رمضانُ المبارک کی مناسبت سے احادیثِ مبارکہ نیز ان کی مختصر تشریح بیان فرمودہ حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ
(قسط اوّل)
رمضان کا مہینہ وہ ہے جس میں ہم نے عبادات کو بجا لاکرخداتعالیٰ کا قرب اورگناہوں سے پاکیزگی حاصل کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔اس ماہ کےفیوض و برکات نبی کریم ﷺ نے اپنے صحابہ کے سامنےواضح و بین الفاظ میں تذکرہ فرمایا جن کا ذکر احادیث میں ملتاہے ۔
اللہ تعالیٰ کا جماعت احمدیہ پر یہ خاص فضل و احسان ہے کہ خلافتِ احمدیہ کی برکت سے خلیفۂ وقت افراد جماعت کے سامنے ان کی روحانی اور اخلاقی اصلاح کی خاطراُن احادیث مبارکہ کو پیش کرتے ہیں ۔علاوہ ازیں ان احادیث کی تشریح،توضیح اور ان میں پوشیدہ حکمت و معارف کےموتی نکال کرروحانی مائدہ کی صورت میں پیش فرماتے ہیں۔خلفائے کرام کی احادیث نبویﷺ کی تشریح کا مطالعہ یقیناًایمان اور ایقان کربڑھانے کا موجب ہوتاہے نیزاس امر کا بیّن ثبوت ہے کہ فی زمانہ روئے زمین پر خلیفۃ المسیح ہی حُبّ رسول میں سب سے زیادہ بڑھے ہوئے وہ مبارک وجود ہیں جن کے فہم حدیث کو بھی یقیناًایک منفرد مقام حاصل ہے۔
اس مضمون میں رمضان المبارک کے حولے سے سیدنا حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العز یز کی بیان فرمودہ چند احادیث مبارکہ مع تشریح و تصریح پیش ہیں جن کا تذکرہ حضور انورنے اپنے بعض خطبات میں فرمایا ہے۔
روزہ دارکو دوخوشیاں نصیب ہوتی ہیں
’’حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔ ابن آدم کا ہر عمل اس کی ذات کے لئے ہوتا ہے سوائے روزوں کے۔ روزہ میری خاطر رکھا جاتا ہے اور میں ہی اس کی جزا دوں گا۔ اور روزے ڈھال ہیں اور جب تم میں سے کسی کا روزہ ہو تو وہ شہوانی باتیں اور گالی گلوچ نہ کرے اور اگر اس کو کوئی گالی دے یا اس سے جھگڑا کرے تو اسے جواب میں صرف یہ کہنا چاہئے کہ میں تو روزہ دار ہوں۔ آگے فرمایا: (اس میں سے کچھ میں پہلے بیان کر چکا ہوں ) اس ذات کی قسم! کہ جس کے قبضہ قدرت میں محمدؐ کی جان ہے کہ روزہ دار کے منہ کی بو اللہ تعالیٰ کے نزدیک کستوری سے زیادہ طیب ہے۔ روزے دار کے لئے دو خوشیاں ہیں جو اسے خوش کرتی ہیں۔ ایک جب وہ روز ہ افطار کرتا ہے تو خوش ہوتا ہے اور دوسرے جب وہ اپنے رب سے ملے گا تو اپنے روزہ کی وجہ سے خوش ہو گا۔
(بخاری -کتاب الصوم- باب ھل یقول إنی صائم اذا شتم)
تو اللہ تعالیٰ نے جو فرمایا کہ روزے کی میں جزا دوں گا تو ویسے بھی ہر عمل کی جزا تو اللہ تعالیٰ ہی دیتا ہے۔ لیکن دوسرے سارے عمل ایسے ہیں جن میں یہ نیکیاں ہیں، جائز باتیں ہیں جن کے کرنے کا اللہ تعالیٰ نے حکم دیا ہے یا برائیاں ہیں جن سے رکنے کا اللہ تعالیٰ نے حکم دیا ہے۔ لیکن رمضان میں روزہ رکھ کر ایک مومن ناجائز باتوں سے تو رک ہی رہا ہوتا ہے، بعض جائز باتیں بھی خدا کی خاطر چھوڑ رہاہوتا ہے۔ اور پھر عام حالات کی نسبت پہلے سے بڑھ کر نیکیاں کر رہا ہوتا ہے۔ نیکیاں کرنے کی توفیق پا رہا ہوتا ہے۔ پھر اپنے اندر تبدیلی پید اکرنے کی کوشش کرتے ہوئے بُرائی کا جواب بھی اللہ کی خاطر نیکی سے دے رہا ہوتا ہے۔ اس لئے اللہ تعالیٰ نے اس کا اجر بھی بے حساب رکھا ہے یہ سوچ کر کہ تم میری خاطر کچھ عمل کر رہے ہو یا کرو گے تو میں اس کا اجر بے حساب دوں گا۔ ہر بات کا، ہر کام کا، ایک فرض کے ادا کرنے کا 70گنا ثواب ملتا ہے۔ تومطلب یہی ہے کہ اللہ تعالیٰ مومن کے اس فعل سے کہ اس نے اللہ کی خاطر روزہ رکھا اور تمام نیکیاں بجا لانے اور برائیوں سے بچنے کی طرف توجہ کی بلکہ بعض جائز باتیں بھی جیسا کہ میں نے کہا جو عام حالات میں انسان کر سکتا ہے ان سے بھی اس لئے رکا کہ اللہ کا حکم ہے، اسی لئے اللہ تعالیٰ اس کی جزا بن گیا۔ پس یہ عبادت بھی خالص ہو کر اس کے لئے کرنا اور اپنے اندر پاک تبدیلیاں پیدا کرنا ہی اس کی رحمتوں کا وارث بنائے گااور بے حساب رحمتوں کا وارث بنائے گا اور خالص ہو کر ہم اس کی خاطر یہ کریں گے۔ اللہ تعالیٰ کو ایسے مومن کی ہر حالت اور ہر حرکت پر پیار آتا ہے جو اس کی خاطر یہ فعل کر رہا ہوتا ہے‘‘۔
