہ کس قسم کی حرکت کر رہا ہے، میرے پاس آتا بھی ہے کہ نہیں۔ بہر حال جب بچہ جاتا ہے تو ناراضگی دُور ہو جاتی ہے۔ پس اللہ تعالیٰ جو ماؤں سے بھی زیادہ بخشنے والا ہے وہ تو یہ دیکھتا ہے کہ کب میرے بندے میری طرف توبہ کرتے ہوئے آئیں اور مَیں انہیں معاف کروں۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ خدا کی قسم اللہ تعالیٰ بندے کی توبہ پر اتنا خوش ہوتا ہے کہ اتنا خوش وہ شخص بھی نہیں ہوتا جسے جنگل بیابان میں اپنی گمشدہ اونٹنی مل گئی۔(صحیح البخاری کتاب الدعوات باب التوبۃ حدیث 6309)پس یہ رمضان کا مہینہ بھی اس لئے ہے کہ بندہ اللہ تعالیٰ کی محبت دل میں رکھتے ہوئے اگر سارے سال کی کمزوریوں اور غلطیوں کے باوجود اللہ تعالیٰ کی طرف اس نیت سے آئے کہ وہ اس کی توبہ قبول کرے تو اللہ تعالیٰ دوڑ کر اس کو گلے لگاتا ہے۔‘‘
( خطبہ جمعہ بیان فرمودہ 19؍ جون 2015ء مطبوعہ الفضل انٹر نیشنل 10؍جولائی2015ءصفحہ 6تا7)
اس بابرکت مہینے میں ہمیں اس ستّار العیوب اور غفّار الذنوب خدا کی طرف دوڑنے کی ضرورت ہے
’’پس جب ایسا پیارا ہمارا خدا ہے تو کس قدر ہمیں قربانی کر کے اس کی طرف بڑھنے کی ضرورت ہے۔ کس قدر اس کا عبد بننے کی ضرورت ہے۔ پس اس بابرکت مہینے میں ہمیں اس ستّار العیوب اور غفّار الذنوب خدا کی طرف دوڑنے کی ضرورت ہے۔ اس کے آگے جھکنے کی بھرپور کوشش کرنے کی ضرورت ہے۔ شیطان ہر کونے پر کھڑا ہمیں اپنے لالچوں میں گرفتار کرنے کی کوشش میں لگاہوا ہے لیکن ہم نے اس سے مقابلہ کرتے ہوئے اور اللہ تعالیٰ کی پناہ کی کوشش کرتے ہوئے اس کے ہر حملے سے بچنا ہے اور اسے ناکام کرنا ہے اور اپنے آپ کو اللہ تعالیٰ کا حقیقی عبد بنانا ہے۔ تبھی ہم رمضان سے حقیقی رنگ میں فیضیاب ہو سکیں گے۔ اور جیسا کہ میں نے کہا کہ اس سے ہمیں جہاں ذاتی فوائد حاصل ہوں گے وہاں جماعتی ثمرات بھی ملیں گے۔‘‘
(خطبہ جمعہ بیان فرمودہ19؍ جون 2015ء مطبوعہ الفضل انٹر نیشنل 10؍جولائی2015ءصفحہ 7)
پس ان دنوں میں بہت دعائیں کریں…اللہ تعالیٰ کے جلال اور شان کے ظہور کے لئے بھی
’’پس ان دنوں میں بہت دعائیں کریں۔ اپنے لئے بھی، ایک دوسرے کے لئے بھی اور جماعت کی ترقی کے لئے بھی اور دشمن کی ناکامیوں اور نامرادیوں کے لئے بھی۔اللہ تعالیٰ کے جلال اور شان کے ظہور کے لئے بھی۔ دنیا خدا تعالیٰ کے وجود سے انکاری ہوتی جا رہی ہے، خدا کرے کہ اللہ تعالیٰ کو پہچاننے والی بنے۔ اللہ تعالیٰ ہماری کوتاہیوں اور غلطیوں کو معاف فرمائے اور ہمارے اندر بھی ایسی طاقت پیدا کر دے جس سے کام لیتے ہوئے ہم اسلام کو دنیا کے تمام ادیان پر غالب کر سکیں اور ہم میں سے ہر ایک اسلام کا سچا خادم بن جائے اور دنیا کی خواہشات ہمارے لئے ثانوی حیثیت اختیار کر لیں۔ ہمارے دل اس جذبے سے لبریز ہوں کہ ہم نے دین کو بلند کرنے کے لئے اپنی تمام تر صلاحیتوں کو بروئے کار لانا ہے۔ اللہ تعالیٰ ہمارے اعمال اور صلاحیتوں میں ایسی طاقت اور قوت پیدا فرما دے کہ دشمن کی طاقت اور قوت ہمارے مقابلہ میں ہیچ اور ذلیل ہو جائے۔ اللہ تعالیٰ ہماری خطاؤں کو نہ صرف معاف کرے بلکہ ہمارے دلوں میں گناہوں سے ایسی نفرت پیدا کر دے کہ ہم اللہ تعالیٰ کے حکموں کو کبھی توڑنے والے نہ ہوں۔‘‘
(خطبہ جمعہ بیان فرمودہ19؍ جون 2015ء مطبوعہ الفضل انٹر نیشنل 10؍جولائی2015ءصفحہ 8)
ہم نے روزانہ باقاعدگی سے قرآن کریم کے کچھ نہ کچھ حصہ کی تلاوت کرنی ہے
’’پھر رمضان میں خاص طور پر قرآن کریم پڑھنے، سننے کی طرف توجہ پیدا ہوتی ہے۔ بہت سے لوگ کوشش کرتے ہیں کہ کم از کم قرآن کریم کا ایک دَور مکمل کر لیں کیونکہ یہ سنّت بھی ہے۔ لیکن ساتھ ہی اس مہینہ میں قرآن کریم کی تلاوت کی طرف توجہ اور اہتمام اس طرف بھی توجہ دلانے والا ہونا چاہئے کہ اب ہم نے روزانہ باقاعدگی سے قرآن کریم کے کچھ نہ کچھ حصہ کی تلاوت کرنی ہے۔اللہ تعالیٰ نے جہاں نمازوں کے مختلف اوقات کی طرف توجہ دلائی ہے اور اس کی اہمیت بیان فرمائی ہے وہاں یہ بھی فرمایا ہے کہ
