متفرق مضامین

وہ جس کی بات کی رکھتا ہے لاج ربِّ کریم

(قریشی دائود احمد ساجدؔ)

خاکسار کوایک عرصہ سے پتّے میں پتھری کی وجہ سے کافی تکلیف تھی جس کی وجہ سے بعض اوقات معدہ میں شدید درد ہوتا تھا۔ پہلے تو ڈاکٹرحضرات السرسمجھتے رہے۔ لیکن پتّے میں پتھری کا علم ہونے کے بعد بھی آپریشن کی دو تین دفعہ تاریخ ملنے کے باوجود بعض وجوہات کی بنا پر آپریشن نہ ہو سکا۔ اِس دوران خاکسار کو انفیکشن کے باعث کئی کئی دن ہسپتال میں داخل بھی رہنا پڑا۔ 10؍مئی 2011ءکوخاکسار نے حضرت خلیفة المسیح الخامس ایدہ الله تعالیٰ بنصرہ العزیز سے مُلاقات کی اورحضور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز سے عرض کیا کہ حضور اس بیماری کی وجہ سے شدید تکلیف ہوتی ہے۔ حضور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزنے فرمایا ’’مجھے علم ہے ‘‘۔

پھر چند لمحوں کے توقف کے بعد فرمایا: ’’ہسپتال والوں سے بات کریں اگر پندرہ دن میں اپریشن کر دیں تو ٹھیک ہے ورنہ پرائیویٹ آپریشن کروا لیں اور ڈاکٹر شبیر بھٹی صاحب سے بھی بات کر لیں۔ ‘‘

جن احباب کو یورپین ممالک کے نیشنل ہیلتھ سروس کے بارے میں علم ہے وہ جانتے ہیں کہ اِن ممالک میں توبعض اوقات اپنے ذاتی مُعالج سے ملنے کے لیے بھی کئی دفعہ دو دو ہفتے لگ جاتے ہیں نیز آپ کو ہسپتال والوں یا سرجن کے پاس بھی آپ کا ذاتی مُعالج ہی بھجواتا ہے جو کہ لمبا Procedureہے۔

حضور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے اِرشاد کی تعمیل میں خاکسار نے ڈاکٹر شبیر بھٹی صاحب سے بھی بات کی اُنہوں نے کہا ٹھیک ہے۔

اگلے روز خاکسارلندن سے گلاسگو واپس آیا تو کچھ سمجھ نہیں آتا تھا کہ ذاتی مُعالج یا ہسپتال والوں سے بات کیسے کی جائے۔ اِسی کشمکشں میں 12؍مئی 2011ء کو معدے میں شدید درد شروع ہو گیا جس کے باعث خاکسار کو ہسپتال میں داخل ہونا پڑا۔ ہسپتال میں پہلے چند روز تو اِنفیکشن کے باعث کافی تکلیف رہی، ایک دن صبح ڈاکٹر صاحب اپنی ٹیم کے ہم راہ راؤنڈ پر آئے توخاکسار نے ڈاکٹر صاحب سے کہا کیا آپ آپریشن نہیں کر سکتے کیونکہ مجھے یہ تکلیف بہت عرصہ سے ہے اور کئی دفعہ آپریشن ملتوی بھی ہو چکا ہے۔ وہ ایک Russian ڈاکٹرصاحب تھے۔ کہنے لگے ابھی اِنفیکشن بہت زیادہ ہے اس کو ٹھیک ہونے میں دو تین ہفتے لگ سکتے ہیں اس کے بعد کوئی فیصلہ کر سکتے ہیں۔ اس کے بعد خاکسار نے ڈاکٹرصاحب سے پوچھا کہ کیا میں پرائیویٹ آپریشن کروا سکتا ہوں ؟ اس پر وہ کہنے لگے کہ آپ پرائیویٹ آپریشن کیوں کروانا چاہتے ہیں ؟

میں نے اُن سے کہا کہ مجھے یہ تکلیف کافی عرصہ سے ہے اور اِس کی وجہ سے مجھے شدید درد اور پریشانی ہوتی ہے۔ اس پر وہ کہنے لگے کہ میں تو پرائیویٹ آپریشن نہیں کرتا اور نہ ہی کسی کو جانتا ہوں جو پرائیویٹ آپریشن کرتا ہو۔

اگلے روز وہ ڈاکٹر صاحب صبح راؤنڈ پر آئے اور نارمل چیک اَپ کے بعد چلے گئے، اُدھر خاکسار کے ذِہن میں مسلسل حضور ایدہ ﷲ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے الفاظ گردش کرتے تھے لیکن دُعا کے علاوہ کوئی چارہ بھی نہیں تھا، اُسی روز دوپہر کے بعد اچانک وہ ڈاکٹرصاحب وارڈ میں آئے اورمیرے ساتھ مصافحہ کیا اور کہنے لگے کہ میں نے آپ کے اسکین کا انتظام کیا ہے اور ابھی اسکین کے بعد بیہوش کرنے والی ٹیم کا آدمی آپ کو بریف کرے گا کیونکہ میں نے آج آپ کے آپریشن کا فیصلہ کیا ہے۔ کچھ دیرکے بعد پورٹرآگیا اور مجھے اسکین کے لیے لے گیا، لیکن اُس وقت خاکسار کی حیرت کی انتہا نہ رہی جب خاکسار نے دیکھا کہ اسکین کے شعبہ کی طرف جانے والے راستہ پر اسکین کے شعبہ سے پہلے ڈاکٹر صاحب خود کھڑے تھے اُنہوں نے پورٹر سے وہیل چیئر لے لی اور خود مجھے اسکین والے کمرہ میں لےکر گئے نیز وہیں بیٹھ کر اسکین دیکھا۔ اس کے بعد خاکسار بےہوش کرنے والی ٹیم کے آدمی کے آنے کا انتظار کرنے لگا، لیکن کوئی نہ آیا جس وجہ سے فطرتی طور پرکچھ پریشانی ہوئی، ابھی خاکسار اِسی ادھیڑ بُن میں تھا کہ رات کے گیارہ بجے کے قریب ڈاکٹر صاحب آگئے اور معذرت کرنے لگے اور کہا کہ ایک ایمرجنسی کی وجہ سے ہم کافی لیٹ ہو گئے تھے اور بےہوش کرنے والی ٹیم بھی کافی تھکی ہوئی تھی اس لیے میں کوئی رِسک نہیں لینا چاہتا تھا، لیکن کل صبح سب سے پہلے آپ کا آپریشن ہو گا۔

