’’دنیا کا محسن‘‘ (قسط اول)
17؍جون 1928ء کو قادیان میں منعقد ہونے والے جلسے میں حضرت مصلح موعودؓ نے حضرت اقدس محمد مصطفیٰ ﷺ کی سیرت طیبہ کے موضوع پر نہایت پُرمعارف خطاب فرمایا جو بعد ازاں ’’دنیا کا محسن‘‘ کے عنوان سے زینتِ قرطاس بنا
جب تک تمام ادیان اور مختلف خطّوں کے بزرگان کا احترام نہ کیا جائے تب تک نہ خدا مل سکتا ہے اور نہ ہی دنیا میں امن قائم ہوسکتا ہے۔ چنانچہ 1928ء میں مذاہب کے درمیان رواداری کی فضا پیدا کرنے کے لیے جماعت احمدیہ نے ہندوستان کے طول و عرض میں جلسہ ہائے سیرۃالنبیﷺ کی بنیاد رکھی۔ ان جلسوں کے انعقاد کا پس منظر بیان کرتے ہوئے حضرت مصلح موعودؓ نے فرمایا کہ دنیا میں جسمانی اور روحانی لحاظ سے امن کا قیام اِسی پر ہے کہ اپنے خیالات اور اپنی زبانوں پر قابو رکھا جائے اور ایسے رنگ میں کلام کیا جائے کہ تفرقہ اور شقاق نہ پیدا ہو۔ ہندوؤں اور مسلمانوں میں بڑھتے ہوئے بُعد کو روکنے کا یہی طریق ہے کہ رسول کریم ﷺ کے متعلق مذہبی حیثیت کی بجائے علمی حیثیت سے جلسہ کیا جائے۔ اگر لوگ دوسرے مذاہب کے لیڈروں کی خوبیاں سن سکتے ہیں تو پھر کیا وجہ ہے کہ محمدﷺ کی خوبیاں وہ نہ دیکھ سکیں۔ ایسے جلسوں میں غیرمسلم لوگوں کے شامل ہونے سے روزبروز بڑھتی ہوئی خلیج دُور ہوسکتی ہے۔ نیز خود مسلمانوں کو بھی رسول کریم ﷺ کے حالات معلوم ہونے سے عقیدت اور اخلاص پیدا ہوسکتا ہے۔ پھر دوسرے مذاہب کے لوگ جب آپؐ کے صحیح حالات سنیں گے تو وہ اُن لوگوں کو روکیں گے جو آپؐ کو گالیاں دیتے ہیں۔ پس اس تحریک کو کامیا ب بنانے کی کوشش کرنی چاہیے تاکہ ہم اُس مقصد کو پالیں جو کہ ہندوؤں کو بھی پیار ا ہے اور مسلمانوں کو بھی اوروہ ہندوستان کا امن اور ترقی ہے۔
چنانچہ 17؍جون 1928ءکو قادیان میں منعقد ہونے والے جلسے میں حضرت مصلح موعودؓ نے حضرت اقدس محمد مصطفیٰ ﷺ کی سیرت طیبہ کے موضوع پر نہایت پُرمعارف خطاب فرمایا جو بعد ازاں ’’دنیا کا محسن‘‘ کے عنوان سے زینتِ قرطاس بنا۔ 75 صفحات پر مشتمل یہی کتابچہ آج ہمارے پیش نظر ہے۔ امرواقعہ یہ ہے کہ اس کتابچے کے ہر صفحے پر سیرت مقدّسہ کی ایسی داستان رقم ہےجو آنحضور ﷺ کے بنی نوع انسان پر کیے جانے والے اُن بےمثال احسانات سے عبارت ہے جن کی نظیر نہ کبھی اس سے پہلے دیکھنے میں آئی تھی اور نہ آئندہ کبھی زمانے کی آنکھ اس کا مشاہدہ کرسکے گی۔
اس مختصر رسالے کے مطالعے سے اُن تلاطم خیز جذباتِ محبت کا تو پوری طرح ادراک نہیں ہوسکتا جو ایک مقدّس وجود کے عشق میں فنا ہوکر اُس کا دل نشیں تذکرہ کرتے ہوئے آپؓ کے قلب صافی میں موجزن تھے۔ لیکن سرورِکائنات فخرِموجودات حضرت اقدس محمد مصطفیٰ ﷺ کی سیرت مطہّرہ کا بیان جب مظہرِالحق والعلاء کے لب شیریں سے ادا ہو رہا ہو تو پھر اس قادرالکلام سخنور کے پُرمعارف کلمات سے استفادہ کرنے والے جس روحانی لطف و سرور سے سرشار ہوتے ہیں، اس کیفیت کا اظہار بھی الفاظ میں بیان نہیں ہوسکتا۔ دراصل حضرت مصلح موعودؓ نے سیّد خیرالوریٰﷺ کے غیرمعمولی تقدّس، آپؐ کی بےلَوث قربانیوں اور عظیم الشان احسانات کا ذکرکرتے ہوئے ایسی منظرکشی فرمائی ہے کہ سامعین اور قارئین کی قوّتِ تخیل اُن کو قرونِ اولیٰ کے اُسی دَور میں لے جاتی ہے جہاں کا ہر منظر ہی دلفریب اور منفرد دکھائی دیتا ہے۔ مکّہ کے جاہل معاشرے میں رہنے والا ایک نافع النّاس وجود، شرک کی آماجگاہ میں بلندترین روحانی منصب پر فائز ایک مزکّی،کمزور اور بےبس لوگوں کا ایک پُرعزم سہارا، نئے تمدّن اور جدید تہذیب کی بنیاد رکھنے والا ایک عظیم المرتبت رہنما ، قیامت تک کے لیے بنی نوع انسان پر احسانات کا سلسلہ جاری کردینے والا ایک محسن اعظم جب وادی فاران میں نعرۂ توحید بلند کرتا ہے تو روحانیت سے نابلد اور اخلاق سے ناآشنا معاشرے میں بظاہر جانوروں کی سی زندگی بسر کرنے والی مخلوق دیکھتے ہی دیکھتے ایسے باخدا انسانوں کی صف میں شامل ہونے لگتی ہے جن کی زندگیوں میں پہلی بار دنیا کے ساتھ آخرت کا تصوّر اجاگر ہورہا ہے اور خالق حقیقی کی محبت کے ساتھ مخلوق کے حقوق کی ادائیگی بھی اُن کی زندگیوں کا نصب العین قرار پاتی ہے۔ گویا وہ ایسا شش جہت ہیرا ہے کہ جس زاویے سے بھی اس پر نگاہ ڈالی جائے تو اس کی چمک آنکھوں کو خیرہ کیے دیتی ہے اور اس مختصر سے کتابچے کا مطالعہ کرنے والا اُس محسنِ اعظم اورمجسّم اخلاق کی محبت کا اسیر ہوئے بِنا رہ ہی نہیں سکتا۔ بلاشبہ وہ دنیا کا ایسا محسن آقاؐ ہے جس کے حسن و احسان کے دل نشیں تذکرہ اور بنی نوع انسان پر اُس کے احسانات کا تصوّرکرکے بےاختیار دل حمدکے نغمے الاپنے لگتا ہے اور روح کی پاتال سے اٹھنے والے درود وسلام کے جذبات زبان سے ادا ہونے لگتے ہیں۔ اللّٰھُمَّ صَلِّ عَلیٰ مُحَمَّدٍ وَ عَلیٰ آلِ مُحَمَّد
حضرت مصلح موعودؓ کا یہ بصیرت افروز خطاب نہایت پُرحکمت انداز میں منفرد واقعات بیان کرتے ہوئے ایک تسلسل کے ساتھ آگے بڑھتا ہے اور آنحضور ﷺ کے حسن و احسان کے تمام تر پہلوؤں کا احاطہ کرتا ہے۔ بے شک یہ مضمون حضرت مصلح موعودؓ کے غیرمعمولی عشقِ رسولؐ کا بھی مظہر ہے اور آپؓ کی اُمّت مسلمہ سے بے پایاں ہمدردی کا آئینہ دار بھی۔ نیز یہ نوید بھی دیتا ہے کہ اس برگزیدہ رسولؐ کے عشق میں فنا ہوکر اُس کے لائے ہوئے دین کی آفاقی تعلیمات کو حرزجان بنانے والے ہی دونوں جہاں میں امن و سلامتی اور فلاح کی راہ پائیں گے۔
اس کتابچے کا پس منظر بیان کرنے کے بعد اب اس علمی اور تاریخی دستاویز کے مضامین پر طائرانہ نظر ڈالتے ہیں۔
رسول کریم ﷺ کے احسانات، آپؐ کی قربانیوں اور آپؐ کے تقدّس کے حوالے سے یہ مضمون تین بنیادی حصوں میں تقسیم کیا گیا ہے۔ چنانچہ تشہد،تعوذ اور سورۂ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضورؓ نے جن آیات کی تلاوت کی اُن میں مذکورہ تینوں امور کا بیان ہے۔ یعنی:
قُلۡ اِنَّ صَلَاتِیۡ وَ نُسُکِیۡ وَ مَحۡیَایَ وَ مَمَاتِیۡ لِلّٰہِ رَبِّ الۡعٰلَمِیۡنَ۔لَا شَرِیۡکَ لَہٗ ۚ وَ بِذٰلِکَ اُمِرۡتُ وَ اَنَا اَوَّلُ الۡمُسۡلِمِیۡنَ۔(سورۃالانعام:164-163)