وَقُرْاٰنَ الْفَجْرِ۔ اِنَّ قُرْاٰنَ الْفَجْرِ کَانَ مَشْھُوْدًا (بنی اسرائیل: 79)
یعنی فجر کی تلاوت کو بھی اہمیت دو۔ یقیناً فجر کو قرآن پڑھنا ایسا ہے کہ اس کی گواہی دی جاتی ہے۔‘‘
(خطبہ جمعہ بیان فرمودہ 23؍ جون 2017ء مطبوعہ الفضل انٹر نیشنل14؍جولائی2017ء صفحہ7)
قرآنِ کریم کے مطالب کو سمجھنے اور غور کرنے کی کوشش کریں گے
’’پس یہ مقصد تب پورا ہو گا جب
شَہْرُ رَمَضَانَ الَّذِیٓ اُنْزِلَ فِیْہِ الْقُرْاٰن
کے الفاظ سنتے ہی قرآنِ کریم ہمارے ہاتھوں میں آ جائے گا اور ہم زیادہ سے زیادہ اُس کے پڑھنے کی طرف متوجہ ہو جائیں گے۔ رمضان کی اس یاددہانی کا مقصد تب پورا ہو گا جب ہم ان دنوں میں قرآنِ کریم کے مطالب کو سمجھنے اور غور کرنے کی کوشش کریں گے تاکہ
’’ھُدًی لِّلنَّاس‘‘
کی حقیقت ہم پر واضح ہو۔ رمضان اور قرآن کی آپس میں جو نسبت ہے اس کی یاددہانی اُس وقت ہم پر واضح ہو گی جب ہم کوشش کر کے قرآنِ کریم کے حکموں کو خاص طور پر اس مہینے میں تلاش کرنے کی کوشش کریں گے۔‘‘
(خطبہ جمعہ 19؍ جولائی 2013ء مطبوعہ الفضل انٹر نیشنل9؍اگست2013ءصفحہ 5)
جہاں جہاں مساجد میں درس کا انتظام ہے اس سے فائدہ اٹھانا چاہیے
’’ہر ایک قرآن کریم کے گہرے مطالب کی گہرائی تک خودنہیں پہنچ سکتا اس لیے قرآن کریم کی تلاوت اور ترجمے کے ساتھ، جو کہ وہ خود پڑھ سکتا ہے، جماعت کی طرف سے جہاں جہاں مساجد میں درس کا انتظام ہے اس سے فائدہ اٹھانا چاہیے۔ اسی طرح ایم۔ ٹی۔ اے پر باقاعدہ درس کا انتظام ہے اس سے استفادہ ضروری ہے…ہم خوش قسمت ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے ہمیں اس زمانے میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے غلام صادق کو ماننے کی توفیق عطا فرمائی جنہوں نے ہمیں جہاں قرآن کریم کے اسرارو رموز اور تفسیر اور معانی کے نئے نئے زاویے بتائے وہاں اس پر عمل کرنے اور قرآن کریم کو عزت دینے کی اور اسے پڑھنے اور غور کرنے کی طرف بھی خاص توجہ دلائی ہے اور بتایا کہ تمہیں کس خاص توجہ سے اس کو پڑھ کر اس پر عمل کرنا چاہیے اور اپنی حالتوں میں کیا تبدیلی پیدا کرنی چاہیے۔‘‘
(خطبہ جمعہ بیان فرمودہ 10؍ مئی 2019ء مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل 31؍مئی 2019ءصفحہ 7تا 8)
ان دنوں میں خاص طور پر جماعت کے لیے دعا کریں…مسلم امہ کے لیے بھی دعا کریں
’’اللہ تعالیٰ ہمیں اپنا حقیقی عبد بناتے ہوئے اپنی رحمت اور مغفرت کی چادر میں لے لے اور اس مہینے سے ہم فیض پانے والے ہوں۔ ان دنوں میں خاص طور پر جماعت کے لیے دعا کریں۔ اللہ تعالیٰ دشمنان احمدیت کے شر اُن پر الٹائے اور جہاں جہاں بھی جماعت کے خلاف منصوبے باندھے جا رہے ہیں اللہ تعالیٰ وہاں ان کی تدبیریں اور ان کے مکر اُن پر الٹائے۔ مسلم امہ کے لیے بھی دعا کریں۔ اللہ تعالیٰ ان کو ظلم کرنے اور ایک دوسرے کی گردنیں کاٹنے سے روکے، بچائے اور خالص مسلمان بنائے۔ زمانے کے امام کو یہ ماننے والے ہوں۔ دنیا کے حالات کے لیے عمومی طور پر بھی دعا کریں۔ بڑی تیزی سے بہت بڑی تباہی کی طرف جا رہے ہیں۔ اللہ تعالیٰ دنیا کو عقل دے اور یہ خدا تعالیٰ کو پہچانیں تا کہ اس تباہی سے بچ سکیں‘‘
( خطبہ جمعہ بیان فرمودہ 10؍ مئی 2019ء مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل 31؍مئی 2019ءصفحہ 9)
اپنے رشتہ داروں کے لئے، افراد جماعت کے لئے یہ دعا ہمیں کرنی چاہئےکہ ہم میں سے ہر ایک کو اللہ تعالیٰ کا تقویٰ نصیب ہو