(خطبہ جمعہ فرمودہ 7؍ اکتوبر 2005ء۔ مطبوعہ الفضل انٹر نیشنل28 ؍اکتوبر2005 ءصفحہ6تا7)
روزہ ڈھال اور آگ سے بچانے والا مضبوط قلعہ ہے
’’ایک اور روایت میں آتا ہے کہ روزہ ڈھال ہے اور آگ سے بچانے والا مضبوط قلعہ ہے۔
(مسند احمد بن حنبل جلد 2صفحہ 402مطبوعہ بیروت)
پس یہ ڈھال تو اللہ تعالیٰ نے مہیا فرما دی لیکن اس کو استعمال کرنے کا طریقہ بھی آنا چاہئے۔ اس کے بھی کچھ لوازمات ہیں جنہیں پورا کرنا چاہئے۔ تبھی اس ڈھال کی حفاظت میں تقویٰ اختیار کرنے کی توفیق ملے گی۔ یہ ڈھال اس وقت تک کار آمد رہے گی جب روزہ کے دوران ہم سب برائیوں سے بچنے کی کوشش کرتے رہیں گے۔ جھوٹ نہیں بولیں گے، غیبت نہیں کریں گے، اور ایک دوسرے کی حق تلفی نہیں کریں گے، اپنے جسم کے ہر عضو کو اس طرح سنبھال کر رکھیں گے کہ جس سے کبھی کوئی زیادتی نہ ہو۔ ہر ایک، ایک دوسرے کے عیب دیکھنے کی بجائے اپنے عیب تلاش کر رہا ہو گا۔ ایک دوسرے کی برائیاں تلاش کرنے کی بجائے اپنی برائیوں، کمیوں، کمزوریوں اور خامیوں کو ڈھونڈ رہا ہو گا۔ میں حیران ہوتا ہوں بعض دفعہ یہ سن کر، بعض لوگ بتاتے بھی ہیں اور لکھ کر بھی بھیجتے ہیں کہ آپ کے فلاں خطبے پر مجھ سے فلاں شخص نے کہا یہ تمہارے بارے میں خطبہ آیا ہے اس لئے اپنی اصلاح کر لو۔ حالانکہ چاہئے تو یہ کہ ہر ایک اپنا اپنا جائزہ لے اور دوسرے کی آنکھ کے تنکے تلاش نہ کرے۔ تو جب روز وں میں اس طرح اپنے جائزے لے رہے ہوں گے، کان، آنکھ، زبان، ہاتھ سے دوسرے کو نہ صرف محفوظ رکھ رہے ہوں گے بلکہ اس کی مدد کر رہے ہوں گے تو پھر روزے تقوے میں بڑھانے والے ہوں گے۔ اور اللہ تعالیٰ کے ہاں بے انتہا اجر پانے والے ہوں گے۔ ‘‘
( خطبہ جمعہ فرمودہ 7؍ اکتوبر 2005ء ۔مطبوعہ الفضل انٹر نیشنل28؍اکتوبر2005 ءصفحہ7)
گزشتہ گناہ معاف ہوتے ہیں۔ تو رمضان المبارک میں
’’ایک روایت میں آتا ہے حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جس شخص نے رمضان کے روزے ایمان کی حالت میں اور اپنا محاسبۂ نفس کرتے ہوئے رکھے اس کے گزشتہ گناہ معاف کر دئیے جائیں گے۔
(بخاری، کتاب الایمان، باب صوم رمضان احتساباً من الایمان)
تو اس بات کو اس حدیث میں مزید کھول دیا کہ صرف روزے رکھنا کافی نہیں ہے۔ بلکہ روزے ان تمام لوازمات کے ساتھ رکھنے ضروری ہیں جن کا اللہ تعالیٰ نے حکم دیا ہے۔ اپنے روزوں کے معیار کو دیکھنا اور تقویٰ کی طرف قدم بڑھنے کا تبھی پتہ چلے گا جب اپنا محاسبہ کر رہے ہوں گے۔ دوسرے کے عیب نہیں تلاش کر رہے ہوں گے بلکہ اپنے عیب اور کمزوریاں تلاش کر رہے ہوں گے۔ یہ دیکھ رہے ہوں گے کہ آج میں نے کتنی نیکیاں کی ہیں یا کرنے کی کوشش کی ہے۔ اور کتنی برائیاں ترک کی ہیں، کتنی برائیاں چھوڑی ہیں۔ جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا ہے: ’’ہمیں اس طرح جائزہ لینا چاہئے کہ ہماری صُبحیں اور ہماری راتیں ہماری نیکیوں کی گواہ ہونی چاہئیں‘‘۔ آپؑ فرماتے ہیں کہ: ’’چاہئے کہ ہر ایک صبح تمہارے لئے گواہی دے کہ تم نے تقویٰ سے رات بسر کی اور ہر ایک شام تمہارے لئے گواہی دے کہ تم نے ڈرتے ڈرتے دن بسرکیا‘‘۔
(کشتی نوح۔ روحانی خزائن جلد 19 صفحہ 12)