حضورؓ نے فرمایا کہ اِس آیت میں رسول کریم ﷺ سے خداتعالیٰ نے کہلایا ہے کہ کہومیری عبادت یا میرا لوگوں سے حسنِ سلوک (یہ بھی صلوٰۃ کے معنی ہیں)اور میرا قربانیاں کرنا اور میری زندگی اور موت یہ سب خدا ہی کے لیے ہے۔ پہلی چیز صَلَاتِیْ میں لوگوں پر احسان کرنے کا دعویٰ ہے۔ دوسرے نُسُکِیْ وَمَحْیَایَ وَمَمَاتِیْمیں بتایا کہ میرا مرنا یعنی قربانی کرنا یہ بھی خدا ہی کے لیے ہے۔ اس آخری جملے میں تقدّس کی طرف اشارہ ہے۔ کیونکہ جو چیز خدا کے لیے ہوگی وہ پاک ہی ہوگی۔
پس اس آیت میں تینوں باتیں بیان کرکے ایک گُر بھی بتادیا کہ احسان اور قربانی اور تقدّس کی دلیل کیا ہوتی ہے۔ وہ یہ کہ کسی شخص کے اعمال کے ٹکڑے لینے کی بجائے اُس کی تمام زندگی پر نظر کرنی چاہیے اور اُس کی نیت کو دیکھنا چاہیے۔ صرف سز ا کو دیکھ کر یہ خیال کر لینا کہ یہ شخص ظالم ہے درست نہیں۔ مثلاً استاد کا شاگرد کو سزا دینا یا طبیب کا مریض کی سرجری کرنا ظلم نہیں کہلاسکتا۔ اگر صرف کسی تکلیف دہ فعل کو دیکھ کر اسے ظلم قرار دینا درست ہوسکتا ہے تو پھر ماننا پڑے گا کہ نَعُوْذُ بِاللّٰہِ خدا بھی ظالم ہے۔ لیکن خداتعالیٰ کے ہر فعل کی کوئی حکمت ہوتی ہے اور اُس کی طرف سے آنے والی سزا کو چاہے تناسخ کا نتیجہ سمجھو، چاہے اس دنیا کی زندگی کے اعمال کی جزا سمجھو، چاہے تنبیہ کے طور پر سمجھو، چاہے ترقی کا ذریعہ سمجھو۔ مگر بہر حال یہ تسلیم کرنا پڑے گا کہ وہ ظلم نہیں ہے بلکہ رحم ہے اور انسان کے فائدے کے لیے ہے۔ اسی طرح کسی انسان کے فعل میں ظلم اُس وقت ہوتا ہے جب شفقت ، ہمدردی اور خیرخواہی کی بجائے انتقام اور بدلہ لینے کے لیے سزا دی گئی ہو۔ اگر غصہ اور بے پروائی، بدلہ اور لذّتِ انتقام کے لیے سزادی جائے تو یہ فعل یا تو عبث ہوگا یا ظالمانہ کہلائے گا۔ لیکن اگر فعل کی غرض رضائے الٰہی، اصلاحِ نفس یا حفاظتِ بنی نوع انسان ہو تو یہ فعل بُرا نہ ہوگا۔ چنانچہ تمام بڑے مذہبی لیڈروں نے کسی نہ کسی رنگ میں لڑائی میں حصہ لیا ہے۔ رام چندر جی نے راون پر حملہ کرکے اسے تباہ کیا۔ اِسی طرح کرشن جی نے لڑائی میں حصہ لیا۔ دوسرے مذاہب میںبھی اگرچہ حضرت عیسیٰؑ کو لڑائی کا موقع نہیں ملا مگر ان کے پیروؤںنے حق کے لیے لڑائیاں کیں۔
یہی حال رحمت کا بھی ہے۔ رحم اُسی وقت اچھا ہوتا ہے جب نیک نیتی اور نیک ارادہ سے کیا جائے۔ مثلاًکسی پر رحم کھاکر اسے برائی سے نہ روکا جائے تو اسے کوئی اچھا نہ کہے گا۔ اِسی طرح طبعی رحم بھی کوئی حقیقت نہیں رکھتا۔ ایک شخص بزدلی کی وجہ سے کسی کو سزا نہیں دے سکتا تو یہ اس کی خوبی نہیں بلکہ نقص ہے۔ اِسی طرح اگر کوئی رِیا کے طور پر رحم کرے لیکن اُس کے دل میں بُغض بھرا ہو تو یہ بھی قابلِ قدر نہ ہوگا۔ یا اگر نیک سلوک کسی لالچ میں کرتا ہو تو یہ بھی قابلِ تعریف نہ ہوگا۔ لیکن اگر حُسنِ سلوک دلیل کے تحت ہو،کسی کے فائدے اور اصلاح کے لیے اور قیامِ امن کے لیے ہو تو یہ قابلِ قدر چیز ہوگی۔
نفس کے آرام کا بھی یہی حال ہے۔ اگر وہ لذت ِنفس، سستی یا تکبر کی غرض سے ہوتو بُرا ہے۔ لیکن اگر حکمت کے ماتحت ہو، اظہارِ شکر کے لیے ہوتو اچھا ہے۔ مثلاً اگر کوئی اس لیے سوتا ہے کہ تازہ دم ہو کر خدا کے لیے یا بنی نوع انسان کے لیے زیادہ محنت سے کام کر سکے گا تو اُس کا یہ آرام پانا قابلِ تعریف ہوگا۔ یا کوئی کھانا اس لیے کھاتا ہو کہ طاقت پیدا ہواور دین یا دنیا کی خدمت کر سکوں یا اچھے کپڑے اس لیے پہنتا ہو کہ اللہ کے احسانات کو ظاہر کرےتو یہ اچھی بات ہے۔
