سیرت خلفائے کرام

خلافتِ احمدیہ، حقیقی جہاد کی عملی تصویر

(مرزا طلحہ بشیر احمد۔ ربوہ)

ازل سے یہ دستور ہے کہ دنیا میں جب انبیا ئےکرام آتے ہیں تو مخالفین کی طرف سے ان پر طرح طرح کے الزام لگائے جاتے ہیں مگر خدا تعالیٰ ان کی سچائی کو ہمیشہ کھول کر دنیا کے آگے پیش کر دیتا ہے۔ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کی بعثت پر آپ کی ذات پر بھی کئی قسم کے اعتراض کیے گئے۔ ان میں سے ایک اعتراض یہ بھی ہے کہ آپ علیہ السلام نے ‘جہاد’کی ممانعت کا فتویٰ دیا ہے جبکہ جہاد اسلام کی ایک بنیادی جڑ ہے۔ یہ اعتراض دراصل اسلام کی حقیقی تعلیم اور اللہ تعالیٰ کی طرف سے جہاد کے حکم کی اصل روح کو نہ سمجھنے کے باعث پیدا ہوا ہے۔

اللہ تعالیٰ قرآن کر یم میں مومنوں کو حکم دیتا ہے کہ وہ خدا تعالیٰ کی راہ میں جہاد کریں۔ چنانچہ متعدد آیات کے ذریعہ ہم اپنی جہاد کی اس ذمہ داری کو سمجھنے کی کوشش کر سکتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ سورۃ العنکبوت آیت نمبر7میں فرماتا ہے:۔‘‘ وَمَنْ جَاهَدَ فَاِنَّمَا يُجَاهِدُ لِنَفْسِهٖ’’یعنی جو شخص خداتعالیٰ کی راہ میں کوشش کرتا ہےدرحقیقت وہ اپنےلیےہی کوشش کرتا ہے۔ اسی طرح فرمایا :‘‘فَلَا تُطِعِ الْكٰفِرِيْنَ وَجَاهِدْهُمْ بِهٖ جِهَادًا كَبِيْرًا’’ (الفرقان53)یعنی تُو کافروں کی بات نہ مان اور اس (قرآن کریم) کے ذریعہ سے ان سے بڑا جہاد کر۔ مزید فرمایا: ‘‘وَجَاهِدُوْا بِاَمْوَالِكُمْ وَاَنْفُسِكُمْ فِيْ سَبِيْلِ اللّٰهِ’’(التوبۃ:41)یعنی اپنے مالوں اور اپنی جانوں کے ساتھ اللہ کے راستے میں جہاد کر۔

پس قرآن کریم سے یہ بات ثابت ہے کہ ایک مسلمان کا فرض ہے کہ وہ دین کی راہ میں جہاد کرے اور یہ امر ایک مسلمان کی کامیابی کے لیے ضروری ہے۔ جماعتِ احمدیہ اس پر پورے طور پر ایمان رکھتی ہے۔مگر کیا جہاد کے معنی محض یہی ہیں کہ انسان تلوار اٹھائے اور دوسروں کو قتل کرتا چلا جائے جیسا کہ موجودہ دور میں اکثر غیر احمدی نام نہاد علماء کہتے نظر آتے ہیں؟ یا پھر اس پُر حکمت ارشاد کا منشا ءکچھ اور ہے؟ اس سوال کا جواب بھی ہمیں قرآن کریم میں ہی تلاش کرنا ہے۔ پس جیسا کہ خدا تعالیٰ فرما چکا ہے جہاد کے اصل معنی دین کی راہ میں کوشش کے ہیں ۔ اس کوشش کا مقام اتناادنیٰ نہیں کہ اس کو صرف تلوار کی حد تک محدود کر دیا جائے۔ قرآن کریم میں ہی ہمیں بتایا گیا ہے کہ اصل ذریعہ جہاد فی سبیل اللہ کا قرآن کریم ہی ہے یعنی اس پاک کتاب کی وہ مکمل تعلیم جس پر عمل کرنا بنی نوع انسان کی بقا کے لیے ضروری ہے۔

یہ سچ ہے کہ اسلام ہمیں اجازت دیتا ہے کہ ایسے وقت میں کہ جب دشمن اسلام کے خلاف تلوار اٹھائے اور مسلمانوں پر اپنے ظلم کو اس حد تک بڑھادے کہ ایک مسلمان کا مسلمان رہنا مشکل ہو جائے تو اپنے دفا ع کے لیے ایک مسلمان بھی تلوار اٹھاسکتا ہے۔ اوراسلام کے دفاع کے لیے اس کی اس کوشش کا نام جہاد رکھا گیا ہے ۔لیکن اس کے لیے کچھ مخصوص شرائط عائد کی گئی ہیں اور ان شرائط کے ساتھ جماعت احمدیہ خدا تعالیٰ کے فضل سے اس جہاد کی بھی قائل ہے۔ لیکن اصل جہاد قرآن کریم کی تعلیم کو دنیا میں قائم کرنے کے لیے ایک مسلمان کی جدوجہد ہے جس میں قرآن کریم ہی کی حقیقی تعلیم کو دنیا کے آگے پیش کر کے کامیابی حاصل کی جاسکتی ہے۔ اس حکم کو سمجھنے کے لیے ہمارے لیے سب سے بڑھ کر آنحضرت ﷺ کا اسوہ ہے۔آنحضرت ﷺ نے متعدد بار وقت کی ضرورت کے پیش نظر تلوار کا جہاد کیا مگر ایک موقع پر جب آپ جنگ سے واپس تشریف لا رہے تھے تو آپ ﷺنے فرمایا: ‘‘رَجَعْنَا مِنَ الجِہَادِ الاَصغَرِ اِلَی الجِہَادِ الاَکبَرِ’’ یعنی ہم چھوٹے جہاد (جنگ) سے فارغ ہو کر جہاد اکبر میں مشغول ہونے کے لیے جارہے ہیں۔(ردالمختار علی الدر المختارجلد3 ص 532)۔ جب آپ سے پوچھا گیا کہ جہاد اکبر کیا ہے؟ تو آپؐ نے فرمایا کہ یہ نفس کا جہاد ہے۔ یعنی اس قسم میں اصلاح نفس کے علاوہ دین کے کاموں کے لیے زندگی وقف کرنا ہے۔

