کیا خاتم النبیین کا معنی ہر لحاظ سے آخری نبی ہے؟ (قسط دوم)
مصنف ابن ابی شیبہ میں جہاں حضرت ام المومنین عائشہ صدیقہؓ کا قول درج ہے جواسی عنوان کے تحت پچھلی قسط میں بیان کیا جاچکا ہے کہ نبی اکرمﷺ کو خاتم النبیین تو کہو مگر یہ نہ کہو کہ آپؐ کے بعد کوئی نبی نہیں، اسی قول کے نیچے صحابی رسولؐ حضرت مغیرہؓ بن شعبہ کا اسی موضوع پر ایک قول درج کیا گیا ہے جس میں وہ فرماتے ہیں :
27187۔ حدثنا أبو أسامۃ، عن مجالد قال: أخبرنا عامر قال: قال رجل عند المغیرۃ بن شعبۃ: صلی اللّٰہ علی محمد خاتم الأنبیاء لا نبیّ بعدہ، قال المغیرۃ: حَسْبک إذا قلتَ: خاتم الأنبیاء، فإنا کنا نحدّث أن عیسی خارج فإنْ ھو خرج، فقد کان قبلہ و بعدہ (المُصَنَّفُ لاِبْنِ أَبِيْ شَیْبَۃَ المجلد الثالث عشر کتاب الأدب۔ باب 221 من کرہ ان یقول: لا نبیّ بعد النبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم)
ایک شخص نے حضرت مغیرہ بن شعبہؓ کے سامنے کہا کہ محمدﷺ پر درود ہو جو خاتم الانبیاء ہیں جن کے بعد کوئی نبی نہیں۔ حضرت مغیرہؓ نے کہا کہ تمہارے لیے خاتم الانبیاء ہی کہنا کافی ہے کیونکہ ہم یہ کہا کرتے تھے کہ عیسیٰؑ ظاہر ہوں گے پس اگر وہ ظاہر ہوں گے تو اُن سے (یعنی نبی اکرمﷺ سے) پہلے بھی ہوں گے اور بعد میں بھی۔
حضرت عائشہ صدیقہؓ کی طرح حضرت مغیرہؓ بن شعبہ کے اس قول سے بھی صاف معلوم ہوتا ہے کہ لفظ’’خاتم النبیین‘‘ کا مطلب نبیوں کو ختم کرنے والا یا آخری نبی نہیں ہے کیونکہ صحابہ کرامؓ کا عقیدہ تھا کہ نبی اکرمﷺ کے بعد عیسیٰ علیہ السلام کے نام سے ایک نبی آنے والا ہے لہٰذا نبی اکرمﷺ آخری نبی نہیں ہیں اور یہ کہنا جائز نہیں کہ آپﷺ کے بعد کوئی نبی نہیں ہے۔
حضرت مغیرہؓ بن شعبہ کے اس قول سے غیراحمدی یہ استدلال کرسکتے ہیں کہ اگرچہ یہ تو ثابت ہوگیا کہ خاتم النبیین کا مطلب آخری نبی نہیں ہے لیکن اس سے یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ صحابہ کرامؓ کا عقیدہ یہ تھا کہ جو عیسیٰ علیہ السلام نبی اکرمﷺ سے پہلے ظاہر ہوئے تھے وہی عیسیٰ علیہ السلام نبی اکرمﷺ کے بعد بھی ظاہر ہوں گے، اس لیے جماعت احمدیہ کا وفاتِ مسیح کا عقیدہ غلط ثابت ہوگیا۔
اس استدلال کا ردّ یہ ہے کہ اوّل تو نبی اکرمﷺ کی وفات پر تمام صحابہ کرامؓ کا اس بات پر اجماع منعقد ہوچکا تھا کہ نبی اکرمﷺ سے پہلے تمام انبیاء علیہم السلام گزرچکے یعنی وفات پاچکے ہیں۔ اس لیے اب اس اجماع کے خلاف کوئی قول تسلیم نہیں کیا جاسکتا۔ لیکن قابل غور بات یہ ہے کہ حضرت مغیرہؓ بن شعبہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے لیے نبی اکرمﷺ سے پہلے اور بعد دونوں زمانوں میں ظہورکے لیے لفظ ’’خارج‘‘ اور ’’خرج‘‘ استعمال کررہے ہیں جن کا مطلب ظاہر ہونا یا پیدا ہونا ہے جیسا کہ اللہ تعالیٰ قرآن مجید میں فرماتا ہے
