حاصل مطالعہ

حاصل مطالعہ

(نوٹ: ادارہ الفضل انٹرنیشنل کا اس کالم کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں)

جب مشن کی جگہ شکم لے لے تو…شریعت کدے عشرت کدوں میں تبدیل ہوجاتے ہیں

اہلِ تشیع کے علماء اور اہل مدارس کا احوال سنیں جومبینہ طورپر دینِ حَقّہ کی حرمت اور قوم کی آبرو بیچ بیچ کردین کے نام پر اپنی دکانیں چلا رہے ہیں۔

چنانچہ بھارتی اردو اخبار ’’صحافت‘‘کے چیف ایڈیٹر مکرم امان عباس صاحب لکھنؤ سے اپنی رپورٹ میں لکھتے ہیں :

’’مولانا مرزامحمدعالم مرحوم کے قول کی روشنی میں اگر ہم بین الاقوامی شیعہ اداروں اور ان سے وابستہ دینی شخصیتوں کو فی الحال چھوڑ بھی دیں اور فقط اپنے وطن ہندوستان کے مرکز شیعیت لکھنؤ کی بات کریں تو عوام تو درکنار بیشتر علماء کو بھی اس کا احساس نہ ہوسکا کہ شریعت کدے کب عشرت کدوں میں تبدیل ہوگئے اور علماء ندارد۔ کچھ اگر باقی بھی ہوں گے تووہ عافیت کدوں میں منہ چھپائے پڑے ہیں۔

اس حقیقت کا انکشاف کچھ عرصہ قبل تب ہوا جب ایک ایرانی عالمی وفد کسی عالم کی سربراہی میں لکھنؤ آیا۔ عموماً اس قسم کے وفد جب دینی مدارس وقومی اداروں میں جاتے ہیں تو رقوم شریعہ تقسیم کرتے ہیں۔ اسے مقامی مولوی کا کمینہ پن کہیے یا گروہی رقابت، اس نے اس وفد کا دورہ نہ ایک بزرگ کے مدرسہ میں کرایا نہ اپنے یہاں مدعوکرکے ان سے ملاقات کروائی۔ ان عالم کو اس کا علم تب ہوا جب یہ وفد دورہ ختم کرکے لکھنؤ سے نکل چکا تھا۔ انہوں نے آناً فاناًایرانی عالم کو فون ملاکراپنا احتجاج درج کراتے ہوئے کہا کہ آپ لکھنؤ آئے اور علماء سے ملے بغیر چلے گئے، جس پر ادھر سے برجستہ جواب ملا کہ لکھنؤ میں اب علماء کہاں ہیں ؟۔

لکھنوی عالم کو اس طرح کے جواب کی امید نہ تھی۔ انہوں نے بھی غصہ میں کہہ دیا کہ ایران میں بھی علامہ مجلسی کے بعد کون عالم پیداہوا۔ اس پر بات کو ختم کرتے ہوئے کہہ دیا جاتا ہے کہ ٹھیک ہے آئندہ ان شاء اللہ ملاقات ہوگی لیکن عبرت حاصل کرنے والوں کو دعوتِ فکرومحاسبہ دے گئی…۔

آج صورت حال اتنی بھیانک ہو گئی ہے کہ دین کے نام پرادارے یا دکانیں چلانے والے سیدھے دین کو ہی بیچ رہے ہیں۔ ایک طرف جواد نقوی ایسے لوگ ہیں جو اپنے مخالفین کو MI6 کا ایجنٹ ملنگنی واخباری کہتے ہیں دوسری طرف مخالف گروہ پر جب یہ لوگ حملہ آور ہوتے ہیں تووہ ان کو مقصّر کہہ کر اپنی ناکامیوں پرپردہ ڈالنے کی کوشش کرتے ہیں۔

بہرحال کاروبار دونوں کا چل رہا ہے اور ان دوپاٹوں کے درمیان پس رہی ہے دینِ حقہ کی حرمت اور قوم کی آبرو۔ اور خراب ہو رہے ہیں ہمارے نوجوانوں کے عقیدے اورمستقبل۔