پس اس آیت میں یہ بتایا گیا ہے کہ لوگوں کو سزا دینا یا ان پر رحم کرنا ، کسی کو مارنا یا خود مرنا یا زندہ رہناا گر خدا کے لیے ہے تو اچھا فعل ہے۔ اور اگر خدا کے لیے نہیں تو پھر اچھا فعل نہیں ہے۔ اِسی گُر کے ماتحت رسول کریم ﷺکے اعمال کو دیکھنا چاہیے کہ آپؐ کی زندگی، آپؐ کی قربانی اور آپؐ کے احسانات لوگوں کے فائدے کے لیے تھے یا اپنے فائدے کے لیے۔ اگر یہ ثابت ہوجائے کہ آپؐ نے جو احسان کیے وہ اپنے نفس کے لیے تھے تو پھر خواہ آپؐ کے دس ہزار احسان گِنا دیے جائیں یہ آپؐ کی کوئی خوبی نہ ہوگی۔ اسی طرح اگر آپؐ نے کسی کو غصہ اور انتقام کے طور پر سزا دی تھی تو بے شک یہ بُری بات ہوگی۔ لیکن اگر یہ ایسی ہی سزا تھی جیسی خداتعالیٰ بھی اپنے بندو ں کو دیتا ہے اور جو دوسروں کے فائدہ کے لیے ہوتی ہے تو یہ قابلِ تعریف بات ہوگی۔
کئی دفعہ قربانی بھی بُری ہوجاتی ہے۔ چنانچہ جب ایک شخص اسلامی لشکر میں شامل ہوکر بڑے زور سے لڑتا رہا۔ لوگوں نے کہا یہ بڑی جانبازی سے لڑا ہے مگر رسول کریم ﷺ نے کہا یہ جہنمی ہے۔ یہ بات سن کر لوگوں کو بہت تعجب ہوا۔ آخر وہ زخمی ہوا تو پوچھنے پر اُس نے کہا کہ میں تو اس لیے لڑا ہوں کیونکہ مجھے اُس قوم سے بُغض تھا۔ تو رسول کریم ﷺنے اُس کے فعل کو پسند نہ کیا حالانکہ وہ آپؐ کی طرف سے لڑا تھا۔ لیکن چونکہ وہ صداقت کے لیے نہیں بلکہ نفسانیت کے لیے لڑا تھا اس لیے اس کا یہ فعل ناپسندیدہ ہوا۔
غرض جب مقصد اور مدعااچھا ہو تو سزا بھی اچھی ہوتی ہے۔ اور احسان بھی اچھا ہوتا ہے۔ لیکن اگر مقصد خراب ہو تو سزا بھی خراب ہوتی ہے اور احسان بھی۔
اس آیت میں تیسری چیز رسول اللہﷺکا تقدّس بیان ہوئی ہے۔ گو احسان اور قربانی میں ہی تقدّس کا ذکر آجاتا ہے کیونکہ نیک نیتی کے ساتھ دوسروں کے فائدے کے لیے خداتعالیٰ کی رضا کو مدّنظر رکھ کر کام کرنا ہی تقدّس ہے۔ مگر اصولی طور پر جب مصلحین کا سوال ہوتو سب سے مقدّم امر یہ ہے کہ کیا انہوں نے خود بھی اس امر کا دعویٰ کیا ہے جو اُن کی طرف منسوب کیا جاتا ہے؟ رسول کریم ﷺکے متعلق ہمیں صاف لفظوں میں تقدّس کا دعویٰ نظر آتا ہے:
فَقَدْ لَبِثْتُ فِیْکُمْ عُمُرًا مِّن قَبْلِہِ أَفَلَا تَعْقِلُوْنَ
کہ میں بچپن سے تمہارے اندر رہا ہوں۔ کیا میں نے کبھی جھوٹ اور فریب سے کام لیا؟ اِس دعویٰ کا ردّ چونکہ آپؐ کے دشمنوں نے نہیں کیا اِس سے معلوم ہوا کہ انہیں بھی آپؐ کے تقدّس کا اقرار تھا۔
ایک اَور شہادت آپؐ کے تقدّس کی یہ ہے کہ جب آپؐ کو پہلے پہل الہام ہوا تو عیسائیوں میںچونکہ الہامی کتاب تھی اور عربوں میں نہ تھی اِس وجہ سے حضر ت خدیجہؓ آپؐ کو ورقہ بن نوفل کے پاس لے گئیں جو عیسائی تھے۔ آپؐ کا الہام سن کر ورقہ نے کہا تمہاری قوم تمہیں تمہارے وطن سے نکال دے گی۔ کاش! مَیں اُس وقت جوان ہوتا تو تمہاری مدد کرتا۔ یہ سُن کر آپؐ کے منہ سے بے اختیار نکل گیا:
اَوَمُخْرِجِیَّ ھُمْ