آنحضرت ﷺ کے اس ارشاد سے یہ واضح ہے کہ افضل جہاد اصلاح نفس کا جہاد ہے ۔یہ ایک اندرونی جنگ ہے جو اپنے نفس سے کی جاتی ہے جس کے ذریعہ دلوں کے زنگ دھلتے چلے جاتے ہیں اور یہی وہ جہاد ہے جو ایک مسلمان کو مومن بنا دیتا ہے۔ اسی کا نام جہاد اکبر رکھا گیا ہے اور اسی کا اسلام ہمیں حکم دیتا ہے جس کے ذریعہ ہم نے دنیا میں روحانیت کا ایک انقلاب بر پا کرنا ہے اور قرآن کریم کے حکم کے مطابق قرآن کریم ہی کی تعلیم کے ذریعہ دنیا کو اسلام کے جھنڈے تلے لے کر آنا ہے ۔

پس حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام پر اعتراض کرنے والوں کو معلوم ہی نہیں کہ جہا د کی اصل روح کیا ہے۔ نیزوہ یہ بھی بھول جاتے ہیں کہ آنحضرت ﷺ کی پیشگوئی کے مطابق مسیح موعود کے زمانہ کے متعلق یہ بتا دیا گیا تھا کہ جب وہ آئے گا توتلوار کے جہاد کو ختم کر دیا جائے گااور صرف اور صرف جہاد اکبر ہی قائم ہوگا۔چنانچہ حدیث میں آتا ہے کہ

‘‘یضع الحرب’’

(صحیح بخاری کتاب الانبیاء باب نزول عیسیٰ بن مریم مطابقاً للنسخہ الصحیحۃ المصطفائیہ المطبوعہ فی 1305ھ)

حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام اس حدیث کا ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں:

‘‘چنانچہ صحیح بخاری میں مسیح موعود کی نسبت حدیث یضع الحرب موجود ہے یعنی جب مسیح موعود آئے گا تو جنگ اور جہاد کی رسم کو اٹھا دے گا اور کوئی جنگ نہیں کرے گا اور صرف آسمانی نشانوں اور خدائی تصرفات سے دین اسلام کو زمین پر پھیلائے گا۔ چنانچہ میرے وقت میں اب یہ آثار دنیا میں موجود بھی ہورہے ہیں اور یہی سچ ہے اور میں جو خدا تعالیٰ کی طرف سے مسیح موعود ہوں خدا نے مجھے یہ حکم نہیں دیا کہ میں جہاد کروں اور دین کے لیے لڑائیاں کروں بلکہ مجھے یہ حکم دیا ہے کہ میں نرمی کروں اور دین کی اشاعت کے لیے خدا سے مدد مانگوں اور آسمانی نشان اور آسمانی حملے طلب کروں اور مجھے اس خدا ئے قدیر نے وعدہ دیا ہے کہ میرے لیے بڑے بڑے نشان دکھائے جائیں گے اور کسی قوم کو طاقت نہیں ہوگی کہ میرے خدا کے مقابل پر جو آسمان سے میری مدد کرتا ہے اپنے باطل خداؤں کا کوئی نشان ظاہر کر سکیں۔ چنانچہ میرا خدا اب تک میری تائید میں صدہا نشان ظاہر کر چکا ہے۔ ’’ (حقیقۃ الوحی روحانی خزائن جلد 22صفحہ 468)

نیز ایک موقعے پر حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا:

‘‘تمام سچے مسلمان جو دنیا میں گزرے کبھی ان کا یہ عقیدہ نہیں ہوا کہ اسلام کو تلوار سے پھیلانا چاہیے بلکہ ہمیشہ اسلام اپنی ذاتی خوبیوں کی وجہ سے دنیا میں پھیلا ہے۔ پس جو لوگ مسلمان کہلا کر صرف یہی بات جانتے ہیں کہ اسلام کو تلوار سے پھیلانا چاہیےوہ اسلام کی ذاتی خوبیوں کے معترف نہیں ہیں اور ان کی کارروائی درندوں کی کارروائی سے مشابہ ہے۔’’

(تریاق القلوب، روحانی خزائن جلد 15،حاشیہ صفحہ 167)