غالباً ایسا اس لیے ہو رہا ہے کہ ہمارے آج کے علماء میں سے بیشتر نے دینی وقومی خدمت میں مشن کے اوپر شکم کو ترجیح دینا شروع کردی…بات فقط شکم پروری کی ہوتو بھی کسی حد تک برداشت کرلی جائے لیکن جب دینی عقائد و مسلمات کے سودے ہوں تو بولنا فرض ہوجاتا ہے۔ ‘‘

(صحافت دہلی صفحہ اول اشاعت ہفتہ 9؍مئی 2020ء)

http://sahafat.in/delhi/p-1-1.htm

’’جنابِ مولوی نے مسلمان کو مروادیا‘‘

’’نجات کا راستہ اسی میں ہے کہ مولویوں سے نجات حاصل کیجیے‘‘

معروف صحافی اور دانشورمحترم ظفرآغا صاحب ایڈیٹرقومی آواز اخبار کی اشاعت 6؍اکتوبر 2019ءمیں ایک طویل تجزیہ بعنوان

’’اب علماء سے دست برداری میں ہی نجات‘‘ میں اس نتیجہ پر پہنچے ہیں کہ مسلمانوں کی نجات کا واحد راستہ مولویوں سے نجات حاصل کرنا ہے کیونکہ ان کی موجودہ افسوسناک حالت کے ذمہ دار یہی مولوی ہیں۔ آپ کہتے ہیں :

’’کبھی کبھی قوموں پر پڑنے والی آفت کچھ ہی عرصے میں نعمت بن جاتی ہے۔ شرط صرف یہ ہے کہ آفت میں مبتلا قوم اپنے اوپر پڑنے والی بلا سے کوئی سبق حاصل کر کے اپنی نجات کی راہ تلاش کرتی ہے یا نہیں۔ لیکن اگر وہی قوم غفلت کی نیند سوتی رہے تو وہ بلا پھر اسے جہنم تک پہنچا دیتی ہے۔ ہم ہندوستانی مسلمانوں کا بھی کچھ ایسا ہی حال ہے۔ اس وقت اس ملک کی اقلیت جس آفت کی شکار ہے اس کی مثال آزادی کے بعد تو کہیں نظر نہیں آتی ہے۔ لیکن افسوس کہ کہیں یہ آثار نظر نہیں آ رہے ہیں کہ ہندوستانی مسلمان اس آفت و بلا کا کوئی سدباب تلاش کر رہا ہے۔ ظاہرہے کہ ان حالات میں مسلم اقلیت کی زندگی موجودہ حالات میں جہنم جیسی بنتی جا رہی ہے مگر اس پر بھی شکایت کے سوا کوئی کوشش کہیں نظر نہیں آتی۔ خیر اس سے قبل کہ پریشانی کا کوئی حل تلاش ہو، یہ تو معلوم ہو نا ہی چاہیے کہ پریشانی کا سبب کیا ہے! صرف یہ روتے رہنے سے کہ ’ہائے مودی نے مار دیا‘ تو کوئی کام بننے والا نہیں۔ تو آئیے پہلے اس بات پر نظر ڈالیں کہ ہندوستانی مسلمان اس نوبت کو کیوں پہنچا جہاں وہ آج ہے!

یوں تو ہندوستانی مسلمان سن 1857ء میں مغلیہ سلطنت کے بعد سے آج تک پسماندگی کا شکار ہے لیکن وہ ایک لمبی کہانی ہے۔ آزادی کے فوراً بعد ہی فرقہ وارانہ فسادات کا سلسلہ شروع ہو گیا اور آئے دن کے فسادات نے قوم کو بقا کے مسائل میں الجھائے رکھا۔ لیکن سن 1990ء کی دہائی میں بابری مسجد، رام مندر تنازع سے لے کر اب تک مبتلا کسی نہ کسی بلا نے مسلم اقلیت کو پریشانیوں نے سر اٹھانے کی مہلت تک نہیں دی۔ سچ پوچھیےتو اس بلائے ناگہانی کا سلسلہ شاہ بانو کیس میں سپریم کورٹ کے فیصلے کےبعد سے شروع ہوا۔ ادھر طلاق ثلاثہ پر سپریم کورٹ نے طلاق شدہ عورت کو نان ونفقہ کا حق عطا کیا اور بس ادھر سنگھ کی قیادت میں ہندو قدامت پسند اور مسلم مخالف طاقتوں کو گویا ایک نئی جان مل گئی…۔