کہ میں ہمیشہ ان لوگوں کا خیر خواہ رہا ہوں پھر کس طرح ممکن ہوسکتا ہے کہ یہ مجھے نکال دیں گے۔ یہ شہادت گو آپؐ کی اپنی شہادت ہے۔ مگر ماننا پڑے گا کہ سچی ہے۔ کیونکہ ایسے موقع پر منہ سے نکلی ہے جبکہ کسی بناوٹ کا شبہ بھی نہیں ہوسکتاتھا۔
پھر خاوند کی سب سے زیادہ راز دان بیوی ہوتی ہے۔ رسول کریم ﷺنے 25سال کی عمر میں ایک 40سالہ عورت سے شادی کی۔ 25سال کی عمرمیں مرد پورا جوان ہوتا ہے اور 40سالہ عورت بڑھاپے کی طرف جارہی ہوتی ہے۔ پھر آپؐ نے اس نکاح کے 15سال بعد نبوت کا دعویٰ کیا۔ اِس عرصے میں حضرت خدیجہؓ نے جو نتیجہ نکالا وہ یہ تھا کہ جب آپؐ کو الہام ہوا اور آپؐ اِس بات سے گھبرا گئے تو حضرت خدیجہؓ نے آپؐ کو تسلّی دیتے ہوئے کہا کہ خدا کی قسم! خدا کبھی آپؐ کو ضائع نہیں کرے گا۔ آپؐ اپنے رشتہ داروں سے حسن سلوک کرتے ہیں۔ بے کس کا بوجھ اٹھاتے ہیں۔ سارے عرب میں جو خوبیاں نہ تھیں آپؐ نے زندہ کیں۔ مسافر کی مہمانی کرتے ہیں اور کسی پر جائز مصیبت پڑے تو اُس کی مدد کے لیے تیار ہوتے ہیں……۔ یہ شہادت لوگوں کے سامنے نہیں دی گئی کہ اس میں بناوٹ کا شبہ ہو بلکہ علیحدہ گھر میں دی گئی ہے۔
بعض لوگ بیویوں سے تو اچھا سلوک کرتے ہیں مگر اپنے دوستوں سے اُن کا سلوک اچھا نہیں ہوتا۔ اس لیے مَیں آپؐ کے دوستوں کی شہادت پیش کرتا ہوں۔ ایک ایسے دوست کی شہادت جو آپؐ پر ایمان لایا اور ایک ایسے کی جو ایمان نہ لایا۔جو دوست ایمان لایا وہ حضرت ابوبکرؓ تھے۔ جب رسول کریم ﷺنے دعویٰ کیا تو حضرت ابوبکرؓ اُ س وقت مکہ سے باہر تھے۔ واپسی پر کسی سے سُنا کہ محمدؐ نے نبی ہونے کا دعویٰ کیا ہے۔ وہ یہ سُن کر اُٹھے اور آنحضورﷺکے دروازے پر دستک دی۔ آپؐ باہرآئے تو چاہا کہ اُن کو اپنے دعویٰ کے بارے میں بتائیں۔ لیکن انہوں نے کہا مجھے بتائیں کہ کیا یہ صحیح ہے کہ آپؐ نے رسالت کا دعویٰ کیا ہے؟ آپؐ نے فرمایا: ہاں۔ انہوں نے کہا میں جانتا ہوں کہ آپؐ نے کبھی جھوٹ نہیں بولا اور میں آپؐ پر ایمان لاتا ہوں۔
آپؐ کا ایک اَور دوست حکیم بن حزام تھا جو رسول کریم ﷺکی وفات کے قریب جا کر ایمان لایا۔21سال کے قریب وہ آپؐ کا مخالف رہا۔ مگر اتنا اخلاص رکھتا تھا کہ ایک بادشاہ کا مال جب مکّہ میں آکر نیلام ہوا تو ایک کوٹ جو کئی سَو کی قیمت کا تھا اور لوگوں کو بہت پسند آیا تھا اُس نے جب اُسے دیکھا تو کہنے لگا محمدؐ سے زیادہ یہ کسی کو نہ سجے گا۔ چنانچہ اس نے وہ کوٹ خرید لیا اورکئی دن کا سفر کرکے ہدیہ کے طور پر وہ کوٹ مدینہ لے کر آیا۔ اس اخلاص سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ یہ سمجھتا تھا کہ آپؐ کو غلطی لگ گئی ہے۔ مگریہ نہ سمجھتا تھا کہ آپؐ فریب دے رہے ہیں۔
رسول کریمﷺ کے تقدّس کے بارے میں ابو طالب کی لونڈی کی گواہی ہے کہ جب بچپن میںآپؐ اپنے چچا ابو طالب کے گھر آئے تو سارے بچے آپس میں لڑتے جھگڑتے تھے۔ مگر آپؐ نے کبھی ایسی باتوں میں حصہ نہ لیا۔ کھانے پینے کی چیزوں کو دیکھ کر سارے بچے لپک پڑتے مگر آپؐ کبھی آنکھ اٹھا کر بھی نہ دیکھتے۔ جو کچھ دے دیا جاتا کھا لیتے۔ خود کچھ نہ مانگتے۔ یہ آپؐ کے وقار، عزِ ت نفس اور سیر چشمی کے متعلق شہادت ہے۔