’’پس سب سے زیادہ ان دنوں میں اپنے لئے، اپنے رشتہ داروں کے لئے، افراد جماعت کے لئے یہ دعا ہمیں کرنی چاہئے کہ ہم میں سے ہر ایک کو اللہ تعالیٰ کا تقویٰ نصیب ہو۔ ایک دوسرے کے لئے جب ہم درد سے دعائیں کریں گے تو فرشتے بھی ہمارے لئے دعاؤں میں شامل ہو جائیں گے اور رمضان کی برکات کے حقیقی اور مستقل نظارے بھی ہم دیکھنے والے ہوں گے۔‘‘
(خطبہ جمعہ بیان فرمودہ 19؍ جون 2015ء الفضل انٹر نیشنل 10؍جولائی2015ءصفحہ 6)
اس رمضان میں یہ جائزہ لینا چاہئے کہ گزشتہ رمضان میں جو منزلیں حاصل ہوئی تھیں کیاان پر ہم قائم ہیں
’’اس رمضان میں یہ جائزہ لینا چاہئے کہ گزشتہ رمضان میں جو منزلیں حاصل ہوئی تھیں کیا اُن پر ہم قائم ہیں۔ کہیں اس سے بھٹک تو نہیں گئے۔ اگر بھٹک گئے تو رمضان نے ہمیں کیا فائدہ دیا۔ اور یہ رمضان بھی اور آئندہ آنے والے رمضان بھی ہمیں کیا فائدہ دے سکیں گے۔ اللہ تعالیٰ تو یہ فرماتا ہے کہ اگر یہ فرض روزے رکھو گے تو تقویٰ پر چلنے والے ہو گے، نیکیاں اختیار کرنے والے ہو گے، اللہ تعالیٰ کا قرب پانے والے ہو گے…پس یہ بات یقینی ہے کہ ہمارے اندر ہی کمزوریاں اور کمیاں ہیں یا تو پہلے رمضان جتنے بھی گزرے ان سے ہم نے فائدہ نہیں اٹھایا، یا وقتی فائدہ اٹھایا اور پھر وقت کے ساتھ ساتھ اسی جگہ پر پہنچ گئے جہاں سے چلے تھے۔ حالانکہ چاہئے تو یہ تھاکہ تقویٰ کا جو معیار گزشتہ رمضان میں حاصل کیا تھا، یہ رمضان جو اَب آیا ہے، یہ ہمیں نیکیوں میں بڑھنے اور تقویٰ حاصل کرنے کے اگلے درجے دکھاتا۔ پس جنہوں نے گزشتہ سال کے رمضان میں اپنے اندر جو تبدیلیاں پیدا کیں، جو تقویٰ حاصل کیا، جو تقویٰ کے معیار اپنی زندگیوں کے حصے بنالئے وہ تو خوش قسمت لوگ ہیں اور اب ان کے قدم آگے بڑھنے چاہئیں ‘‘
(خطبہ جمعہ بیان فرمودہ7؍ اکتوبر 2005ء مطبوعہ الفضل انٹر نیشنل28؍اکتوبر 2005ء صفحہ5)
جو غلطیاں ہوئیں اس کی خدا سے معافی مانگنی ہو گی… برائیاں بھی چھوڑنی ہوں گی
’’ہم سے جو غلطیاں ہوئیں اس کی خدا سے معافی مانگنی ہو گی اور یہ عہد کرنا ہو گا کہ اے میرے خدا میری گزشتہ کوتاہیوں کو معاف فرما اور اس رمضان میں مجھے وہ تمام نیکیاں کرنے کی توفیق عطا فرما جو تیرا قرب دلانے والی ہوں اور مجھے اس رمضان کی برکات سے فیضیاب کرتے ہوئے ہمیشہ تقویٰ پر چلنے اور تقویٰ پر قائم رہنے کی توفیق عطا فرما۔ جب ہم اس طرح دعا کریں گے اور اس طرح اپنے جائزے لے رہے ہوں گے تو ان نیکیوں کی طرف بھی توجہ پیدا ہو گی جن کے کرنے کا اللہ تعالیٰ نے حکم فرمایا ہے۔ بہت سی برائیاں بھی چھوڑنی ہوں گی جن کے ترک کرنے کا اللہ تعالیٰ نے حکم فرمایا ہے۔‘‘
(خطبہ جمعہ بیان فرمودہ7؍ اکتوبر 2005ء مطبوعہ الفضل انٹر نیشنل28؍اکتوبر 2005ء صفحہ5)
نیکیوں میں بھی آگے بڑھنے کی کوشش کریں گے جن کے کرنے کا اللہ تعالیٰ نے ہمیں حکم دیا ہے
’’پس اللہ تعالیٰ کا یہ فرمانا کہ
(لَعَلَّکُمْ تَتَّقُوْنَ)
تبھی پورا ہو گا جب ہم ان حکموں پر بھی عمل کریں گے اور نیکیوں میں بھی آگے بڑھنے کی کوشش کریں گے جن کے کرنے کا اللہ تعالیٰ نے ہمیں حکم دیا ہے۔ اور رمضان میں تو اللہ تعالیٰ ان نیکیوں کے کرنے کی وجہ سے عام حالات کی نسبت ان کا کئی گنا بڑھا کر اجر دیتا ہے بلکہ بے حساب دیتا ہے۔ پس یہ جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک حدیث میں فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے کہا ہے کہ روزے میرے لئے ہیں اور مَیں ہی ان کی جزا ہوں۔ یہ اس لئے ہے کہ بندہ خالص ہو کر اللہ تعالیٰ کے لئے اپنے آپ کو تمام جائز چیزوں سے روکتا ہے۔ جو نہ کرنے والی ہیں ان سے تو رُکنا ہی ہے، جائز چیزوں سے بھی رُکتا ہے۔ نیکیوں کو اختیار کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ برائیوں سے بیزاری کا اظہار کرتا ہے۔ اپنی عبادتوں کے معیاربڑھاتا ہے۔ پس اللہ تعالیٰ کے قریب ہونے کے لئے، اس کی رضا حاصل کرنے کے لئے، اللہ تعالیٰ کے بتائے ہوئے طریق پر چلتے ہوئے، پہلے بندہ کو ہی کوشش کرنی ہوتی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے پہلی ذمہ داری بندہ کی ہی لگائی ہے کہ بندہ میری طرف ایک ہاتھ آئے گا تو پھر مَیں اس کی طرف دو ہاتھ آؤں گا۔ اور اگر اللہ تعالیٰ کی طرف چل کر جائے گا تو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ میں دوڑ کر اس کی طرف آؤں گا۔ پس ایک مومن کو ہر وقت یہ فکر رہنی چاہئے کہ اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرنے کے لئے، تقویٰ اختیار کرتے ہوئے اپنے پیار کرنے والے خدا کی طرف جاؤں تو ایسے بندے کے لئے اللہ تعالیٰ رمضان میں عام دنوں سے زیادہ دوڑ کر آتا ہے اور اسے اپنی پناہ میں لے لیتا ہے۔‘‘
(خطبہ جمعہ بیان فرمودہ7؍ اکتوبر 2005ء مطبوعہ الفضل انٹر نیشنل28؍اکتوبر 2005ء صفحہ5)
یہ صبر کا مہینہ ہے… ایک حدیث میں آتا ہے کہ اگر تمہیں کوئی گالی دے تو صبر کرو اور جواب نہ دو
’’…یہ صبر کا مہینہ ہے۔ بہت سی باتوں سے مومن صبر کر رہا ہوتا ہے۔ صرف کھانے پینے سے ہی نہیں ہاتھ روک رہابلکہ اور بھی بہت سے کام ہیں جن سے رکتا ہے۔ بہت سی ایسی برائیاں ہیں جن سے رکتا ہے۔ دشمنوں کی زیادتیوں پر صبر کرتا ہے۔ بعض دفعہ اپنے حقوق چھوڑتا ہے اور اللہ تعالیٰ کی خاطر صبر کرتا ہے۔ ایسے لوگوں کے بارے میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ
وَ الَّذِیۡنَ صَبَرُوا ابۡتِغَآءَ وَجۡہِ رَبِّہِمۡ(الرّعد:23)
اور ایسے لوگ جنہوں نے اپنے رب کی رضاحاصل کرنے کے لئے صبر کیا۔ پس یہ صبر جو اللہ کی خاطر کیا جائے وہ نیکیوں کے ساتھ مشروط ہے۔ایک حدیث میں آتا ہے کہ اگر تمہیں کوئی گالی دے تو صبر کرو اور جواب نہ دو اور اتنا کہہ دو کہ میں روزے سے ہوں تو تمہارے لئے یہ اجر کا موجب ہو گا۔ تمہیں اس کا ثواب ملے گا۔‘‘
(خطبہ جمعہ 7؍ اکتوبر 2005ء مطبوعہ الفضل انٹر نیشنل28؍اکتوبر 2005ء صفحہ6)
یہ بھائی چارے اور محبت و پیار کا مہینہ ہے۔ ہر بھائی دوسرے بھائی کے قصور اللہ کی خاطر معاف کر رہا ہو گا
’’اللہ کی خاطر ہمدردی کر رہے ہو تو اس کا رنگ ہی کچھ اور ہونا چاہئے۔ جب اللہ کی خاطر دوسروں سے نیک سلوک ہو گا تو یہ نیک سلوک اپنے مفادات متاثر ہونے سے کم نہیں ہو گا بلکہ اپنی فطرت کا حصہ بن چکا ہو گا۔ اور جب ایک دوسرے سے ہمدردی اور درگزر سے کام لے رہے ہوں گے تو یہ اس دنیا میں بھی جنت کا باعث بن رہا ہو گا اور اگلے جہان میں بھی ہمیں جنت کی خوشخبری دے رہا ہو گا۔پھر یہ بھائی چارے اور محبت و پیار کا مہینہ ہے۔ ہر بھائی دوسرے بھائی کے قصور اللہ کی خاطر معاف کر رہا ہو گا۔ ہر رشتہ دوسرے رشتے کے قصور معاف کر رہا ہو گا۔ ہر تعلق دوسرے تعلق کے قصور معاف کر رہاہو گااور بھائی چارے کی فضا اللہ تعالیٰ کی خاطر پیدا کر رہا ہو گا۔ تو اس مہینہ کی برکت کی وجہ سے اور اللہ تعالیٰ کا اپنے بندے کے ایک فعل کے عام حالات کی نسبت 70گنا ثواب دینے کی وجہ سے ہم پھلانگتے اور دوڑتے ہوئے اللہ تعالیٰ کا قرب پانے کی منزل کی طرف جا رہے ہوں گے اور جنت میں داخل ہو رہے ہوں گے۔‘‘
(خطبہ جمعہ بیان فرمودہ7؍ اکتوبر 2005ء مطبوعہ الفضل انٹر نیشنل28؍ اکتوبر 2005ء صفحہ6)
دوسرے کی آنکھ کے تنکے تلاش نہ کرے