پس جب ہم اس طرح اپنی صبحوں اور شاموں سے گواہی مانگ رہے ہوں گے تو اللہ تعالیٰ کی رضا بھی حاصل کر رہے ہوں گے۔ ہمارے گزشتہ گناہ بھی معاف ہو رہے ہوں گے۔ اور آئندہ تقویٰ پر قائم رہنے اور مزید نیکیاں کرنے کی توفیق بھی مل رہی ہو گی۔ ورنہ ہمارے روزے بھوک اور پیاس برداشت کرنے کے علاوہ کچھ نہیں”۔
(خطبہ جمعہ فرمودہ 7؍ اکتوبر 2005ء۔مطبوعہ الفضل انٹر نیشنل28؍اکتوبر2005 ءصفحہ7)
جنت کے دروازے کھول دئیے جاتے ہیں اور جہنم کے دروازے مقفل کر دئیے جاتے ہیں۔ تو رمضان المبارک میں
’’حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہماسے روایت ہے کہ میں نے آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا۔ آپؐ فرما رہے تھے رمضان آ گیا ہے۔ اس میں جنت کے دروازے کھول دئیے جاتے ہیں اور جہنم کے دروازے مقفل کر دئیے جاتے ہیں اور شیاطین کو اس میں زنجیروں سے جکڑ دیا جاتا ہے۔ ہلاکت ہو اس شخص کے لئے جس نے رمضان کو پایا اور اس سے بخشانہ گیا۔ اور اگر وہ رمضان میں نہیں بخشا گیا تو پھر کب بخشا جائے گا۔
(الترغیب والترھیب کتاب الصوم۔ الترغیب فی صیام رمضان حدیث نمبر 1495)
پس اس حدیث سے مزید بات کھلتی ہے کہ بخشے جانے کے لئے صرف رمضان کا آنا ضروری نہیں ہے اور رمضان کی مبارکبادیں دینا کافی نہیں ہے جب تک اس میں روزے اس کوشش کے ساتھ نہ رکھے جائیں گے کہ تقویٰ کی راہوں کو اختیار کرنا ہے ان تبدیلیوں کو مستقل اپنی زندگیوں کا حصہ بنانا ہے۔ صرف ایک سال یا ایک مہینہ کے عمل سے تو نہیں بخشے جائیں گے۔ یہ مسلسل عمل ہے۔ باوجود اس کے کہ ذکر ہے کہ جہنم کے دروازے مقفل کر دئیے جاتے ہیں۔ لیکن پھر بھی آگے یہ بتایا کہ اس کے باوجود ضروری نہیں کہ سارے بخشے جائیں۔ اس کے لئے عمل کرنے ہوں گے۔ پس اس طریق سے ہمیں اپنے روزوں کو سنوارنا چاہئے تاکہ یہ نیکیاں اور اللہ تعالیٰ کی بخشش ہماری زندگیوں کا حصہ بن جائیں”۔
(خطبہ جمعہ فرمودہ 7؍ اکتوبر 2005ء۔ مطبورعہ الفضل انٹر نیشنل28 ؍اکتوبر2005 ءصفحہ7)
انسان گناہوں سے پاک وصاف ہو سکتا ہے ۔ تو رمضان المبارک میں
’’ نضر بن شیبان کہتے ہیں کہ میں نے ابو سلمہ بن عبدالرحمن سے کہا آپ مجھے کوئی ایسی بات بتائیے جو آپ نے اپنے والد سے سنی ہو اور انہوں نے ماہ رمضان کے بارے میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے براہ راست سنی ہو۔ ابو سلمہ بن عبدالرحمن نے کہا :ہاں ! مجھ سے میرے والد نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ تبارک و تعالیٰ نے تم پر رمضان کے روزے رکھنا فرض کئے اور میں نے تمہارے لئے اس کا قیام جاری کر دیاہے۔ پس جو کوئی ایمان کی حالت میں ثواب کی نیت سے اس میں روزے رکھے وہ گناہوں سے ایسے نکل جاتا ہے جیسے اس کی ماں نے اس کو جنم دیا ہو۔ یعنی بالکل معصوم ہو جاتا ہے۔
(سنن نسائی کتاب الصیام باب ذکر اختلاف یحیی بن ابی کثیر والنضر بن شیبان فیہ)
اللہ کرے کہ ہم اس رمضان میں اسی طرح پاک ہو کر اور معصوم ہو کر نکلیں اور پھر یہ پاک تبدیلیاں بھی ہماری زندگیوں کا ہمیشہ حصہ بن جائیں۔ رمضان میں عبادتوں کے معیار بلند تر کرنے اور قرآن کریم پڑھنے کے ساتھ ساتھ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا ایک طریق صدقہ و خیرات کرنا بھی تھا‘‘۔
( خطبہ جمعہ فرمودہ 7؍ اکتوبر 2005ء۔مطبوعہ الفضل انٹر نیشنل28 ؍ اکتوبر2005 ءصفحہ7)
خداتعالیٰ کی راہ میں بڑھ چڑھ کر خرچ کرنا
’’ایک روایت میں آتا ہے کہ ان دنوں میں آنحضورﷺ اموال اس طرح خرچ کرتے تھے کہ اس خرچ کرنے میں تیز ہوا سے بھی بڑھ جاتے تھے۔
(نسائی، کتاب الصیام باب الفضل والجود فی شہر رمضان)