پھر رسول کریم ﷺکے ایک بڑے دشمن نضر بن الحارث کی شہادت ہے جس نے آپؐ کی مخالفت میں ہر طرح سے حصہ لیا۔ آپؐ پر پتھر پھینکے،آپؐ کے قتل کے منصوبے کیے۔ یہ اُن 19 اشخاص میں سے تھا جو رسول کریم ﷺکے قتل کے منصوبے میں شامل تھے۔ جب آپؐ کے دعوے کا چرچا پھیلا تو مکہ والوں کو فکر ہوئی کہ حج پر آنے والے اِن کے متعلق پوچھیں گے تو اُن کو کیا جواب دیں گے۔ اس پر قریش کے سردار اکٹھے ہوئے تاکہ سب مل کر ایک جواب سوچ لیں۔ اس مجلس میں ایک شخص نے کہا یہ کہہ دو کہ جھوٹا ہے۔ اُس وقت نضر بن الحارث کھڑا ہوا اور بڑے جوش سے کہنے لگا کہ جواب وہ سوچو جو معقول ہو۔ محمد تمہارے اندر پیدا ہوا، تمہارے اندر جوان ہوا، تم سب اسے پسند کرتے تھے اور اس کے اخلاق کی تعریف کرتے تھے، اسے سب سے سچا سمجھتے تھے۔ یہاں تک کہ وہ بوڑھا ہو گیا اور اس کے سر میں سفید بال آگئے اور اس نے وہ دعویٰ کیا جو کرتا ہے۔ اب اگر تم کہو گے کہ وہ جھوٹا ہے تو اسے کون جھوٹا مانے گا۔ لوگ تمہیں ہی جھوٹا کہیں گے۔
بہت بڑے دشمن کی یہ گواہی ایسی مجلس میں پیش کی گئی جو آپؐ کی مخالفت کے لیے منعقد کی گئی تھی۔
پھر ایک ایسا شخص جو بچپن سے آپؐ کی وفات تک آپؐ کے پاس رہا یعنی انسؓ۔ وہ بیان کرتے ہیں خواہ مجھ سے کوئی کام کتنا ہی خراب ہوجائے کبھی رسول کریم ﷺغصہ نہ ہوتے تھے۔ اور نہ ہی بُری نظر سے دیکھتے تھے۔ پھر آپؐ نے مجھے کوئی کام ایسا نہیں بتایا جو مَیں نہ کر سکتا تھا۔ اور جو کام مجھے بتاتے آپؐ بھی میرے ساتھ اس میں شامل ہوجاتے اور آپؐ کبھی سخت کلامی نہ کرتے تھے۔
پھر رسول کریم ﷺکے ساتھ جن لوگوں کو معاملہ پڑا، ان کی شہادت پر نگاہ ڈالیں۔ قیس بن سائب وہ شخص تھا جس سے رسول کریم ﷺنے مل کر تجارت کی تھی۔ وہ مدتوں تک مسلمان نہ ہوا۔ فتح مکہ کے بعد وہ آپؐ کے پاس آیا اور کسی نے بتایا کہ یہ فلاں شخص ہے تو آپؐ نے فرمایا: میں تمہاری نسبت اسے زیادہ جانتا ہوں، اس سے مل کر مَیں نے تجارت کی تھی۔ اُس نے کہا کہ اس سے اچھا شریک میں نے نہیں دیکھا۔ اس نے کبھی ٹھگی نہ کی،کبھی کوئی شرارت نہ کی اور کبھی کوئی جھگڑا نہ کیا۔
پھر کہا جاسکتا ہے کہ آپؐ بڑے آدمی تھے زندگی میں لوگ ڈرتے تھے اور کوئی مخالفانہ بات نہ کہہ سکتے تھے۔ لیکن آپؐ کی وفات کے بعد آپؐ کی بیوی حضرت عائشہؓ سے جب پوچھا گیا کہ رسول کریم ﷺکے خُلق کے متعلق کچھ بتایے تو انہوں نے کہا کَانَ خُلُقُہٗ الْقُرْاٰنُ۔قرآن میں جن اخلاقِ حمیدہ کا ذکر ہے وہ سارے کے سارے آپؐ میں پائے جاتے تھے۔ کسی کی دو بیویاں ہوں تو اس کے متعلق شکایت پیدا ہو جاتی ہے مگر آپؐ کی نو بیویاں تھیں اور بڑھاپے کی عمر کی تھیں۔ اور وہ بیویاں تھیں جن کو کبھی پیٹ بھر کھانا نہ ملا تھا۔ حضرت عائشہؓ کی محبت کا یہ حال تھا کہ کسی نے انہیں دیکھا کہ روٹی کھاتے ہوئے آنکھوں سے آنسو جاری ہیں۔ پوچھا یہ کیا؟ تو کہا کیوں نہ روؤں۔ رسول کریم ﷺفوت ہو گئے مگر کبھی چھنے آٹے کی روٹی مَیں پکا کر اُن کو نہ کھلا سکی۔ اب جو مَیں ایسی روٹی کھا رہی ہوں تو میرے گلے میں پھنس رہی ہے۔ اِس وقت اگر رسول کریم ﷺہوتے تو میں انہیں یہ روٹی کھلاتی۔