’’پس یہ ڈھال تو اللہ تعالیٰ نے مہیا فرما دی لیکن اس کو استعمال کرنے کا طریقہ بھی آنا چاہئے۔ اس کے بھی کچھ لوازمات ہیں جنہیں پورا کرنا چاہئے۔ تبھی اس ڈھال کی حفاظت میں تقویٰ اختیار کرنے کی توفیق ملے گی۔ یہ ڈھال اس وقت تک کار آمد رہے گی جب روزہ کے دوران ہم سب برائیوں سے بچنے کی کوشش کرتے رہیں گے۔ جھوٹ نہیں بولیں گے، غیبت نہیں کریں گے، اور ایک دوسرے کی حق تلفی نہیں کریں گے، اپنے جسم کے ہر عضو کو اس طرح سنبھال کر رکھیں گے کہ جس سے کبھی کوئی زیادتی نہ ہو۔ ہر ایک، ایک دوسرے کے عیب دیکھنے کی بجائے اپنے عیب تلاش کر رہا ہو گا۔ ایک دوسرے کی برائیاں تلاش کرنے کی بجائے اپنی برائیوں، کمیوں، کمزوریوں اور خامیوں کو ڈھونڈ رہا ہو گا۔ میں حیران ہوتا ہوں بعض دفعہ یہ سن کر، بعض لوگ بتاتے بھی ہیں اور لکھ کر بھی بھیجتے ہیں کہ آپ کے فلاں خطبے پر مجھ سے فلاں شخص نے کہا یہ تمہارے بارے میں خطبہ آیا ہے اس لئے اپنی اصلاح کر لو۔ حالانکہ چاہئے تو یہ کہ ہر ایک اپنا اپنا جائزہ لے اور دوسرے کی آنکھ کے تنکے تلاش نہ کرے۔‘‘
(خطبہ جمعہ بیان فرمودہ7؍ اکتوبر 2005ء مطبوعہ الفضل انٹر نیشنل28؍اکتوبر 2005ء صفحہ7)
اپنا محاسبہ کر رہے ہوں گے
’’پس اس لحاظ سے بھی ہمیں اپنا جائزہ لینا چاہئے۔ اپنا محاسبہ کرتے رہناچاہئے۔ایک روایت میں آتا ہے حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جس شخص نے رمضان کے روزے ایمان کی حالت میں اور اپنا محاسبۂ نفس کرتے ہوئے رکھے اس کے گزشتہ گناہ معاف کر دئیے جائیں گے۔ (بخاری، کتاب الایمان، باب صوم رمضان احتساباً من الایمان) …تو اس بات کو اس حدیث میں مزید کھول دیا کہ صرف روزے رکھنا کافی نہیں ہے۔ بلکہ روزے ان تمام لوازمات کے ساتھ رکھنے ضروری ہیں جن کا اللہ تعالیٰ نے حکم دیا ہے۔ اپنے روزوں کے معیار کو دیکھنا اور تقویٰ کی طرف قدم بڑھنے کا تبھی پتہ چلے گا جب اپنا محاسبہ کر رہے ہوں گے۔ دوسرے کے عیب نہیں تلاش کر رہے ہوں گے بلکہ اپنے عیب اور کمزوریاں تلاش کر رہے ہوں گے۔ یہ دیکھ رہے ہوں گے کہ آج میں نے کتنی نیکیاں کی ہیں یا کرنے کی کوشش کی ہے۔ اور کتنی برائیاں ترک کی ہیں، کتنی برائیاں چھوڑی ہیں۔ جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا ہے: ’’ہمیں اس طرح جائزہ لینا چاہئے کہ ہماری صُبحیں اور ہماری راتیں ہماری نیکیوں کی گواہ ہونی چاہئیں۔‘‘ آپؑ فرماتے ہیں کہ ’’چاہئے کہ ہر ایک صبح تمہارے لئے گواہی دے کہ تم نے تقویٰ سے رات بسر کی اور ہر ایک شام تمہارے لئے گواہی دے کہ تم نے ڈرتے ڈرتے دن بسرکیا‘‘۔ (کشتی نوح۔ روحانی خزائن جلد 19 صفحہ 12) پس جب ہم اس طرح اپنی صبحوں اور شاموں سے گواہی مانگ رہے ہوں گے تو اللہ تعالیٰ کی رضا بھی حاصل کر رہے ہوں گے۔‘‘
(خطبہ جمعہ بیان فرمودہ7؍ اکتوبر 2005ء مطبوعہ الفضل انٹر نیشنل28؍ اکتوبر 2005ء صفحہ7)
رمضان کی مبارکبادیں دینا کافی نہیں ہے …ان تبدیلیوں کو مستقل اپنی زندگیوں کا حصہ بنانا ہے
’’بخشے جانے کے لئے صرف رمضان کا آنا ضروری نہیں ہے اور رمضان کی مبارکبادیں دینا کافی نہیں ہے جب تک اس میں روزے اس کوشش کے ساتھ نہ رکھے جائیں گے کہ تقویٰ کی راہوں کو اختیار کرنا ہے ان تبدیلیوں کو مستقل اپنی زندگیوں کا حصہ بنانا ہے۔ صرف ایک سال یا ایک مہینہ کے عمل سے تو نہیں بخشے جائیں گے۔ یہ مسلسل عمل ہے۔ باوجود اس کے کہ ذکر ہے کہ جہنم کے دروازے مقفل کر دئیے جاتے ہیں۔ لیکن پھر بھی آگے یہ بتایا کہ اس کے باوجود ضروری نہیں کہ سارے بخشے جائیں۔ اس کے لئے عمل کرنے ہوں گے۔ پس اس طریق سے ہمیں اپنے روزوں کو سنوارنا چاہئے تاکہ یہ نیکیاں اور اللہ تعالیٰ کی بخشش ہماری زندگیوں کا حصہ بن جائیں‘‘
(خطبہ جمعہ بیان فرمودہ7؍ اکتوبر 2005ء مطبوعہ الفضل انٹر نیشنل28؍ اکتوبر 2005ء صفحہ7)
اس رمضان میں عاجزی کا مظاہرہ کرتے ہوئے… عباد الرحمان میں شامل ہونے کی کوشش کرنی چاہئے