پس یہ زمانہ جو مسیح موعود علیہ السلام کا زمانہ ہے وہ در اصل جہاد اکبر کا ہی زمانہ ہے جس کےبار ہ میں آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ یہ نفس کا جہاد ہے اور دین کے لیے اپنی زندگی وقف کرنے کا جہاد ہے۔اور اللہ تعالیٰ نے اپنے وعدہ کے موافق جب یہ ارادہ کیا کہ آنحضرت ﷺ کے روحانی فیوض کے ذریعہ مسیح موعود کے ہاتھوں اسلام کو ایک بار پھر ایک نئی زندگی عطا کرے، تو آپ کے ہاتھ میں تلوار نہیں تھمائی بلکہ قلم پکڑا کر دنیا میں تبلیغ کرنے کا حکم فرمایا۔ پس خدا تعالیٰ کے اس پہلوان ،جری اللہ کے قلم سے لکھے الفاظ نے دنیا میں ایک انقلاب برپا کیا اور الہٰی پیشگوئیوں کو پورا کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ کے فضل سے یہ مثیل عیسیٰ مردوں کو زندگی عطا کر تا چلا گیا ۔ آپ کی پاک سیرت ، آپ کا عملی نمونہ، آپ کی ذات کی کشش، آپ کی 80سے زائد کتب،آپ کے مکتوبات ، آپ کے اشتہارات، آپ کے ملفوظات، آپ کی احباب جماعت اور دنیا والوں کے لیے ہر وقت راہ راست پر لانے کی کوششیں اور سب سے بڑھ کر آپ کا بنی نوع کے لیے خدا تعالیٰ کے حضور جھکنا اور دعائیں کرنا، یہ تمام چیزیں اس کوشش کا حصہ ہیں، اس جہاد اکبر کا حصہ ہیں جو آپ نے خدا تعالیٰ کے دین کو دنیا میں قائم کرنے کے لیے کیں۔ آپ نے دنیا میں آکر قرآن کریم کی حقیقی تعلیم کو دوبارہ قائم فرمایا، آنحضرت ﷺ کی سنت کو رواج دیا اور ایک ایسی جماعت کی بنیاد رکھی جس نے جہاد کے اصل معنی کو سمجھتے ہوئے اللہ تعالیٰ کے دین کو دنیا میں پھیلانا ہے۔

آپ علیہ السلام کے وصال کے بعد قدرت ثانیہ کا ظہور ہوا تو خلافتِ احمدیہ نے بھی آپ ہی کے نقشِ قدم پر چل کر آپ کی وصیت کے مطابق امر بالمعروف و نہی عن المنکر کی تعلیم کو جاری رکھا۔ اور آج جب ایک شخص خلافتِ احمدیہ کی تاریخ پر نظر ڈالے، اس نظام پر نظر ڈالے جو حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کی وفات کے بعد اللہ تعالیٰ نے اپنے وعدہ کے مطابق دنیا والوں کی اصلاح کے لیے قائم فرمایا تو تاریخ کا ہر ایک پنّا پکار پکار کر یہ گواہی دیتا ہے کہ آج کے دور میں خلافتِ احمدیہ ہی حقیقی جہاد کی عملی تصویر ہے۔ جماعت احمدیہ میں خلافت کا نظام اپنے اندر وہ تمام خوبیاں سمیٹے ہوئے ہے جو جہاد اکبر کی تعلیم پر عمل درآمد کے لیے ضروری ہے۔ چنانچہ خلیفہ وقت ہر لحاظ سے احباب جماعت کی تعلیم و تربیت کے لیے کوشاں ہیں۔ اس میں سب سے اوّل خلفائے احمدیت کے اپنے پاک نمونے ہیں جن کے ذریعہ وہ اپنے ادوار میں دنیا کو اسلام کی زندہ تصویر دکھاتے ہیں۔ وہ پاک نمونے بیماروں کو شفا عطا کرتے ہیں ۔ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام نے اپنے تمام مخالفین کے لیے یہ اعلان فرمایا تھا کہ اگر وہ اسلام کی صداقت کا نشان دیکھنا چاہتے ہیں تو قادیان آئیں اور حضور علیہ السلام کے ذریعہ وہ ایک ایسا نشان دیکھ پائیں گےجو زندہ اسلام کی صداقت کی دلیل ہوگا۔ اسی طرح اگر آج کوئی متلاشی حق زندہ اسلام کی تلاش میں ہے تو خلافتِ احمدیہ کے ذریعہ زندہ اور سچے اسلام کی علامات دیکھ سکتا ہے۔

پھر خلافتِ احمدیہ کی و ہ کوششیں ہیں جن کے نتیجہ میں اسلام کا حقیقی پیغام دنیا کے کونے کونے میں گونج رہا ہے۔اللہ تعالیٰ نے اپنے وعدہ کے موافق جو پودا حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کے ذریعہ لگا یا تھا وہ آج خلافتِ احمدیہ کے ذریعہ ایک تناوردرخت بن چکا ہے۔ 100سال سے زائد عرصہ میں جماعت نے وہ دینی کام کیے ہیں جوقرون اولیٰ کے بعد اور حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کی بعثت کے درمیانی 1400سال میں امت مسلمہ نہ کر پائی۔ قرآن کریم کی تعلیم جو کہ ایک مکمل تعلیم ہے اس کا ترجمہ کرنا ، احادیث کا ترجمہ کرنا ، دنیا کے کونے کونے میں تبلیغ کا کام کرنا، مساجد تعمیر کروانا، مشن ہاؤسز کھولنا، خدمت خلق کے جذبہ کے تحت اسکول اور ہسپتال کھولنا ، بیوگان ، یتیموں،مسکینوں، غرباء کی کفالت کرنا، وہ لوگ جو دین کی خاطر دکھ دئیے جاتے ہیں ان کا خیال رکھنا،کمزوروں کا سہارا بننا، پانی سے محروم قوموں کو قدرت کی بنیادی ضرورت مہیا کرنا ، اسلام کی خوبصورت تعلیم نہ صرف پہنچانا بلکہ اس پر عمل کر کے دکھا نا ۔ یہ ایک مختصر سا خلاصہ ہے ان کا موں کا جوآج خلافتِ احمدیہ کے زیر سایہ کیے جارہے ہیں۔

اسی طرح خلافتِ احمدیہ کے ذریعہ نہ صرف دنیا کے کونے کونے تک صدائے حق پہنچ رہی ہے بلکہ وہ لوگ جوزمانے کے مسیح کو پہچان چکے ہیں ان کی تعلیم و تربیت کے لیے کوشش اور ایسی کوشش کہ اپنی ذات کو اس راہ میں فنا کر لینا مگر اپنی کوششوں میں کمی نہ آنے دینا ، یہ وہ خصوصیت ہے جو آج کے دور میں صرف اور صرف خلافتِ احمدیہ میں پائی جاتی ہے۔ سیدنا حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ نے ایک موقعے پر فرمایا:

‘‘غرض کہ کوئی مسٔلہ بھی دنیا میں پھیلے ہوئے احمدیوں کا چاہے وہ ذاتی ہو یا جماعتی ایسا نہیں جس پر خلیفہ وقت کی نظر نہ ہو اور اس کے حل کے لیے وہ عملی کوشش کے علاوہ اللہ تعالیٰ کے حضور جھکتا نہ ہو ۔ اس سے دعائیں نہ مانگتا ہو ۔ میں بھی اور میرے سے پہلے خلفاء بھی یہی کچھ کرتے رہے ’’۔ نیز فرماتے ہیں: ‘‘دنیا کا کوئی ملک نہیں جہاں رات سونے سےپہلے چشم تصور میں میں نہ پہنچا ہوں اور ان کے لیے سوتے وقت بھی اور جاگتے وقت بھی دعا نہ ہو’’ (خطبہ جمعہ فرمودہ 6 جون 2014ء)

چنانچہ خلیفۂ وقت نہ صرف احباب جماعت کی تعلیم و تربیت کے لیے دعائیں کرتے ہیں بلکہ ہر لحاظ سے یہ بھی کوشش کرتے ہیں کہ ان کی ہر معاملہ میں راہنمائی فرمائیں۔ ان کو ایسی راہ دکھائیں جس پر چل کروہ خدا کو پاسکیں۔ اور اس طرح اللہ تعالیٰ کو پانے کے لیے آج کے دور میں خلافتِ احمدیہ ہی حبل اللہ کا مقام رکھتی ہے ۔درس القرآن کے ذریعہ، اپنے خطبات کےذریعہ ، خطابات کے ذریعہ، دورہ جات کے ذریعہ خلیفۂ وقت ہمہ وقت ہمیں نصائح فرماتے ہیں تا ہم اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کر سکیں۔ اسی طرح اسلام کی ترقی کے لیے بھی ہر وقت کوشاں رہتے ہیں۔ 111سال کا عرصہ جس میں جماعت احمدیہ انتہائی تیزی سے ترقی کی راہوں کی طرف گامزن رہی، خلافتِ احمدیہ کی قیادت تلے جو کام اور جد و جہد ہوئی اور وہ کارنامے جو ہماری تاریخ کا حصہ بن چکے ہیں، ان کے ذکر کے بغیر یہ مضمون ادھورا ہوگا۔ اس لیے اپنی تاریخ پر نظر ڈالنا ضروری ہے۔

خلافتِ اولیٰ

سیدنا حضرت حکیم مولوی نورالدین صاحب رضی اللہ تعالیٰ عنہ خلیفۃ المسیح الاوّل نے جب جماعت احمدیہ کی کمان سنبھالی تو جماعت احمدیہ کو اندرونی اور بیرونی ہر قسم کے فتنوں سے خطرہ تھا مگر آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے انتہائی حکمت سے ان تمام فتنوں کا مقابلہ کیا۔ مخالفین احمدیت کی طرف سے جماعت احمدیہ کے بانی اور جماعت کی تعلیم پر ہر قسم کے الزامات لگائے گئے مگر آپ اور آپ کی قیادت تلے جماعت کے علماء نے ہر اعتراض کا جواب دیا ۔ اسی طرح اندرونی فتنے جن سے خلافت کے نظام کو ہی درہم برہم کیے جانے کی کوشش کی جارہی تھی، آپ کی اولوالعزمی کے نتیجہ میں جماعت احمدیہ نے اس بہت بڑے فتنے سے بر وقت نجات پائی اور خلافتِ احمدیہ کو استحکام حاصل ہوا۔ ان تمام فتنوں کے مقابلے کے ساتھ ساتھ حضرت خلیفۃ المسیح الاوّل کی نظر جماعتی ترقیات اور احباب جماعت کی روحانی ترقیات کی طرف بھی قائم رہی۔ درس القرآن جاری رہا اور قرآن کریم کے تراجم کے کام کا بھی آغاز ہوا۔ واعظین سلسلہ کے تقررکا نظام جاری فرمایا ۔ مدرسہ احمدیہ کی ایک باقاعدہ درسگاہ قائم کی گئی۔ سکھ احباب میں تبلیغ کی غرض سے اخبار ‘‘نور’’کا اجراء ہوا۔ اخبار ‘‘الحق ’’کا اجراء ہوا۔ بیرون ملک تبلیغ کے لیے مبلغین بھجوائے جانے شروع ہوئے۔ اخبار‘‘الفضل ’’کا اجراء ہوا۔ یہ تمام وہ کام ہیں جو مخالفین کے مقابلے کے ساتھ ساتھ حضرت خلیفۃ المسیح الاوّل رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے مختصر دورِ خلافت میں اللہ تعالیٰ کے فضل سے ہوئے ۔ وہ خدا کا پیارا وجود جو عمر بھر جہاد اکبر میں مشغول رہا ،جاتے ہوئے بھی اپنی جماعت کے لیے ایک انتہائی پیاری نصیحت چھوڑ کر گیا۔ چنانچہ آپ کی وفات سے قبل آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے جو وصیت تحریر فرمائی اس میں یہ الفاظ بھی شامل تھےکہ : ‘‘قرآن و حدیث کا درس جاری ر ہے’’ پس ان الفاظ سے بھی اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ دراصل خلفائے احمدیت دنیا میں قرآن و حدیث ہی کی تعلیم کو جاری و قائم رکھنے کے لیے کوشش کرتے ہیں۔