مگر حضرت عائشہؓ جو نوجوانی میں بیوہ ہوگئی تھیں، جنہیں کوئی دنیاوی آرام رسول کریم ﷺکی زندگی میں حاصل نہ ہوا تھا وہ آپؐ کے اخلاق کی ایسی معتقد ہیں کہ جب انہیں اچھی چیز ملتی ہے تو رسول کریم ﷺکو یاد کرتی ہیں۔
پھر آپؐ کے خلفاءکی شہادت ہے۔ عام طور پر جب کوئی کسی کا قائم مقام بنتا ہے تو اس کی مذمّت کرتا ہے تاکہ اپنی عزت قائم کرے۔ سوائے اس کے جس سے خاص روحانی اور اخلاقی تعلقات ہوں۔ چنانچہ حضرت ابو بکرؓ کے وقت میں عرب میں بغاوت ہوگئی اور لوگوں نے کہہ دیا ہم ٹیکس نہیں دیں گے تو آپؓ کو مشورہ دیا گیا کہ ان لوگوں سے مقابلہ پیش آگیا ہے اس لیے بغاوت فرو ہونے تک وہ لشکر روک لیا جائے جو رسول کریم ﷺنے وفات سے قبل تیار کیا تھا۔ مگر حضرت ابوبکرؓ کے دل میں رسول کریم ﷺکی اتنی عظمت تھی کہ کہنے لگے: ’’کیا ابن ابی قحافہ کی یہ طاقت ہے کہ رسول کریم ﷺکے بھیجے ہوئے لشکر کو روک لے؟ خدا کی قسم! اگر دشمن مدینہ میں آکر ہماری عورتوں کو گھسیٹنے لگے تو بھی میں رسول کریم ﷺکے بھیجے ہوئے لشکر کو نہیں روکوں گا‘‘۔ کوئی کہہ سکتا ہے اس واقعہ سے یہ ثابت نہیں ہوتا کہ بانی اسلام اپنے دعویٰ میں سچے تھے۔ مگر اِس سے یہ تو ضرور ثابت ہوتا ہے کہ وہ نہایت راستباز اور متقی انسان تھے کہ اُن کی وفات کے بعد بھی اُن کے قول کا پاس اُن کے شاگردوں کو غیر معمولی حد تک تھا۔
حضرت عمرؓ وہ انسان تھے جن کے متعلق عیسائی مؤرخ بھی لکھتے ہیں کہ انہوں نے ایسی حکومت کی جو دنیا میں اَور کسی نے نہیں کی۔ وہ رسول کریم ﷺکوگالیاں دیتے ہیں مگر حضرت عمرؓ کی تعریف کرتے ہیں۔ اگر رسول کریم ﷺکے کسی فعل سے بھی یہ بات ظاہر ہوتی کہ آپؐ خدا کی رضا کے لیے کام نہیں کرتے تو کیا حضرت عمرؓ جیسا انسان فوت ہوتے وقت یہ خواہش کرتا کہ آپؐ کے قدموں میں جگہ پائے۔ چنانچہ انہوں نے حضرت عائشہؓ سے کہلا بھیجا کہ اگر اجازت دیں تو مجھے آپؐ کے پہلو میں دفن کیا جائے۔
حضرت عثمانؓ کے زمانہ میں باغیوں نے اُ ن کو مارنے کا منصوبہ بنایا تو اُس وقت حضرت معاویہؓ نے یہ تجویز پیش کی کہ چونکہ باغی آپؓ کو مار کر کسی اَور صحابی کو خلیفہ بنانا چاہتے ہیں اس لیے آپؓ بڑے بڑے صحابہؓ کو باہر بھیج دیں۔ مگر اُس وقت جبکہ حضرت عثمانؓ کو اپنی جان کا خطرہ تھا انہوں نے کہا: یہ کس طرح مجھ سے امید کی جاسکتی ہے کہ مَیں اپنی جان بچانے کے لیے ان لوگوں کو مدینہ سے باہر بھیج دوں جنہیں محمدﷺنے یہاں جمع کیا تھا۔ کیا یہ ادب اور یہ احترام اُس شخص کے دل میں پیدا ہوسکتا ہے جس نے ساری عمر رسول کریم ﷺکے ساتھ رہ کر آپؐ کی کوئی ٹھگی دیکھی ہو؟
حضرت علیؓ چونکہ آپؐ کے عزیز ترین رشتہ دار تھے اور اُن کی ساری زندگی ہی آپؐ کی صداقت کی شہادت میں پیش کی جاسکتی ہے۔