کسی بھی قوم کی ذی شعور اور ایماندار قیادت کا کام یہ ہے کہ وہ اپنے مخالفین کی حکمت عملی کا صحیح تجزیہ کر کےاپنی قوم کے مسائل کاحل تلاش کرے۔ ادھر سنگھ نے تو اپنا کام شروع کر دیا ہے۔ لیکن مسلم قیادت نے اس سلسلہ میں جو طرز عمل اپنایا وہ انتہائی غیر دانشمندانہ تھا۔ چونکہ طلاق ثلاثہ شرعی معاملہ تھا اس وجہ سے اس مسئلہ میں مسلم پرسنل لاء بورڈ سب سے پہلے آگے آیا۔ حالانکہ اس ایشو میں اس وقت میڈیا میں پیش پیش مرحوم شہاب الدین تھے جو کوئی عالم دین نہیں تھے۔ مسلم پرسنل لاء بورڈ نےتین طلاق کے سلسلے میں ضد پکڑ لی کہ مسلم پارٹی اس معاملہ میں کسی قسم کی تبدیلی برداشت نہیں کرے گی۔ حد یہ ہے کہ اس وقت راجیو گاندھی حکومت کو سپریم کورٹ کے فیصلے کو بدلنے کے لئے مجبور کیا گیا۔ جبکہ خود پرسنل لاء بورڈ کے بقول قرآن طلاق ثلاثہ کی اجازت نہیں دیتا۔ وہ مانتے ہیں کہ طلاق ثلاثہ بدعت ہے اور یہ رسم ختم ہونی چاہیے۔ لیکن صاحب ضد نہیں چھوڑی گئی۔ بس جناب سنگھ اور بی جے پی کو موقع مل گیا۔ انہوں نے تین طلاق پر مسلمانوں کو بدنام کر دیا اور یہ پیغام بھی پہنچا دیا کہ مسلمان تو آبادی بڑھا کر اس ملک کو پھر سے پاکستان بنانا چاہتے ہیں۔

اس طرح ہندوؤں کے ذہنوں میں مسلم دشمنی کا بیج بو دیا گیا۔ جلدی ہی سن 1986ء میں بابری مسجد کا تالا کھول دیا گیا۔ سنگھ اور بی جے پی کو رام مندر بابری مسجد کا قضیہ مل گیا۔ انہوں نے یہ کہنا شروع کر دیا کہ مسجد تو بھگوان رام کی جائے پیدائش پر بنی ہے۔ اس کو ہٹاؤ۔ مسلمان نے جواب میں کہا کہ ہم جان دے دیں گے لیکن مسجد نہیں ہٹائیں گے۔ سنگھ کی حکمت عملی صاف تھی، انہوں نے کہا، دیکھا مسلمان بھگوان کا بھی احترام نہیں کر سکتے۔ ان کے پاس محلہ محلہ مسجد ہے لیکن پھر بھی یہ ہم کو رام مندر نہیں دے سکتے۔ مسلم پارٹیوں نے نعرۂ تکبیر کے ساتھ مسجد کے لئے جلسے جلوس نکالنے شروع کر دیے۔ کچھ عرصے بعد اس مسئلہ میں وشو ہندو پریشد کو د پڑا۔ مسلم علماء اور خود ساختہ بابری مسجد ایکشن کمیٹی کے لیڈران اپنی ضد پر اڑے رہے، ادھر سنگھ یہ میسج دیتا رہا کہ مسلمان صرف ہندو دشمن ہی نہیں بلکہ ہندو بھگوانوں کا بھی دشمن ہے۔ اور اس طرح مسلمانوں کے خلاف ایک کثیر ہندو ووٹ بینک تیار ہونا شروع ہو گیا۔ آخر مسجد گئی، ہزاروں مارے گئے۔ لیکن مسلم ضد کے سبب ہندو ووٹ بینک بن کر ایسا تیار ہوا کہ آخر نریندر مودی نے ہندوستان کو مستحکم ہندو راشٹر بنا دیا۔