خلافتِ ثانیہ

خلافتِ ثانیہ کا دور مصلح موعود کا دور تھا۔ چنانچہ حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے بارےمیں تو یہ پیش گوئی تھی کہ آپ کا وجود خدا تعالیٰ کی طرف سے رحمت کے ایک نشان کے طور پر ظاہر ہوا ہے۔ چنانچہ ‘‘خدا نے یہ کہا تا وہ جو زندگی کے خواہاں ہیں موت کے پنجے سے نجات پاویں اور وہ جو قبروں میں دبے پڑے ہیں باہر آویں اور تا دین اسلام کا شرف اور کلام اللہ کا مرتبہ لوگوں پر ظاہر ہو’’(مجموعہ اشتہارات جلد اول صفحہ 95-96) چنانچہ آپ کا 52سالہ دورِخلافت اللہ تعالیٰ کے وعدے کے موافق احمدیت یعنی حقیقی اسلام کی ترقیات سے بھرا پڑا ہے۔ حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اسی مقصد سے جماعت کو بہت سی تحریکات اور منصوبہ جات سے نوازا، جن کا مختصر خلاصہ پیش ہے۔

جماعت احمدیہ میں مجلس شوریٰ کے نظام کا باقاعدہ اجراء فرمایا۔جماعتی کاموں میں تیزی اور بہتری پیدا کرنے کے لیے صدر انجمن احمدیہ کے نظام میں اصلاحات فرمائیں۔ بیرون ملک تبلیغ کے کاموں میں وسعت پیدا کرنے کے لیے 1934ءمیں تحریک جدید کو جاری فرمایا۔ نیز آپ نے اپنے دورِ خلافت میں بیرون ممالک میں تبلیغ کی غرض سے خود بھی دورہ فرمایا اور کئی مبلغین کو بھی بھجوایا ۔نیزمتعدد مشن ہاؤسز قائم ہوئے اور مساجد تعمیر ہوئیں۔ 1957ءمیں دیہاتی علاقوں میں تبلیغ اور تربیت کے کام کو بہتر بنانے کے لیے وقف جدید کا آغاز فرمایا۔ ہر احمدی جماعت کے کاموں میں حصہ لے سکے اور ہر احمدی کی تربیت کا آغاز بچپن سے کیا جائے، اس غرض سے آپ نے ذیلی تنظیموں کا آغاز کیا۔ دارالقضاء اور دارالافتاء کا نظام جاری فرمایا۔ ربوہ کو آباد کیا۔متعدد والیان ریاست اور سربراہان مملکت کو تبلیغی خطوط لکھے جن میں امیر امان اللہ خاں والی افغانستان ، نظام دکن، پرنس آف ویلز اور لارڈ ارون وائسرائے ہند شامل تھے۔ اسلام اور احمدیت کی سچائی کو دنیا پر ظاہر کرنے کے لیے تاریخی خطابات فرمائے اور 100سے زائد کتب تحریر فرمائیں۔ اور سب سے بڑھ کر قرآن کریم کی تعلیم سے دنیا والوں کو روشناس کروانے کے لیے تفسیر کبیراور تفسیر صغیر جیسی عظیم الشان تصانیف رقم فرمائی۔ یہ ان تمام کاموں کا انتہائی مختصر خلاصہ ہے جو آپ نے اپنے دور خلافت میں کیے۔ایک اور بڑا کارنامہ حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا 1954ءمیں مجلس انتخاب کمیٹی کی بنیاد رکھنا بھی تھا۔ اس کے بارےمیں آپ نے فرمایا: ‘‘مقررہ طریق کے مطابق جو بھی خلیفہ چنا جائے میں اس کو ابھی سے بشارت دیتا ہوں کہ اگر اس قانون کے ماتحت وہ چنا جائے گا تو اللہ تعالیٰ اس کے ساتھ ہوگا اور جو بھی اس کے مقابل میں کھڑا ہوگا وہ بڑا ہو یا چھوٹا ہو، ذلیل کیا جائے گا اور تباہ کیا جائے گا’’(خلافتِ حقہ اسلامیہ اور نظام آسمانی کی مخالفت، انوارالعلوم ، جلد26، صفحہ 30) نیز فرمایا: ‘‘میں یہ بھی شرط کرتا ہوں کہ جو بھی خلیفہ چنا جائے وہ کھڑے ہو کر یہ قسم کھائے کہ میں خلافتِ احمدیہ پر ایمان رکھتا ہوں اور میں خلافتِ احمدیہ کو قیامت تک جاری رکھنے کے لیے پوری کوشش کروں گا اور اسلام کی تبلیغ کو دنیا کے کناروں تک پہنچانے کے لیے انتہائی کوشش کرتا رہوں گا’’۔(خلافتِ حقہ اسلامیہ اور نظام آسمانی کی مخالفت، انوارالعلوم ، جلد26، صفحہ 35)

جیسا کہ پہلے ذکر ہو چکا ہے کہ یہ الزام قطعاً غلط ہے کہ جماعت احمدیہ جہاد کی منکر ہے ۔ نیز یہ بھی ثابت کیا جاچکا ہے کہ جماعت احمدیہ ہمیشہ جہاد اکبر کی صفِ اوّل میں کھڑی رہی ہے۔ اسی طرح جب بھی جہاد اصغر کی شرائط پوری ہوئیں اور ملک و قوم کی خاطرجنگ کی ضرورت پیش آئی تو جماعت احمدیہ کبھی بھی اس سے پیچھے نہیں ہٹی ۔ اس کی بے شمار مثالیں موجود ہیں۔ اس کی سب سے عمدہ مثال فرقان فورس کا قیام ہے۔