’’اُن میں سے پہلی بات تو عاجزی اور انکساری ہے۔ یہ بہت سے مسائل کا حل ہے اور اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کی، اُن بندوں کی جو کہ حقیقی مسلمان ہیں، اُن بندوں کی جو خدا تعالیٰ کی عبادت کرنے والے ہیں، اُن بندوں کی جو خدائے رحمان کے فضلوں اور رحم کی تلاش کرنے والے ہیں، جو خصوصیات بیان فرمائی ہیں اُن میں سے ایک بہت بڑی خصوصیت یہ ہے۔ فرمایا
وَعِبَادُالرَّحْمٰنِ الَّذِیْنَ یَمْشُوْنَ عَلَی الْاَرْضِ ھَوْنًا (الفرقان: 64)
اور رحمان کے سچے بندے وہ ہوتے ہیں جو زمین پر عاجزی سے چلتے ہیں اور پھر فرماتا ہے۔
وَلَا تُصَعِّرْ خَدَّکَ لِلنَّاسِ وَلَا تَمْشِ فِیْ الْاَرْضِ مَرَحًا۔ اِنَّ اللّٰہَ لَا یُحِبُّ کُلَّ مُخْتَالٍ فَخُوْرٍ۔ (لقمان: 19)
اللہ تعالیٰ یقیناً ہر شیخی کرنے والے اور فخر کرنے والے سے پیار نہیں کرتا اور جب خدا تعالیٰ کا پیار نہ ملے تو انسان کی کوئی نیکی قابلِ قبول نہیں ہوتی… پس وہ لوگ جن کے آپس کے جھگڑے صرف اَناؤں اور تکبر کی وجہ سے طول پکڑے ہوئے ہیں، واضح ہو کہ جو جھگڑے ہوتے ہیں یہ ہوتے ہی تکبر کی وجہ سے ہیں، یا اَنا کی وجہ سے ہیں۔ اُنہیں اس رمضان میں عاجزی کا مظاہرہ کرتے ہوئے، صلح کی طرف ہاتھ بڑھانے چاہئیں۔ اُن عباد الرحمان میں شامل ہونے کی کوشش کرنی چاہئے۔‘‘
(خطبہ جمعہ بیان فرمودہ19؍ جولائی 2013ء مطبوعہ الفضل انٹر نیشنل9؍اگست2013ءصفحہ 6تا7)
رمضان میں برائیوں کو چھوڑنا اور نیکیوں کو اختیار کرنا، یہی ہے جس سے روزے کا مقصد پورا ہوتا ہے
’’اگر ہم برائیوں سے نہیں بچ رہے چاہے وہ برائیاں ہماری ذات پر اثر کرنے والی ہیں یا دوسروں کو تکلیف میں ڈالنے والی۔ ان کو چھوڑنے سے ہی روزے کا مقصد پورا ہوتا ہے۔ اگر ان کو نہیں چھوڑ رہے تو روزے کا مقصد پورا نہیں ہوتا اور یہی تقویٰ ہے۔ اگر روزے رکھ کر بھی ہم میں تکبر ہے، اپنے کاموں اور اپنی باتوں پر بے جا فخر ہے، خود پسندی کی عادت ہے، لوگوں سے تعریف کروانے کی خواہش ہے، اپنے ماتحتوں سے خوشامد کروانے کو ہم پسند کرتے ہیں جس نے تعریف کر دی اس پر بڑا خوش ہو گئے، یا اس کی خواہش رکھتے ہیں تو یہ تقویٰ نہیں ہے۔ روزوں میں لڑائی جھگڑا، جھوٹ فساد سے اگر ہم بچ نہیں رہے تو یہ تقویٰ نہیں ہے۔ روزوں میں عبادتوں اور دعاؤں اور نیک کاموں میں اگر وقت نہیں گزار رہے تو یہ تقویٰ نہیں ہے اور روزے کا مقصد پورا نہیں کر رہے۔ پس رمضان میں برائیوں کو چھوڑنا اور نیکیوں کو اختیار کرنا، یہی ہے جس سے روزے کا مقصد پورا ہوتا ہے۔ اور جب انسان اس میں ثابت قدم رہنے کی کوشش کرے تو پھر حقیقت میں روزے کے مقصد کو پانے والا ہو سکتا ہے۔‘‘
( خطبہ جمعہ بیان فرمودہ18؍ مئی 2018ء مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل8؍جون 2018ءصفحہ 5)
اپنے روزوں کے اس طرح حق ادا کرنے کی کوشش کریں جس طرح ان کا حق ادا کرنے کا اللہ تعالیٰ کا حکم ہے
’’پس ہم احمدیوں کی بہت بڑی ذمہ داری ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو ماننے کے بعد اپنے روزوں کے اس طرح حق ادا کرنے کی کوشش کریں جس طرح ان کا حق ادا کرنے کا اللہ تعالیٰ کا حکم ہے۔ یہ سمجھنے کی کوشش کریں کہ تقویٰ کیا ہے اور ہم نے اسے کس طرح اختیار کرنا ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے مختلف مواقع پر تقویٰ کے بارے میں ہمیں بتایا کہ متقی کون ہے؟ حقیقی راحت اور لذت اصل میں تقویٰ ہی سے پیدا ہوتی ہے نہ کہ دنیا کی لذتوں میں راحت ہے۔ کس طرح ہمیں نیکیاں بجا لانی چاہئیں۔ انسان کو حقیقی مومن بننے کے لئے اپنا ہر کام خدا تعالیٰ کی مرضی اور اس کی رضا حاصل کرنے کے لئے کرنا چاہئے اور یہی ایک بات ہے جو مومن اور کافر میں فرق ڈالتی ہے۔ اور یہ بھی آپ نے ہمیں بتایا کہ اللہ تعالیٰ کی معرفت میں انسان ترقی کرے۔ ہر روز جو آئے، ہر آنے والا دن ہمیں اللہ تعالیٰ کی معرفت میں آگے لے جانے والا ہو، نہ کہ وہیں کھڑے رہیں یا ان لوگوں کی طرح ہوں جو صرف معاشرتی دباؤ کی وجہ سے دکھانے کے لئے روزے رکھتے ہیں نہ کہ تقویٰ میں بڑھنے کے لئے۔‘‘