پس رمضان کی برکات سے فیضیاب ہونے کے لئے اللہ تعالیٰ کی راہ میں خرچ کرنا بھی ایک ذریعہ ہے۔ اس لئے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت پر عمل کرتے ہوئے اس طرف بھی توجہ دینی چاہئے۔ اموال کی قربانی بھی تزکیہ نفس کے لئے ضروری ہے۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو توفیق دے کہ رمضان کی برکتوں کو سمیٹنے والے ہوں اور ہمارے روزے حقیقت میں اللہ تعالیٰ کا تقویٰ اختیار کرنے کے لئے ہوں اور پھر یہ برکتیں ہمیشہ ہماری زندگیوں کا حصہ بن جائیں۔ جو کمزوریاں ہیں اس رمضان میں دور کریں۔ دوبارہ کبھی پیدا نہ ہوں۔ اور ہمیشہ اللہ کی بخشش اور رحمت اور پیار کی چادر میں لپٹے رہیں۔ روزہ کی حقیقت کے بارے میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں کہ:
’’روزہ کی حقیقت سے بھی لوگ ناواقف ہیں۔ اصل یہ ہے کہ جس ملک میں انسان جاتا نہیں اور جس عالم سے واقف نہیں اس کے حالات کیا بیان کرے۔ روزہ اتنا ہی نہیں کہ اس میں انسان بھوکا پیاسا رہتا ہے بلکہ اس کی ایک حقیقت اور اس کا اثر ہے جو تجربہ سے معلوم ہوتا ہے۔ انسانی فطرت میں ہے کہ جس قدر کم کھاتا ہے اسی قدر تزکیۂ نفس ہوتاہے اور کشفی قوتیں بڑھتی ہیں۔ خداتعالیٰ کا منشاء اس سے یہ ہے کہ ایک غذا کو کم کرو اور دوسری کو بڑھاؤ۔ ہمیشہ روزہ دار کو یہ مدّنظر رکھنا چاہئے کہ اس سے اتنا ہی مطلب نہیں ہے کہ بھوکا رہے بلکہ اسے چاہئے کہ خداتعالیٰ کے ذکر میں مصروف رہے تاکہ تبتّل اور انقطاع حاصل ہو۔ پس روزے سے یہی مطلب ہے کہ انسان ایک روٹی کو چھوڑ کر جو صرف جسم کی پرورش کرتی ہے دوسری روٹی کو حاصل کرے جو روح کی تسلّی اور سیری کا باعث ہے۔ اور جو لوگ محض خدا کے لئے روزے رکھتے ہیں اور نرے رسم کے طور پر نہیں رکھتے انہیں چاہئے کہ اللہ تعالیٰ کی حمد اور تسبیح اور تہلیل میں لگے رہیں جس سے دوسری غذا انہیں مل جاوے‘‘۔ (ملفوظات جلد پنجم صفحہ102جدید ایڈیشن) اللہ کرے کہ حقیقت میں اس رمضان میں ہمارا تزکیہ نفس ہو اور روحانی حالت میں بہتری پیدا ہو اور آئندہ ہمارا ہر فعل اللہ تعالیٰ کی رضا کے مطابق ہو‘‘۔
(خطبہ جمعہ فرنودہ 7؍ اکتوبر 2005ء۔مطبوعہ الفضل انٹر نیشنل28 ؍اکتوبر2005ء صفحہ7)
زبان کو پاک رکھنااور جھگڑےسے دور رہناہے
’’آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ روزہ دار اپنی زبان کو ہمیشہ پاک رکھے اور اگر کوئی اس سے جھگڑے تو تب بھی وہ یہی کہے کہ میں روزہ دار ہوں۔ میں تمہاری ان باتوں کا جواب نہیں دے سکتا۔
(بخاری کتاب الصوم باب ھل یقول اِنِّی صَائِمٌ اِذَاشُتِمَ)
فرمایا کہ’’نازک ترین معاملہ زبان سے ہے۔ بسا اوقات تقویٰ کو دور کر کے ایک بات کہتا ہے اور دل میں خوش ہو جاتا ہے کہ میں نے یوں کہا اور ایسا کہا حالانکہ وہ بات بری ہوتی ہے۔ مجھے اس پر ایک نقل یاد آئی ہے کہ ایک بزرگ کی کسی دنیا دار نے دعوت کی۔‘‘ (اب یہ باریکی بھی دیکھنے والی چیز ہے۔ صرف یہی نہیں کہ موٹی موٹی گالیاں دے دیں یا لڑائی کر لی یا جھگڑا کر لیا بلکہ خود پسندی اور دکھاوا بھی ہے۔ زبان کی جو غلطیاں ہیں یا زبان کی وجہ سے جو گناہ ہوتے ہیں یا زبان کی وجہ سے جو تقویٰ میں کمی ہے اس میں یہ چیزیں بھی آتی ہیں۔) تو فرمایا ’’کہ ایک بزرگ کی کسی دنیا دار نے دعوت کی۔ جب وہ بزرگ کھانا کھانے کے لئے تشریف لے گئے تو اس متکبر دنیادار نے اپنے نوکر کو کہا کہ فلاں تھال لانا جو ہم پہلے حج میں لائے تھے۔ اور پھر کہا دوسرا تھال بھی لانا جو دوسرے حج میں لائے تھے۔ اور پھر کہا کہ تیسرے حج والا بھی لیتے آنا۔ اس بزرگ نے فرمایا‘‘ (اس دنیا دار کو) ’’کہ تُو تو بہت ہی قابل رحم ہے۔ ان تین فقروں میں تُو نے اپنے تین ہی حجوں کا ستیاناس کردیا۔‘‘ (دنیا دکھاوے کے لئے حج تھے، نہ کہ اللہ تعالیٰ کی رضا کے لئے۔ تقویٰ سے دور ہٹے ہوئے تھے۔ آپ فرماتے ہیں کہ اس بزرگ نے یہ کہا کہ) ’’تیرا مطلب اس سے صرف یہ تھا کہ تُو اس امر کا اظہار کرے کہ تُو نے تین حج کئے ہیں۔ اس لئے خدا نے تعلیم دی ہے کہ زبان کو سنبھال کر رکھا جائے اور بے معنی، بیہودہ، بےموقع غیر ضروری باتوں سے احتراز کیا جائے۔‘‘(پس صرف زبان کو دوسروں کو تکلیف دینے سے روکنے کے لئے حکم نہیں ہے۔ اپنی خودنمائی جو ہے، خودپسندی جو ہے، دکھاوا جو ہے یہ بھی نیکیوں سے دور کرنے والا ہو جاتا ہے اور تقویٰ سے دور ہٹانے والا بن جاتا ہے۔ پس اس لحاظ سے بھی ہمیں غور کرنا چاہئے۔) … فرمایا کہ ’’تقویٰ والا کُل انسانوں کو لیتا ہے۔ زبان سے ہی انسان تقویٰ سے دُور چلا جاتا ہے۔‘‘ (یعنی تقویٰ جو ہے ہر معاملہ میں ضروری ہے۔ زبان ہے اس سے انسان تقویٰ سے دور چلا جاتا ہے۔) ’’زبان سے تکبر کر لیتا ہے اور زبان سے ہی فرعونی صفات آجاتی ہیں۔‘‘ (لوگ بہت بڑے دعوے کرنے لگ جاتے ہیں ) ’’اور اسی زبان کی وجہ سے پوشیدہ اعمال کو ریا کاری سے بدل لیتا ہے اور زبان کا زیان بہت جلد پیدا ہوتا ہے۔‘‘ آپ فرماتے ہیں کہ’’حدیث شریف میں آیا ہے کہ جو شخص ناف کے نیچے کے عضو اور زبان کو شر سے بچاتا ہے اس کی بہشت کا ذمہ دار میں ہوں۔ حرام خوری اس قدر نقصان نہیں پہنچاتی جیسے قولِ زُور۔ اس سے کوئی یہ نہ سمجھ بیٹھے کہ حرام خوری اچھی چیز ہے۔‘‘ (جھوٹ اور غلط بات کہنا نقصان پہنچانے والی چیز ہے۔ یہ نہ سمجھو کہ حرام خوری اچھی چیز ہے۔) ’’یہ سخت غلطی ہے اگر کوئی ایسا سمجھے۔‘‘ آپ فرماتے ہیں کہ’’میرا مطلب یہ ہے کہ ایک شخص جو اضطراراً سؤر کھا لے تو یہ امر دیگر ہے۔‘‘ (اضطراراً اجازت ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اجازت دی ہوئی ہے) ’’لیکن اگر وہ اپنی زبان سے خنزیر کا فتویٰ دے دے تو وہ اسلام سے دُور نکل جاتا ہے۔‘‘ (یہ فتویٰ دے دے کہ ہر حالت میں سؤر کھانا جائز ہے تو پھر وہ اسلام سے ہٹ گیا۔) آپ فرماتے ہیں کہ اس طرح ’’اللہ تعالیٰ کے حرام کو حلال ٹھہراتا ہے۔ غرض اس سے معلوم ہوا کہ زبان کا زیان خطرناک ہے اس لئے متقی اپنی زبان کو بہت ہی قابو میں رکھتا ہے۔ اس کے منہ سے کوئی ایسی بات نہیں نکلتی جو تقویٰ کے خلاف ہو۔‘‘ آپ فرماتے ہیں ’’پس تم اپنی زبان پر حکومت کرو نہ یہ کہ زبانیں تم پر حکومت کریں اور اَناپ شناپ بولتے رہو۔(ملفوظات جلد اوّل صفحہ 421 تا 423۔ ایڈیشن 1985ء مطبوعہ انگلستان)‘‘
(خطبہ جمعہ فرمودہ 18؍ مئی 2018ء۔مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل8؍ جون2018ءصفحہ 7)
گناہوں کا کفارہ بن سکتاہے۔ تو رمضان المبارک
’’آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ پانچ نمازیں، جمعہ اگلے جمعہ تک اور رمضان اگلے رمضان تک ان کے درمیان ہونے والے گناہوں کا کفارہ بن جاتا ہے جب تک کہ وہ بڑے گناہوں سے بچتا رہے۔
(صحیح مسلم کتاب الطہارۃ باب الصلوٰت الخمس والجمعۃ الی الجمعۃ … الخ حدیث 552)