خلافتِ ثالثہ

اللہ تعالیٰ کے وعدےکےمطابق خلافت ثالثہ کے دور میں بھی اللہ تعالیٰ کی تائید و نصرت خلافتِ احمدیہ کے شامل حال رہی۔ مصلح موعود کا دور اختتام پذیر ہوا تو جماعت کے لیے ایک بہت بڑا دکھ تھا جس کو برداشت کرنا مشکل تھا مگر اللہ تعالیٰ نے سیدنا حضرت مرزا ناصر احمد صاحب رحمہ اللہ تعالیٰ کو خلافت کے منصب پر فائز کر کے اس خوف کی حالت کو ایک بار پھر امن میں بدل دیا۔ حضرت خلیفۃ المسیح الثالث رحمہ اللہ تعالیٰ نے حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے دور کے تسلسل کو جاری رکھتے ہوئے، جماعت احمدیہ کو اسی تیزی سے ترقی کی راہوں پر گامزن رکھا۔ آپ نے ابتدا ءمیں ہی قرآن کریم کی تعلیم کو مزید وسعت دینے کے لیے جماعت میں ایسا انتظام فرمایا کہ 100 فیصد احباب جماعت کو قرآن کریم کی تعلیم سکھائی جائے اور کوئی ایسا فرد نہ رہے جو قرآن کریم ناظرہ نہ جانتا ہو۔ اسی طرح ترجمہ پڑھنے اور سیکھنے پر بھی بہت زور دیا۔ اس کے لیے وقف عارضی کی سکیم بھی جاری فرمائی۔ مجلس موصیان کا قیام فرمایا ۔ بدرسومات کے خلاف جہا د کی مہم کا آغازفرمایا۔ بچپن سے ہی مالی قربانی کی عادت پیدا کرنے کے لیے چندہ وقف جدید اطفال کا اجراء فرمایا۔ جماعت کےخوشحال طبقے کو تحریک فرمائی کہ وہ غرباء ، مساکین اور یتامیٰ کے لیے مناسب بندوبست کریں۔ احباب جماعت کو نصیحت فرمائی کہ وہ ہر وقت دعاؤں پر زور دیں اور تسبیح و تحمید اور درود شریف کا بالالتزام ورد کیا کریں۔ اسی طرح لا إله إلا اللّٰهکے ورد کرنے کی بھی ہدایت فرمائی۔ آپ ہی کے دور میں قرآن کریم کی عالمی اشاعت کے کام کا آغاز ہوا اور آپ کی ہدایت پر جماعت احمدیہ کی طرف سے دنیا کے مختلف ممالک کے ہوٹلوں میں قرآن کریم رکھنے کی مہم جاری ہوئی۔ اسی طرح یورپ میں تبلیغ کی غرض سے سپین میں بیت بشارت کی بنیاد رکھی۔ یہ تاریخی مسجد 744سال بعد تعمیر ہونے والی سپین کی پہلی مسجد تھی۔ قرآن کریم کی تعلیم کےپیش نظر افریقہ کے غریب ممالک کی خدمت کی غرض سے آپ رحمہ اللہ تعالیٰ نے نصرت جہاں سکیم کا آغاز فرمایا جس کا مقصد ان ممالک میں صحت اور تعلیم کی بنیادی سہولیات مہیا کرنا تھا۔ اس سکیم کے تحت آج بھی ان ممالک میں جماعت احمدیہ خدمت میں مصروف نظر آتی ہے۔ آنحضرت ﷺ نے اپنی احادیث کے ذریعہ علم پر بہت زور دیا۔ پس خدا کے اس پیارے خلیفہ نے اپنےآقا کی محبت میں ان احمدی بچوں کی حوصلہ افزائی کے لیے، جو علم کے میدان میں نمایا ں کامیابیاں حاصل کرتے،جماعت کی طرف سے مختلف انعامی سکیمیں جاری فرمائیں تا جماعت کے بچے زیادہ سے زیادہ علم کے میدان میں آگے بڑھنے کی کوشش کریں۔

خلافتِ رابعہ

10؍ جون 1982ءکو سیدنا حضرت مرزا طاہر احمد خلیفۃ المسیح منتخب ہوئے۔ آپ کے دورِ خلافت میں جماعت کی مخالفت میں مزید شدت پیدا ہوئی یہاں تک کہ آپ کو مرکز ربوہ سے ہجرت کر کے انگلستان جانا پڑا۔ مگر دنیا وی قوموں کی طرح اس الہٰی جماعت کے قدم مخالفین کے خوف کی وجہ سے ڈگمگائے نہیں بلکہ ہمیشہ کی طرح خلافت کی قیادت تلے جماعت اور زیادہ تیزی سے آگے بڑھتی رہی۔ چنانچہ جہاں مخالفین نے پاکستان کے اندر جماعت کو نیست و نابود کرنے کی ناکام کوششیں کیں وہاں حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ کی بابرکت ہجرت کے ذریعہ اللہ تعالیٰ نےجماعت کو عالم گیریت کے ایک نئے دور میں داخل کردیا۔ اس دور میں بھی جہاں گذشتہ تحریکات نے مزید ترقی کی وہاں خلیفہ وقت نے جماعت کو کئی نئی تحریکات سے بھی نوازا۔ اس دور میں بیوت الحمد کی تحریک کا آغاز ہوا۔ سیدنا بلال فنڈ کا آغاز ہوا۔ مریم شادی فنڈ کا آغاز ہوا۔ خدمت خلق کے کام کی غرض سے ہیومینٹی فرسٹ کو جاری فرمایا۔ جرمنی میں 100مساجد تعمیر کرنے کی تحریک فرمائی۔ تبلیغ کے کام کو مزید وسعت دینے کے لیے آپ نے دعوت الی اللہ کی تحریک فرمائی۔ اس تحریک کا مقصد یہ تھا کہ ہر احمدی، مرد، عورت، جوان، بوڑھا، اور بچہ داعی الی اللہ بن جائے۔ اسی طرح جہاد اکبر میں شامل ہونے کے لیے آپ نے وقف نو کی تحریک جاری فرمائی۔ آپ رحمہ اللہ تعالیٰ کا ایک بڑا کارنامہ ایم ٹی اے کا اجراء تھا جس کے ذریعہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے قادیان کی ایک چھوٹی سی بستی سے اٹھنے والی آواز،آج کل عالم میں گونج رہی ہے۔ اللہ تعالیٰ کے فضل سے اس دور میں جماعت احمدیہ کو اپنے تبلیغ کے کام کو انتہائی تیزی سے بڑھانے کی توفیق ملی۔19اپریل 2003ءکو حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ کا وصال ہوا اور یہ دن جماعت احمدیہ کے لیے ایک عظیم سانحے کا دن تھا۔ وہ خدا کا پیارا جس نے خدا کی خاطر اپنے وطن سے ہجرت کی ، اب وہ اس دنیا سے بھی ہجرت کر چکا تھا۔