…خیر، اس طویل کہانی کا لبِّ لباب کیا ہے!جناب مولوی نے مسلمان کو مروا دیا، جی ہاں شاہ بانو کے وقت سے اب تک مسلم سیاست کی باگ ڈور یا تو علماء کے ہاتھوں میں رہی یا پھر مسلم سیاست شرعی لب و لہجے وجذبات میں ہوتی رہی جس کے ردعمل میں سنگھ و بی جے پی ہندو رد عمل کی سیاست کرکے ایک مستحکم ہندو ووٹ بینک بنانے میں کامیاب ہوتی گئی جبکہ آج آپ دوسرے درجے کے شہری بن گئے۔

تو پھر اس بلائے ناگہانی سے بچنے کا راستہ کیا ہے! پہلی بات تو یہ واضح ہے کہ اکیسویں صدی میں جو قوم کھل کر مذہب کے نام پر سیاست کرے گی وہ محض پستی و تباہی کا شکار ہوگی۔ دوسرا یہ کہ اگر مسلمان جذبات کی سیاست کرے گا تو سنگھ اور بی جے پی ہندو دھرم اور ہندو مفاد و جذبات کی بات کریںگے اورپھر آخر اقلیت کہیں کی نہیں رہے گی۔ اور مسلمانوں میں اس طرز کی قیادت کرنے کی علماء اور جذبات کی سیاست کرنے والے اویسی جیسے لیڈارن ہیں۔ اس لیے نجات کا راستہ اسی میں ہے کہ مولویوں سے نجات حاصل کیجیے ورنہ مودی سے نجات نہیں ملے گی۔ ان علماؤں نے تو سنگھ کے دربار میں حاضری لگا کر اپنی نجات کا راستہ ڈھونڈ لیا ہے۔ آپ بھی عقل کے ناخن لیں ان سے دامن چھوڑائیں ورنہ آنے والی نسلیں بھی آپ کو معاف نہیں کریںگی۔

( ’’قومی آواز ‘‘ اشاعت 6؍اکتوبر 2019ء)

https://www.qaumiawaz.com/social/indian-muslims-should-git-rid-of-islamic-scholars-for-their-betterment-article-by-zafar-agha

محترم ظفرآغا صاحب کی خدمت میں مؤدبانہ التماس ہے کہ آپ نے یہ تو معلوم کرلیا کہ مسلمان اپنےعلماء کے ہاتھوں موجودہ حالت تک پہنچے ہیں۔ لیکن کیاآپ نے یہ معلوم کرنے کی کوشش بھی کی کہ خود علماء کس وجہ سے اس حالت کوپہنچے؟ اگر نہیں تو اس کا علم آپ کوجماعت احمدیہ کے دوسرے امام حضرت مرزا بشیرالدین محمود احمدالمصلح الموعودؓ کے اس شعرکے ذریعہ ہو جائے گا۔ جوآپ نے سنہ 1907ءمیں کہا تھا :

ٹھہراتے ہیں کافر اسے جو ہادئ دیں ہے

یہ خوب نمونہ ہے یہاں کے علماء کا

(کلام محمود صفحہ 24 مطبوعہ قادیان 2000ء )

ہندوستان کے جملہ علمائےکرام اپنے متبعین سمیت اگر آج بھی اس زمانے کے ہادی حضرت مرزاغلام احمد قادیانی مسیح موعود ومہدی معہود پر ایمان لے آئیں توبفضلِ خدا ان کی اپنی حالت بھی سدھر جائے گی اور ان کے متبعین کی بھی۔

(مرسلہ: ڈاکٹر طارق احمد مرزا۔ آسٹریلیا)

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button