چنانچہ اگلے روز خاکسار کا آپریشن ہو گیا۔ الحمدُ للّٰه علىٰ ذالك۔

آپریشن کے بعد وہ ڈاکٹر صاحب روزانہ دو دفعہ راؤنڈ پر آتے تھے، ایک اہم بات جو میں نے نوٹ کی وہ یہ تھی کہ اُس وارڈ میں ہم سات یا آٹھ مریض تھے لیکن ڈاکٹر صاحب جب بھی آتے تو صرف مجھ سے مصافحہ کرتے تھے۔

اِسی دوران خاکسار نے مندرجہ ذیل اَشعار جو آخر پر ہیں، بھی لکھے۔

25؍ مئی کو خاکسارکا ایک اَور اسکین ہوا تاکہ پتہ چل سکے کہ پتّے سے معدہ میں آنے والی شریان میں کوئی روک تو نہیں۔

26؍مئی کو ڈاکٹر صاحب نے خاکسار کو گھر جانے کی اجازت دے دی لیکن دوپہرکو ڈیوٹی پر موجود ایک نوجوان انڈین ڈاکٹرآیا اور کہنے لگا کہ ڈاکٹر صاحب نے آپ کو گھر جانے کی اجازت تو دے دی تھی لیکن اسکین کا رزلٹ ابھی نہیں آیا اس لیے ہو سکتا ہے کہ آج رات آپ کو اِدھر ہی روکناپڑے۔

خاکسار کے ذہن میں خیال آیا کہ حضورایدہ اللہ تعالیٰ نے پندرہ دن فرمایا تھا اور ہسپتال آئے ہوئےآج مجھے پندرھواں روز ہے اور یہ نظم بھی مکمل ہو گئی ہے لیکن ڈاکٹر مجھے کہہ رہا ہے کہ شاید آج رات آپ کو اِدھر ہی روکنا پڑے۔

خاکسار کو اُس ذات کی قَسم جس کے قبضۂ قدرت میں میری جان ہے، یہ خیال گزرے ابھی نصف گھنٹہ بھی نہ ہواہو گا کہ وہی انڈین ڈاکٹر آ کر مجھے کہنے لگا کہ اگر آج اسکین کا رزلٹ آ بھی گیا تو ہم نے کچھ بھی نہیں کرنا، اس لیے آپ گھر جاسکتے ہیں۔ میں آپ کو فون کرکے سکین کے بارےمیں بتا دوں گا۔

تقریباً ایک گھنٹے کے بعد اُس نے فون کر کے بتایا کہ آپ کے اسکین کا رزلٹ کلیئر آیا ہے۔ الحمد للّٰہ علیٰ ذلک۔

(در مدحِ حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ الله تعالیٰ )

ہیولہ نُور کا مٹی کے گھر میں رہتا ہے

میرے خیال میں قلب و نظر میں رہتا ہے

میں اُس کودیکھ کریوں سوچنے لگوں جیسے

خُدا خود ہو کے مُجسّم، بشر میں رہتا ہے

وہ بولتا ہے تو ٹھہرا ہوا سمندر ہے

نگاہ دُور بیں، گویا سفر میں رہتا ہے

شہر کے لوگ اگرچہ نہ اُس کو پہچانیں

تذکرہ اُس کا تو اَب بحرو برمیں رہتا ہے

میں اُس کی خاکِ پا کو چھو سکوں کبھی شائد

مُقابلہ یہی شمس و قمر میں رہتا ہے

حَسِین اُس سا نہیں دہر کے حسینوں میں

مدارِ بحث وہ لعل و گوہر میں رہتا ہے

وہ جس کی خوشبو سے مہکے ہے گُلشنِ احمد

نہاں ہر پھول میں برگ و ثمر میں رہتا ہے

ہزار بار بھی دیکھوں اُسے تو جی نہ بھرے

دھیان میرا اُسی راہ گزر میں رہتا ہے

وہ جس کی بات کی رکھتا ہے لاج ربِّ کریم

حِصار میرا وہ زیر و زبر میں رہتا ہے

ہے اُن کے واسطے وہ حضرتِ خضر کی طرح

نصیب جِن کا کہ مدّو جزر میں رہتا ہے

جلا کے دیپ میرے دِل میں اپنی یادوں کے

قریب یوں میرے شام و سحر میں رہتا ہے

اُٹھیں جو ہاتھ تو مانگوں دعا اُسی کے لیے

وہ میری سوچ میں اور چشمِ تَرمیں رہتا ہے

دُعا سے اُس کی ملے ہے مجھے شِفا ساؔجد

مسیحا بن کے وہ میری فِکر میں رہتا ہے

جو پوچھو نام اُس کا وہ ہے’’حضرتِ مسرور‘‘

اِسی وطن میں، دِلوں کے نگر میں رہتا ہے

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button