پس یہاں کھول کر بیان فرما دیا کہ پانچ نمازیں کفّارہ بنتی ہیں اُس وقت جب انسان اپنی پوری کوشش کر کے پانچ نمازیں اپنے وقت پر ادا کرے اور ہر نماز کے درمیان کا جو وقفہ ہے اس میں گناہوں سے بچنے کی کوشش کرتا رہے۔ اگر چھوٹی موٹی کمزوریاں ہوں گی تو اللہ تعالیٰ انہیں معاف فرما دے گا بشرطیکہ نماز وقت پر اس کا حق ادا کرتے ہوئے ادا کی جائے۔پھر اسی طرح ہر جمعہ کی اہمیت بھی واضح کر دی کہ پانچ نمازوں کی جس طرح اہمیت ہے، انہیں وقت پر ادا کرنے کا جس طرح حکم ہے اور ادائیگی کی صورت میں جس طرح اللہ تعالیٰ اپنے فضل سے چھوٹے گناہوں کو معاف فرما دیتا ہے بلکہ نمازوں کا حق ادا کرتے ہوئے اگر نمازیں پڑھی جائیں تو اللہ تعالیٰ کا یہ بھی وعدہ ہے کہ فحشاء سے بھی انسان بچتا ہے، برائیوں سے انسان بچتا ہے۔ تو بہرحال فرمایا کہ جس طرح پانچ نمازیں فرض ہیں اسی طرح جمعہ بھی فرض ہے اور ایک جمعہ سے دوسرے جمعہ تک سرزد ہونے والی چھوٹی غلطیاں اور کمزوریاں اور چھوٹے گناہ بھی اللہ تعالیٰ معاف فرماد یتا ہے۔ اس کا کوئی یہ مطلب بھی نہ لے لے کہ اس دوران چھوٹے گناہ کر لو، اللہ تعالیٰ معاف کر دے گا۔ نہیں۔ بلکہ اس کا مطلب ہے کہ بشری کمزوریوں کی وجہ سے کوئی غلطی ہو گئی ہے تو اللہ تعالیٰ نمازوں اور جمعوں میں باقاعدگی اور گناہوں کی معافی کی دعاؤں اور اپنے عہدوں کی وجہ سے کہ آئندہ یہ غلطی نہیں کروں گا اللہ تعالیٰ معاف فرما دیتا ہے۔‘‘
(خطبہ جمعہ فرمودہ 23؍ جون 2017ء۔ مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل14؍ جولائی2017ءصفحہ6)
نفس کا محاسبہ کرنا ہے ۔ تو رمضان المبارک میں
’’حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے۔ آپ بیان کرتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جس شخص نے رمضان کے روزے ایمان کی حالت میں اور اپنا محاسبہ نفس کرتے ہوئے رکھے اس کے گزشتہ گناہ معاف کر دئیے جائیں گے۔
(صحیح البخاری کتاب الایمان باب صوم رمضان احتسابا من الایمان حدیث 38)
اور اگر تمہیں معلوم ہوتا کہ رمضان کی کیا کیا فضیلتیں ہیں تو تم ضرور اس بات کے خواہشمند ہوتے کہ سارا سال ہی رمضان ہو۔پس رمضان کی فضیلت نہ صرف مہینے کے دنوں سے ہے، نہ صرف ایک وقت تک کھانے پینے کے رکنے سے ہے۔ صرف اس بات کے لئے سارا سال اللہ تعالیٰ کی جنت کے لئے تیاری نہیں ہو رہی ہوتی۔ اس لئے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے جو دوسری حدیث ہے اس میں واضح طور پر فرما دیا کہ ایمان کی حالت میں روزہ رکھنے اور اپنے نفس کا محاسبہ کرتے ہوئے اپنے روز و شب رمضان میں گزارنے سے ہی یہ مقام ملتا ہے اور جب یہ حالت ہو گی تو تبھی گزشتہ گناہ بھی معاف ہوتے ہیں۔ انسان ایمان میں ترقی کرتا ہے۔ اپنے نفس کا محاسبہ کرتا ہے۔ اپنی کمزوریوں کو دیکھتا ہے۔ اپنے اعمال کو دیکھتا ہے۔ حقوق اللہ اور حقوق العباد کی ادائیگی پر غور کرتا ہے۔ اپنے عملوں کو اللہ تعالیٰ کی رضا کے مطابق کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ تو تبھی گناہوں کی معافی بھی ہوتی ہے۔ اور یہی مقصد اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں بھی رمضان کے روزوں سے حاصل کرنے کا بیان فرمایا ہے۔
ا س آیت میں جو مَیں نے تلاوت کی ہے کہ تم پر روزے اس لئے فرض کئے گئے ہیں، رمضان کا مہینہ ہر سال اس لئے مقرر کیا گیا ہے تا کہ تم تقویٰ اختیار کرو۔ اور تقویٰ یہی ہے کہ ہر کام خدا تعالیٰ کی رضا کے لئے ہو تبھی تم روزوں سے فیضیاب ہو سکتے ہو اور شیطانی حملوں سے بچ سکتے ہو۔ جب خالص ہو کر اللہ تعالیٰ کا تقویٰ اختیار کرتے ہوئے روزے رکھو گے تو اللہ تعالیٰ کی پناہ میں آؤ گے اور جب انسان اللہ تعالیٰ کی پناہ میں آئے تو تبھی شیطان سے بچ سکتا ہے ورنہ شیطان کا یہ کھلا چیلنج ہے کہ ذرا انسان اللہ تعالیٰ کی پناہ سے دُور ہوا تو فوراً اسے شیطان نے دبوچا، اپنے قابو میں کر لیا۔ پس ایمان میں ترقی اور نفس کا محاسبہ ہی انسان کو اللہ تعالیٰ کی پناہ کا مورد بناتا ہے اور یہ تبھی ہو سکتا ہے جب انسان تقویٰ پر چلنے والا ہو ‘‘۔
(خطبہ جمعہ فرمودہ2؍جون2017ء۔مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل23؍جون2017ءصفحہ5)