(خطبہ جمعہ بیان فرمودہ18؍ مئی 2018ء مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل8؍2018ءصفحہ 6)
ہمارے روزے اور ہمارا ہر عمل تقویٰ کے حصول کے لئے ہو
’’پس رمضان سے فائدہ اٹھانے کے لئے یہ بنیادی نسخہ ہے کہ ہمارے روزے اور ہمارا ہر عمل تقویٰ کے حصول کے لئے ہو۔ بہت سارے لوگ کہتے ہیں دعائیں قبول نہیں ہوتیں۔ ہم نے بڑی دعائیں کیں قبول نہیں ہوئیں۔ ان کو پہلے اپنے اندر دیکھنا چاہئے کہ کیا ان کے اندر دین غالب ہے؟ تقویٰ پر چلنے والے ہیں یا دنیا کی ملونی زیادہ ہو گئی ہے؟ پس دعا کی قبولیت کے لئے ایک یہ بھی شرط ہے۔پھر آپؑ فرماتے ہیں کہ ‘‘درحقیقت متقیوں کے واسطے بڑے بڑے وعدے ہیں اور اس سے بڑھ کر کیا ہو گا کہ اللہ تعالیٰ متقیوں کا ولی ہوتا ہے۔ جھوٹے ہیں وہ جو کہتے ہیں کہ ہم مقرب بارگاہ الٰہی ہیں اور پھر متقی نہیں ہیں بلکہ فسق و فجور کی زندگی بسر کرتے ہیں اور ایک ظلم اور غضب کرتے ہیں جبکہ وہ ولایت اور قرب الٰہی کے درجے کو اپنے ساتھ منسوب کرتے ہیں۔’’(یہ نام نہاد بزرگ ہیں ) ‘‘کیونکہ اللہ تعالیٰ نے اس کے ساتھ متقی ہونے کی شرط لگادی ہے’’۔ (ولی کے ساتھ متقی ہونا شرط ہے۔) فرمایا ‘‘پھر ایک اور شرط لگاتا ہے یا یہ کہو متقیوں کا ایک نشان بتاتا ہے۔
اِنَّ اللّٰہَ مَعَ الَّذِیْنَ اتَّقَوْا۔
خدا اُن کے ساتھ ہوتا ہے۔ یعنی ان کی نصرت کرتا ہے جو متقی ہوتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ کی معیت کا ثبوت اس کی نصرت ہی سے ملتا ہے’’۔ (اگر اللہ تعالیٰ مدد کر رہا ہے تو سمجھ لو کہ اللہ تعالیٰ ہمارے ساتھ ہے۔) ’’پہلا دروازہ ولایت کا ویسے بند ہوا۔ اب دوسرا دروازہ معیّت اور نصرت الٰہی کا اس طرح پر بند ہوا۔‘‘ (اللہ تعالیٰ سے کلام کا وعدہ تو کہتے ہیں ناں کہ ختم ہوگیا۔ اس کا دروازہ بند ہو گیا۔ اب یہ لوگ اللہ تعالیٰ کی جو مدد ہے اس کا دروازہ بھی بند کرنا چاہتے ہیں۔) آپؑ فرماتے ہیں کہ’’یاد رکھو اللہ تعالیٰ کی نصرت کبھی بھی ناپاکوں اور فاسقوں کو نہیں مل سکتی۔ اس کا انحصار تقویٰ ہی پر ہے۔ خدا کی اعانت متقی ہی کے لئے ہے… فرمایا’’معاش کی تنگی اور دوسری تنگیوں سے راہ نجات تقویٰ ہی ہے۔ ‘‘فرمایا (یعنی اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ)
‘‘مَنْ یَّتَّقِ اللّٰہَ یَجْعَلْ لَہٗ مَخْرَجًا وَّ یَرْزُقْہُ مِنْ حَیْثُ لَا یَحْتَسِبُ۔
خدا متقی کے لئے ہر مشکل میں ایک مَخرج پیدا کردیتا ہے اور اس کو غیب سے اس سے مخلصی پانے کے اسباب بہم پہنچا دیتا ہے۔ اس کو ایسے طور سے رزق دیتا ہے کہ اس کو پتہ بھی نہ لگے۔‘‘
(خطبہ جمعہ بیان فرمودہ 18؍ مئی 2018ء مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل8؍جون 2018ءصفحہ 6)
’’پس تم اپنی زبان پر حکومت کرو نہ یہ کہ زبانیں تم پر حکومت کریں‘‘
روزہ کے حوالے سے ایک حدیث بھی ہے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ روزہ دار اپنی زبان کو ہمیشہ پاک رکھے اور اگر کوئی اس سے جھگڑے تو تب بھی وہ یہی کہے کہ میں روزہ دار ہوں۔ میں تمہاری ان باتوں کا جواب نہیں دے سکتا۔ (بخاری کتاب الصوم باب ھل یقول اِنِّی صَائِمٌ اِذَاشُتِمَ) فرمایا کہ’’نازک ترین معاملہ زبان سے ہے۔ بسا اوقات تقویٰ کو دور کر کے ایک بات کہتا ہے اور دل میں خوش ہو جاتا ہے کہ میں نے یوں کہا اور ایسا کہا حالانکہ وہ بات بری ہوتی ہے۔ مجھے اس پر ایک نقل یاد آئی ہے …کہ ایک بزرگ کی کسی دنیا دار نے دعوت کی۔ جب وہ بزرگ کھانا کھانے کے لئے تشریف لے گئے تو اس متکبر دنیادار نے اپنے نوکر کو کہا کہ فلاں تھال لانا جو ہم پہلے حج میں لائے تھے۔ اور پھر کہا دوسرا تھال بھی لانا جو دوسرے حج میں لائے تھے۔ اور پھر کہا کہ تیسرے حج والا بھی لیتے آنا۔ اس بزرگ نے فرمایا’’ (اس دنیا دار کو) ’’کہ تُو تو بہت ہی قابل رحم ہے۔ ان تین فقروں میں تُو نے اپنے تین ہی حجوں کا ستیاناس کردیا۔‘‘ (دنیا دکھاوے کے لئے حج تھے، نہ کہ اللہ تعالیٰ کی رضا کے لئے۔ تقویٰ سے دور ہٹے ہوئے تھے۔ آپؑ فرماتے ہیں کہ اس بزرگ نے یہ کہا کہ) ’’تیرا مطلب اس سے صرف یہ تھا کہ تُو اس امر کا اظہار کرے کہ تُو نے تین حج کئے ہیں۔ اس لئے خدا نے تعلیم دی ہے کہ زبان کو سنبھال کر رکھا جائے اور بے معنی، بیہودہ، بےموقع غیر ضروری باتوں سے احتراز کیا جائے…زبان سے تکبر کر لیتا ہے اور زبان سے ہی فرعونی صفات آجاتی ہیں۔‘‘ (لوگ بہت بڑے دعوے کرنے لگ جاتے ہیں ) ’’اور اسی زبان کی وجہ سے پوشیدہ اعمال کو ریا کاری سے بدل لیتا ہے اور زبان کا زیان بہت جلد پیدا ہوتا ہے… غرض اس سے معلوم ہوا کہ زبان کا زیان خطرناک ہے اس لئے متقی اپنی زبان کو بہت ہی قابو میں رکھتا ہے۔ اس کے منہ سے کوئی ایسی بات نہیں نکلتی جو تقویٰ کے خلاف ہو۔‘‘ آپؑ فرماتے ہیں ’’پس تم اپنی زبان پر حکومت کرو نہ یہ کہ زبانیں تم پر حکومت کریں اور اَناپ شناپ بولتے رہو۔
(ملفوظات جلد اوّل صفحہ 421 تا 423۔ ایڈیشن 1985ء مطبوعہ انگلستان) (خطبہ جمعہ بیان فرمودہ 18؍ مئی 2018ء مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل8؍جون 2018ءصفحہ 7)
رمضان میں جو پیاری پیاری اور نیک باتیں سیکھی ہیں ان کی جگالی کرتے رہیں گے
’’مومن تو اللہ تعالیٰ کی بتائی ہوئی نیکیوں کو جاری رکھتا ہے۔ وہ تو اللہ تعالیٰ کی شکر گزاری کے جذبات سے بھرا ہوتا ہے۔ وہ تو رمضان میں سے گزرتا ہے تو اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرنے کے لئے۔ وہ جب اللہ تعالیٰ کے حکم پر چلتے ہوئے رمضان کو الوداع کہتا ہے تو بڑے بھاری دل کے ساتھ کہ اب ہم رمضان سے رخصت تو ہو رہے ہیں لیکن ان دنوں کی یاد ہمیشہ دلوں میں تازہ رکھیں گے۔ رمضان میں جو پیاری پیاری اور نیک باتیں سیکھی ہیں ان کی جگالی کرتے رہیں گے۔ رمضان میں جو عبادتوں کی طرف توجہ پیدا ہوئی ہے اسے ہمیشہ زندہ رکھیں گے ‘‘
( خطبہ جمعہ یکم جولائی 2016ء مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل22؍جولائی 2016ء صفحہ6)
یہ رمضان جماعت کے لئے بھی، مسلمانوں کے لئے بھی اور دنیا کے لئے بھی با برکت ہو
’’ہر لحاظ سے یہ رمضان جماعت کے لئے بھی، مسلمانوں کے لئے بھی اور دنیا کے لئے بھی با برکت ہو۔ پاکستان میں جماعت کے جو حالات ہیں اور اس میں دن بدن سختی پیدا ہوتی جا رہی ہے ان کے لئےخاص طور پر دعائیں کریں کہ اللہ تعالیٰ فضل فرمائے۔ ہم جہاں روزوں کے حق ادا کرنے والے ہوں وہاں تقویٰ پر چلتے ہوئے یہ حق ادا کرنے والے ہوں۔ دعاؤں کی طرف توجہ دینے والے ہوں۔ اسی طرح اللہ تعالیٰ مسلمانوں پر بھی رحم فرمائے اور ان کی قیادت کو اور لیڈرشپ کو اور علماء کو عقل اور سمجھ عطا فرمائے اور اسی طرح دنیا کو بھی کہ وہ زمانے کے امام کو ماننے والے ہوں… اگر ابھی بھی اللہ تعالیٰ کے نزدیک ان لوگوں کی اصلاح ہو سکتی ہے اور کوئی ذریعہ بن سکتا ہے کہ ان کی اصلاح ہو جائے اور یہ خدا کو پہچاننے والے ہوں تو اللہ تعالیٰ وہ حالات پیدا کرے کہ یہ اللہ تعالیٰ کو پہچانیں اور اپنی تباہی سے بچ سکیں۔‘‘
(خطبہ جمعہ بیان فرمودہ18؍ مئی 2018ء مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل8؍جون 2018ءصفحہ 9)