دوسرا ثبوت آپؐ کے تقدّس کا وہ غیرت ہے جو آپؐ خداتعالیٰ کے متعلق رکھتے تھے۔ اُحد کی لڑائی میں جب بہت سے مسلمان اور خود رسول کریم ﷺبھی زخمی ہوگئے۔ دشمنوں نے سمجھا کہ آپؐ کوانہوں نے مار ڈالا ہے۔ اس پر مکّہ کے ایک سردار نے بلند آواز سے کہا بتاؤ محمدکہا ں ہے؟ آپؐ نے فرمایا کوئی جواب نہ دو۔ کوئی جواب نہ پاکر اُس نے کہا ہم نے محمد کو ماردیا ہے۔ پھر اس نے کہا: ابوبکر کہاں ہے؟ آپؐ نے فرمایا کوئی نہ بولو۔ اس نے کہا ہم نے ابوبکر کو بھی مار دیا ہے۔ پھر ا ُس نے کہا عمر کہاں ہے؟ حضرت عمرؓ جوش سے بولنے لگے مگر آپؐ نے انہیں بھی روک دیا۔ اس پر وہ بولا: ہم نے عمر کو بھی مار دیا۔ پھر اس نے کہا ‘اُعْلُ ھُبَلْ۔ اُعْلُ ھُبَلْ’۔ کہ ھُبَلْ کی شان بلند ہو۔ ھُبَلْ مکہ کا ایک بت تھا۔ اِس پر رسول کریم ﷺجو پہلے فرماچکے تھے کہ خاموش رہو کیونکہ مصلحت اِسی میں تھی۔ بہت سے مسلمان زخمی تھے اور خطرہ تھا کہ کفار پھر لَوٹ کر ان پر حملہ آور نہ ہوں۔ آپؐ فرمانے لگے کہ جواب کیوں نہیں دیتے؟ پوچھا:کیا کہیں۔ فرمایا:کہو اَللّٰہُ اَعْلٰی وَ اَجَلُّ۔ اَللّٰہُ اَعْلٰی وَ اَجَلُّ۔ اللہ ہی عزت والا اور شان والا ہے۔ اللہ ہی عزت والا اور شان والا ہے۔ پس باوجود ایسے نازک موقع کے آپؐ نے خداتعالیٰ کی توحید پر حرف آتے دیکھ کر خاموش رہنے کو پسند نہ کیا۔ اپنی موت کی خبر کی تردید نہ کرنے دی مگر جب خداتعالیٰ کی تحقیر سنی تو فوراً جواب دینے کا ارشاد فرمایا۔
تیسرا ثبوت آپؐ کی تقدیس کا وہ پھل ہیں جو آپؐ نے پیدا کیے۔ متعصب سے متعصب عیسائی جو رسول کریم ﷺپر ناپاک سے ناپاک حملے کرتے ہیں وہ بھی کہتے ہیں کہ ابو بکر اور عمر بہت اچھے انسان تھے۔ وجہ یہ کہ انہوں نے دنیا کے لیے اتنی قربانیاں کی ہیں کہ دشمن بھی ان کی قربانیوں کا اعتراف کرتے ہیں۔ مگر سوال یہ ہے کہ کیا ایسے مفید وجود نَعُوْذُ بِاللّٰہِ ایک ٹھگ اور عیّاش نے پیدا کر دیے ؟ وہ شخص جس کی نظر دوسروں کے مال پر ہو وہ کہاں ایسے انسان پیدا کر سکتا ہے جو اپنا مال بھی خدا کی راہ میں لُٹا دیں۔ ٹھگوں سے ٹھگ ہی پیدا ہوتے ہیں اور عیّاشوں سے عیّاش ہی بنتے ہیں۔ کبھی ٹھگوں سے نیک اور عیّاشوں سے متقی نہیں بنائے جاسکتے۔
حضرت عثمانؓ کی زندگی بھی حقیقتاً بے عیب تھی۔ گو بعض تاریخی غلطیوں کی وجہ سے لوگوں نے اسے اچھی طرح محسوس نہیں کیا۔ مگر حضرت علیؓ جو چوتھے خلیفہ ہیں وہ بچپن سے آنحضرت ﷺکی گود میں پلے تھے اور آپؐ کے گھر میں رہے تھے اور آپؐ کے داماد تھے۔ ان کی نیکی ، ان کے زُہد، ان کی بے نفسی اور ان کی پاکیزگی کے دشمنانِ اسلام بھی قائل ہیں۔ اور اگر یہ اخلاق ان کے ذاتی تھے تو پھر ایسے اعلیٰ درجہ کے اخلاق کے باوجود وہ حضرت رسول کریم ﷺکے مخلص کیوں رہے؟ پھر ان چاروں خلفاء کی ہی شرط نہیں۔ رسول کریم ﷺنے ایک قوم ایسی پیدا کردی جو عدل و انصاف کا مجسمہ تھی۔حتّٰی کہ شام کے یہودیوں نے ہی نہیں بلکہ مسیحیوں تک نے مسلمانوں کے شام کو چھوڑنے کا ارادہ معلوم کر کے ایک وفد بھیجا کہ ہمیں اپنے ہم مذہب مسیحیوں کی حکومت منظور نہیں۔ آپ لوگ یہاں رہیں ہم ہر طرح آپ کی مدد کریں گے کیونکہ آپ لوگوں کے ہاتھوں میں ہماری جانیں اور ہماری عزتیں اور ہمارے مال محفوظ ہیں۔
اب خدارا غور کرو کہ اگر محمد رسول اللہ ﷺمیں غیرمعمولی تقدّس بلکہ تقدیس کی طاقت نہ ہوتی تو ڈاکوں اور جوئے اور شراب میں فخر محسوس کرنے والے عرب کے غیرمتمدّن لوگ اِس قسم کا تغیر کہاں سے پیدا کر لیتے اور عرب کی زمین آسمان کی جائے فخر کیونکر ہوجاتی۔
(باقی آئندہ)