ایک رات جو ہزار مہینے سےبہتر ہے آتی ہے تو رمضان المبارک میں
’’حضرت سلمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہم سے شعبان کے آخری روز خطاب فرمایا اور فرمایا: اے لوگو! تم پر ایک عظیم اور مبارک مہینہ سایہ فگن ہوا ہے۔ ایسا بابرکت مہینہ جس میں ایک رات ایسی ہے جو ہزار مہینے سے بہتر ہے۔ یہ ایسا مہینہ ہے جس کے روزے اللہ تعالیٰ نے فرض کئے ہیں۔ اور جس کی راتوں کا قیام اللہ تعالیٰ نے نفل قرار دیا ہے۔ جو شخص کسی بھی اچھی خصلت کو اس میں اپناتا ہے، وہ اس شخص کی طرح ہو جاتا ہے جو اس کے علاوہ جملہ فرائض کو ادا کر چکا ہو۔ اور جس شخص نے ایک فریضہ اس مقدس مہینے میں ادا کیا، وہ اس شخص کی طرح ہوگا جس نے ستّرفرائض رمضان کے علاوہ ادا کئے۔ اور رمضان کا مہینہ صبر کرنے کا مہینہ ہے اور صبر کا اجر جنت ہے۔ اور یہ مواسات و اخوت کا مہینہ ہے اور یہ ایسا مہینہ ہے کہ اس میں مومن کے رزق میں برکت دی جاتی ہے۔
(الترغیب والترھیب کتاب الصوم۔ الترغیب فی صیام رمضان حدیث نمبر 1487)
تو دیکھیں کیا کیابرکتیں ہیں اگر ہم اللہ تعالیٰ کے حکم کو پورا کرتے ہوئے روزہ رکھ رہے ہیں اور تقویٰ حاصل کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرنے کے لئے یہ سب کچھ کر رہے ہیں، نیکیوں پر قدم مارنے کی کوشش کر رہے ہیں تو اللہ تعالیٰ کے رسول نے ہمیں یہ خوشخبری دی ہے کہ اس نیت سے کئے گئے عمل پھر اللہ تعالیٰ ضائع نہیں کرتا۔ بلکہ اتنا دیتا ہے کہ تم سوچ بھی نہیں سکتے۔ صرف ایک اچھی عادت اور نیکی کاکام کرنے کا اجر اتنا ہے کہ گویا تمام فرائض جو ہمارے ذمہ ہیں وہ ہم نے ادا کر دئیے۔ اور رمضان میں تقویٰ پر چلتے ہوئے ادا کئے گئے۔ ایک فرض کا ثواب اتنا ہے کہ عام حالات میں ادا کئے گئے 70فرائض جتنا ثواب ہوتا ہے۔ اتنا بڑھا کر اللہ میاں رمضان میں دیتا ہے۔ تو ان دنوں کی ایک ایک نیکی عام حالات کی 70-70نیکیوں کے برابر ثواب دلا رہی ہے۔ لیکن ہمیں یہ یاد رکھنا چاہئے کہ ثواب تبھی ہو گا جب ہم اللہ کی رضا حاصل کرنے کے لئے سب کچھ کر رہے ہوں گے‘‘۔
(خطبہ جمعہ فرمودہ 7؍ اکتوبر 2005ء۔مطبوعہ الفضل انٹر نیشنل28 ؍اکتوبر2005 ءصفحہ6)
جنت کوسارا سال سجایا جاتا ہے۔ تو رمضان المبارک کے لیے
’’حضرت ابو مسعود غفاری ؓ بیان کرتے ہیں کہ میں نے رمضان شروع ہونے کے بعد ایک روز آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ اگر لوگوں کو رمضان کی فضلیت کا علم ہوتا تو میری اُمّت اس بات کی خواہش کرتی کہ سارا سال ہی رمضان ہو۔ اس پر بنو خزاعہ کے ایک آدمی نے کہا کہ اے اللہ کے نبی! ہمیں رمضان کے فضائل سے آگاہ کریں۔ چنانچہ آپؐ نے فرمایا یقیناً جنت کو رمضان کے لئے سال کے آغاز سے آخر تک مزیّن کیا جاتا ہے۔ پس جب رمضان کا پہلا دن ہوتا ہے تو عرش الٰہی کے نیچے ہوائیں چلتی ہیں۔
(الترغیب والترھیب۔ کتاب الصوم۔ الترغیب فی صیام رمضان احتساباً … حدیث نمبر 1498)
پس یہ ہوائیں بھی اللہ تعالیٰ کے پاک بندوں کوجنہوں نے یہ عہد کیا ہو کہ اپنے اندر رمضان میں پاک تبدیلیاں پیدا کرنی ہیں اور تقویٰ اختیار کرنا ہے اونچا اڑاکر لے جانے والی ثابت ہوتی ہیں۔ اللہ تعالیٰ کا قرب دلانے والی بنتی ہیں۔ یہ جو فرمایا کہ سارا سال جنت کی تزئین و آرائش ہو رہی ہے اس کا فیض یونہی نہیں مل جاتا۔ یقینا روزوں کے ساتھ عمل بھی چاہئیں۔ پس جب اللہ تعالیٰ اتنا اہتمام فرما رہا ہو کہ سارا سال جنت کی تیاری ہو رہی ہے کہ رمضان آ رہا ہے میرے بندے اس میں روزے رکھیں گے، تقویٰ پر چلیں گے، نیک اعمال کریں گے اور میں ان کو بخشوں گااور میں قرب دوں گا۔ تو ہمیں بھی تو اپنے دلوں کو بدلنا چاہئے۔ ہمیں بھی تو اس لحاظ سے تیاری کرنی چاہئے اور جو اللہ تعالیٰ نے موقع میسر کیا ہے اس سے فیض اٹھانا چاہئے‘‘۔