دنیا بھر کے احمدی اللہ تعالیٰ کے حضور اس یقین کے ساتھ جھکے ہوئے تھے کہ وہ ایک بار پھر ان کے غمگین دلوں کو مسرور کرے گا۔ مورخہ 22؍اپریل 2003ء کو حضرت مرزا مسرور احمد خلیفۃ المسیح منتخب ہوئے اورموجودہ دورِ خلافت کا آغاز ہوا۔ پہلے خطاب میں ہی احباب جماعت کو نصیحت کرتے ہوئےحضورِ انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا: ‘‘آج کل دعاؤں پہ زور دیں ۔دعاؤں پہ زور دیں۔ دعاؤں پہ زور دیں ۔ بہت دعائیں کریں۔ بہت دعائیں کریں۔بہت دعائیں کریں۔ اللہ تعالیٰ اپنی تائید و نصرت فرمائے اور احمدیت کا یہ قافلہ اپنی ترقیات کی طرف رواں دواں رہے’’۔

(الفضل 24؍ اپریل 2003ء صفحہ 2)

خلافتِ خامسہ

جہاد اکبر کا یہ سنہری دور الحمد للہ جاری و ساری ہے۔ اللہ تعالیٰ اپنے وعدے کے مطابق کہ ‘‘اِنِّیْ مَعَکَ یَا مَسْرُوْرُ’’ سیدنا حضرت مرزا مسرور احمد خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے ساتھ ہے ۔ اللہ تعالیٰ کے فضل سے خلافت خامسہ میں تبلیغ کو بہت وسعت عطا ہوئی اور جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا تھا کہ آسمان پر ایک شور برپا ہے اور فرشتے پاک دلوں کو کھینچ کر اس کی طرف لارہے ہیں، آج بھی ہر سال لاکھوں افراد اسلام کی صداقت کو پہچانتے ہوئے احمدیت میں شامل ہورہے ہیں۔ گذشتہ ایک سال میں ہی 6,47,000افراد نے احمدیت کو پہچانا ہے۔ حضورِ انور ایدہ اللہ تعالیٰ احباب جماعت کی تعلیم و تربیت پربھی بہت زور دے رہے ہیں۔ چنانچہ آپ نے احباب جماعت کو خصوصی دعاؤں کی تحریک فرمائی، نفلی روزہ رکھنے کی تحریک فرمائی ،حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے جاری کردہ نظام وصیت میں شامل ہونے کی تحریک فرمائی۔ نور فاؤنڈیشن کو قائم فرمایا ،طاہر فاؤنڈیشن کا آغازفرمایا ۔ آپ کے دورِ خلافت میں قرآن کریم کے تراجم کےکام میں مزید وسعت پیدا ہوئی اور اب اللہ تعالیٰ کے فضل سےجماعت احمدیہ دنیا کی 75زبانوں میں قرآن کریم کا ترجمہ شائع کر چکی ہے۔ 212ممالک میں جماعت احمدیہ کا پودا لگ چکا ہے۔ دنیا میں 2,826مشن ہاؤسز قائم ہیں۔ واقفین نو کی تعداد 66,525ہو چکی ہے۔ مختلف زبانوں کے ڈیسک قائم ہیں جن میں عربی، روسی، فرانسیسی ، بنگلہ ، ترکی ، جاپانی، سواحیلی، انڈونیشین اور چینی شامل ہیں جماعتی کتب کے تراجم کرنے میں مصروف ہیں۔ ہر سال کروڑوں کی تعداد میں تبلیغی لیف لیٹس اور فلائرز تقسیم کیے جارہے ہیں۔ ریویو آف ریلیجنز جس کا آغاز حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کے دور میں ہوا ، اس کو موجودہ دور میں ایک نئی زندگی عطا ہوئی۔ پرنٹنگ پریس کی تعداد میں اضافہ ہوا۔ مخزن تصاویر کا شعبہ قائم فرمایا تا جماعتی تاریخ تصویری شکل میں محفوظ ہو جائے۔ الحکم کا دوبارہ اجرا ءکیا گیا۔ گلدستہ علم و ادب کا آغاز ہوا۔ ہیومینٹی فرسٹ کے کاموں میں مزید وسعت پیدا ہوئی اور اب یہ ادارہ دنیا کے 50ممالک میں رجسٹرڈ ہے ۔ ایم ٹی اے کا آغاز خلافت رابعہ میں ہوا اور اب اللہ تعالیٰ کے فضل سے ایم ٹی کے چار چینلز ایم ٹی اے ون، ایم ٹی اے ٹو، ایم ٹی اے العربیہ اور ایم ٹی اے افریقہ جاری ہو چکے ہیں۔ دنیا میں جماعت احمدیہ کے کل 21ریڈیو سٹیشنز جاری ہیں جن کے ذریعہ 77ممالک میں احمدیت کا پیغام پہنچ رہا ہے۔خلافتِ احمدیہ کی اپنی جماعت اور دنیا کی تعلیم و تربیت کے لیے درد کی یہ انتہا ہے کہ اپنے دور خلافت میں حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ نے ایک مختصر سے وقت میں کل 29ممالک کے109مرتبہ دورےفرمائے۔1,071ایام آپ دورہ پر رہے اور ان دورہ جات کے ذریعہ آپ نے 42مساجد کا سنگ بنیاد رکھا، 103مساجد کا افتتاح کیا، 14,237بااثر اور پڑھے لکھے لوگوں سے ملاقات فرمائی جبکہ 1,90,692 احمدیوں سے ملاقات کی۔