وَ اللّٰہُ اَخۡرَجَکُمۡ مِّنۡۢ بُطُوۡنِ اُمَّہٰتِکُمۡ…
اور اللہ نے تمہیں تمہاری ماؤں کے پیٹوں سے نکالا… (النحل:79)
اس کا مطلب یہ ہے کہ جس طرح حضرت عیسیٰ علیہ السلام نبی اکرمﷺ سے پہلے ظاہر ہوئے تھے یعنی اپنی ماں کے پیٹ سے پیدا ہوئے تھے اُسی طرح نبی اکرمﷺ کے بعد آنے والا عیسیٰ بھی آسمان سے نازل نہیں ہوگا بلکہ اپنی ماں کے پیٹ سے ہی پیدا ہوگا۔
اس سلسلہ میں تیسری دلیل یہ ہے کہ دنیا کی تمام زبانوں کی طرح عربی میں بھی مقام ’’الف ‘‘سے مقام ’’ب ‘‘پر جا کر دوبارہ مقام ’’الف‘‘ پر آنے کو ’’رجع‘‘ یعنی واپس آنا کہتے ہیں۔
ایک روایت کے مطابق جب حضرت عمرؓ یہ کہہ رہے تھے کہ نبی اکرمﷺ فوت نہیں ہوئے بلکہ موسیٰ علیہ السلام کی طرح اپنے ربّ سے ملنے گئے ہیں اور اسی طرح ’’واپس‘‘ آئیں گے جس طرح موسیٰ علیہ السلام ’’واپس‘‘ آئے تھے۔ اپنے اس قول میں حضرت عمرؓ نے لفظ ’’نزل‘‘ نہیں بلکہ ’’رجع‘‘ استعمال کیا ہے۔
’’ان رجالا من المنافقین یزعمون أن رسول اللّٰہﷺ قد توفي، و ان رسول اللّٰہ ما مات، ولکنہ ذھب الی ربہ کما ذھب موسی بن عمران، فقد غاب عن قومہ أربعین لیلۃ، ثم رجع الیھم بعد أن قیل مات، وواللّٰہ لیرجعن رسول اللّٰہﷺ کما رجع موسی، فلیقطعن أیدي رجال و أرجلھم زعموا أن رسول اللّٰہﷺ مات۔ ‘‘
(السیرۃ النبوؐیۃ لأبن أسحٰق، صفحہ713، السیرۃ النبوؐیۃ لأبن ہشّامجلد4صفحہ306)
منافقوں میں سے کچھ لوگ یہ دعویٰ کررہے ہیں کہ رسول اللہﷺ فوت ہوگئے ہیں۔ حالانکہ وہ مرے نہیں بلکہ وہ اپنے رب کی طرف گئے ہیں جیسا کہ موسیٰ بن عمران گئے تھے۔ پس وہ اپنی قوم سے چالیس راتیں غائب رہے تھے پھر ان کی طرف واپس آگئے تھے پھر اس کے بعد مرے تھے۔ اللہ کی قسم رسول اللہﷺ بھی ضرور واپس آئیں گے جس طرح موسیٰ واپس آئے تھے۔ اور ضرور ان لوگوں کے ہاتھ پاؤں کاٹیں گے جو یہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ مرگئے ہیں۔
ان دونوں حوالوں سے جہاں یہ معلوم ہوتا ہے کہ خاتم النبیین کا مطلب آخری نبی یا نبیوں کو ختم کرنے والا نہیں ہے وہاں یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ نبی اکرمﷺ کے آخری نبی ہونے اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے زندہ آسمان پر اٹھائے جانے اور پھر زندہ بجسمہآسمان سے نزول پر اجماع نہیں ہے۔ فھوالمراد!
(مرسلہ:انصر رضا واقفِ زندگی۔ کینیڈا)