(خطبہ جمعہ فرمودہ 7؍ اکتوبر 2005ء۔مطبوعہ الفضل انٹر نیشنل28؍اکتوبر2005 ءصفحہ6)
شیطان جکڑ دیا جاتا ہےاور اللہ تعالیٰ نچلے آسمان پر آجاتاہے۔ رمضان المبارک میں
’’آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اس مہینہ میں شیطان جکڑ دیا جاتا ہے اور اللہ تعالیٰ قریب آ جاتا ہے۔ نچلے آسمان پر آ جاتا ہے۔
(صحیح بخاری کتاب الصوم باب ھل یقول رمضان او شھر رمضان… حدیث 1899 و صحیح بخاری کتاب التہجد باب الدعاء و الصلاۃ من اٰخر اللیل حدیث1145)
لیکن کن کے قریب آتا ہے؟ ان کے جو اللہ تعالیٰ کے قرب کو محسوس کرتے ہیں یا کرنا چاہتے ہیں اور اس کے لئے اللہ تعالیٰ کی بات مانتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ کے حکم فَلْیَسْتَجِیْبُوْا لِیْ پر عمل کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ کے احکامات کا پتا لگاتے ہیں اور ان پر عمل کرنے کے لئے لبّیک کہتے ہیں۔ اس بات پر یقین اور ایمان رکھتے ہیں کہ خدا تعالیٰ سب طاقتوں والا ہے۔ اگر مَیں اس کے احکامات پر عمل کرتے ہوئے اس کے لئے خالص ہوتے ہوئے اس سے مانگوں گا تو وہ میری دعائیں سنے گا۔
پس اللہ تعالیٰ بیشک اپنے بندوں کے سوال کے جواب میں یہ کہتا ہے کہ مَیں قریب ہوں، میں اپنے بندے کی دعاؤں کو سنتا ہوں اور اس مہینہ میں خاص طور پر تمہارے قریب آ گیا ہوں مجھے پکارو لیکن اپنی دعاؤں کی قبولیت کے لئے مجھے پکارنے سے پہلے یہ شرط ہے کہ میری سنو۔ میرے احکامات پر عمل کرو۔ اور میری تمام طاقتوں پر کامل یقین اور ایمان رکھو۔ اِن شرائط پر تمہیں عمل کرنا ہو گا۔
پس وہ لوگ جو کہتے ہیں کہ ہم دعا کرتے ہیں دعائیں قبول نہیں ہوتیں وہ اپنے جائزے بھی لیتے ہیں؟ کہ انہوں نے کہاں تک خدا تعالیٰ کے احکامات پر عمل کیا ہے؟ اگر ہمارے عمل نہیں۔ ہمارا ایمان صرف رسمی ہے تو پھر ہمارا یہ کہنا غلط ہے کہ ہم نے اللہ تعالیٰ کو پکارا لیکن ہماری دعائیں قبول نہیں ہوئیں۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اس بات کو بیان کرتے ہوئے کہ خدا تعالیٰ نے کیا شرائط رکھی ہیں: فرمایا کہ ’’پہلی بات اللہ تعالیٰ نے یہ بیان فرمائی ہے کہ لوگ ایسی حالت تقویٰ اور خدا ترسی کی پیدا کریں کہ مَیں ان کی آواز سنوں۔ (ایام الصلح، روحانی خزائن جلد 14 صفحہ 261) ‘‘
(خطبہ جمعہ فرمودہ 17؍ جون 2016ء ۔مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل08؍ جولائی2016ء صفحہ5)
"اس وقت مَیں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی ایک دعا بھی پیش کرتا ہوں جسے ان دنوں میں ہمیں خاص طور پر کرنا چاہئے تا کہ اللہ تعالیٰ کا قرب حاصل ہو۔ اللہ تعالیٰ کے حضور آپ نے یہ دعا کی تھی کہ:
’’اے ربّ العالمین! تیرے احسانوں کا میں شکر نہیں کر سکتا۔ تُو نہایت ہی رحیم و کریم ہے اور تیرے بے غایت مجھ پر احسان ہیں۔ میرے گناہ بخش تا مَیں ہلاک نہ ہو جاؤں۔ میرے دل میں اپنی خالص محبت ڈال تا مجھے زندگی حاصل ہو اور میری پردہ پوشی فرما اور مجھ سے ایسے اعمال کرا جن سے تُو راضی ہو جائے۔ مَیں تیری وجہ کریم کے ساتھ اس بات سے پناہ مانگتا ہوں کہ تیرا غضب مجھ پر وارد ہو۔ رحم فرما اور دنیا اور آخرت کی بلاؤں سے مجھے بچا کہ ہر ایک فضل و کرم تیرے ہی ہاتھ میں ہے۔ آمین۔ ثم آمین۔(ملفوظات جلد اول صفحہ 235۔ ایڈیشن 1985ء مطبوعہ انگلستان)‘‘
(خطبہ جمعہ فرمودہ 17؍ جون 2016ء ۔مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل08؍ جولائی2016ء صفحہ8)
٭…٭…٭