امن عالم کے لیےآپ انتھک مساعی فرمارہے ہیں۔ اس کے لیے آپ نے دنیا کے بڑےمذہبی و سیاسی لیڈروں کو خطوط لکھے اور ان کو نصیحت فرمائی کہ وہ دنیا میں امن قائم رکھنے کے لیے اپنا کرد ارادا کریں۔دنیا کے مختلف بڑے ممالک کے پارلیمنٹس میں نہایت جرأت سے ان کی غلط پالیسیوں کی نشان دہی کرتے ہوئے ان کی راہنمائی فرمائی۔مختلف ممالک کے اعلیٰ لیڈرز جب بھی آپ سے ذاتی ملاقات کے لیے حاضر ہوتے ہیں تو آپ ان کوانتہائی مفید مشوروں سے نوازتے ہیں۔ پریس کانفرنسوں اور پریس ریلیز کے ذریعہ بھی آپ نے امن عالم کے لیے اپنی جد و جہد کو جاری رکھتے ہوئے ایک بہترین لائحہ عمل پیش فرمایا۔ نیز متعددPeace Symposiumsکے ذریعہ آپ اسلام کی پر امن تعلیم سے دنیا کو روشناس کروانے کے جہاد کو جاری رکھے ہوئے ہیں۔ پس اس سے بڑھ کر جہاد کیا ہوسکتا ہے؟

مزید برآں خلافت کے زیر سایہ ایک ایسا نظام بھی قائم ہے جو احباب جماعت سے مل کر ان کی اعلیٰ تربیت کی کوشش کرتا ہے۔ اسی نظام کا ایک حصہ جامعہ احمدیہ میں مبلغین کی تیاری بھی ہے جس میں حضورِ انور ایدہ اللہ تعالیٰ کی ذات کا بہت بڑا کردار ہے۔ آپ انتہائی گہرائی میں جا کر ان کی ٹریننگ کرتے ہیں تا وہ بھی آپ کے منشا ءکے مطابق جماعت احمدیہ کے افراد کی صحیح رنگ میں تربیت کر سکیں۔ خلیفۂ وقت کا احباب جماعت سے ایک ذاتی تعلق بھی قائم ہے جس کے ذریعہ ہر ایک شخص اپنے مسائل آپ کے سامنے پیش کرسکتا ہے اورآپ، جیسا کہ آپ نے اپنے خطبے میں ارشاد فرمایا، نہ صرف دعاؤں کے ذریعہ بلکہ عمل کے ذریعہ بھی ان کی مدد فرماتے ہیں۔ اسی طرح حضورِ انور کےاحباب جماعت کو بھجوائے گئے خطوط ہیں جو ہرروز ہزاروں چہروں کی خوشی کا باعث بنتے ہیں۔

پس یہ وہ جہاد ہے جو آج دنیا میں صرف اور صرف خلافتِ احمدیہ ہی کر رہی ہے تا دنیا والے اسلام کی سچی تعلیم کو پہچان کر اس کے جھنڈے تلے جمع ہو جائیں اورتا وہ جو صداقت کو پہچان چکے ہیں کبھی اس راہ راست سے بھٹک نہ جائیں۔ پس اگر آج روئے زمین پر جہاد اکبر کی اعلیٰ مثال کہیں قائم ہے تو وہ جماعت احمدیہ میں خلافت کا نظام ہے ۔

جماعت احمدیہ میں اب اللہ تعالیٰ کے فضل سے خلافت خامسہ کا دور جاری ہے۔تاریخ پر نظر ڈال کر یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ ہر دور میں خلافت کے ذریعہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے کس قدرنظام جماعت میں مضبوطی پیدا ہوئی ہے جس کا مختصر ذکر اس مضمون میں بھی موجود ہے مگرایک عام آدمی یہ احساس نہیں کر سکتا کہ خلیفہ وقت اللہ تعالیٰ سے ہمت پا کر کس حد تک احباب جماعت کی بھلائی، تعلیم و تربیت اور دنیا کی بہتری کے لیے کوشش کرتے ہیں۔ان کی جدوجہد کا صرف ایک محدود اندازہ لگایا جاسکتا ہے مگر اس کا مکمل علم صرف خدا کو ہوتا ہے جس کی خاطر وہ یہ سب کچھ کرتے ہیں ۔ایک عام آدمی یہ طاقت نہیں رکھتا کہ وہ ایسےالفاظ تلاش کرسکےجن سے خلیفہ وقت کی اس جد و جہد کے ساتھ انصاف کیا جاسکے۔ اور نہ ہی تنہائی میں کی گئی گریہ و زاری اور سجدوں کی کیفیت کا اندازہ لگایا جاسکتا ہےجوخلیفہ وقت خدا کے حضور کرتے ہیں۔مگر یہ سچ ہے کہ ان کی یہ کوشش اللہ تعالیٰ کے بے پناہ فضلوں کو کھینچنے والی کامیاب کوشش ہے اور خدا کو راضی کرنے والی کوشش ہے جو کہ در اصل جہاد اکبر کا اصل مقصد ہے۔ اللہ تعالیٰ ہم سب پر خلافتِ احمدیہ کا سایہ قیامت تک جاری رکھے۔آمین

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button